ایک زمانہ تھا کہ سیاست کا تصوراخلاقیات کے بغیر کیا ہی نہیں جاسکتا تھا، اور ایک زمانہ یہ ہے کہ سیاست اور اخلاقیات کے درمیان تعلق تلاش کرنا دشوار ہے۔ یہاں تک کہ لوگ سیاست کو اخلاقیات کی نظر سے دیکھتے ہی نہیں۔ سیاست دان بدعنوانی میں ملوث ہوتے ہیں اور بدعنوانی کو ایک سیاسی یا سماجی مسئلہ سمجھا جاتا ہے، حالانکہ بدعنوانی اپنی اصل میں ایک اخلاقی مسئلہ ہے۔ حکمران طاقت کے بے جا استعمال کرتے ہیں اور دنیا طاقت کے غلط استعمال کو طاقت کی حرکیات کے تناظر میں دیکھتی ہے اور سمجھتی ہے کہ طاقت کا غلط…
انگریزی اور غلامی کا تجربہ
بدزبانی کے تلوار اور گولی کے طور پر بروئے کار آنے کا تجربہ تو عام ہے لیکن زبان کو تلوار اور گولی کی طرح استعمال ہوتے ہوئے کم ہی دیکھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام آباد میں ہونے والے اس واقعے کو کافی ’’شہرت‘‘ حاصل ہوئی جس میں ایک ریستوران کی مالک خاتون نے انگریزی کو تلوار اور گولی کی طرح استعمال کیا۔ اصل میں ہوا یہ کہ ریستوران کی مالک خاتون نے اپنے منیجر کو ہدف بناتے ہوئے فرمایا کہ انہیں ہمارے یہاں کام کرتے ہوئے 9 سال ہوگئے ہیں مگر اس کے باوجود انہیں ابھی تک…
اردو زبان کا مسئلہ
پاکستان میں سرکاری سطح پر اردو کے ساتھ وہی سلوک ہوا ہے جو غالب کے زمانے میں نواب طوائف کے ساتھ کیا کرتے تھے۔ طوائف کو نواب کی ذاتی زندگی میں تو دخل ہوتا تھا مگر اس کی اجتماعی گھریلو زندگی سے طوائف کا کوئی تعلق نہیں ہوتا تھا گھر میں اس کی قانونی بیوی ہی کا حکم چلتا تھا۔ اردو کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے اسے انفرادی سطح پر تو پزیرائی حاصل ہے مگر اجتماعی سرکاری زندگی میں اس کی حیثیت کچھ بھی نہیں بلکہ اردو کا حال تو طوائف سے بھی برا ہے۔ اردو کو قانونی…
برصغیر کی ملّتِ اسلامیہ کی امت پرستی اور اس کے اسباب
برصغیر کی ملتِ اسلامیہ نے اسلام کو صرف ایک نظریہ نہیں سمجھا بلکہ اس نے اسلام کو ایک بہت بڑے تہذیبی تجربے میں ڈھال دیا۔ اسلام اور امتِ مسلمہ ساری دنیا کے مسلمانوں کا مسئلہ ہیں، مگر برصغیر کی ملّتِ اسلامیہ نے اسلام اور امت سے ایسی وفاداری نبھائی ہے کہ جیسے اسلام کا ظہور عالمِ عرب میں نہیں، برصغیر میں ہوا ہو، اور امت کے تصور نے بھی اسی سرزمین پر جنم لیا ہو۔ تاریخ کے طویل سفر میں بالآخر وہ مرحلہ بھی آیا جب اہلِِ عرب نے مکہ اور مدینہ کی طرف دیکھنا چھوڑ دیا اور وہ واشنگٹن…
اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی جماعتیں
پاکستانی سیاست دان آٹے میں نمک کے برابر سچ بولتے ہیں اور اگر معاملہ ان کی جماعت کا ہو تو پھر وہ بدترین صورت میں بھی خاموش رہنا پسند کرتے ہیں۔ مگر پیپلز پارٹی کے رہنما سینیٹر رضا ربانی نے کراچی میں ایک کتاب کی تقریب رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے سیاسی جماعتوں اور خود پیپلز پارٹی کے بارے میں سچ بولا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی سمیت ملک کی تمام سیاسی جماعت اقتدار میں آنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی طرف دیکھتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جنرل ایوب خان کے زوال کے بعد ملک کی طاقت…
کرکٹ کا جنون اور ہم
برطانیہ کے ایک شہزادے اور کرکٹ کے ابتدائی سرپرست جان سیک ولی نے کہا تھا کہ انسان کی زندگی کرکٹ کے کھیل کے سوا کیا ہے؟ کرکٹ برطانیہ کا قومی کھیل ہے اور برطانیہ کا کوئی شہزادہ کرکٹ میں اتنا ڈوبا ہوا ہوسکتا ہے کہ کرکٹ اس کے لیے زندگی کا ہم معنی بن جائے۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ جان سیک ولی نے کرکٹ کی تعریف اس لیے کی کہ کرکٹ برطانیہ کا قومی کھیل تھا یا کرکٹ میں واقعتاً کوئی ایسی بات ہے کہ وہ زندگی کا ہم معنی بن جائے۔؟ ہم نے کرکٹ 1978 کی پاک…
روحانیت
ہمارے زمانے میں روحانیت کا اتنا شور برپا ہے کہ ہمارا عہد روحانیت کا عہد محسوس ہوتا ہے۔ لیکن کسی چیز کے شور سے اس کی موجودگی ثابت نہیں ہوتی، بلکہ بسا اوقات کسی چیز کے حوالے سے برپا ہونے والا غوغا اس بات کی چغلی کھاتا ہے کہ جس چیز کا تذکرہ عام ہے وہ چیز موجود نہیں ہے، ہوتی تو اس کے سلسلے میں اتنا شور برپا نہ ہوتا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ بعض غیر موجود چیزوں کے حوالے سے باطن کا خلا ظاہر کا شور بن جاتا ہے۔ روحانیت کا معاملہ بھی یہی ہے۔ ہماری…
مغربی دنیا اور اس کا ہولناک نظام
’’جدیدیت‘‘ کے نام پر مغربی تہذیب کی گمراہیوں کی اصل جڑ کیا ہے؟ مولانا مودودیؒ جیسے مہذب آدمی نے مغربی تہذیب کو چار ہولناک نام دیے ہیں۔ مولانا نے فرمایا ہے: جدید مغربی تہذیب ’’باطل‘‘ ہے، یہ ’’جاہلیتِ خالصہ‘‘ ہے، یہ ’’تخم خبیث‘‘ ہے، یہ ’’شجر خبیث‘‘ ہے۔ مولانا سے پہلے اقبالؒ مغربی فکر کی اصل حقیقت آشکار کرتے ہوئے ہوئے فرما چکے ہیں: دانشِ حاضر حجابِ اکبر است بت پرست و بت فروش و بت گر است ٭٭٭ محسوس پر بنا ہے علومِ جدید کی اس دَور میں ہے شیشہ عقاید کا پاش پاش اقبال کہہ رہے ہیں کہ…
ریاست
اقبال نے کہا تھا ان تازہ خدائو میں بڑا سب سے وطن ہے جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے اقبال نے یہ بات 20 ویں صدی کی قوم پرستی کے دبائو کے پیش نظر کہی تھی۔ اس لیے کہ 20 ویں صدی میں نسل، جغرافیہ اور زبان قوموں کے تشخص کا تعین کرنے والی چیزیں بن گئے تھے۔ لیکن 20 ویں صدی میں وطن پرستی کا ایک اور سبب بھی تھا۔ اس صدی میں ریاست کے ایسے تصورات سامنے آئے جو ریاست سے ایسی عقیدت وابستہ کرنے والے تھے کہ ریاست ایک ماورائی حقیقت کا درجہ…
شہر اور قہر
شہر اور قہر کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور یہ بات طے ہے کہ جہاں قہر ہوگا وہاں افراد معاشرہ کی شخصیتوں میں زیادہ عدم استحکام ہوگا اور جہاں شخصیتوں میں زیادہ عدم استحکام ہوگا وہاں نفسیاتی مسائل بھی یقیناً زیادہ ہوں گے۔ شہری تمدن کے لوگ خواہ یہ تسلیم کریں یا نہ کریں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ شہروں کے لوگوں کی نسبت دیہات میں زندگی بسر کرنے والے زیادہ مستحکم شخصیت کے حامل ہوتے ہیں۔ اس سلسلے میں یہ معذرت گھڑلی گئی ہے کہ چونکہ شہر میں آباد افراد پر صنعتی زندگی کا دبائو زیادہ ہوتا…