سوال یہ ہے کہ اس قحط سے نجات کیسے حاصل کی جاسکتی ہے قحط پڑتا ہے تو لاکھوں لوگ بھوک سے مر جاتے ہیں اور قحط کی خبر ہر اعتبار سے عالمگیر ہوجاتی ہے۔ اس کی وجہ ظاہر ہے۔ قحط ایک انتہائی غیر معمولی صورتِ حال ہے اور بھوک سے لاکھوں افراد کا ہلاک ہوجانا دل دہلانے والا واقعہ ہے۔ لیکن پوری دنیا بالخصوص پاکستان میں مطالعے کا قحط پڑگیا ہے اور اس سے ہر سال لاکھوں افراد روحانی‘ ذہنی‘ نفسیاتی اور جذباتی موت کا شکار ہورہے ہیں لیکن یہ صورت ِحال ابھی تک اخبارات میں ایک کالم کی خبر…
درسِ قرآن پر سیکولر عناصر کا ماتم
اسلام جب بھی کہیں چھوٹی بڑی مشکل میں ہوتا ہے ہمیں اکبر الٰہ آبادی کا کوئی نہ کوئی شعر یاد آجاتا ہے۔ مثلاً انگریزی اخبار دی نیوز میں طاہر کامران کا مضمون Unpalatable Reality پڑھ کر ہمیں اکبر کا یہ شعر یاد آگیا۔ رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جاجا کے تھانے میں کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں طاہر کامران کا مضمون کیا ہے اسلام کے خلاف ایک اچھی خاصی ایف آئی آر ہے۔ اس ایف آئی آر کے مندرجات دل دہلا دینے والے ہیں۔ طاہر کامران لکھتے ہیں۔ ’’پنجاب کے تمام اعلیٰ تعلیمی اداروں میں…
پاکستان اور تعصبات کا کھیل
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں لسانی، صوبائی، فرقہ ورانہ یا مسلکی تعصب کا کھیل کھیلنا ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص مسجد میں شراب کی دکان کھول لے۔ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا ہے اور اسلام میں کسی تعصب کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ مگر بدقسمتی سے پاکستان میں عرصہ دراز سے تعصبات کا کھیل جاری ہے۔ کسی کو اپنی ’’پنجابیت‘‘ عزیز ہے۔ کوئی اپنی ’’مہاجریت‘‘ پر فدا ہے۔ کوئی اپنی ’’سندھیت‘‘ کے عشق میں مبتلا ہے۔ کوئی اپنی ’’پشتونیت‘‘ پر نازاں ہے۔ کوئی اپنی ’’بلوچیت‘‘ پر اِتراتا ہے۔ زبانوں، فرقوں، مسلکوں، ذاتوں اور برادریوں کے تعصبات…
لاپتا اسلامی جمہوریہ پاکستان
اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جو ظلم اور جو جبر اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کو ’’انقلابی گفتگو‘‘ پر مائل کررہا ہے وہ ظلم اور وہ جبر عوام میں کیسے جذبات پیدا کررہا ہوگا؟ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جبر کا یہ عالم ہے کہ لاپتا افراد کے مسئلے پر ہماری اعلیٰ عدالتوں کے جج بھی ’’انقلابیوں‘‘ کی طرح کلام کرنے لگے ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جناب محسن اختر کیانی نے لاپتا شہری عمر عبداللہ کی عدم بازیابی پر ریمارکس دیتے ہوئے کیا فرمایا انہی کے الفاظ میں ملاحظہ فرمایئے۔ جسٹس صاحب نے کہا: ’’لوگ ہتھیار اٹھالیں گے۔ نظام…
زبان اور انسانی زندگی
سلیم احمد نے کہا ہے کہ انگریزوں کی آمد سے پہلے ہماری تہذیب ایک وحدت تھی، ایک اکائی تھی، مگر انگریزوں کی آمد کے بعد ہماری تہذیب دونیم ہوگئی۔ یعنی ہمارا شعور دو حصوں میں بٹ گیا۔ ہم صدیوں سے ہند اسلامی تہذیب کا حصہ تھے اور اسی سے وابستہ رہنا چاہتے تھے، مگر انگریزوں کی لائی ہوئی تہذیب کی کشش ہمیں متاثر کررہی تھی اور ہم اس کے ساتھ بھی ایک گہرا رشتہ استوار کرنا چاہتے تھے۔ اس کے نتیجے میں ہمارے انفرادی اور اجتماعی شعور میں ایک کشمکش برپا ہوگئی۔ اس کشمکش کا پہلا اظہار سرسید کے یہاں…
یاسر پیرزادہ اور توہینِ مذہب
یاسر پیرزادہ کے کالموں میں مذہب کی توہین اتنے تواتر سے رونما ہورہی ہے کہ مذہب کی توہین یاسر پیرزادہ کا ’’مشغلہ‘‘ نظر آنے لگی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ یاسر پیرزادہ ہمیشہ یہ کام شعوری طور پر کرتے ہیں۔ بسا اوقات وہ لاشعوری طور پر بھی توہین مذہب کے مرتکب ہوجاتے ہیں۔ یعنی مذہب کی توہین یاسر پیرزادہ کو اتنی پسند ہے کہ وہ ان کے شعور اور لاشعور دونوں پر چھائی ہوئی ہے۔ اس سلسلے میں ان کا کالم ’’الف، ایکس اور میں‘‘ ایک مثال کی حیثیت رکھتا ہے۔ دل تو چاہ رہا ہے کہ یہ پورا کالم…
فوج اور سیاست
پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے کہا ہے کہ فوج کا سیاست میں کوئی کردار ہے نہ ہی اسے سیاست میں گھسیٹنے کی کوشش کی جائے۔ انہوں نے فرمایا کہ ہمارا کسی سے کوئی ’’بیک ڈور‘‘ رابطہ نہیں۔ ہمیں اس معاملے سے دور رکھا جائے۔ انہوں نے کہا کہ فوج حکومت کے ماتحت ایک ادارہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت ہم پر لگنے والے الزامات کا بہتر طریقے سے دفاع کررہی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ فضل الرحمن کا پنڈی آنا بنتا نہیں تاہم وہ آئیں گے تو ان کی اچھی دیکھ بھال کریں…
پاکستان کی قومی قیادت گفتار میں “ہیرو” کردار میں”زیرو
اقبال نے کہا تھا:۔ اقبال بڑا اپدیشک ہے، من باتوں میں موہ لیتا ہے گفتار کا وہ غازی تو بنا، کردار کا غازی بن نہ سکا اقبال حقیقی معنوں میں بڑے آدمی تھے۔ اپنی تمام تر عظمت کے باوجود انہیں اپنی کوتاہی کا شعور تھا۔ اس شعور کے بغیر مذکورہ بالا شعر تخلیق نہیں ہوسکتا تھا۔ مگر بدقسمتی سے پاکستان کی قومی قیادت اپنی انفرادی اور اجتماعی فروگزاشتوں کا شعور نہیں رکھتی۔ چنانچہ وہ گفتار کی تو ’’ہیرو‘‘ ہے، مگر کردار کی ’’زیرو‘‘ ہے۔ اقبال کے الفاظ میں وہ گفتار کی غازی ہے، البتہ اس کے کردار کا خانہ خالی…
ٹیلی ڈرامے کی تباہ کاری
عصرِ حاضر میں انسان کی زندگی اتنی دھماکا خیز ہو گئی ہے کہ اسے ڈرامائی عنصر کے بغیر بیان ہی نہیں کیا جاسکتا۔ ٹیلی وژن کی 24 گھنٹے کی نشریات انسانی تاریخ کا بالکل انوکھا واقعہ ہیں، اور ان نشریات نے انسانی زندگی کو اطلاعات کے سمندر میں دھکیل دیا ہے۔ اس صورت حال نے کروڑوں انسانوں کے تناظرکو ’’اطلاعاتی‘‘ یا’’ خبری‘‘ بنادیا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ پہلے ذرائع ابلاغ زندگی کا حصہ تھے اور اب زندگی ذرائع ابلاغ کا حصہ بن گئی ہے۔ شیکسپیئر نے کہا تھا کہ مسئلہ انسان کے ’’ہونے یا نہ ہونے‘‘ کا ہے۔ شیکسپیئر…
مثالی سیاست مردہ باد‘ غلیظ سیاست زندہ باد
جاوید احمد غامدی کے شاگرد رشید خورشید ندیم نے اپنے ایک حالیہ کالم میں مثالی سیاست مردہ باد اور غلیظ سیاست زندہ باد کا نعرہ لگادیا ہے۔ عام خیال یہ ہے کہ دنیا کے سارے انسان خوبصورتی کو پسند کرتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ بہت سے لوگ بدصورتی کے پرستار ہوتے ہیں۔ ابن عربی کا مشہور زمانہ فقرہ ہے ’’پھول کا کیڑا پھول میں خوش غلاظت کا کیڑا غلاظت میں خوش‘‘۔ انسان کی فطرت اور طبیعت جیسی ہوتی ہے وہ ویسی ہی چیزیں پسند کرتا ہے۔ مذہبی تناظر میں کفر اور شرک سے بڑی بدصورتی کیا ہے مگر…