پاکستان کے سیکولر اور لبرل کالم نگاروں کے اکثر کالموں میں ایک گہری تشویش موجود ہوتی ہے۔ اس تشویش کو شعر میں بیان کرنا ہو تو اس سے بہتر شعر ممکن ہی نہیں۔ کریں گے کیا جو جہالت میں ہوگئے ناکام ہمیں تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا زبیدہ مصطفی پاکستان کی اہم سیکولر کالم نگار ہیں ان کا ایک حالیہ کالم پڑھ کر ہمیں مذکورہ بالا شعر بہت شدت سے یاد آیا۔ بدقسمتی سے زبیدہ مصطفی کا پورا کالم اس بات کی شہادت ہے کہ زبیدہ مصطفی اپنے پسندیدہ مضمون جہالت میں بھی بُری طرح ناکام ہوگئی ہیں۔…
مودی کے دو چہرے
چین کے لیے ’’سرینڈر مودی‘‘پاکستان کے لیے ’’نریندر مودی‘‘ دو چہرے والا مودی دو چہرے والے بھارت کو عالمی طاقت کے مرتبے تک لے کر جا سکتا ہے؟ ہندوستان کے ہمیشہ سے دو چہرے ہیں۔ گاندھی ایک جانب ہندو مسلم اتحاد اور ایک قومی نظریے کے علَم بردار تھے، دوسری جانب اُن کے زمانے میں شدھی تحریک چل رہی تھی جو مسلمانوں کو زبردستی ہندو بنا رہی تھی۔ اس پر مولانا محمد علی جوہر چیخ اٹھے، انہوں نے گاندھی سے کہا کہ ہندو مسلمانوں کو زبردستی ہندو بنا رہے ہیں، آپ انہیں روکتے کیوں نہیں؟ نہرو کے بھی دو چہرے…
حقیقت کو افسانہ اور افسانے کو حقیقت بنانے کا عمل
جاوید احمد غامدی کے شاگرد خورشید ندیم میں ایک برائی یہ بھی ہے کہ وہ مذہب کی حقیقی تعبیر کو افسانہ اور مذہب کی افسانوی تعبیر کو حقیقت باور کرانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ ترکی میں رجب طیب اردوان نے آیا صوفیہ کو مسجد میں ڈھالا تو خورشید ندیم افسانے کو حقیقت اور حقیقت کو افسانہ باور کرانے کے لیے متحرک ہوگئے۔ ویسے تو اس سلسلے میں ان کا پورا کالم ہی قابل اعتراض ہے مگر چوں کہ پورے کالم کا حوالہ دینا ناممکن ہے اس لیے ان کے کالم کے چند حصے قارئین کے لیے پیش کیے جارہے…
پاکستان کا حکمران طبقہ اور امریکا
چین اور افغانستان ہی نے نہیں پاکستان نے بھی امریکا کو ’’مشورہ‘‘ دیا ہے کہ وہ جلد بازی میں افغانستان سے انخلا کا عمل مکمل نہ کرے کیوں کہ اس سے ’’دہشت گرد‘‘ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ تینوں ملکوں کے نائب وزرائے خارجہ نے ایک مشترکہ اعلامیے میں کہا ہے کہ انخلا کو مرتب، ذمے دارانہ اور مشروط ہونا چاہیے۔ اس وقت افغانستان میں امریکا کے 8600 فوجی موجود ہیں اور امریکا آئندہ 14 ماہ میں اپنے تمام فوجیوں کو افغانستان سے نکالنا چاہتا ہے۔ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ افغانستان سے برق رفتار انخلا کے متمنی ہیں۔ (روزنامہ ڈان…
کراچی منی پاکستان یا مسائلستان؟
کراچی کو چھوٹا پاکستان یا منی پاکستان کہا جاتا ہے۔ لیکن کراچی جیسا یتیم شہر پوری دنیا میں کوئی نہیں اگر شہری تمدن کی عظمت ہی سب کچھ ہے تو جدید شہری تمدن کی علامتوں کا جو سرمایہ کراچی کے پاس ہے وہ پاکستان کے کسی اور شہر کے پاس نہیں۔ کراچی بانیِ پاکستان کا شہر تھا۔ قائداعظم نے خود اسے پاکستان کا دارالحکومت بنایا تھا۔ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا صنعتی مرکز ہے۔ 73 سال تک ملک کی واحد بندرگاہ رہا ہے۔ کراچی طویل عرصے تک ملک کے واحد بین الاقوامی ہوائی اڈے کا حامل تھا۔ ملک کی…
جاوید چودھری اور حاضر و موجود کی پرستش
جاوید چودھری ہمارے ان لکھنے والوں میں سے ہیں جن کی تحریروں میں نہ ان کا مذہب بولتا ہے نہ ان کی تہذیب کلام کرتی ہے نہ ان کی تاریخ کی آواز سنائی دیتی ہے نہ ان کا ضمیر گفتگو کرتا ہے نہ ان کا علم کچھ فرماتا ہے۔ ان کے بے شمار کالم ایسے ہوتے ہیں جو کسی نہ کسی سنی گئی بات کا حاصل ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے وہ سنی گئی بات پر غور کیے بغیر اسے آگے بڑھا دیتے ہیں۔ ان کا ایک حالیہ کالم اس کی بہترین مثال ہے۔ اس کالم کے ’’مضمرات‘‘ ہولناک ہیں مگر…
ملک ریاض کو معاشرے کا ہیرو بنانے کی سازش
اگر آپ اپنے معاشرے سے زندہ تعلق رکھتے ہیں تو اخبار کی خبریں بھی پستول کی گولیوں کی طرح آپ کے سینے میں اُتر سکتی ہیں۔ ذرا روزنامہ جنگ کراچی میں حنیف خالد کی بائی لائن کے ساتھ شائع ہونے والی یہ خبر تو ملاحظہ کیجیے۔ ’’چیئرمین بحریہ ٹائون ملک ریاض حسین نے اربوں روپے کے ذاتی خرچ سے دنیا کی تیسری بڑی مسجد تعمیر کرادی ہے۔ یہ مسجد بحریہ ٹائون میں واقع ہے۔ اس کی ساری لاگت ملک ریاض حسین نے اپنی ذاتی جیب سے ادا کی ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں ملک کے سربراہ یا کسی سرمایہ…
پاکستان میں ہر حکومت ناکام کیوں ہوجاتی ہے؟
حکومتوں کی ناکامی مذاق نہیں۔ جب دو تین حکومتیں ناکام ہوتی ہیں تو صرف حکومتیں ناکام ہوتی ہیں۔ جب پانچ چھے حکومتیں ناکام ہوتی ہیں تو پھر ’’نظام‘‘ ناکام ہوتا ہے۔ لیکن جب ہر حکومت ناکام نظر آنے لگے تو ریاست کی ناکامی کا تاثر پیدا ہوجاتا ہے امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے سوات میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ” موجودہ حکومت زیادہ دیر چلنے والی نہیں۔ چار پانچ ماہ میں خود ہی ’’ہینڈز اَپ‘‘ کردے گی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت زمیں بوس ہوچکی ہے، وزراء اپنی ناکامیوں کا خود اعتراف کررہے ہیں، موجودہ…
ہم اور جھوٹ کی نفسیات (آخری حصہ)
گزشتہ ڈھائی تین برس سے ایک صاحب مسلسل میرے مطالعے میں ہیں ان صاحب کی خصوصیات یہ ہیں کہ زندگی کا ہر واقعہ ان کے ساتھ پیش آچکا ہے۔ آپ ان سے کسی شخص کی برجستگی یا دلداری کا قصہ بیان کریں گے تو وہ اسی وقت آپ سے اس برجستگی اور دلداری سے ملتا جلتا اپنی برجستگی اور دلداری کا کوئی قصہ بیان کردیں گے۔ آپ کسی اعلیٰ عہدیدار سے اپنے مراسم کا تذکرہ کریں گے تو وہ آپ کو بیٹھے بیٹھے دس اعلیٰ عہدیداروں سے اپنے قریبی مراسم کے واقعات سنادیں گے۔ یہاں تک کہ اگر آپ ان…
ہم اور جھوٹ کی نفسیات
قومی زندگی کے سرسری جائزے کے بعد یہ بات آسانی کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ ہمارے لیے جھوٹ، ہوا اور پانی کی طرح ناگزیر ہوچکا ہے جس طرح ہم ہوا اور پانی کی ضرورت محسوس کرتے ہیں اسی طرح جھوٹ کی طلب بھی محسوس کرتے ہیں بلکہ ہوا اور پانی تو ہم اپنی ضرورت کے مطابق استعمال کرتے ہیں لیکن جھوٹ کا استعمال ہم اپنی ضرورت سے کہیں زیادہ کرتے ہیں۔ مذہبی نقطہ نگاہ کے مطابق جھوٹ صرف اسی وقت بولا جاسکتا ہے جب انسان کو جان جانے کا خطرہ ہو اور جھوٹ بول کر جان بچنے کی اُمید…