انسان کی انفرادی زندگی ہو یا اجتماعی زندگی… قومی زندگی ہو یا بین الاقوامی زندگی… ہر طرف جرائم کی فراوانی ہے۔ اس فراوانی کو دیکھ کر کبھی کبھار ایسا محسوس ہوتا ہے کہ زندگی جرائم کے سمندر میں ایک جزیرے کے سوا کچھ نہیں۔ذوقؔ نے کہا تھا ؎ بشر جو اس تیرہ خاکداں میں پڑا یہ اس کی فروتنی ہے وگرنہ قندیلِ عرش میں بھی اسی کے جلوے کی روشنی ہے ذوقؔ نے جب یہ شعر کہا تھا تو عرش اور فرش کا فرق واضح تھا، مگر مسئلہ یہ ہے کہ اب انسان نے فرش ہی کو عرش بنالیا ہے۔…
سرسید اور مرزا غلام احمد قادیانی (3)
قوموں کی زندگی میں کبھی ایسا وقت بھی آجاتا ہے کہ وہ مفتوح ہوجاتی ہیں اور ان کے لیے مزاحمت ممکن نہیں رہتی۔ لیکن مزاحمت سے قاصر ہونے اور مزاحمت سے ہمیشہ کے لیے دستبردار ہوجانے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد اگر سرسید یہ کہتے کہ ہم نے مزاحمت کرکے دیکھ لی مگر مزاحمت کامیاب نہیں ہوسکی۔ چناں چہ برصغیر کے لوگوں باالخصوص مسلمانوں کو سرِدست مزاحمت کا خیال ترک کرکے اپنی تعلیمی، معاشی حالت کو بہتر بنانے پر توجہ کرنی چاہیے اور مزاحمت کو کسی اور وقت کے لیے اُٹھا رکھنا چاہیے…
اسلامی جمہوریہ پاکستان اور مسئلہ لاپتا
غالب نے کہا تھا ؎ ہوئے ہم جو مر کے رسوا ہوئے کیوں نہ غرقِ دریا نہ کہیں جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا غالب کے اس شعر میں ’’لاپتا‘‘ ہونے کی جو خواہش موجود ہے وہ اُن کی زندگی میں کبھی بروئے کار نہ آسکی۔ غالب کا زمانہ ہی ایسا تھا۔ اُس زمانے میں لاپتا ہونے کے لیے غالب کو دریا پر جانا پڑتا اور اس میں چھلانگ لگانے کی زحمت کرنی پڑتی۔ غالب ہمارے زمانے کے پاکستان میں ہوتے تو اُن کے لیے ’’جہادی‘‘ ہونے کا ’’شبہ‘‘ بھی کافی ہوسکتا تھا۔ آپ کہیں گے کہ بھلا غالب جیسے…
سری دیوی اور پورس کے ہاتھی
بھارتی اداکارہ آنجہانی سری دیوی کے انتقال کی خبر جیو کے کم از کم پانچ خبرناموں میں پہلی شہ سرخی کے طور پر نشر ہوئی۔ کہنے کو یہ صرف ایک فقرہ ہے مگر اس ایک فقرے میں ایک بڑی کہانی پوشیدہ ہے۔ کسی کو پسند ہو یا نا پسند ہو فلم گزشتہ سو سال سے ہماری انفرادی و اجتماعی زندگی کا حصہ ہے۔ فلموں کے ناظرین کی تعداد لاکھوں میں نہیں کروڑوں میں ہے۔ چناں چہ فلموں کے اداکار محض اداکار نہیں رہے ہیں وہ ہمارے ’’ہیرو‘‘ ہیں ہمارے ’’Icons‘‘ ہیں۔ چناں چہ ان سے متعلق کوئی بھی اہم بات…
اسلامی جمہوریہ پاکستان اور مسئلہ لاپتا
غالب نے کہا تھا ؎ ہوئے ہم جو مر کے رسوا ہوئے کیوں نہ غرقِ دریا نہ کہیں جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا غالب کے اس شعر میں ’’لاپتا‘‘ ہونے کی جو خواہش موجود ہے وہ اُن کی زندگی میں کبھی بروئے کار نہ آسکی۔ غالب کا زمانہ ہی ایسا تھا۔ اُس زمانے میں لاپتا ہونے کے لیے غالب کو دریا پر جانا پڑتا اور اس میں چھلانگ لگانے کی زحمت کرنی پڑتی۔ غالب ہمارے زمانے کے پاکستان میں ہوتے تو اُن کے لیے ’’جہادی‘‘ ہونے کا ’’شبہ‘‘ بھی کافی ہوسکتا تھا۔ آپ کہیں گے کہ بھلا غالب جیسے…
سرسید اور مرزا غلام احمد قادیانی (2)
افراد اور قوموں کی زندگی میں ایسے زمانے آجاتے ہیں جب غلامی ان کا مقدر بن جاتی ہے اور بظاہر غلامی سے نجات کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ لیکن اس حال میں بھی انسان وہی ہوتا ہے جو امید کا دامن نہیں چھوڑتا۔ جو غلامی کو اپنی روح، اپنے قلب اور اپنے ذہن میں پنجے نہیں گاڑنے دیتا۔ انسان کا شعور غلامی کو قبول نہیں کرتا تو آقاؤں کے خلاف مزاحمت کا جذبہ موجود رہتا ہے اور دیر یا سویر آزادی کا سورج طلوع ہو کر رہتا ہے۔ برصغیر میں اکبر الٰہ آبادی کی شاعری کی ایک تہذیبی اور…
مذہب کا سیاسی استعمال
(شادی کی) تقریب میں عمران کا کوئی فیملی ممبر شریک نہیں تھا۔ نکاح کا ڈراپ سین کرنا تھا۔ بچے نکاح کو قبول نہیں کررہے۔ عارف نظامی کسی کی قسمت میں وزارت عظمیٰ کی تین شیروانی اور کسی کی قسمت میں صرف شادی تھی، طلال چودھری عمران نے بہنوں کو میسج کیا شادی کرنے جارہا ہوں، دعا کریں، مگر جواب نہیں ملا، رئیس انصاری اسلام اس بات کو پسند کرتا ہے کہ شادی میں پورا خاندان شریک ہو۔ مگر یہ کوئی شرعی یا اخلاقی اصول نہیں، چناں چہ اگر عمران خان کی شادی میں ان کی بہنوں نے شرکت نہیں کی…
مذہب کا سیاسی استعمال
پاکستان کے سیکولر اور لبرل عناصر اہل مذہب پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ مذہب کے نام پر سیاست کرکے دراصل مذہب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ بات ’’دلیل‘‘ کے طور پر کہی جاتی ہے مگر اس بات کو دلیل کہنا دلیل کی توہین ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب سوشلزم، کمیونزم، سیکولر ازم، لبرل ازم، صوبائیت، لسانیت، سرمایہ داری، طبقاتی کشمکش، وڈیرہ شاہی، غربت اور امارت کی بنیاد پر سیاست ہوسکتی ہے تو مذہب کے نام پر سیاست کیوں نہیں ہوسکتی؟ اسلام کا معاملہ تو ویسے بھی یہ ہے کہ…
نظام تعلیم کے بنیادی نقائص
قوموں کی زندگی میں تعلیمی نظام کی اہمیت یہ ہے کہ جس قوم کا جیسا نظام تعلیم ہوتا ہے وہ قوم ویسی ہی بن جاتی ہے۔ امام غزالیؒ نے جب اپنے دور کی سب سے بڑی جامعہ کے سربراہ کا منصب سنبھالا تو انہوں نے کہا کہ مدرسے کے طالب علموں کی اہلیت و صلاحیت کا معیار ان کی تعلیمی کارکردگی نہیں بلکہ نوافل میں ان کا اشغال ہوگا۔ اس طرح غزالیؒ نے تعلق باللہ کو تعلیمی نظام کا مرکزی حوالہ بنادیا۔ یہ فیصلہ کرتے ہوئے غزالیؒ کے ذہن میں یہ بات ہوگی کہ نماز افضل العبادات ہے اور نوافل…
میونخ سیکورٹی کانفرنس، جنرل باجوہ کے اہم خطاب کا تجزیہ
جرمنی کے شہر میونخ میں 18 فروری 2018ء کو ہونے والی سیکورٹی کانفرنس سے جنرل باجوہ نے اہم خطاب کیا ہے۔ مگر اس خطاب پر وطنِ عزیز میں نہ ہونے کے برابرگفتگو ہوئی ہے۔ کیا اس کا سبب یہ ہے کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ نے اس کی ضرورت محسوس نہیں کی؟ اس بارے میں کچھ بھی کہنا دشوار ہے۔ البتہ جنرل باجوہ کو اس بات کی داد نہ دینا زیادتی ہی ہوگی کہ انہوں نے خطاب کے آغاز ہی میں کہہ دیا کہ میرا خطاب ’’ایک دانشور‘‘ کا خطاب نہیں ہوگا بلکہ ایک ’’فوجی‘‘ کا خطاب ہوگا۔ ہم نے مغرب سے…