مضامین

عصر حاضر اور انسان کی اآزادی کے امکانات

عصر حاضر مغرب کا تخلیق کردہ ہے اور مغرب آزادی کے مخصوص تصور کا سب سے بڑا علمبردار ہے۔ مغرب کے نزدیک آزادی نہ صرف یہ کہ سب سے بڑی قدر ہے بلکہ اس کی نوعیت آفاقی یا universal ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ عہد جدید میں آزادی کا تصور ایک دھوکے کے سوا کچھ نہیں۔ لیکن مغرب کا کمال یہ ہے کہ وہ دھوکے کو حقیقت اور حقیقت کو دھوکا باور کراسکتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ان باتوں کا مفہوم کیا ہے۔ آزادی کے تصور کا سب سے بڑا امتحان یا سب سے بڑا test یہ…

مزید پڑھئے

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلام کی تنہائی

دنیا کے ہر معاشرے میں کچھ چیزیں ’’قابل قبول‘‘ ہوتی ہیں اور کچھ چیزیں ’’ناقابل قبول‘‘ ہوتی ہیں۔ ایک کمیونسٹ معاشرے میں اس بات پر بحث نہیں ہوسکتی تھی کہ مارکسزم صحیح ہے یا غلط ہے۔ کمیونسٹ معاشرے کے لیے یہ بات بھی قابل قبول نہیں ہوسکتی تھی کہ اس میں کوئی کھڑا ہو کر کہے ’’جدلیاتی مادیت‘‘ کا اصول غلط ہے۔ مغربی معاشروں میں آزادی اور جمہوریت کو ایک عقیدے کا درجہ حاصل ہے۔ چناں چہ مغربی معاشرے میں کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ ہمیں آزادی پسند نہیں، ہم جمہوریت کے بجائے آمریت چاہتے ہیں۔ اسلامی معاشرے کے…

مزید پڑھئے

پاکستانی ذرائع ابلاغ کا بحران

پاکستان پہلے دن سے ایک نظریاتی ملک ہے، ایک نظریاتی ریاست ہے، مگر ہمارے ذرائع ابلاغ کا کوئی نظریہ ہی نہیں ہے غالب کا یہ شعر پاکستان کے ذرائع ابلاغ کے لیے پوری طرح کفایت کرتا ہے: ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا صحافت کا لفظ ’’صحیفہ‘‘ سے نکلا ہے، مگر پاکستانی صحافت کا تشخص صحیفے کے بجائے ’’لفافے‘‘ سے متعین ہورہا ہے۔ ذرائع ابلاغ کا کام قوم کی رہنمائی ہے، مگر پاکستان کے ذرائع ابلاغ قوم کو گمراہ کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی ذرائع ابلاغ بدترین…

مزید پڑھئے

نواز لیگ کے صحافیوں کا چھوٹاپن

اصول ہے چھوٹے لوگوں کے ساتھ رہنے والا بھی چھوٹا بن جاتا ہے۔ نواز لیگ میاں نواز شریف کی تخلیق ہے۔ چناں چہ اس کی کوئی بات بھی بڑی نہیں ہے۔ یہاں تک کہ نواز لیگ کے پرستار صحافی بھی چھوٹے پن کا شکار ہیں۔ اس کی ایک تازہ ترین مثال جنگ کے سنڈے میگزین میں شائع ہونے والا معروف کالم نگار وجاہت مسعود کا انٹرویو ہے۔ اس انٹرویو میں وجاہت مسعود نے فرمایا ہے کہ عمران خان کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ملک میں لانچ کیا گیا ہے۔ وجاہت مسعود کے بقول عمران خان کو لانچ کرنے…

مزید پڑھئے

انسانی تاریخ اور محبت اور نفرت کے جذبات

پوت کے پائوں پالنے میں اور پاکستان کے منتخب نمائندوں کے پائوں قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں صاف نظر آتے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو چند روز پیشتر قومی اسمبلی میں پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ زدہ، شخصی و خاندانی جمہوریت نے ایک شرمناک تماشا پیش کیا۔ نواز لیگ اور تحریک انصاف کے اراکینِ اسمبلی نے ایک دوسرے کو غلیظ گالیاں دیں، ایک دوسرے کی طرف فحش اشارے کیے، ایک دوسرے پر بجٹ دستاویزات دے ماریں۔ نواز لیگ کے اراکین عمران خان کو ’’ڈونکی راجا‘‘ کہہ رہے تھے۔ اس پر فواد چودھری نے نواز لیگ کے منتخب نمائندوں کو بتایا…

مزید پڑھئے

کشور ناہید کی مغرب زدگی

مسلم دنیا میں مغرب سے متاثر ہونے والوں کی تین اقسام ہیں۔ (1) مغرب پسند (2) مغرب پرست (3) مغرب زدہ مغرب پسند مسلمان مغرب سے متاثر ہوتے ہیں مگر وہ اپنے مذہب کو چھوڑ نہیں دیتے۔ وہ اسلام اور مغرب کو بیک وقت اپنے شعور میں جگہ دیے ہوئے ہوتے ہیں۔ ان کا طرزِ فکر یہ ہوتا ہے کہ ہم اسلام کو نہیں چھوڑ سکتے مگر مغرب سے استفادہ بھی ہمارے لیے ضروری ہے۔ مغرب پرست مسلمان مغرب ہی کو ’’حق‘‘ مانتے ہیں مگر وہ اسلام کو ایک تہذیبی اور ثقافتی قوت کی حیثیت سے اپنائے رکھتے ہیں۔ مسلم…

مزید پڑھئے

پاکستان کو امریکہ کی کالونی بنائے رکھنے کا منصوبہ

خدا پر بھروسا کریں اور ایمان کی قوت پر اعتبار کریں تو امریکہ کے چنگل سے مکمل آزادی حاصل کی جا سکتی ہے، اور جس طرح امریکہ نے طالبان سے مذاکرات کی بھیک مانگی،وہ پاکستان سے بھی مذاکرات کی بھیک مانگ سکتا ہے پاکستان عظیم ترین مثالیوں، عظیم ترین آدرشوں کے سائے میں تخلیق ہوا تھا۔ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آنے والی ریاست تھی۔ قائداعظم اسے اسلام کا قلعہ دیکھنا چاہتے تھے۔ قائداعظم نے فرمایا تھا کہ پاکستان ایک پریمیئر اسلامی ریاست ہوگا۔ انہوں نے فرمایا تھا کہ پاکستان بن گیا ہے اور انسانی روح عظیم ترین…

مزید پڑھئے

تہذیبوں کا تصادم

’’تہذیبوں کا تصادم‘‘ پرانے شکاریوں کا نیا جال ہے۔ تہذیب کے معروف معنی اصلاح سے آراستہ کرنا، سلیقہ پیدا کرنا وغیرہ سمجھ میں آتے ہیں۔ توازن اور عدل و انصاف اور احترامِ آدمیت بھی اس اصطلاح کا ایک حصہ ہیں۔ ان معنوں میں اگر بالکل جانب داری کے بغیر جائزہ لیا جائے تو صرف اسلام ہی وہ دین ہے جو ان تمام باتوں کو اپنی دعوت کا حصہ بناتا ہے۔ اسلامی تہذیب کی بنیاد اسلامی عقیدہ ہی ہے۔ اس کے مقابلے میں تہذیب کے نام سے جو کچھ بھی پیش کیا جاتا ہے وہ کسی طرح بھی اس تعریف پر…

مزید پڑھئے

یہ دُنیا ایک بہت بڑے ہسپتال کا منظر پیش کررہی ہے جس میں ڈاکٹرز ہیں، نرسیں ہیں اور ’’توجہ کے طالب‘‘ مریض ہیں، ان میں سے کسی کی حیثیت مستقل نہیں۔ ڈاکٹرز اور نرسیں کہیں مریض بن جاتے ہیں اور کہیں مریض ڈاکٹرز اور نرسوں کا روپ دھا لیتے ہیں۔ اس منظرنامے میں دو چیزیں بنیادی اہمیت کی حامل ہیں۔ مریض اور ان کی توجہ کی طلب۔ ایسی توجہ کی طلب جس پر بیشتر صورتوں میں ’’محبت کا پانی‘‘ چڑھا ہوا ہے لیکن اس حقیقت کا اعتراف ناممکن ہو کر رہ گیا ہے۔ انسان بھلا یہ اعتراف کیسے کرسکتا ہے کہ اسے محبت کی نہیں صرف توجہ کی ضرورت ہے، لیکن حقیقت تو یہی ہے کہ انسانوں کی ایک بڑی تعداد محبت کی ضرورت سے محروم یا بے نیاز ہو گئی ہے اور نہایت خاموشی کے ساتھ محبت کی جگہ توجہ نے لے لی ہے۔ ایسی توجہ نے جو خود کو محبت کے روپ میں پیش کرتی رہتی ہے، مگر محبت اور توجہ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ توجہ محبت کا ناگزیر حصہ یا جزوِ لاینفک ہے اور اس بات کا امکان موجود ہے کہ توجہ میں محبت کی آمیزش ہو، لیکن یہاں ہم توجہ کو جن معنوں میں استعمال کررہے ہیں ویسی توجہ میں محبت کے آمیز ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ یہ توجہ کم و بیش ویسی ہی توجہ ہے جس کا مظاہرہ اچھے ہسپتالوں میں اچھے ڈاکٹرز اور اچھی نرسیں کیا کرتی ہیں۔ وقت پر چیک اپ، وقت پر دوا، وقت پر غذا۔ سب کچھ طے شدہ پروگرام کے تحت۔ یہ توجہ لائق تحسین ہے۔ لیکن یہ ہے ’’پیشہ ورانہ توجہ‘‘ اس توجہ میں انسان دوستی اور انسانی ہمدردی کے کئی رنگ دیکھے جاسکتے ہیں لیکن محبت کا کوئی رنگ مشکل ہی سے تلاش کیا جاسکتا ہے۔ اس لیے کہ محبت تعلق سے پیدا ہوتی ہے اور ’’تعلق کے معاملات انسان دوستی اور انسانی ہمدردی سے بہت آگے جاتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ توجہ کی ضرورت بیماروں کو زیادہ ہوا کرتی ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ فی زمانہ انسانوں کی ایک بہت بڑی تعداد خود کو ’’بیمار‘‘ محسوس کرتی ہے۔ یہاں بیماری کا مفہوم جسمانی بیماری تک محدود نہیں، ممکن ہے کوئی خود کو جذباتی، نفسیاتی اور روحانی طور پر بیمار محسوس کرتا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ بیماری کا تعین ممکن ہی نہ ہو، لیکن فرد محسوس کرتا ہو کہ وہ ’’ٹھیک‘‘ نہیں ہے۔ ایسی کیفیت میں توجہ ایک ’’دوا‘‘ کا کام کرتی ہے۔ گمشدگی کا احساس اور شناخت کی تلاش اور شناخت کے تعین کی ضرورت اس عہد کا ایک اہم مسئلہ ہے۔ کروڑوں انسان درختوں کی طرح اکھڑے پڑے ہیں، وہ پرانی اور مانوس مٹی سے جدا ہوچکے ہیں اور نئی مٹی انہیں اور وہ نئی مٹی کو قبول کرنے پر تیار نہیں۔ یہ المیہ محض بڑے پیمانے پر ہونے والی نقل مکانی کا نتیجہ نہیں کیونکہ اگر ایک نقل مکانی خارج میں وقوع پذیر ہورہی ہے تو دوسری نقل مکانی انسان کی داخلی زندگی کا ایک اہم منظر ہے اور یہ نقل مکانی خارج میں وقوع پذیر ہونے والی نقل مکانی سے کہیں زیادہ تباہ کن ہے۔ ان حالات میں توجہ انسان کو گمشدگی کے احساس سے عارضی طور پر سہی، نجات دلاتی ہے اور فرد کو شناخت کا سامان بہم پہنچاتی ہے اور یہ ایک ’’فطری‘‘ بات ہے۔ محبت ایسے ہی لوگ کرسکتے ہیں اور محبت ایسے ہی لوگوں کی ضرورت ہوسکتی ہے جو اپنے خارج اور داخل میں جڑیں رکھتے ہوں، جنہیں اپنی ذات کے حوالے سے ایک گونہ اطمینان حاصل ہو اور جنہیں عدم تحفظ کے احساس سے لاحق ہونے والے اندیشے لاحق نہ ہوں۔ عبید اللہ علیم کا ایک مشہور شعر ہے۔ عزیز اتنا ہی رکھو کہ جی سنبھل جائے اب اس قدر بھی نہ چاہو کہ دم نکل جائے یہ شعر اس حقیقت کا عکاس ہے کہ ’’محبت‘‘ فرد کی ضرورت نہیں، اس کی ضرورت صرف توجہ ہے۔ یہاں ’’عزیز اتنا ہی رکھو‘‘ کا مطلب یہی ہے۔ ’’جی سنبھل جائے‘‘ کے ٹکڑے میں کسی نہ کسی قسم کی بیماری کا تاثر بہت واضح ہے۔ ایسی بیماری کا تاثر جس کے لیے توجہ دوا کا کام کرتی ہے۔ مصرعہ ثانی کا مفہوم یہ ہے کہ محبت کا تجربہ شاعر کے لیے ناقابل برداشت ہے، کیوں ناقابل برداشت ہے؟ ایک تو اس لیے کہ شاعر کی ضرورت محبت نہیں توجہ ہے۔ دوسرے اس لیے کہ عدم تحفظ کا احساس بھی شاعر کی شخصیت کا حصہ ہے، اس لیے بہت زیادہ چاہے جانے سے اسے اپنا دم گھٹتا اور نکلتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی کسی سے محبت کے شدید جذبے کے تحت لپٹ جائے لیکن جس سے وہ لپٹے اسے محسوس ہو یا یہ اندیشہ لاحق ہو کہ یہ محبت کا اظہار ہے یا پسلیاں توڑنے کی سازش۔ یہاں پہنچ کر ہمیں فراق کا ایک بے مثال شعر یاد آتا ہے۔ کہاں ہر ایک سے بارِ نشاط اُٹھتا ہے بلائیں یہ بھی محبت کے سر گئی ہوں گی ’’بارنشاط‘‘ محبت ہی میں اُٹھا سکتی ہے۔ یہ بوجھ بے چاری توجہ سے ہرگز نہیں اُٹھ سکتا، توجہ ریڑھ کی ہڈی سے محروم ہوتی ہے۔ سماجی تعلقات انسان کے لیے ہمیشہ سے اہم رہے ہیں، لیکن فی زمانہ یہ انسان کے لیے اتنے اہم ہوگئے ہیں کہ ان کے بغیر زندگی بے معنی اور ناممکن نظر آتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے ان تعلقات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ یہ تعلقات ایسے مقناطیسوں کا کردار ادا کرتے ہیں جو توجہ کو اپنی جانب کھینچتے ہیں۔ خاندان، دولت، شہرت، عہدہ، منصب یہاں تک کہ لباس، اس کی تراش خراش اور انسان کی وضع قطع بھی سماجی تعلقات میں شامل ہے اور ان سب چیزوں سے صرف ایک کام لیا جاتا ہے، توجہ حاصل کرنے کا کام۔ ایسی فضا میں بے چاری محبت کے لیے کیا گنجائش باقی رہ جاتی ہے؟ ان سب چیزوں کا مرکز تلاش کیا جائے تو نگاہ جا کر ’’انا‘‘ پر ٹھہرتی ہے، جس کا اُصول حرکت ’’طاقت‘‘ ہے۔ ہر طرح کی طاقت۔ ایسی طاقت جو ہر چیز پر چھا جانے کی صلاحیت رکھتی ہو تا کہ ان کے سوا کسی چیز کا وجود باقی نہ رہے اور باقی رہے تو اس کے کوئی معنی ہی نہ ہوں۔ انا کی اس توسیع پسندی کی راہ میں جو چیز بھی آتی ہے انا اسے مسمار کردیتی ہے۔ انا کا صرف ایک ہی جواب ہے’’محبت‘‘جس کی انتہا عشق ہے۔ محبت انا کی لگام ہے، اور عشق وہ فریضہ جس سے انا کی قلب ماہیت ہوتی ہے۔ اور وہ کائناتی انا کے ساتھ ہم آہنگ ہوجاتی ہے، لیکن محبت اور عشق عصر حاضر کی ضرورت نہیں۔ یہ وہ چیزیں ہیں جن کا خریدار ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا۔ ہم جس عہد میں سانس لے رہے ہیں وہ انا کی سلطنت ہے، اس پر انا کی حکمرانی ہے۔ فراق سے بھی گئے ہم وصال سے بھی گئے سبک ہوئے ہیں تو عیش ملال سے بھی گئے

مضامین ہماری دنیا سیاسی اعتبار سے ہی نہیں علمی اعتبار سے بھی بھیڑ چال کا منظر پیش کررہی ہے۔ یہ بھیڑ چال اُن معاشروں میں زیادہ سنگین ہے جہاں قیادت کا بحران اور منصوبہ بندی کا فقدان ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ علمی بھیڑچال کا مفہوم کیا ہے؟اس سوال کا جواب آسان ہے۔ آج سے تیس چالیس سال پہلے ہمارے تعلیم یافتہ نوجوانوں کی عظیم اکثریت ڈاکٹر یا انجینئر بننا چاہتی تھی۔ اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ معاشرے میں علم طب یا فنِ تعمیر سے عشق کا رجحان پیدا ہوگیا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ…

مزید پڑھئے

اماموں کی جگہ روبوٹس؟ خطیبوں کی جگہ توتے؟

اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین قبلہ ایاز نے اسلام کی شاندار روایات کو پامال کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ آئندہ سے مساجد میں جمعے کے خطبے حکومتی ہدایات کے مطابق ہوا کریں گے۔ قبلہ ایاز نے فرمایا کہ اسلامی نظریاتی کونسل معاشرے کی بہتر تشکیل کے لیے خطبہ جمعہ کے لیے موضوعات اور ان کے لیے متعلقہ اسلامی ریفرنس بھی تیار کرے گی۔ انہوں نے بتایا کہ صدرِ مملکت کی ہدایت پر کونسل نے خطیبوں کے لیے سو موضوعات کا تعین کرلیا ہے۔ یہ جنرل پرویز مشرف کا عہد ’’روشن خیالی‘‘ تھا کہ ایک دن اعلان ہوا کہ اب…

مزید پڑھئے