Articles

سیکولر دانش ور کے تین بڑے اور ہولناک جھوٹ

آخری حصہ اس اقتباس کی ایک اہمیت یہ ہے کہ یہ ایک باخبر مغربی دانش ور کی رائے ہے۔ اس اقتباس کی دوسری اہمیت یہ ہے کہ اس اقتباس میں تسلیم کیا گیا ہے کہ مسلمانوں نے قدیم یونان کے علوم، ان کے متون اور Techniques کو قرون وسطیٰ میں یورپ منتقل کیا اور اگر مسلمان ایسا نہ کرتے تو یہ علوم یورپ نہیں پہنچ سکتے تھے۔ اس اقتباس کی تیسری اہمیت یہ ہے کہ اس اقتباس میں اسلامی تہذیب کو صرف تہذیب نہیں ’’عظیم تہذیب‘‘ تسلیم کیا گیا ہے اور اس بات پر افسوس کیا گیا ہے کہ اس…

مزید پڑھئے

۔23مارچ ، اسلام،قائداعظم اور پاکستان

بھارت کے عظیم بلے باز سنیل گاوسکر نے ایک بار اپنے بیٹے سے پوچھا کہ تم کیا بننا چاہتے ہو؟ اس نے کہا: میں یا تو گاوسکر بننا چاہتا ہوں یا عمران خان۔گاوسکر نے کہا کہ بیٹے اگر ایسا ہے تو پھر تم گاوسکر بننے کی کوشش کرو، کیونکہ تم کبھی بھی عمران خان نہیں بن سکتے۔ اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے گاوسکر نے کہا کہ عمران خان بننے کے لیے گوشت خور ہونا ضروری ہے، اور تم سبزی خور ہو۔ جسمانی غذا اگر اتنی اہم ہے کہ انسان جو کھاتا ہے وہی بن جاتا ہے، تو پھر روحانی،…

مزید پڑھئے

سرسید‘ جہاد اور جہادی

اسلامی تاریخ میں جہاد کی اہمیت یہ ہے کہ جہاد اللہ کا حکم ہے اور رسول اکرمؐ کی عظیم الشان سنتوں میں سے ایک سنت ہے۔ جہاد کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ رسول اکرمؐ کی 10 سالہ مدنی زندگی میں تقریباً 80 غزوات اور سرایہ وقوع پزیر ہوئے۔ سرایہ وہ عسکری مہمات ہیں جو رسول اکرمؐ کی حیات طیبہ میں برپا ہوئیں مگر رسول اکرمؐ خود اُن میں شریک نہ ہوئے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ رسول اکرمؐ کے آخری دس برسوں میں 80 فوجی معرکے ہوئے۔ چوں کہ قرآن کا ہر حکم…

مزید پڑھئے

جرائم اور عہدِ حاضر

انسان کی انفرادی زندگی ہو یا اجتماعی زندگی… قومی زندگی ہو یا بین الاقوامی زندگی… ہر طرف جرائم کی فراوانی ہے۔ اس فراوانی کو دیکھ کر کبھی کبھار ایسا محسوس ہوتا ہے کہ زندگی جرائم کے سمندر میں ایک جزیرے کے سوا کچھ نہیں۔ذوقؔ نے کہا تھا ؎ بشر جو اس تیرہ خاکداں میں پڑا یہ اس کی فروتنی ہے وگرنہ قندیلِ عرش میں بھی اسی کے جلوے کی روشنی ہے ذوقؔ نے جب یہ شعر کہا تھا تو عرش اور فرش کا فرق واضح تھا، مگر مسئلہ یہ ہے کہ اب انسان نے فرش ہی کو عرش بنالیا ہے۔…

مزید پڑھئے

آئیے حسینہ معین، لتا منگیشکر، شبانہ اعظمی اور نازیہ اقبال سے ملتے ہیں

فلم، موسیقی اور ٹیلی ڈراما عصر حاضر کا جادو ہیں۔ جادو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے۔ فلم، موسیقی اور ٹیلی ڈرامے کے جادو کا معاملہ یہ ہے کہ وہ صرف سر چڑھ کر نہیں بول رہا۔ وہ روح، قلب، جذبے، اور احساس کو بھی ختم کررہا ہے۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ دنیا جن جدید بتوں کی پوجا کررہی ہے، ان میں سے اکثر کا تعلق فلم، موسیقی اور ڈرامے سے ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ معاشرے کو تھوڑی بہت سہی اس بات کی فکر رہتی ہے کہ…

مزید پڑھئے

جرائم اور عہدِ حاضر

انسان کی انفرادی زندگی ہو یا اجتماعی زندگی… قومی زندگی ہو یا بین الاقوامی زندگی… ہر طرف جرائم کی فراوانی ہے۔ اس فراوانی کو دیکھ کر کبھی کبھار ایسا محسوس ہوتا ہے کہ زندگی جرائم کے سمندر میں ایک جزیرے کے سوا کچھ نہیں۔ذوقؔ نے کہا تھا ؎ بشر جو اس تیرہ خاکداں میں پڑا یہ اس کی فروتنی ہے وگرنہ قندیلِ عرش میں بھی اسی کے جلوے کی روشنی ہے ذوقؔ نے جب یہ شعر کہا تھا تو عرش اور فرش کا فرق واضح تھا، مگر مسئلہ یہ ہے کہ اب انسان نے فرش ہی کو عرش بنالیا ہے۔…

مزید پڑھئے

سرسید اور مرزا غلام احمد قادیانی (3)

قوموں کی زندگی میں کبھی ایسا وقت بھی آجاتا ہے کہ وہ مفتوح ہوجاتی ہیں اور ان کے لیے مزاحمت ممکن نہیں رہتی۔ لیکن مزاحمت سے قاصر ہونے اور مزاحمت سے ہمیشہ کے لیے دستبردار ہوجانے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد اگر سرسید یہ کہتے کہ ہم نے مزاحمت کرکے دیکھ لی مگر مزاحمت کامیاب نہیں ہوسکی۔ چناں چہ برصغیر کے لوگوں باالخصوص مسلمانوں کو سرِدست مزاحمت کا خیال ترک کرکے اپنی تعلیمی، معاشی حالت کو بہتر بنانے پر توجہ کرنی چاہیے اور مزاحمت کو کسی اور وقت کے لیے اُٹھا رکھنا چاہیے…

مزید پڑھئے

اسلامی جمہوریہ پاکستان اور مسئلہ لاپتا

غالب نے کہا تھا ؎ ہوئے ہم جو مر کے رسوا ہوئے کیوں نہ غرقِ دریا نہ کہیں جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا غالب کے اس شعر میں ’’لاپتا‘‘ ہونے کی جو خواہش موجود ہے وہ اُن کی زندگی میں کبھی بروئے کار نہ آسکی۔ غالب کا زمانہ ہی ایسا تھا۔ اُس زمانے میں لاپتا ہونے کے لیے غالب کو دریا پر جانا پڑتا اور اس میں چھلانگ لگانے کی زحمت کرنی پڑتی۔ غالب ہمارے زمانے کے پاکستان میں ہوتے تو اُن کے لیے ’’جہادی‘‘ ہونے کا ’’شبہ‘‘ بھی کافی ہوسکتا تھا۔ آپ کہیں گے کہ بھلا غالب جیسے…

مزید پڑھئے

سری دیوی اور پورس کے ہاتھی

بھارتی اداکارہ آنجہانی سری دیوی کے انتقال کی خبر جیو کے کم از کم پانچ خبرناموں میں پہلی شہ سرخی کے طور پر نشر ہوئی۔ کہنے کو یہ صرف ایک فقرہ ہے مگر اس ایک فقرے میں ایک بڑی کہانی پوشیدہ ہے۔ کسی کو پسند ہو یا نا پسند ہو فلم گزشتہ سو سال سے ہماری انفرادی و اجتماعی زندگی کا حصہ ہے۔ فلموں کے ناظرین کی تعداد لاکھوں میں نہیں کروڑوں میں ہے۔ چناں چہ فلموں کے اداکار محض اداکار نہیں رہے ہیں وہ ہمارے ’’ہیرو‘‘ ہیں ہمارے ’’Icons‘‘ ہیں۔ چناں چہ ان سے متعلق کوئی بھی اہم بات…

مزید پڑھئے

اسلامی جمہوریہ پاکستان اور مسئلہ لاپتا

غالب نے کہا تھا ؎ ہوئے ہم جو مر کے رسوا ہوئے کیوں نہ غرقِ دریا نہ کہیں جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا غالب کے اس شعر میں ’’لاپتا‘‘ ہونے کی جو خواہش موجود ہے وہ اُن کی زندگی میں کبھی بروئے کار نہ آسکی۔ غالب کا زمانہ ہی ایسا تھا۔ اُس زمانے میں لاپتا ہونے کے لیے غالب کو دریا پر جانا پڑتا اور اس میں چھلانگ لگانے کی زحمت کرنی پڑتی۔ غالب ہمارے زمانے کے پاکستان میں ہوتے تو اُن کے لیے ’’جہادی‘‘ ہونے کا ’’شبہ‘‘ بھی کافی ہوسکتا تھا۔ آپ کہیں گے کہ بھلا غالب جیسے…

مزید پڑھئے