Articles

آزادی کا ماتم اور غلامی کا جشن

اقبال نے کہا ہے تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر اقبال کی پوری شاعری معرکہ آرا ہے مگر کہیں کہیں انہوں نے انسانی نفسیات پر ایسی حکیمانہ نظر ڈالی ہے کہ انسان ششدر رہ جاتا ہے۔ غلامی کو لوگ صرف سیاسی مسئلہ سمجھتے ہیں مگر اقبال نے اپنے مذکورہ بالا شعر میں غلامی کو سیاست سے بہت آگے بڑھ کر دیکھا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ غلامی کا تجربہ اتنا ہولناک ہوتا ہے کہ انسان کیا قوموں کا ضمیر تک بدل کر رہ جاتا ہے۔ ان کے لیے جو…

مزید پڑھئے

زندگی ،ڈراما اور اداکاری

عسکری صاحب نے کہیں انسانوں کو دیا گیا آندرے ژید کا یہ مشورہ نقل کیا ہے کہ اپنا ملک چھوڑ دو، اپنے خیالات چھوڑ دو، اور کچھ نہیں تو کم از کم اپنا کمرہ ہی چھوڑ دو۔ آندرے ژید کے اس مشورے کی پشت پر مغرب کی قرونِ وسطیٰ کی اُس تہذیب کے خلاف پیدا ہونے والا ردعمل موجود ہے جس میں مذہبی عقائد سے وابستگی ہی سب کچھ تھی۔ وہ مذہبی عقائد جنہیں جدید مغرب Dogma یا منجمد جذبہ قرار دے چکا تھا۔ بہرحال مغربی دنیا نے آندرے ژید کے اس مشورے پر لفظی اور معنوی دونوں اعتبار سے…

مزید پڑھئے

جاوید چودھری اور پاکستان کو سیکولر بنانے کا مطالبہ

کیا سابق سوویت یونین میں یہ ممکن تھا کہ سوویت یونین کا کوئی کالم نویس لکھتا کہ سوشلزم کو افراد کا ذاتی معاملہ یا ذاتی فعل ہونا چاہیے، اور اس کا ریاست و سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے؟ کیا امریکا اور یورپ میں کوئی لکھنے والا یہ لکھ سکتا ہے کہ لبرل ازم کو صرف انفرادی زندگی کے دائرے تک محدود ہونا چاہیے، اور اسے اجتماعی یا ریاستی زندگی میں دخل اندازی کی اجازت نہیں ہونی چاہیے؟ ظاہر ہے کہ ان دونوں سوالات کا جواب نفی میں ہے۔ اگر کوئی شخص سوویت یونین میں سوشلزم کو ذاتی فعل…

مزید پڑھئے

پاکستانی سیاست کی ہولناک معذوریاں: سیاست جیسا “مقدس کام” گالی کیوں بن گیا؟

جرمن ادیب ٹامس مان نے کہا تھا کہ 20 ویں صدی میں انسانی تقدیر سیاسی اصطلاحوں میں لکھی جائے گی۔ ٹامس مان کی یہ بات سو فیصد درست ثابت ہوئی۔ 20 ویں صدی میں دو عالمی جنگیں لڑی گئیں، اور جنگ ایک سیاسی تصور ہے۔ 20 ویں صدی نوآبادیاتی نظام کے خاتمے اور درجنوں اقوام کی آزادی کی صدی تھی، اور نوآبادیاتی تجربہ اور آزادی ہمارے عہد میں سیاسی تصورات کی حیثیت رکھتے ہیں۔ 20 ویں صدی میں روس، چین اور ایران میں انقلابات آئے، اور انقلاب اپنی اصل میں ایک سیاسی تصور ہے۔ 20 ویں صدی میں جدید دنیا…

مزید پڑھئے

اسلام، اقبال، قائداعظم اور پاکستان

یہ واقعہ امام ابوحنیفہؒ سے متعلق ہے۔ آپ مسجد میں بیٹھے درس دے رہے تھے۔ گلی میں لڑکے گیند سے کھیل رہے تھے کہ اچانک گیند درس میں بیٹھے ہوئے طلبہ کے درمیان آگری۔ گلی میں کھیلتے ہوئے لڑکے سہم گئے اور کسی کی جرأت نہ ہوئی کہ وہ امام ابوحنیفہؒ کے درس میں مداخلت کرے۔ اچانک لڑکوں کے درمیان سے ایک لڑکا آگے بڑھا اور تمام ادب و آداب کو پھلانگتا ہوا مسجد میں داخل ہوگیا۔ وہ دندناتا ہوا آگے بڑھا اور گیند اٹھا کر لے آیا۔ امام ابوحنیفہؒ نے لڑکے کو غور سے دیکھا اور فرمایا: یہ ولدالحرام…

مزید پڑھئے

خودکشی کا بڑھتا ہوا رحجان

ژاں پال سارتر نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ آج کل کا ڈراما فلسفیانہ اور فلسفہ ڈرامائی ہوگیا ہے۔ سارتر کا یہ خیال درست ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ایک فلسفہ ہی کیا آج کل کی ہر چیز ڈرامائی ہوگئی ہے۔ یہاں تک کہ موت بھی۔ آپ دیکھتے نہیں کہ دنیا خاص طور پر مغربی دنیا میں لوگ اتنی سہولت سے خودکشی کرنے لگے ہیں کہ اس پر کسی فلم یا اسٹیج کے منظر کا گمان ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ خودکشی اتنی سہل کیوں ہوگئی ہے؟ اس سوال کے جواب کی تلاش میں نکلیے تو…

مزید پڑھئے

جاوید غامدی کے شاگرد کا اسلام پر ایک اور حملہ

جاوید احمد غامدی کی فکر کا ایک مرکزی نکتہ یہ ہے کہ اسلام کو مولانا مودودی کی اصطلاح کے مطابق ایک ’’ضابطۂ حیات‘‘ ثابت نہ ہونے دیا جائے۔ چناں چہ وہ کبھی کہتے ہیں کہ اسلام ایک روحانی اور اخلاقی حقیقت ہے۔ کبھی کہتے ہیں کہ اسلام سیاسی حقیقت نہیں ہے۔ جاوید غامدی کی اس فکر کا اثر ان کے شاگردوں پر بھی پڑا ہے۔ چناں چہ وہ آئے دن اسلام پر کوئی نہ کوئی حملہ کرتے رہتے ہیں۔ خورشید ندیم غامدی صاحب کے شاگرد رشید ہیں۔ انہوں نے اپنے ایک حالیہ کالم میں اسلام پر ایک بھرپور حملہ کیا…

مزید پڑھئے

مہنگائی اور غربت کا طوفان

پاکستان میں 1990ء کی دہائی معاشی استحکام کی دہائی تھی لیکن اس وقت بھی زیریں متوسط اور غریب طبقے کی حالت دگرگوں تھی ایک وقت تھا کہ مہنگائی اور غربت ایک ’’واقعہ‘‘ تھیں۔ 20 ویں صدی کے وسط تک آتے آتے مہنگائی اور غربت ’’حادثہ‘‘ بن گی اور اب 21 ویں صدی میں مہنگائی اور غربت ’’سانحہ‘‘ بن کر سامنے آرہی ہیں۔ جس دور میں مہنگائی اور غربت ’’واقع‘‘ تھیں اس زمانے میں غربت کو ایک ’’تقدیری امر‘‘ سمجھا جاتا تھا اور انسانوں کی عظیم اکثریت تقدیر کو بہ رضا و رغبت قبول کرتی تھی۔ مگر بیسویں صدی میں غربت…

مزید پڑھئے

ہندوستان اردو سے بھاگ کر کہاں جائے گا؟

ہندوستان کے انتہا پسند ہندو مسلمانوں پر ایک الزام یہ لگاتے ہیں کہ یہ ایک ہزار سال سے ہندوستان میں موجود ہیں مگر ان کی ہر چیز غیر مقامی ہے۔ ان کا مذہب سعودی عرب سے آیا ہے۔ ان کے مقدس مقامات مکہ اور مدینہ بھی غیر مقامی ہیں۔ ان کی ایک زبان عربی ہے جو عالم عرب سے آئی ہے۔ دوسری زبان فارسی ہے جو ایران سے آئی ہے۔ ہندوستان کے انتہا پسند ہندو ان تمام باتوںکو بنیاد بنا کر مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلاتے ہیں۔ مگر ایسا کرتے ہوئے وہ ایک بات بھول جاتے ہیں اور وہ یہ…

مزید پڑھئے

انسانی تعلق کے انہدام کا عالمی و آفاقی منظرنامہ

فراق گورکھپوری کا شعر ہے  دنیا میں آج کوئی کسی کا نہیں رہا اے چشمِ لطف تیری ضرورت ہے دور دور فراق کے اس شعر کا پہلا مصرع ایک سطح پر روحانی یا مابعد الطبعیاتی سطح کا ایٹمی دھماکا ہے، دوسری سطح پر یہ نفسیاتی و جذباتی ہائیڈروجن بم کی تباہ کاری ہے، تیسری سطح پر یہ عالمی نوعیت کا سماجی زلزلہ ہے۔ لیکن اس بات کا مفہوم کیا ہے؟ انسانی زندگی ’’تعلق‘‘ سے عبارت ہے اور انسان کے چار تعلق بنیادی ہیں: -1 انسان کا خدا سے تعلق -2 انسان کا دوسرے انسانوں سے تعلق -3 انسان کا اپنی…

مزید پڑھئے