اپنے مذہب، تہذیب اور تاریخ کے اعتبار سے مسلم دنیا بے پناہ امکانات کی دنیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کا مذہب بے مثال ہے۔ مسلمانوں کی تہذیب لاجواب ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ شاندار ہے۔ مسلمانوں کے پاس مادی وسائل کی بھی کمی نہیں۔ دنیا کے تیل کے معلوم ذخائر کا 60 فیصد مسلمانوں کے پاس ہے۔ دنیا کے گیس کے معلوم ذخائر کا 70 فیصد مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے۔ مسلمانوں کے پاس 57 آزاد ریاستیں ہیں۔ جدید اصطلاح میں بات کی جائے تو مسلمانوں کے پاس ایک ارب 60 کروڑ انسانوں کی ’’منڈی‘‘ ہے۔ مگر اس کے باوجود بساطِ عالم پر مسلم دنیا کی کوئی حیثیت نہیں اور مسلمان جگہ جگہ پٹ رہے ہیں۔ ان حقائق میں ایک گہرا تضاد ہے اور اس کو سمجھنے پر ہی مسلم دنیا کے بہتر مستقبل کا انحصار ہے۔ مسلمانوں کے لیے مثالی عروج کی دو ہی بنیادیں ہیں، ایک تقویٰ یا تعلق باللہ اور اس کے حوالے سے اتباعِ سنتِ رسولؐ۔ دوسری علم میں درجۂ کمال کا حصول۔ ظاہر ہے کہ ان دونوں فضیلتوں کا راستہ قرآن مجید فرقانِ حمید سے مسلمانوں کے تعلق سے ہوکر گزرتا ہے۔ لیکن مسئلہ ترجیحات کے تعین کا بھی ہے، اور ترجیحات کے تعین کا اختیار حکمرانوں کے پاس ہوتا ہے۔ عربی ضرب المثل ہے کہ مچھلی ہمیشہ سر کی جانب سے سڑتی ہے۔ اس با ت کا مطلب یہ ہے کہ پہلے معاشرے کے بالائی طبقات خراب ہوتے ہیں۔ معاشرے کے نچلے طبقات جب بالائی طبقات کو خراب ہوتے دیکھتے ہیں تو وہ بھی خرابیوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ بالائی طبقات میں اہم ترین طبقہ حکمرانوں کا ہے۔ عوام مزاجاً اور اپنی علمی و اخلاقی اہلیت کی کمی کی وجہ سے طاقت مرکز بلکہ طاقت پرست ہوتے ہیں۔ وہ جب تک طاقت کے مرکز کو صراطِ مستقیم پر چلتا دیکھتے ہیں خود بھی صحیح راستے پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں، مگر حکمران عیش پرست، دنیادار اور بیرونی طاقتوں کے آلۂ کار بن جاتے ہیں تو عوام کا اخلاق، کردار، تہذیب، مزاج غرض یہ کہ سب کچھ تباہ ہوجاتا ہے۔ بدقسمتی سے ہم گزشتہ پچاس سال کے دوران اقتدار پر قابض ہونے والے مسلم دنیاکے حکمرانوں کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ تلخ حقیقت ہمارے سامنے آتی ہے کہ مسلم دنیا کے حکمرانوں کی عظیم اکثریت اپنے مذہب، اپنی تہذیب اور اپنی تاریخ کی غدار ہے۔ وہ اگر وفادار ہیں تو اپنے طبقاتی، گروہی، اداراتی، خاندانی اور ذاتی مفادات کے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم دنیا کی بادشاہت بھی جھوٹی ہے، جمہوریت بھی جھوٹی ہے، قوم پرستی بھی جھوٹی ہے، مارشل لا بھی جھوٹا ہے، صحافت بھی جھوٹی ہے، یہاں تک کہ علماء کی اکثریت کو بھی حکمران جب چاہیں ’’دربار ی علماء‘‘ میں ڈھال سکتے ہیں۔ بدقسمتی سے مذہبی دائرے میں بھی کہیں حقیقی مذہبیت موجود نہیں۔ کہیں فرقہ پرستی کا راج ہے، کہیں مسلک پرستی حکمرانی کررہی ہے۔ مذہب ایک نظریاتی قوت کے طور پر کہیں موجود نہیں، یا پھر وہ تمام بین الاقوامی قوتوں اور اُن کے مقامی آلۂ کاروں کا ہدف ہے۔ مگر سرِدست ہمارا موضوع مسلم دنیا کے حکمران ہیں۔ مسلم دنیا کے حکمرانوں کو سمجھنا ہو تو سعودی عرب کے ولی عہد یا Crown Prince محمد بن سلمان عرف MBS کی شخصیت، فکر اور اقدامات کو سمجھ لینا کافی ہے۔سعودی عرب مسلمانوں کا روحانی مرکز ہے۔ یہاں مکہ معظمہ ہے۔ مدینۂ منورہ ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو مسلم دنیا میں سعودی عرب کی حیثیت دل کی سی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب اپنے قیام سے اب تک ایک مذہبی ریاست ہے۔ بلاشبہ سعودی عرب میں بادشاہت ہے، مگر اس بادشاہت نے اپنے تشخص کو ہمیشہ مذہب سے منسلک کیا ہے۔ سعودی عرب اپنے مذہبی تشخص کے حوالے سے بڑی حد تک امت پرست رہا ہے۔ مسلم دنیا کا شاید ہی کوئی ملک ہوگا جس کی سعودی عرب نے مالی مدد نہیں کی ہوگی۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے، سعودی عرب نے پاکستان کو اربوں ڈالر دیے ہیں، مفت اور ادھار تیل فراہم کیا ہے۔ یہ سعودی عرب کا مذہبی تشخص ہی تھا جس نے شاہ فیصل شہید جیسا حکمران پیدا کیا۔ شاہ فیصل عرب و عجم کی تفریق سے بلند تھے۔ وہ اگر صرف بادشاہ ہوتے تو کبھی مغرب کی مزاحمت نہ کرتے اور تیل کو ہتھیار کے طور پر استعمال نہ کرتے۔ بادشاہوں کو بادشاہت عزیز ہوتی ہے، اور اس سے بھی زیادہ جان عزیز ہوتی ہے۔ شاہ فیصل نے مغرب کی عملی مزاحمت کرکے ثابت کیا کہ انہیں نہ بادشاہت عزیز تھی، نہ جان عزیز تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی مسلم دنیا میں کروڑوں لوگ شاہ فیصل کو یاد کرتے ہیں اور اُن سے محبت کرتے ہیں۔ مگر اپنے اس پس منظر کے باوجود سعودی عرب ’’انقلاب‘‘ کہلانے والی ’’اتھل پتھل‘‘ کی زد میں ہے، اور اس اتھل پتھل کا مرکز محمد بن سلمان کی شخصیت اور اُن کا طرزِ فکر و عمل ہے۔ محمد بن سلمان نے ولی عہد بنتے ہی سعودی عرب کے شاہی خاندان کی پانچ سو اہم شخصیات کو قید کرلیا اور اُن سے سو ارب ڈالر سے زیادہ وصول کیے۔ اس اقدام کا مقصد حریفوں کو راستے سے ہٹانا اور اپنی پوزیشن مستحکم کرکے بادشاہ بننے کی راہ ہموار کرنا تھا۔ اگرچہ اس عمل پر بھی اعتراض کی گنجائش ہے، مگر یہ صورتِ حال اپنی اصل میں سعودی عرب کے شاہی خاندان کا داخلی معاملہ ہے۔ بادشاہتوں میں کیا، اب تو جمہوریتوں میں بھی اس طرح کے واقعات عام ہیں۔ لیکن مسئلہ محض محمد بن سلمان کے ولی عہد یا بادشاہ بننے کا نہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ محمد بن سلمان اچانک 32 سال کی عمر میں ’’روشن خیال‘‘ ہوگئے ہیں۔ مغرب میں روشن خیالی کی ایک تاریخ ہے، اور اس تاریخ میں ایک زوال کے معنوں میں ہی سہی ایک ’’تدریج‘‘ یا جیسا کہ مغرب کہتا ہے ایک ’’ارتقا‘‘ پایا جاتا ہے۔ محمد بن سلمان بھی کسی ’’نئے علم‘‘ سے دوچار ہوئے ہوتے اور اُن کی فکر میں بھی ایک تدریج یا ارتقا نظر آیا ہوتا تو اُن کی روشن خیالی افسوس ناک ہونے کے باوجود قابلِ فہم ہوتی۔ مگر اس سلسلے میں محمد بن سلمان کا قصہ یہ ہے کہ وہ رات کو راسخ العقیدہ مسلمان کی حیثیت سے سوئے تھے، صبح اٹھے تو وہ ’’روشن خیال‘‘ یا سیکولر تھے۔ اس طرح کا تغیر مسلم دنیا میں کہیں Made in America ہوتا ہے اور کہیں Made in Europe۔ اس طرح کا تغیر یہ بھی بتاتا ہے کہ اس کا مقصد امریکہ یا یورپ، یا دونوں کو خوش کرکے اپنے اقتدار کی راہ ہموار کرنا اور اپنے اقتدار کو دائمی طور پر استحکام مہیا کرنا ہوتا ہے۔ اس طرح کے تغیرات کی زد میں آنے والے امریکہ اور یورپ کی طرف اشارہ کیے بغیر اپنے لوگوں اور اپنے حریفوں کو بتاتے ہیں ؎ ہم ’’اُن کے‘‘ ہیں، ہمارا پوچھنا کیا لیکن مسئلہ صرف اتنا سانہیں ہے۔ محمد بن سلمان نے ولی عہد بنتے ہی اعلان کیا کہ سعودی عرب آئندہ دس برسوں میں تفریحی صنعت یا Entertainment Sector پر 64 ارب ڈالر صرف کرے گا۔ تفریحی ادارے Ganeral Entertainment Authority کے سربراہ عفیل الخطیب نے ریاض میں نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ ہم تفریحی شعبے کے لیے بنیادی ڈھانچہ تیار کررہے ہیں اور صرف 2018ء میں ملک کے اندر پانچ ہزار سے زیادہ تفریحی پروگرام ہوں گے۔ (روزنامہ ڈان کراچی۔ 23 فروری 2018ء) مذکورہ بالا چند سطور سعودی عرب کے حوالے سے ایٹمی حملے کی اطلاع سے کم اہم نہیں۔ سعودی معاشرہ بہرحال ایک مذہبی معاشرہ ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق سعودی عرب کی آبادی 3 کروڑ 20 لاکھ سے کچھ زیادہ ہے۔ اس آبادی میں ایک کروڑ سے زیادہ غیر ملکی ہیں۔ یعنی سعودی عرب کی اصل آبادی 2 کروڑ ہے۔ یعنی کراچی کی آبادی سے بھی کم۔ اتنی چھوٹی آبادی پر محمد بن سلمان 64 ارب ڈالر کی تفریح مسلط کریںگے۔ ایک ڈالر کو اگر سو روپے کا فرض کرلیا جائے تو سعودی عرب 10 برسوں میں اپنے شہریوں کو تفریح مہیا کرنے کے لیے 64 کھرب روپے صرف کرے گا۔ اس تفریح میں فلمیں ہوں گی، موسیقی ہوگی، جوئے خانے ہوں گے۔ شاید نائٹ کلب بھی ہوں۔ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جب 10 سال میں ان تمام تفریحات پر 64 کھرب روپے صرف ہوں گے تو سعودی عرب کی 2 کروڑ آبادی کی روحانیت، اخلاقیات، تہذیب و ثقافت اور ذہنی حالت کا کیا عالم ہوجائے گا؟ دو کروڑ لوگوں پر ایٹم بم سے لاکھوں لوگ مرجائیں گے۔ محمد بن سلمان کے ’’تفریحی بم‘‘ سے لاکھوں سعودی باشندوں کی باطنی اور ظاہری شخصیت فنا ہوجائے گی۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ تفریحی بم وہاں گرے گا جہاں مکہ ہے۔ جہاں مدینہ ہے۔ جہاں کعبہ ہے۔ جہاں روضۂ رسولؐ ہے۔ جہاں سے اسلام کا آغاز ہوا۔ اس مسئلے کا ایک پہلو یہ ہے کہ سعودی حکمرانوں اور سعودی معاشرے کی روحانیت اور مذہبیت جیسی بھی ہو، سعودی عرب آج بھی مکہ اور مدینہ کی وجہ سے مسلمانوں کی عظیم اکثریت کے لیے روحانیت، اسلامی تہذیب اور اسلامی تاریخ کی ایک ’’علامت‘‘ ہے۔ اس علامت پر محمد بن سلمان کا تفریحی بم گرے گا تو علامت کا بھرکس نکل جائے گا، اور اس کے روحانی، اخلاقی، نفسیاتی اور ذہنی اثرات پوری مسلم دنیا پر مرتب ہوں گے۔ سوال یہ ہے کہ محمد بن سلمان کا مسئلہ کیا ہے؟ محمد بن سلمان نے اپنے دورۂ امریکہ میں معروف خاتون صحافی ندرہ اوڈونل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ہم 1979ء سے قبل ایک “Normal” زندگی بسر کررہے تھے۔ عورتیں گاڑیاں چلا رہی تھیں، سعودی عرب میں سنیما ہال موجود تھے جن میں فلمیں دیکھی جارہی تھیں۔ مگر پھر 1979ء میں ایران میں انقلاب آگیا اور خانہ کعبہ پر انتہا پسندوں نے قبضہ کرلیا۔ ان دو واقعات نے سب کچھ بدل دیا۔ سعودی عرب کے ممتاز صحافی جمال خشوگی نے ’واشنگٹن پوسٹ‘ میں شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں محمد بن سلمان کی ان دونوں باتوں کی تردید کی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ 1979ء سے پہلے سعودی عرب میں کوئی عورت کار ڈرائیو کرنے کی جرأت نہیں کرسکتی تھی۔ خشوگی کے بقول سعودی عرب میں گشتی سنیما موجود تھا لیکن اس سنیما سے چوری چھپے ’’استفادہ‘‘ کیا جاتا تھا۔ پہرے دار پہرہ دیتے تھے اور جیسے ہی سعودی پولیس کے آنے کا اندیشہ ہوتا تھا پہرے دار فلم دیکھنے والوں کو خبردار کردیتے تھے اور وہ بھاگ کھڑے ہوتے تھے۔ خشوگی کے بقول ان کے ایک عم زاد یا کزن کی ایک بار فرار ہوتے ہوئے ٹانگ ٹوٹ گئی تھی۔ (روزنامہ ڈان کراچی۔ 5 اپریل 2018ء)بہرحال اگر یہ بات تسلیم کرلی جائے کہ سعودی عرب 1979ء کے بعد “Abnormal” بن گیا تھا، تو مسئلہ یہ ہے کہ محمد بن سلمان اب جو کچھ کررہے ہیں وہ Abnormal کو ترک کرکے Super Abnormal کو اختیار کرنے کے سوا کچھ نہیں۔ یعنی محمد بن سلمان سعودی عرب کو Abnormal سے Super Abnormal کی طرف لے جارہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ مسئلہ صرف فلم دیکھنے یا موسیقی سننے کا نہیں۔ مسلم دنیا کے ہر ملک میں فلمیں دیکھی جارہی ہیں اور موسیقی سنی جارہی ہے، لیکن مسلم دنیا کیا، مغرب کے کسی ملک میں بھی دو کروڑ افراد کو فلمیں دکھانے، موسیقی سنوانے اور جوا کھلوانے پر 64 کھرب روپے یا 64 ارب ڈالر صرف نہیں کیے جارہے۔ تسلیم کہ محمد بن سلمان بہت روشن خیال، بہت مہذب، بہت جدید اور بہت Contemporary ہوگئے ہیں اور وہ سعودی عرب کو بھی ایسا ہی بنانا چاہتے ہیں، لیکن اگر ایسا ہے تو انہیں پہلی تبدیلی سعودی عرب کے سیاسی نظام میں کرنی چاہیے تھی۔ انہیں ولی عہد بنتے ہی اعلان کرنا چاہیے تھا کہ اب سعودی عرب میں بادشاہت نہیں چلے گی، اب سعودی عرب میں جمہوریت ہوگی، اس لیے کہ بادشاہت ’’تاریک خیالی‘‘ ہے اور جمہوریت ’’روشن خیالی‘‘۔ اس لیے کہ بادشاہت ’’قدیم‘‘ ہے اور جمہوریت ’’جدید‘‘۔ مگر محمد بن سلمان نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ وہ سعودی عرب میں بادشاہت ہی دیکھنا چاہتے ہیں۔ کتنی عجیب بات ہے کہ محمد بن سلمان کو سیاسی نظام تو صدیوں پرانا پسند ہے اور تفریح اور اس سے نمودار ہونے والی اخلاقیات اور تہذیب انہیں 21 ویں صدی کی درکار ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی قدامت بھی جھوٹی ہے اور جدیدیت بھی جھوٹی۔ ان حقائق کی وجہ سے وہ Crown Prince کم اور Clown Prince زیادہ نظر آنے لگے ہیں۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ حضرت علیؓ کے بعد خلافت ملوکیت میں تبدیل ہوگئی، مگر مسلم دنیا کے دانش وروں کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ خلافتِ عثمانیہ میں مسلمانوں کی عظمتِ رفتہ کی ایک آدھ جھلک موجود تھی۔ یہی وجہ ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں نے خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے کی راہ روکنے کے لیے خلافت تحریک برپا کی، مگر محمد بن سلمان کا معاملہ یہ ہے کہ انہیں اخوان اور حماس ہی زہر نہیں لگتے، بلکہ انہیں طیب اردوان بھی اس لیے پسند نہیں کہ ان کے نزدیک وہ خلافتِ عثمانیہ کا احیا چاہتے ہیں۔ روزنامہ جنگ کی ایک خبر کے مطابق محمد بن سلمان نے کہا ہے کہ ترکی بدی کے مثلث کا حصہ ہے۔ مصری اخبار ’الشروک‘ کے حوالے سے جنگ نے لکھا ہے کہ محمد بن سلمان نے کہا کہ ترکی اسلامی خلافت کو دوبارہ بحال کرنا چاہتا ہے۔ (روزنامہ جنگ کراچی۔ 8 مارچ 2018ء) یہ کتنی عجیب بات ہے کہ سعودی ولی عہد کو تفریح تو 21 ویں صدی کی چاہیے مگر انہیں 21 ویں صدی کی جمہوریت درکار نہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ وہ خلافت کو بھی ناپسند کرتے ہیں۔ ارے بھئی آپ کو ترکی کی خلافت پسند نہیں تو آپ سعودی عرب کو خلافت کا مرکز بنالیں۔ پوری مسلم دنیا سعودی عرب کے ساتھ کھڑی ہوجائے گی اور اس کے پیچھے چلے گی۔ مگر آپ چاہتے ہیں کہ اچھا کام نہ کوئی اور کرے اور نہ اس کا صدور آپ کی ذات سے ہو۔ واہ کیا روشن خیالی، کیا اعتدال پسندی اور کیا Normalacy ہے! ساری دنیا جانتی ہے کہ اخوان المسلمون عرب دنیا کی پُرامن اسلامی تحریک ہے۔ اخوان جمہوری بھی ہے اور اعتدال پسند بھی۔ اخوان اعتدال پسند نہ ہوتی تو شاہ فیصل 1970ء کی دہائی میں اخوان کو اپنے قریب نہ لاتے۔ شاہ فیصل وہابیت کی سختی سے عاجز تھے اور وہ چاہتے تھے کہ اخوان کی نرمی اور اعتدال وہابی مسلک کی جگہ لے لے۔ مگر سعودی ولی عہد اخوان کے خون کے پیاسے ہوگئے ہیں اور انہوں نے اخوان کو پوری عرب دنیا میں دہشت گرد تحریک بناکر کھڑا کر دیا ہے۔ مسلم دنیا کے مرکزی دھارے کی ایک پُرامن اور جمہوری تحریک کو دہشت گرد باور کرانا امریکہ، یورپ، اسرائیل اور بھارت کا ایجنڈا تو ہوسکتا ہے مگر کسی مسلمان کا ایجنڈا نہیں ہوسکتا۔ روزنامہ ڈان کی ایک خبر کے مطابق ہالی ووڈ کی معروف اداکارہ Natalie Portman کو بیت المقدس میں ہونے والی تقریب میں شرکت کرنا تھی، اس تقریب میں اسے ایوارڈ دیا جارہا تھا جس کی مالیت دو ملین ڈالر تھی، مگر ہالی ووڈ کی اس اداکارہ نے کہا کہ وہ اسرائیل کے فلسطینیوں پر ظلم کے سخت خلاف ہے، چنانچہ وہ تقریب میں شرکت نہیں کرے گی (روزنامہ ڈان کراچی۔ 22 اپریل 2018ء)۔ یہ صرف ایک اداکارہ کا مسئلہ ہی نہیں بلکہ معروف پاپ گلوکارہ شکیرا نے حال ہی میں کہا ہے کہ وہ اسرائیل میں اپنے فن کا مظاہرہ نہیں کرے گی اور اس کی وجہ اسرائیل کے مظالم ہیں۔ یہ ’’گناہ گار‘‘ اداکاروں اور گلوکاروں کا رویہ ہے، اور مکہ اور مدینہ کے ’’خادم‘‘ محمد بن سلمان نے اسرائیلی وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو سے عمان میں خفیہ ملاقات کی ہے۔ ایک اسرائیلی اخبار کے مطابق یہ ملاقات عمان کے شاہی محل میں ہوئی۔ اس موقع پر ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد جیررڈکشنر اور مشرق وسطیٰ کے لیے امریکہ کے سفیر جیسن گرین بیلٹ بھی موجود تھے۔ (روزنامہ جنگ کراچی۔ 24 جون 2018ء)اطلاعات کے مطابق محمد بن سلمان حماس کے تو خلاف ہیں ہی، انہوں نے فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس کو بھی ایک طرف پھینک دیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق محمد بن سلمان مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کے بھی خلاف ہوگئے ہیں اور وہ فلسطینیوں سے کہہ رہے ہیں کہ اسرائیل تمہیں جو کچھ دے اور امریکہ جو کچھ دلوائے، خاموشی سے قبول کرلو۔ کہنے کو محمد بن سلمان امریکہ کے ’’اتحادی‘‘ بن گئے ہیں۔ امریکہ اور یورپ انہیں ’’مدبر‘‘ اور ’’مصلح‘‘ قرار دے رہے ہیں۔ محمد بن سلمان نے امریکہ پر ڈالروں کی بارش کردی ہے۔ انہوں نے امریکہ سے ساڑھے تین سو ارب ڈالر کے ہتھیار خریدنے کا معاہدہ کیا ہے۔ امریکہ اور یورپ میں سعودی عرب کے ولی عہد کے ’’گیت‘‘ گائے جارہے ہیں، مگر اصل صورتِ حال کیا ہے، ڈونلڈ ٹرمپ سے سنیے۔ ’’امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے واشنگٹن میں قومی سلامتی کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عرب ممالک ہمارے فوجی اخراجات برداشت کریں۔ انہوں نے کہا کہ عرب ممالک (یعنی عرب حکمران) امریکہ کی حمایت کے بغیر دو ہفتے بھی اپنی بادشاہتیں نہیں بچا سکتے۔ (روزنامہ دنیا کراچی۔ صفحہ 3۔ 7 اپریل 2018ء)ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان سے ظاہر ہے کہ محمد بن سلمان سمیت تمام عرب حکمرانوں کی اصل ’’اوقات‘‘ اور ان کا اصل ’’مصرف‘‘ کیا ہے؟ اس تناظر میں دیکھا جائے تو مسلم دنیا کے حکمران اپنے مذہب، اپنی تہذیب، اپنی تاریخ، اپنی امت اور اپنی قوموں کے غدار کے سوا کیا ہیں؟ بدقسمتی سے مسلم دنیا کے بادشاہ ہی نہیں جمہوری حکمران اور فوجی آمر بھی امریکہ، یورپ اور بھارت کے ایجنٹ ہیں۔ جنرل ایوب نے 1958ء میں مارشل لا لگایا مگر چند سال قبل شائع ہونے والی خفیہ امریکی دستاویزات کے مطابق وہ 1954ء سے امریکیوں کے ساتھ رابطے میں تھے۔ ( باقی: صفحہ 5پر) وہ امریکیوں سے کہہ رہے تھے کہ سیاست دان پاکستان کو تباہ کررہے ہیں اور فوج انہیں اس کی اجازت نہیں دے سکتی۔ سیاست دان ملک تباہ کررہے تھے اور جنرل ایوب کو اس کا بڑا دکھ تھا اور مارشل لا لگانا ناگزیر تھا تو جنرل ایوب ضرور مارشل لا لگاتے۔ اس کے لیے انہیں امریکیوں سے ’’خفیہ رابطوں‘‘کی کیا ضرورت تھی؟ یہ تو قومی معاملات میں غیرملکی طاقت کو ملوث کرنا تھا، اور یہ طرزِعمل فوجی عزت و وقار کے خلاف تھا۔ 1962ء میں چین بھارت جنگ ہوئی تو چین نے جنرل ایوب سے کہا کہ بھارت ساری طاقت ہماری سرحد پر لے آیا ہے، یہ اچھا موقع ہے، آپ آگے بڑھیں اور بھارت سے اپنا کشمیر چھین لیں۔ مگر جنرل ایوب امریکہ کے دبائو میں آگئے اور ایک سنہری موقع ضائع ہوگیا۔ یہ ملک و قوم سے غداری تھی اور جنرل ایوب نے امریکی دبائو میں آکر صرف اپنے ذاتی، گروہی اور اداراتی مفادات کا تحفظ کیا۔ جنرل پرویز امریکہ کی نظروں میں اتنے حقیر تھے کہ بل کلنٹن نے اپنے دورۂ پاکستان میں اسلام آباد کے ہوائی اڈے سے باہر نکلنا پسند نہیں کیا، مگر نائن الیون کے بعد جنرل پرویز نے ایک ٹیلی فون کال پر پورا ملک امریکہ کے حوالے کیا تو وہ ایک رات میں پورے مغرب کے ’’محبوب‘‘ بن گئے۔ بش اور ٹونی بلیئر انہیں ’’مدبر‘‘ قرار دینے لگے۔ مگر جنرل پرویز کی پالیسیوں نے فوج کے امیج کو تباہ کردیا۔ نوبت یہ آگئی کہ فوج نے فوجیوں کو ہدایت جاری کی کہ وہ وردی پہن کر عام آبادیوں میں نہ جائیں۔ اگر جنرل پرویز ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کی جنگ لڑ رہے تھے تو فوج کو یہ وارننگ جاری کرنے کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔ اپنے محافظوں کو بھلا کون بدبخت نقصان پہنچا سکتا ہے! یہ اُسی زمانے کی بات ہے کہ اسرائیل کے وزیراعظم نے کہا کہ وہ روز رات کو سونے سے پہلے جنرل پرویز کی سلامتی کے لیے دعا کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اسرائیل کا وزیراعظم کسی مسلمان، کسی اسلام پرست کے لیے تو دعا نہیں کرسکتا۔ وہ تو اسلام، اسلامی تہذیب اور اسلامی تاریخ کے غدار کے لیے ہی دعا کرے گا۔ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل درانی نے اپنی کتاب ’’اسپائی کرونیکلز‘‘ میں انکشاف کیا ہے کہ مودی نے میاں نوازشریف کو اپنی تقریبِ حلف برداری میں نہیں بلایا تھا، بلکہ پہلے نوازشریف نے تقریبِ حلف برداری میں جانے کی خواہش ظاہر کی۔ یہ خواہش مودی تک پہنچائی گئی۔ تب میاں نوازشریف مودی کے دربار میں حاضری دیتے ہوئے نظر آئے۔ پاک بھارت تعلقات کی تاریخ کے تناظر میں یہ ایک غداری تھی۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ جب سے اسٹیبلشمنٹ اور نوازشریف کی کشمکش شروع ہوئی ہے امریکہ دو مرتبہ کھل کر میاں نوازشریف کی حمایت کرچکا ہے۔ آخر میاں نوازشریف ’’داخلی جنگ‘‘ میں امریکہ اور برطانیہ سے مدد کے طالب کیوں ہیں؟ وہ عوام کی مدد سے جنگ کیوں نہیں لڑتے؟ جب کہ اُن کے بقول وہ جیل جانے سے بھی نہیں ڈرتے۔ جنرل درانی کی کتاب اسپائی کرونیکلز میں آئی ایس آئی اور ایم آئی کے سابق سربراہ نے کھل کر ’’اکھنڈ بھارت‘‘ کے نظریے کی حمایت کی ہے۔ یہ دو قومی نظریے یعنی اسلام، اسلامی تہذیب، اسلامی تاریخ اور فکرِ اقبال اور قائداعظم کی جدوجہد سے کھلی غداری ہے۔ کیا جنرل درانی کی بیوی کو پاکستان جہیز میں ملا تھا کہ جنرل درانی اس کے بارے میں جو چاہے بک دے؟ جنرل درانی نے کتاب میں یہ بھی کہا ہے کہ اکھنڈ بھارت سے پہلے گریٹر پنجاب، گریٹر کشمیر اور گریٹر سندھ کا تجربہ کیا جا سکتا ہے۔ ان کے بقول میاں شہبازشریف اور بھارتی پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ راجا امریندر سنگھ یہی کررہے تھے۔ تو کیا پاکستان شریف خاندان کے ’’پرکھوں‘‘ کو تحفے میں ملا تھا؟ یا اُن کے پرکھوں نے جوئے میں جیتا تھا؟ جنرل درانی کے ان خیالات کو دیکھ کر خیال آتا ہے کہ اگر یہ جنرل درانی کے ’’انفرادی خیالات‘‘ ہوتے تو انہیں ان خیالات کو ظاہر کرنے کی جرأت نہ ہوتی۔ وہ اپنی ناپاکی اور ضلالت کو اپنے دماغ میں محفوظ رکھتے۔ مگر ایسا لگتا ہے کہ اُن کے خیالات کو پاکستان کے Power Structure میں موجود اہم لوگوں کی خاموش حمایت حاصل ہے۔ مسلمانوں کا اصل مسئلہ یہی ہے۔ انفرادی، گروہی، طبقاتی اور اداراتی مفادات اسلام، اسلامی تہذیب، اسلامی تاریخ، امت، ملّت اور قوم کے مفادات پر غالب آجاتے ہیں۔ ایسا نہ ہوتا تو پاکستانی قوم، برصغیر کی ملّتِ اسلامیہ اور پوری امت کو عروج کی طرف محوِ سفر ہوئے عرصہ ہو گیا ہوتا۔

جدید مغرب کے اثرات نے مسرت کے حقیقی تصور کو مسخ کر دیا ہےانسانی تہذیب میں خوشی کا تصور معروضی یا Objective نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خوشی کے تصور کا تعلق کسی تہذیب کے تصورِ حقیقت، تصورِ انسان اور تصورِ زندگی سے ہے۔ اگر کسی تہذیب کا تصورِ حقیقت یا Concept of Reality روحانی ہوگا تو اس تہذیب میں مسرت اپنی اصل میں روحانی ہوگی۔ اس کے برعکس اگر کسی تہذیب کا تصورِ حقیقت مادی ہوگا تو اس تہذیب میں خوشی کا تصور بھی مادی چیزوں سے منسلک ہوگا۔ اس کی ایک مثال اسلامی اور جدید مغربی تہذیب ہے۔ اسلامی تہذیب کا تصورِ حقیقت روحانی یا مابعدالطبعیاتی ہے، اس لیے اسلامی تہذیب میں خوشی اپنی اصل میں روحانی اور اخلاقی ہے۔ اس کے برعکس جدید مغربی تہذیب میں اصل اور حتمی حقیقت مادہ ہے، چنانچہ اس تہذیب کے دائرے میں خوشی کا تصور اپنی اصل میں مادی ہے۔ تصورِ انسان کا قصہ یہ ہے کہ اسلامی تہذیب میں انسان روح، نفس اور جسم کا مجموعہ ہے، چنانچہ اس کی خوشیوں میں بھی یہ درجہ بندی ظاہر ہوتی رہے گی۔ اسی طرح اسلامی تہذیب کے دائرے میں انسانی شخصیت کی دو جہتیں ہیں: شعورِ حق اور شعورِ بندگی۔ چنانچہ اسلامی تہذیب میں انسان کی خوشی کا ایک دائرہ شعورِ حق سے متعلق ہوگا اور دوسرا دائرہ شعورِ بندگی سے۔ اس کے برعکس جدید مغربی تہذیب میں انسان صرف ایک جسمانی حقیقت ہے، چنانچہ اس کی خوشیاں بھی جسمانی دائرے سے متعلق ہیں، یا زیادہ سے زیادہ ذہنی دائرے تک۔ مگر ذہن بھی جدید مغربی تہذیب میں ایک مادی شے ہے اس لیے ذہنی خوشی بھی بدلے ہوئے عنوان کے باوجود اپنی اصل میں مادی خوشی ہی ہے۔ انسان کا تصورِ زندگی چونکہ اس کے تصورِ حقیقت اور تصورانسان ہی کی فرع ہے، اس لیے تصورِ زندگی پر بھی انسان کے تصورِ حقیقت اور تصورِ انسان ہی کا اثر ہوگا۔
اسلام کے تصورِ حیات میں انسان کے چار بنیادی رشتے ہیں:
(1 انسان کا خدا سے رشتہ-2 انسان کا انسان سے رشتہ-3 انسان کا خود اپنی ذات سے رشتہ-4 انسان کا کائنات سے رشتہ اس کے معنی یہ ہوئے کہ اسلامی تہذیب کے دائرے میں انسان کی خوشیوں کا تعلق بھی انہی رشتوں سے ہوگا، اس احتیاط کے ساتھ کہ انسان کے ہر رشتے پر خدا کے ساتھ تعلق کا سایہ ہوگا۔ خدا انسانوں کے باہمی رشتوں کے درمیان سے نکل جاتا ہے تو رشتوں کی نوعیت یکسر بدل کر رہ جاتی ہے۔ یہاں تک کہ خود اپنی ذات اور کائنات سے بھی انسانی تعلق کی نوعیت تبدیل ہوجاتی ہے۔ خیر یہ ایک الگ ہی قصہ ہے، یہاں سوال یہ ہے کہ کیا اسلامی تہذیب میں مسرت کا کوئی دائمی منشور پایا جاتا ہے؟ اگر ہاں، تو اس کی نوعیت کیا ہے؟ان سوالات کا جواب یہ ہے کہ اسلامی تہذیب میں سورۂ العصر مسرت اور غم کے دائمی منشور کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ الگ بات کہ مفسرین نے اسے اس تناظر میں نہیں دیکھا۔ لیکن سورۂ العصر کے حوالے سے اس دعوے کی بنیاد کیا ہے؟ انسان کی زندگی میں آنے والا ہر خسارہ غم انگیز ہوتا ہے، اور اگر انسان خسارے سے محفوظ ہوجائے اور اس سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بچ جائے تو اس سے بڑی مسرت کوئی نہیں ہوسکتی۔ اس حوالے سے سورۂ العصر کی اہمیت یہ ہے کہ وہ انسان کو چار اتنی بڑی نعمتوں اور مسرتوں سے ہم کنار کرتی ہے کہ ان مسرتوں کے آگے ہر مسرت ہیچ ہے، اور جس شخص کو یہ چار نعمتیں مسرتوں کی صورت میں حاصل ہوجائیں وہ دنیا کا کامیاب ترین اور مسرور ترین انسان ہے۔ آیئے سورۂ العصر کا ہزاروں بار پڑھا ہوا ترجمہ ایک نئے زاویے سے پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں:’’زمانے کی قسم انسان خسارے میں ہے سوائے اُن لوگوں کے جو ایمان لائے، نیک اعمال کرتے رہے اور ایک دوسرے کو حق بات کی تلقین اور صبر کی تاکید کرتے رہے۔‘‘اس سورۂ مبارکہ کا پہلا فقرہ اس اعتبار سے ہولناک ترین فقرہ ہے کہ وہ دنیا کے آغاز سے دنیا کے اختتام تک پیدا ہونے والے تمام انسانوں کو خسارے اور اس اعتبار سے ٰغموں میں مبتلا دیکھتا ہے۔ لیکن اس خسارے سے بچنے کی چار شرائط ہیں، ایک یہ کہ انسان اللہ، اس کے تمام رسولوں اور اُن تمام امور پر ایمان لائے جن کا ذکر قرآن مجید میں صراحت کے ساتھ موجود ہے۔ لیکن خسارے سے بچنے کے لیے صرف ایمان لانا کافی نہیں۔ ایمان کا نتیجہ عملِ صالح کی صورت میں برآمد ہونا چاہیے۔ یہاں یہ حقیقت بھی آشکار ہوکر سامنے آتی ہے کہ اعمالِ صالحہ ایمان ہی سے برآمد ہوسکتے ہیں۔ ایمان کے بغیر کسی عملِ صالح کا کوئی حقیقی وجود نہیں۔ مگر ایمان اور عملِ صالح بھی کافی نہیں۔ ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اس کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے جس حق تک ہم پہنچ گئے ہیں اس کو خود تک محدود نہ رکھیں بلکہ اس کو عام کریں، اسے دوسروں تک پہنچائیں اور اس کی تبلیغ کا حق ادا کریں۔ مگر یہ حق وہی ادا کرسکتا ہے جو ایمان لائے اور عملِ صالح کرنے والا ہو۔ اس لیے کہ قرآن صاف کہتا ہے کہ تم جو کہتے ہو وہ کرتے کیوں نہیں۔ انسان کا جب قول اور عمل ایک ہوجاتا ہے تب ہی وہ دین یا حق کی تبلیغ کے قابل ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب کوئی ایمان لائے گا، عملِ صالح کرے گا اور حق کو بیان کرے گا تو تمام باطل پرست ضرور ناراض ہوں گے اور وہ حق کی تلقین کرنے والوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کریں گے۔ جب ایسا ہوگا تو صبر کی ضرورت ہوگی۔ یہاں پہنچ کر انسان کے روحانی ارتقا کا دائرہ مکمل ہوجاتا ہے۔ روحانی دائرے کے مکمل ہونے سے روحانی مسرت بھی کامل ہوجاتی ہے۔اب آپ اس سورۂ مبارکہ کو ایک مثال سے سمجھنے کی کوشش کیجیے۔ فرض کیجیے پوری دنیا روشنی میں جگمگا رہی ہے، اچانک ایک ندائے غیب پوری دنیا میں بلند ہوتی ہے: ’’زمانے کی قسم انسان خسارے میں ہے‘‘۔ اس کے ساتھ ہی پوری دنیا اندھیرے میں ڈوب جاتی ہے۔ خسارہ اندھیرا ہے، خسارہ غم ہے، اس لیے کہ خسارہ انسان کو نقصان پہنچانے والا ہے۔ جس چیز سے انسان کو نقصان ہو وہ غم انگیز اور درد انگیز ہوتی ہے۔ بہرحال پوری دنیا گھپ اندھیرے، گہرے ترین خسارے کے احساس میں ڈوب گئی ہے۔ ہاتھ کو ہاتھ سُجھائی نہیں دے رہا۔ ہر دل کچھ جانے اور کچھ انجانے خوف سے دھڑک رہا ہے۔ کچھ وقت اسی کیفیت میں گزرتا ہے، اچانک وہی ندائے غیب پھر بلند ہوتی ہے:’’زمانے کی قسم انسان خسارے میں ہے، سوائے اُن لوگوں کے جو ایمان لائے‘‘۔ اس فقرے کے ادا ہوتے ہی دنیا میں جہاں جہاں ایمان تھا وہاں 40 فیصد روشنی لوٹ آئی۔ ایمان والوں کا 40 فیصد اندھیرا دور ہوگیا، انہیں 40 فیصد نقصان سے نجات مل گئی اور وہ 40 فیصد خوشی سے ہم کنار ہوگئے۔ لوگ کچھ دیر اسی کیفیت میں رہے، اچانک وہ ندا پھر بلند ہوئیس:’’زمانے کی قسم انسان خسارے میں ہے، سوائے اُن لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے۔‘‘اس اعلان کے ساتھ ہی جہاں جہاں ایمان کے ساتھ صالح اعمال بھی موجود تھے وہاں وہاں 60 فیصد روشنی بحال ہوگئی، 60 فیصد اندھیرے اور 60 فیصد خسارے سے نجات مل گئی اور 60 فیصد مسرت انسانی وجود کا حصہ بن گئی۔ کچھ اور وقت گزرا اچانک وہ ندا پھر فضا میں گونجی:’’زمانے کی قسم انسان خسارے میں ہے، سوائے اُن لوگوں کے جو ایمان لائے، نیک اعمال کرتے رہے اور حق بات کی تلقین کرتے رہے‘‘۔ اس فقرے نے 80 فیصد روشنی بحال کردی اور 80 فیصد مسرت انسانوں کے دلوں میں رقص کناں ہوگئی۔ چند لمحوں بعد وہ آواز پھر فضا میں ابھری:’’زمانے کی قسم انسان خسارے میں ہے، سوائے اُن لوگوں کے جو ایمان لائے، جو اعمالِ صالحہ کرتے رہے اور ایک دوسرے کو حق بات کی تلقین اور صبر کی تاکید کرتے رہے۔‘‘اس فقرے کے ساتھ ہی جہاں جہاں ایمان، اعمالِ صالحہ، حق کی تلقین اور صبر کی تاکید موجود تھی وہاں وہاں 100 فیصد روشنی بحال ہوگئی، سو فیصد اندھیرا دور ہوگیا، سو فیصد خسارے سے نجات مل گئی اور سو فیصد مسرت انسانوں کو میسر آگئی۔ اسی لیے ہم نے سورۂ العصر کو اسلامی تہذیب میں خوشی کا دائمی منشور قرار دیا ہے۔اس سورۂ مبارکہ سے صاف ظاہر ہے کہ مسلمانوں کا فائدہ بھی اپنی اصل میں روحانی ہے اور نقصان بھی۔ اسی لیے ان کی مسرت بھی روحانی ہے۔ ایمان، عملِ صالح، حق بات کی تلقین اور صبر میں سے کچھ بھی ’’مادی‘‘ نہیں۔ مگر افسوس اب مسلمانوں کی عظیم اکثریت نہ روحانی نقصان کے حوالے سے فکرمند ہوتی ہے، نہ مادی فائدے کے لیے اس میں بڑا تحرک پیدا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب اس کی اکثر مسرتیں بھی روحانی نہیں رہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ امتِ مسلمہ روحانی فائدے اور روحانی نقصان اور روحانی مسرت کو بھول گئی ہے، مگر اب روحانی تصورات صرف اس کا ’’قول‘‘ ہیں۔ اس کا عمل ’’مادی اشیاء‘‘ ہیں۔ روحانیت صرف اس کی ’’آرزو‘‘ ہے، مگر ’’جستجو‘‘ اسے مادی چیزوں کی لاحق ہے۔ یہ ایک ہولناک تضاد ہے جس نے مسلمانوں کے انفرادی اور اجتماعی وجود کو دو نیم کردیا ہے، اسے منقسم شخصیت یا Split Personality میں ڈھال دیا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ مسئلہ کیوں پیدا ہوا؟اس کی وجہ جدید مغرب کے ساتھ ہمارا تعلق ہے۔ جدید مغرب اوّل و آخر ایک مادیت پسند وجود ہے۔ یہ مادیت پسند مغرب حق کی نقل کرتے ہوئے کہہ رہا ہے:’’زمانے کی قسم انسان خسارے میں ہے، سوائے اُن لوگوں کے جو جدید مغرب پر ایمان لائے اور مادی ترقی ہی جن کے لیے سب کچھ ہے۔ بے شک کامیاب ہیں وہی لوگ جن کی فی کس آمدنی 20 ہزار ڈالر سالانہ سے زیادہ ہے۔ ترقی یافتہ ہیں وہی اقوام جن کی مجموعی قومی پیداوار مغرب کے کسی ملک کے برابر ہے، جس کی برآمدات زیادہ اور درآمدات کم ہیں۔ جس کے زرمبادلہ کے ذخائر امریکہ، برطانیہ، جرمنی یا فرانس کے برابر ہیں۔ روشن خیال ہیں وہی لوگ جو خدا اور مذہب کے باغی ہیں، جو صرف اپنی عقل کو پوجتے ہیں، جو آزادی اور جمہوریت پر ایمان لائے اور ان کے مطابق نیک اعمال کرتے رہے اور ضلالت و گمراہی کی ایک دوسرے کو تلقین اور اس سلسلے میں بے صبری کی تاکید کرتے رہے۔‘‘بلاشبہ امتِ مسلمہ کی عظیم اکثریت ابھی خدا اور مذہب کی ’’باغی‘‘ نہیں ہے، مگر اس کے سارے خواب، اس کے سارے مثالیں‘ اس کے سارے Ideal، اس کی ساری امیدیں، اس کی ساری مسرتیں مادی ہوچکی ہیں۔ امتِ مسلمہ مسرت کے دائمی منشور کو بھول چکی ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار سمندرمیں اپنی انگلی ڈبو کر صحابہ کرامؓ سے پوچھا تھا: اس انگلی پر کتنا پانی لگا ہے؟ صحابہؓ نے فرمایا: ایک قطرہ یا اس سے کچھ زیادہ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یاد رکھو انگلی پر لگا ہوا یہ پانی دنیا ہے، اور آخرت اس سمندر کی طرح ہے جس میں انگلی ڈبوئی گئی۔ مگر مسلمانوں کی عظیم اکثریت سمندر کی محبت میں مبتلا ہونے کے بجائے انگلی پر لگے ہوئے چند قطروں کی محبت میں مبتلا ہوگئی ہے، یہاں تک کہ اسے دنیا اور آخرت کے لیے کیے جانے والے اعمال کے ہولناک فرق اور خوفناک عدم توازن کا بھی شعور نہیں ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک بار صحابہؓ کے ساتھ کہیں تشریف لے جارہے تھے۔ راستے میں بکری کا ایک مرا ہوا بچہ پڑا تھا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بکری کے اس مُردہ بچے کے پاس کھڑے ہوگئے۔ آپؐ نے صحابہؓ سے سوال کیا: تم میں سے کون اس بچے کو خریدنا پسند کرے گا؟ صحابہؓ نے کہا: کوئی بھی نہیں، مُردہ بکری کے بچے کو کون خریدے گا! رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یاد رکھنا دنیا بکری کے اس مرے ہوئے بچے سے زیادہ حقیر ہے۔مگر مسلمانوں کی عظیم اکثریت نے مرے ہوئے بکری کے بچے سے زیادہ حقیر دنیا کو اپنا کعبہ بنا لیا ہے اور وہ پوری زندگی اسی کعبے کا طواف کرتے رہتے ہیں اور مرتے دم تک تھکتے نہیں، بلکہ مرتے ہوئے بھی انہیں خیال آتا ہے کہ کاش اس کعبے کے دو چار چکر اور کاٹ سکتے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک اور بے مثال ارشاد یاد آیا۔ آپؐ نے فرمایا: ’’ہر امت کا ایک فتنہ ہے اور میری امت کا فتنہ مال ہے‘‘۔ اور مال دو طرح سے امت کا فتنہ بنا ہوا ہے۔ ایک طرف امت کا وہ طبقہ ہے جس کے پاس مال کی فراوانی ہے، اور مال کی فراوانی اس کے لیے فتنہ بن گئی ہے۔ اس بات کا اندازہ کرنا ہو تو عرب کے بادشاہوں اور عرب کے شہزادوں اور شہزادیوں کی زندگی کو دیکھیں، ان کی زندگی میں عیش و عشرت کے سوا کچھ نہیں۔ ان میں نہ کوئی روحانی صلاحیت ہے، نہ علمی استعداد، نہ کوئی تخلیقی اہلیت۔ مکہ اور مدینہ کا قرب بھی ان کے حال کو بدل نہیں پا رہا۔ دوسری طرف امت کا وہ بڑا طبقہ ہے جو مال کی قلت کا شکار ہے، اور مال کی قلت اس کے لیے وبال بن گئی ہے۔ اس وبال کا ایک پہلو یہ ہے کہ یہ طبقہ مال کمانے کے سوا کچھ نہیں سوچتا۔ یہ پڑھتا ہے تو مال کمانے کے لیے، محنت کرتا ہے تو مال کمانے کے لیے۔ اس کو مال اور مال سے حاصل ہونے والا عیش مہیا ہوجاتا ہے تو اس طبقے کے اراکین خود کو ’’انسان‘‘ سمجھتے ہیں، خود کو ’’مہذب‘‘ سمجھتے ہیں، خود کو ’’کامیاب‘‘ سمجھتے ہیں۔
یہاں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک اور ارشادِ پاک یاد آگیا۔ آپؐ نے فرمایا: ’’بستیوں کے بہترین مقامات ان کی مساجد ہیں اور بدترین مقامات ان کے بازار‘‘۔ مگر ہم ’’منڈی کی معیشت‘‘ کے عہد میں سانس لے رہے ہیں، اور ہمارے لیے منڈی مسجد سے زیادہ ’’مقدس‘‘ اور ’’متبرک‘‘ ہوگئی ہے۔ ہم نے آج تک کسی کو نہ مسجد کی طرف خوشی خوشی جاتے دیکھا ہے اور نہ خوشی خوشی آتے دیکھا ہے۔ ہم مسجد جاتے ہیں تو ایک ’’عادت‘‘ کے تحت، ایک ’’ذمے داری‘‘ ادا کرنے۔ ہماری نمازوں میں کوئی محبت نہیں ہوتی۔ چونکہ محبت نہیں ہوتی اس لیے ہمیں نمازوں سے روحانی مسرت بھی فراہم نہیں ہوتی۔ اس کے بجائے لوگ بازاروں میں اتنی خوشی کے ساتھ جاتے ہیں جیسے بازاروں میں ان کی ملاقات خدا سے ہونے والی ہو۔ وہ بازاروں سے چیزیں خرید کر لوٹتے ہیں تو ان کے چہرے کھلے ہوئے ہوتے ہیں، ان سے اتنی مسرت ٹپک رہی ہوتی ہے کہ گلاس کیا بالٹی بھر جائے۔ انسان، سرمائے اور چیزوں کے درمیان یہ تعلق ہے کہ انسان خالق ہے اور سرمایہ اور چیزیں انسان کی مخلوق۔ اصول ہے مخلوق کبھی خالق سے بڑی یا اس سے زیادہ اہم نہیں ہوسکتی، مگر ساری دنیا میں اور خود مسلم دنیا میں مخلوق خالق سے اہم ہوگئی ہے۔ انسان غیر اہم ہیں مگر دولت اور چیزیں بہت اہم ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان سے عزت بھی ملتی ہے، اہمیت بھی اور مسرت بھی۔ ذرا سوچیے کہ جس شخص کی مسرت دولت اور چیزوں سے متعلق ہو اُسے مسلمان کیا انسان بھی کہا جاسکتا ہے؟

Leave a Reply