تشدد ہمارے دور میں ایک ’’طرزِ اظہار‘‘ بن کر سامنے آیا ہے۔
کروڑوں لوگ ہیں جو تشدد کے ذریعے اپنے وجود کو ’’محسوس‘‘ کرتے ہیں، کروڑوں لوگ ہیں جو سمجھتے ہیں کہ اگر وہ تشدد کی زبان نہیں بولیں گے تو ان کو ’’گونگا‘‘ سمجھا جائے گا، کروڑوں لوگ ہیں جو سمجھتے ہیںکہ اگر انہوں نے تشدد کی زبان میں بات نہ کی تو کوئی اُن کی بات نہیں سنے گا
اسلام کہتا ہے کہ انسان اشرف المخلوقات ہے، لیکن دنیا میں کروڑوں انسانوں کو حیوانوں سے بدتر زندگی بسر کرنے پر مجبور کردیا گیا ہے۔ ان سے ان کی روحانیت، ان کی انسانیت، ان کی تعلیم و تربیت، ان کی معیشت اور ان کی سماجیات چھین لی گئی ہے۔
بدھ ازم میں چیونٹی کو مارنا بھی گناہ ہے، مگر میانمر میں بدھسٹوں نے ہزاروں مسلمانوں کو مار ڈالا اور کوئی احساسِ گناہ محسوس نہ کیا۔ دنیا کے منظرنامے کو دیکھا جائے تو دنیا میں جنگیں برپا ہیں۔ معاشی جنگوں نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے، ابلاغی جنگوں نے دنیا کا حشر نشر کردیا ہے۔ دنیا میں تعصبات کے معرکے جاری ہیں۔ گھروں میں ساسیں اور بہوئیں ایک دوسرے کے مقابل ہیں۔ جگہ جگہ شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے سامنے خم ٹھونک کر کھڑے ہیں۔ ہندوستان میں ہر سال سیکڑوں لڑکیوں کو کم جہیز لانے کے جرم میں مار دیا جاتا ہے۔ غور کیا جائے تو یہ سب تشدد ہی کی مختلف صورتیں ہیں۔ فرق یہ ہے کہ کہیں جسمانی تشدد کی حکمرانی ہے، کہیں نفسیاتی، جذباتی، ذہنی اور لسانی تشدد کا غلبہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس صورتِ حال کے اسباب کیا ہیں؟
قابیل خدا سے دور تھا، اُس نے خدا پر اپنی خواہش کو ترجیح دی۔ ہابیل کو خدا سے محبت تھی اس لیے اُس نے خدا کے حضور قربانی کے لیے بہترین چیز پیش کی۔ قابیل خدا سے دور تھا اس لیے اُس نے قربانی کے لیے کم تر چیز کا انتخاب کیا۔ ہابیل خدا کا فرماں بردار تھا اس لیے اُس نے موقع اور استعداد ہونے کے باوجود قابیل پر ہاتھ اٹھانے سے انکار کردیا۔ قابیل خدا کا نافرمان تھا چنانچہ اُس نے موقع ملتے ہی اپنے بھائی کو قتل کردیا۔ تجزیہ کیا جائے تو پوری انسانی تاریخ کی تعبیر کے لیے یہ ایک واقعہ کافی ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل عربوں کا حال ابتر تھا۔ ان میں ذرا ذرا سی بات پر جنگیں شروع ہوجاتی تھیں اور کئی کئی نسلوں تک جاری رہتی تھیں۔ وہ رزق کی قلت کے خوف اور شرمندگی دونوں وجوہ سے لڑکیوں کو زندہ دفن کردیتے تھے۔
عورتیں ان کے پائوں کی جوتی سے بھی کم تر تھیں۔ کفر، شرک، شراب اور قمار بازی نے انہیں جکڑا ہوا تھا۔ لیکن اسلام نے صرف دو دہائیوں میں ان کی قلبِ ماہیت کردی، وہ دنیا کے مہذب ترین لوگ بن گئے، ان کے علم کے آگے ساری دنیا کا علم حقیر ٹھیرا۔ وہ اتنے نرم خو بن گئے کہ چیونٹی کو بھی ناحق مارنے سے خوف کھاتے، ان کے جیسی گرم جوشی نایاب تھی، ان کی خدمت گزاری کی مثال تاریخ پیش کرنے سے قاصر ہے۔ اس کی صرف ایک وجہ تھی، ان کا جینا اور مرنا صرف اللہ کے لیے تھا۔
اس لیے کہ خدا کے درمیان سے نکلتے ہی انسانی تعلق مقابلے، مسابقے، محاذ آرائی اور فتح و شکست کی نفسیات کا تعلق بن جاتا ہے۔ پھر لوگ ایک دوسرے کو جاننے کی نہیں بلکہ ایک دوسرے کو زیر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان سے محبت نہیں کرتے، ان پر حکم چلاتے ہیں۔ اور انسان کی فطرت خدا کے سوا کسی کے حکم کو تسلیم نہیں کرتی، اس لیے کہ خدا کے تصور میں خوف اور امید بیک وقت موجود ہوتے ہیں۔ خوف اور امید کے درمیان ایمان ہے، اور خوف اور امید سے کامل اطاعت جنم لیتی ہے۔ لیکن عہدِ حاضر میں اکثر انسانوں نے خدا کو باہمی تعلق سے خارج کردیا ہے، اور جہاں خدا موجود ہے وہاں اس کی نوعیت ’’تصور‘‘ سے زیادہ نہیں۔
انسان کا یہ بلند تصور جب معاشرے میں راسخ ہوجاتا ہے، جب یہ تصور پورے معاشرے کا عقیدہ بن جاتا ہے تو انسان کو بڑے بڑے گناہوں سے ہی نہیں، چھوٹے چھوٹے گناہوں، یہاں تک کہ معمولی لغزشوں سے بھی حقیقی معنوں میں شرم محسوس ہونے لگتی ہے۔ لیکن ہمارے دور میں ایک ایسا تصورِ انسان رائج اور انسانوں کے ذہنوں میں راسخ ہوگیا ہے جس میں انسان حیوان کی سطح سے بلند نہیں ہوپاتا۔
مثلاً جدید عمرانیات کہتی ہے کہ انسان ایک ’’سماجی حیوان‘‘ ہے۔ جدید معاشیات انسان کو ’’معاشی حیوان‘‘ باور کراتی ہے۔ جدید علمِ سیاسیات میں انسان کو سیاسی حیوان کہا جاتا ہے۔ جدید حیاتیات کہتی ہے کہ انسان صرف ایک حیاتیاتی (Biological) وجود ہے۔ جدید نفسیات کہتی ہے کہ انسانی حقیقت کے تعین میں جبلتوں کا کردار مرکزی ہے، اور جبلتوں کی سطح پر انسان اور حیوان میں کوئی فرق نہیں۔ ظاہر ہے کہ اس تصورِ انسان میں انسان کی حقیقی عزت اور اس سے حقیقی محبت کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔ چنانچہ انسانی تعلقات میں ہر سطح پر تشدد کا در آنا یقینی ہے۔
عہدِ حاضر کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ اس کے سامنے ’’انسانِ کامل‘‘ کا ’’کوئی نمونہ‘‘ ہی موجود نہیں۔ اس عہد کے کرداری نمونے یا Icons اداکار ہیں، گلوکار ہیں۔ مگر اداکاری اور گلوکاری محض ایک فن ہے، اور اداکار یا گلوکار پوری زندگی بسر کرنے کے لیے ہرگز نمونہ نہیں ہو سکتے۔
ہمارے زمانے کا ایک کرداری نمونہ کھلاڑی ہیں، مگر کھیل ایک ہنر ہے اور یہ ہنر زندگی کا ایک معمولی سا حصہ ہے۔ چنانچہ کھلاڑی بھی انسانیت کے لیے نمونے کا کردار ادا نہیں کرسکتے۔ ہمارے زمانے کے نمونوں میں سیاست دان بھی شامل ہیں۔ بہت سے لوگ شاعروں، ادیبوں کو بھی کرداری نمونہ سمجھتے ہیں، مگر یہ لوگ بھی زندگی کی کلیت یا Wholeness کااحاطہ نہیں کرسکتے۔ یہ کام صرف رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ ہی انجام دے سکتی ہے، اور انسانوں کی عظیم اکثریت سیرتِ طیبہ سے آگاہ ہی نہیں۔ یہاں تک کہ مسلمانوں کی عظیم اکثریت بھی سیرتِ طیبہ کا گہرا تصور نہیں رکھتی۔
انسانوں کے تعلق کے مابین خدا کی موجودگی میں انسانوں کے تعلقات محبت سے اپنی تعریف متعین کرتے ہیں۔ محبت ایک ہمہ گیر، ہمہ جہت اور انسان کے پورے وجود کا احاطہ کرنے والی حقیقت ہے۔ محبت اتنا بڑا جذبہ ہے کہ چھے ہزار سال سے شاعر محبت کو بیان کررہے ہیں، اور محبت ابھی تک پوری طرح بیان نہیں ہوئی۔ میرؔ عشق و محبت کے شاعر ہیں، انہوں نے محبت کی شان بیان کرتے ہوئے کہا ہے:
محبت نے کاڑھا ہے ظلمت سے نور
نہ ہوتی محبت نہ ہوتا ظہور
٭
محبت مسبب، محبت سبب
محبت سے ہوتے ہیں کارِ عجب
٭
دور بیٹھا غبار میرؔ اس سے
عشق بِن یہ ادب نہیں آتا
٭
مرگِ مجنوں پہ عقل گم ہے میرؔ
کیا دوانے نے موت پائی ہے
٭
خوش ہیں دیوانگیِ میرؔ سے سب
کیا جنوں کر گیا شعور سے وہ
غالب عشق و محبت کے شاعر نہیں ہیں مگر انہوں نے بھی کہا ہے:
کیا پوچھو ہو وجود و عدم اہلِ شوق کا
آپ اپنی آگ کے خس و خاشاک ہوگئے
اقبال کی فکری کائنات میں علم کا مقام بہت بلند ہے، لیکن اقبال کے یہاں عشق اتنی بڑی قوت ہے جس کے آگے علم بھی کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ اس سلسلے میں اقبال کی نظم ’’علم و عشق‘‘ بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔ ذرا دیکھیے تو اقبال علم پر عشق کی فوقیت ثابت کرتے ہوئے کیا فرما رہے ہیں:
علم نے مجھ سے کہا عشق ہے دیوانہ پن
عشق نے مجھ سے کہا علم ہے تخمین و ظن
بندۂ تخمین و ظن! کرمِ کتابی نہ بن
عشق سراپا حضور، علم سراپا حجاب!
عشق کی گرمی سے ہے معرکۂ کائنات
علم مقامِ صفات، عشق تماشائے ذات
عشق سکون و ثبات، عشق حیات و ممات
علم ہے پیدا سوال، عشق ہے پنہاں جواب!
عشق کے ہیں معجزات سلطنت و فقر و دیں
عشق کے ادنیٰ غلام صاحبِ تاج و نگیں
عشق مکان و مکیں، عشق زمان و زمیں
عشق سراپا یقیں، اور یقیں فتح باب!
شرعِ محبت میں ہے عشرتِ منزل حرام
شورشِ طوفاں حلال، لذتِ ساحل حرام
عشق پہ بجلی حلال، عشق پہ حاصل حرام
علم ہے ابن الکتاب، عشق ہے ام الکتاب
زیر بحث موضوع کے حوالے سے یہاں کہنے کی بات یہ ہے کہ جب خدا انسانوں کے تعلق کے درمیان سے نکل جاتا ہے تو محبت کی جگہ ’’طاقت‘‘ لے لیتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ طاقت محبت کی طرح جامع حقیقت تو نہیں، مگر وہ محبت کی طرح جامع ہونے کا ’’ڈراما‘‘ کرسکتی ہے۔ معاصر دنیا میں اس وقت یہی ہورہا ہے۔ طاقت انفرادی زندگی سے اجتماعی زندگی تک، اور قومی زندگی سے بین الاقوامی زندگی تک ہر دائرے میں مرکزیت کی حامل ہوگئی ہے۔ چنانچہ ہمارے تعلقات طاقت کے تعلقات ہیں، ہمارے دلائل طاقت کے دلائل ہیں، ہمارا نظام طاقت کا نظام ہے۔
اس صورتِ حال میں تشدد نہیں بڑھے گا تو اور کیا ہوگا! اصول ہے کہ جیسا عمل ہوتا ہے ردِعمل بھی ویسا ہی آتا ہے۔ چنانچہ طاقت کے جواب میں ہمیشہ طاقت ہی سامنے آسکتی ہے۔ زندگی کا مذہب کے تابع نہ ہونا ایک المیہ ہے، لیکن اگر مذہب کے بعد زندگی دلیل کے بھی تابع نہ رہے تو یہ المیہ اور گہرا ہوجاتا ہے۔ دنیا دیکھ رہی ہے کہ مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین 70 سال سے دنیا کے نقشے پر موجود ہیں، اور یہ مسائل کروڑوں انسانوں کے نفسیاتی توازن کو نفسیاتی عدم توازن میں بدل رہے ہیں۔
لیکن بالادست طاقتیں یعنی امریکہ اور یورپ نہ مذہبی اخلاق کو خاطر میں لا رہی ہیں، نہ وہ اس سلسلے میں دلیلوں کو مؤثر ہونے دے رہی ہیں۔ چنانچہ تنازعات غصے اور نفرت کا پھیلائو بن گئے ہیں۔ پاکستان کے حکمران طبقے نے نائن الیون کے بعد امریکہ کی ’’وار آن ٹیرر‘‘ میں امریکہ کی حمایت کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے کی پشت پر نہ اخلاقی قوت تھی، نہ دلیل کی طاقت۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہم 70 ہزار سے زیادہ پاکستانیوں سے محروم ہوگئے، اور ہم نے امریکہ کی جنگ میں 120 ارب ڈالر سے زیادہ کا مالی نقصان اٹھایا۔
طاقت کا عمل دخل ہماری زندگی میں اتنا بڑھ گیا ہے کہ تشدد ہمارے دور میں ایک ’’طرزِ اظہار‘‘ بن کر سامنے آیا ہے۔ کروڑوں لوگ ہیں جو تشدد کے ذریعے اپنے وجود کو ’’محسوس‘‘ کرتے ہیں، کروڑوں لوگ ہیں جو سمجھتے ہیں کہ اگر وہ تشدد کی زبان نہیں بولیں گے تو ان کو ’’گونگا‘‘ سمجھا جائے گا، کروڑوں لوگ ہیں جو سمجھتے ہیںکہ اگر انہوں نے تشدد کی زبان میں بات نہ کی تو کوئی اُن کی بات نہیں سنے گا، کروڑوں لوگ ہیں جو تشدد کی زبان بول کر سمجھتے ہیں کہ یہ ’’مکالمے‘‘ کی زبان ہے۔ اس طرح تشدد انسانی اظہار کے پورے منظرنامے پر چھا گیا ہے۔
ہمارے دور کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ کوئی ایک زبان نہیں بلکہ بحیثیتِ مجموعی انسانی زبان سکڑ رہی ہے اور اس کی گہرائی اور گیرائی میں نمایاں کمی واقع ہورہی ہے۔ زبان اظہار کا سانچہ اور مذہب کے بعد انسان کے خیالات و جذبات کی تہذیب کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ انسان کے پُرتشدد خیالات و جذبات زبان کے ذریعے اظہار میں آجاتے ہیں تو ان کی شدت بھی کم ہوجاتی ہے اور ان کی لسانی حد بندی بھی ہوجاتی ہے۔
یعنی زبان کے سانچے میں آکر خیالات و جذبات کا تند رو دریا ایک حد میں بہنے لگتا ہے۔ لیکن ہمارے دور میں کروڑوں انسانوں کو مناسب لسانی سانچہ فراہم نہیں، چنانچہ بہت سے خیالات و جذبات کی شدت جسمانی قوت کے ذریعے اپنا اظہار کررہی ہے۔ لیکن تشدد زبان کا معقول سانچہ رکھنے والے لوگوں میں بھی پایا جاتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ایسے لوگوںکے یہاں زبان اخلاقی حس یا اخلاقی تصورات سے یکسر یا بڑی حد تک بیگانہ ہوجاتی ہے، اور ان لوگوں کے لیے زبان محض زبان یا ایک تکنیکی حقیقت بن کر رہ جاتی ہے۔ یہ حقیقت بھی ہمارے سامنے ہے کہ ہمارے عہد میں حقیقی ’’سامعین‘‘ کا کال پڑ گیا ہے۔ خاندان ہو یا محلہ، دوستوں کا حلقہ ہو یا دفاتر کے احباب… کوئی کسی کی بات سننے کے لیے تیار نہیں۔ چنانچہ جذبات اور خیالات کی تہذیب کے تمام در بند ہوگئے ہیں۔ یہ صورتِ حال بھی تشدد کو ہوا دینے والی ہے۔ سلیم احمد یاد آگئے:
جانے کسی نے کیا کہا تیز ہوا کے شور میں
مجھ سے سنا نہیں گیا تیز ہوا کے شور میں
میں بھی تجھے نہ سن سکا تُو بھی مجھے نہ سن سکا
تجھ سے ہوا مکالمہ تیز ہوا کے شور میں