ماہر نفسیات ریٹائرڈ بریگیڈیئر شعیب احمد نے فرائیڈے اسپیشل کے اپنے انٹرویو میں نفسیاتی اور ذہنی مسائل کے حوالے سے کئی اہم باتیں کہی تھیں۔ مثلاً ایک بات انہوں نے یہ کہی ہے کہ ہمارا خاندانی نظام ٹوٹ رہا ہے۔ معاشرتی وحدت پارہ پارہ ہورہی ہے۔ اس سے ذہنی و نفسیاتی مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اب والدین جاب کررہے ہیں اور آیائیں بچے پال رہی ہیں۔ ہمارے معاشرتی تعلقات اتنے خراب ہوگئے ہیں کہ ہم کسی کو دل کی بات یا اپنے مسئلے بتاتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ اس سے بھی نفسیاتی و ذہنی عوارض پیدا ہورہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے انسانی رشتے کمزور ہوگئے ہیں۔ چناں چہ اب ہمارے غم بانٹنے والا کوئی نہیں ہوتا۔
ہم اپنے غموں کا بوجھ خود اٹھاتے ہیں اور ذہنی و نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے بقول مردوں کے مقابلے پر خواتین زیادہ نفسیاتی مسائل کا شکار ہوتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی معاشرتی زندگی وسیع نہیں ہوتی۔ وہ گھر تک محدود ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر شعیب نے کہا کہ اب تو بچے بھی نفسیاتی مسائل کا شکار ہونے لگے ہیں۔ اس لیے کہ بچوں میں بھی تعلیم اور اچھے نمبروں کے لیے مقابلے کا رجحان پیدا ہوگیا ہے۔ اس سے بچے ذہنی دبائو کا شکار ہورہے ہیں۔
مسلمانوں کی ابتدائی تاریخ میں ذہنی و نفسیاتی عوارض کیا جسمانی امراض بھی خال خال نظر آتے تھے۔ ایسا بے سبب نہیں تھا۔ انسان کی زندگی روحانی، اخلاقی، تہذیبی، تاریخی، انسانی، جذباتی، نفسیاتی، ذہنی، سماجی اور معاشی سہاروں کے درمیان ہی نارمل رہ پاتی ہے۔ مسلمانوں کا قرون اولیٰ ہی نہیں بعد کا زمانہ بھی ان تمام حوالوں سے بہترین تھا۔ اردو شاعری میں انسان کے روحانی، انسانی، جذباتی، نفسیاتی، ذہنی اور تہذیبی سہاروں کا بیان بہت وسعت، گہرائی اور تواتر کے ساتھ ہوا ہے۔ چند مثالیں عرض ہیں۔
سب کچھ خدا سے مانگ لیا تجھ کو مانگ کر
اُٹھتے نہیں ہیں ہاتھ مرے اس دعا کے بعد
(خورشید نبی عباسی)
تو اے مولائے یثرب آپ مری چارہ سازی کر
مری دانش ہے افرنگی مرا ایماں ہے زناری
(اقبال)
ہم ایسے اہلِ نظر کو ثبوت حق کے لیے
اگر رسول نہ ہوتے تو صبح کافی تھی
(جوش)
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جائوں گا
میں تو دریا ہوں سمندر میں اُتر جائوں گا
(احمد ندیم قاسمی)
دور بیٹھا غبارِ میر اس سے
عشق بھی یہ اَدب نہیں آتا
(میر)
تھی وہ اک شخص کے تصور سے
اب وہ رعنائیِ خیال کہاں
(غالب)
خیال خاطر احباب چاہیے ہر دم
انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو
(انیس)
بھلا گردش فلک کی چین دیتی ہے کِسے انشا
غنیمت ہے جو ہم صورت یہاں دو چار بیٹھے ہیں
(انشاء اللہ خان انشاء)
دلوں کو فکرِ دو عالم سے کردیا آزاد
ترے جنوں کا خدا سلسلہ دراز کرے
(حسرت موہانی)
بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھائوں گھنی ہوتی ہے
ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے
(حفیظ جونپوری)
اک پتنگے نے یہ اپنے رقصِ آخر میں کہا
روشنی کے ساتھ رہیے روشن بن جائیے
(سلیم احمد)
تو مُنقّش ہے مری روح کی دیواروں پر
مجھ سے چہرہ نہ چھپا میں تو ترا پردہ ہوں
(ظفر اقبال)
یہاں ہمیں اپنی خالہ امی کے حوالے سے کہا گیا اپنا ایک شعر یاد آگیا۔ شعر یہ ہے۔
یہ جہاں ایک تماشا ہے سبھی کہتے ہیں
تم نہ ہوتے تو اسے ہم بھی تماشا کہتے
جیسا کہ ظاہر ہے مذکورہ بالا اشعار میں انسانوں کے کچھ بنیادی اور اہم ترین رشتوں اور سہاروں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ ان میں انسان کا اہم ترین سہارا خدا اور اس پر ہمارا ایمان ہے۔ خدا اور انسان کے ساتھ آدمی کے تعلق کی نوعیت وہی ہے جو زمین پر موجود پہاڑوں کی اہمیت ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ پہاڑوں کو زمین پر میخوں کی طرح گاڑ دیا گیا ہے۔ یہی پہاڑ زمین کا توازن برقرار رکھتے ہیں اور اسے خرابی بلکہ تباہی سے بچاتے ہیں۔ خدا اور انسانوں کے ساتھ ہمارے تعلق کی اہمیت یہ ہے کہ اس کے بغیر ہماری زندگی اپنا توازن برقرار نہیں رکھ سکتی۔ اس وقت خدا کے ساتھ انسانوں کے تعلق کی نوعیت یہ ہے کہ دو سے ڈھائی ارب انسان سرے سے خدا ہی کو نہیں مانتے۔ مزید دو سے ڈھائی ارب انسانوں نے خدا کے شریک ایجاد کررکھے ہیں۔
خدا کا شکر ہے کہ ایک ارب 80 کروڑ مسلمان خدا کو مانتے ہیں مگر مسلمانوں کی عظیم اکثریت کے لیے خدا صرف ایک تصور صرف ایک Concept ہے۔ وہ مسلمانوں کی زندگی کا تحرّک نہیں ہے۔ وہ ان کی زندگی میں Functional Reality کی حیثیت نہیں رکھتا اسلام ایک بنیادی عقیدہ یہ ہے کہ اچھی بری تقدیر خدا ہی کی طرف سے ہے۔ لیکن مسلمانوں کی عظیم اکثریت اچھی تقدیر کو تو قبول کرتی ہے مگر بری تقدیر کو قبول نہیں کرتی۔ اس پر احتجاج کرتی ہے۔ یہ بھی ممکن نہ ہو تو اس کا ماتم کرتی ہے اور ماتم شعور بندگی کی نفی ہے۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا ہے کہ غم کی حالت میں آنے والے آنسو خدا کی طرف سے ہوتے ہیں اور چیخ کر رونا شیطان کی طرف سے۔ لیکن مسلمانوں کی عظیم اکثریت غم و اندوہ پر صبر کرنے کے بجائے چیختی چلاتی اور ماتم کرتی نظر آتی ہے۔
ہمارا یہ رویہ بتاتا ہے کہ خدا ہمارے لیے صرف ایک تصور ہے۔ وہ ہماری زندگی میں شامل اور ہماری زندگی کی Functional Reality نہیں ہے۔ ہم سب جانتے ہیں موت کا ایک وقت مقرر ہے اور کوئی موت بھی ’’ناگہانی‘‘ نہیں ہوتی۔ مگر ہم اکثر اموات کو ناگہانی اموات کی طرح لیتے ہیں اور ثابت کرتے ہیں کہ ہمارا خدا پر نفسیاتی، جذباتی اور ذہنی اعتبار سے انحصار نہیں ہے۔ ہمیں خدا سے کہیں زیادہ اپنے جذبات و احساسات زیادہ عزیز ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ جب ہماری زندگی میں نہ شکر ہوگا نہ صبر ہوگا نہ خدا پر ہمارا ہر اعتبار سے انحصار ہوگا تو پھر ہم نفسیاتی اور ذہنی امراض کی گرفت میں آکر رہیں گے۔ اس لیے کہ ہمارا سب سے بڑا روحانی، ذہنی، نفسیاتی اور جذباتی سہارا ہماری زندگی میں موجود ہی نہیں۔
خدا کے بعد رسول اکرمؐ کی محبت ہمارا سب سے بڑا روحانی، اخلاقی، ذہنی، نفسیاتی اور جذباتی سہارا ہے۔ رسول اکرمؐ سے ہمارے تعلق کے دو تقاضے ہیں۔ ایک یہ کہ ہمیں رسول اکرمؐ سے انتہائی درجے کی عقیدت ہو۔ دوسرا تقاضا یہ ہے کہ ہمیں رسول اکرمؐ سے انتہائی درجے کی محبت ہو۔ عقیدت کا تقاضا جاں نثاری ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ آپ اور مجھ جیسے عام مسلمان بھی رسول اکرمؐ سے ایسی عقیدت رکھتے ہیں کہ ہم رسول اکرمؐ کے لیے جان دے بھی سکتے ہیں اور جان لے بھی سکتے ہیں۔ مگر جس طرح عقیدت کا تقاضا جاں نثاری ہے اسی طرح محبت کا تقاضا اتباع ہے۔ مسلمانوں کی عظیم اکثریت کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ رسول اکرمؐ کے لیے جان دے سکتی ہے مگر وہ رسول اکرمؐ کے اسوئہ حسنہ کے اتباع کے لیے تیار نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ رسول اکرمؐ کی ذات گرامی ہمارے پورے وجود پر اثر انداز نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر ذہنی و نفسیاتی مرض ہمیں آلیتا ہے اور رسول اکرمؐ سے ہمارا کمزور تعلق ہمیں ان امراض سے بچا نہیں پاتا۔ ہم رسول اللہؐ کا تباع کرنے والے ہوتے تو کوئی نفسیاتی اور ذہنی عارضہ ہمارے پاس نہیں پھٹک سکتا تھا۔
عام انسانی تعلق کے دائرے میں تعلق کی ایک تعریف یہ ہے کہ ہر انسانی تعلق کو وجود کی توسیع محسوس ہونا چاہیے۔ خاص طور پر انتہائی قریبی انسانی رشتوں میں۔ تعلق کی ایک تعریف یہ ہے کہ تعلق وہ ہے جس کے بغیر ہمیں زندگی گزارنا ناممکن محسوس ہو۔ یہ بھی نہ ہو تو ہمیں اس تعلق کے بغیر زندگی گزارنے میں دشواری کا احساس ہو۔ یہ بھی نہ ہو تو ہمیں اس تعلق کے بغیر زندگی ادھوری محسوس ہو۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو بہت کم تعلق‘ تعلق کہلانے کے مستحق نظر آتے ہیں۔
اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہمارا عہد ’’تعلق‘‘ کا نہیں ’’تعلقات‘‘ کا عہد ہے۔ لفظ ’’تعلق‘‘ پر انسانیت، محبت اور قربت کا سایہ ہے۔ اس کے برعکس لفظ ’’تعلقات‘‘ پر دنیا داری، Pablic Relationing، کشش اور فاصلے کا سایہ ہے۔ اب بیش تر رشتے ’’محبت‘‘ کے نہیں ’’ضرورت‘‘ کے رشتے ہیں۔ ہمیں اپنا بچپن اور اس زمانے کے دوست اچھی طرح یاد ہیں۔ ہمیں اگر کوئی ہمارا دوست سوتے سے اٹھا کر لے جاتا اور کہتا کہ کنوئیں میں چھلانگ لگانی ہے تو ہم بلا تامل کنوئیں میں چھلانگ لگا دیتے اور چھلانگ لگانے کے بعد پوچھتے کہ کنوئیں میں چھلانگ لگانے کی وجہ کیا ہے۔ لیکن آج بہت ہی کم دوستیاں ایسی ہوں گی۔
اب دوستوں میں بھی دوست کم ’’ملنے والے‘‘ زیادہ ہوتے ہیں۔ اب دوستی میں بھی Public Relationing در آئی ہے۔ ہمیں یاد ہے بچپن میں ہمارے محلے میں دو گھر ایسے تھے جن کی مالی حالت انتہائی خستہ تھی۔ اس صورت حال میں محلے کے چار پانچ خاندانوں نے معاشی بدحالی کا شکار پڑوسیوں کے کھانے پینے کا بوجھ اپنے سر پر لیا ہوا تھا اور اس طرح جیسے وہ پڑوسیوں کی نہیں اپنے خونی رشتوں کی مدد کررہے ہوں۔ اب انسان مالی مشکلات کا شکار ہوتا ہے تو خونی رشتے تک اس کا ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔
رسول اکرمؐ نے فرمایا ہے جو تم سے تعلق توڑے تم اس سے تعلق جوڑو، جو تمہیں محروم کرے تم اس کو دو۔ رسول اکرمؐ کا یہ ارشاد مبارکہ اکثر مسلمانوں کے لیے محض ’’ایک بات‘‘ ہے۔ اس کا ہماری عملی زندگی سے کوئی تعلق نہیں۔ اب ہم خود رشتوں کو توڑنے میں پہل کرتے ہیں اور اس پرخوش ہوتے ہیں۔ اب ہم محروم کرنے والے کو کیا حق دار کو بھی آسانی کے ساتھ اس کا حق نہیں دیتے۔ اور ’’حق‘‘ صرف ’’معاشی‘‘ یا ’’مالی‘‘ نہیں ہوتا۔ حق جذباتی، ذہنی اور نفسیاتی بھی ہوتا ہے چونکہ ہم جذباتی، ذہنی اور نفسیاتی دائرے میں بھی لوگوں کے حق پر ڈاکا ڈالنے والے بن گئے ہیں اس لیے ہمیں نفسیاتی اور ذہنی عوارض نے گھیر لیا ہے۔
سگمنڈ فرائیڈ جدید مغرب کی پیداوار ہے۔ اس کے بنیادی تصورات مذہب کی ضد ہیں مگر اس کے باوجود فرائیڈ نے یہ کہا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے دائرے میں کوئی شخص ’’نارمل‘‘ نہیں رہ سکتا اور جب وہ نفسیاتی طور پر بیمار ہوجاتا ہے تو اس کی مکمل صحت یابی ممکن نہیں ہوپاتی۔ سرمایہ دارانہ نظام ’’مال مرکز‘‘ نظام ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام انسان کو مال کی محبت میں مبتلا کرتا ہے۔ مال کی حرص میں مبتلا کرتا ہے۔ مال کی ہوس میں مبتلا کرتا ہے۔ چناں چہ اس کے دائرے میں کوئی شخص بھی نارمل نہیں رہ سکتا۔ مسلمان کا سہارا اگر خدا، رسول اکرم اور بنیادی رشتوں کے بجائے مال و دولت ہو تو پھر سہارا بھی سہارے کی ضد بن جاتا ہے۔