سلیم احمد نے کہیں لکھا ہے کہ برصغیر میں انگریزوں کی آمد سے قبل ہماری تہذیب ایک وحدت تھی مگر انگریزوں کی آمد کے بعد یہ تہذیب دو نیم یا دو ٹکڑے ہوگئی۔ اس بات کے معنی یہ ہیں کہ مشرف بہ مغرب ہونے سے قبل ہماری انفرادی اور اجتماعی شخصیت کا ایک ہی مرکز تھا۔ اسلام۔ مگر مغرب کے اثرات کی وجہ سے ہماری انفرادی اور اجتماعی شخصیت دو مراکز کا رزمیہ بن گئی۔ ان میں سے ایک مرکز اسلام اور اسلامی تہذیب ہے اور دوسرا مرکز مغرب یا مغربی تہذیب ہے۔ نفسیاتی اعتبار سے یہ ایک split personality case ہے مگر مسلمانوں کی عظیم اکثریت کیا ’’خواص‘‘ بلکہ بسا اوقات ’’خواص الخواص‘‘ کو بھی اس کا شعور نہیں ہوتا۔ حالاں کہ غالب نے دو مصرعوں میں پوری بات کہہ دی تھی۔ غالب نے کہا تھا
ایماں مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے
غالب کے زمانے میں ایمان اور کفر یا کعبے اور کلیسا کی کشمکش بہت واضح نہیں تھی مگر جیسے جیسے وقت گزرتا گیا یہ کشمکش ہمارے انفرادی اور اجتماعی وجود میں راسخ ہوتی گئی۔ ہماری فکر میں سرسید split personality case کی بہترین مثال ہیں۔ بدقسمتی سے ’’جدیدیت زدگان‘‘ کی بڑی تعداد فکری و معنوی اعتبار سے سرسید کی ذریت ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اب اس سلسلے میں مذہبی یا غیر مذہبی کی تخصیص بھی باقی نہیں رہی۔ اسلام اور مغرب اکثر لوگوں کی روحوں، قلوب اور اذہان میں پنجہ آزمائی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس حقیقت کا ادراک عام نہیں ہے تو اس کا اعتراف کیا عام ہوگا۔ لیکن ایک ایسا کالم ہماری نظر سے گزرا جسے دو نیم شخصیت یا split personality case کے سلسلے میں ناقابل تردید تجربہ یا Clinical evidence کی حیثیت حاصل ہے۔ کالم کا عنوان تھا ’’کھلے معاشرے کی عطائیں‘‘ اور کالم نگار ہیں ڈاکٹر یونس حسنی۔ ڈاکٹر یونس حسنی جامعہ کراچی کے شعبہ اردو کے سابق چیئرمین ہیں۔ وہ ڈیڑھ درجن کتابوں کے مصنف اور مولف ہیں۔ یعنی ڈاکٹر صاحب ’’عام آدمی‘‘ نہیں بلکہ ان کا شمار ’’خواص‘‘ میں ہوتا ہے۔ لیکن اپنے کالم کے آدھے حصے میں وہ ’’مغرب مرکز‘‘ شخصیت بنے ہوئے ہیں اور مغرب کی طرف ’’للچائی‘‘ ہوئی نظروں سے دیکھ رہے ہیں مگر کالم کے دوسرے یا آخری حصے میں اچانک انہیں یاد آگیا کہ اسلام، اخلاق اور کردار بھی ’’ایک چیز‘‘ ہے اور ہمارا تہذیبی، معاشرتی تجربہ مغرب سے ’’مختلف‘‘ بھی ہے اور ’’بہتر‘‘ بھی۔ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا اور پڑھے لکھے کو فارسی کیا کے مصداق ڈاکٹر حسنی کا کالم پڑھیے اور دیکھیے کہ ’’دو نیم شخصیت‘‘، ’’دوہری شخصیت‘‘ یا انفرادی و اجتماعی سطح پر split personality case کا مفہوم کیا ہے؟ ’’کھلے معاشرے کی عطا‘‘ کے عنوان کے تحت ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں۔
’’بعض امور میں مغربی معاشرہ ایسا قابل تعریف ہے کہ اس کی تعریف نہ کرنا بجائے خود ایک ناشائستہ حرکت ہے۔ مثلاً یہی کہ ان کے یہاں آزادی فکر بھی ہے اور آزادی اظہار بھی۔ اور یہ کہ معاشرہ جیسا ہے ویسا ہی نظر آتا ہے۔ یہ نہ کچھ چھپاتے ہیں نہ چھپا کر کرتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ ان کے یہاں ہونے والے بگاڑ کا علم بھی ہوجاتا ہے اور اس کا تدارک بھی۔
ہم پردہ پوشی کے نام پر نہ جانے کتنے گناہ کرتے چلے جاتے ہیں اور چوں کہ ان کا اظہار نہیں ہوتا اس لیے وہ چھپے رہتے ہیں۔ مگر ان کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ بقول شاعر:
میرے زخموں نے دل کے دل لگی اچھی نکالی ہے
چھپائے سے تو چھپ جانا مگر ناسور ہوجانا
ہمارے معاشرے میں زخم ناسور ہوجاتا ہے اور یوں لاعلاج قرار پاتا ہے۔ مغربی معاشرے میں بہت سی چیزیں حلال ہیں جو ہمارے معاشرے میں حرام ہیں۔ مثلاً شراب نوشی، جنسی بے راہ روی، زنا بالرضا اور آزادانہ جنسی اختلاط وغیرہ۔ ہمارے یہاں یہ سب کچھ حرام ہے مگر شراب نوشی ہمارے معاشرے میں بھی عام ہے چاہے وہ بظاہر دکھائی نہ دے، جنسی بے راہ روی بھی کم نہیں اگرچہ وہ کبھی کبھی اخفا سے اظہار میں آجاتی ہے۔ سود ہم بھی لے لیتے ہیں مگر چکھنے کی حد تک، کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ جو کچھ کرتے ہیں اسے سمجھتے بھی ہیں اور چھپاتے بھی نہیں۔ ہم جو کچھ کرتے ہیں چھپا کر کرتے ہیں۔ یہ رویہ بھی یکسر غلط نہیں۔ کم از کم احساس زیاں تو رہتا ہے اسی لیے تو اخفا پر زور ہوتا ہے۔ خدا سے تو کچھ بھی نہیں چھپ سکتا ہم بندوں سے بہت کچھ چھپا لیتے ہیں۔
مغربی معاشرے میں آزادی اور خصوصاً آزادی نسواں کے نام پر اس قدر مادر پدر آزادی ہے ایک شخص کسی بھی خاتون کو اپنی گرل فرینڈ بنائے یا کوئی لڑکی کسی مرد کو بوائے فرینڈ بنالے اور وہ سالوں ’’دوستی‘‘ کی بنا پر جنسی زندگی گزارتے رہیں اور پھر کپڑوں کی طرح گرل یا بوائے فرینڈ کو بدل لیا جائے تو اس کی کھلی آزادی مغربی معاشرے میں حاصل ہے۔ ایک خاتون اگر کبھی غیر قانونی بچے کو جنم دے تو بڑی جرأت سے اس کے باپ کا نام بتادیتی ہے حالانکہ اب یہ اس کا بوائے فرینڈ نہیں رہا اور انسانوں کی بھیڑ میں کہیں گم ہوگیا ہے مگر اس کی بچی اپنے اسی باپ کے نام سے موسوم ہوتی ہے اورکوئی یہ نہیں پوچھتا کہ کیا وہ تمہارا شوہر تھا۔
اتنے کھلے اور آزاد معاشرے میں جنسی حبس کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ مغرب میں جو غیر معمولی کشش ہم مشرقیوں کو نظر آتی ہے اس میں وہاں کے عادلانہ نظام ، سماجی مساوات، زندہ رہنے کی سہولتوں کے علاوہ اس جنسی آزادی کے تصورکو بھی بڑا دخل ہے۔ کیا ہم یہاں بیٹھ کر تصورکرسکتے ہیں کہ اس سے زیادہ اورکیا جنسی آزادی ممکن ہوسکتی ہے۔
ہمارے یہاں آئے دن لڑکیاں اپنے محبوبوں کے ساتھ بھاگ جاتی ہیں اور ہماری صحافت اسے آشنا کے ساتھ فرارکی شہ سرخی کے ساتھ شائع کرتی ہے مگر مغربی معاشرے میں کسی لڑکی کو فرار ہونے کی ضرورت نہیں۔ وہ ٹہلتی ہوئی آشنا کے ساتھ جاسکتی ہے کیونکہ اس پر کوئی پابندی عائد نہیں، اس پر کسی کی نظر نہیں، کوئی اس کا محتسب نہیں اس لیے وہاں لڑکیوں کے بھاگنے کی خبر اخبارات کی زینت ہی نہیں بنتی۔
ان تمام آزادیوں کے بعد تو مغربی معاشرے میں خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے یا کسی کو جبراً اپنی طرف ملتفت کرنے کی ضرورت نہیں رہتی کیونکہ وہاں تو میدان صاف ہے ’’ تو نہیں اور سہی اور نہیں اور سہی‘‘ مگر جب آپ کو یہ خبر ملے کہ مغربی ممالک میں اساتذہ، طلبہ وطالبات کو جنسی طور پر ہراساں کرتے ہیں تو نہ صرف حیرت ہوتی ہے بلکہ ان کے ’’ کھلے‘‘ معاشرے کے مقابلے میں اپنے ’’ گھٹے گھٹے‘‘ معاشرے پر فخرکرنے کو جی چاہتا ہے۔ کیا اساتذہ کو معاشرے میں عورتوں کی کمی ہے کہ وہ اساتذہ اپنی طالبات اور استانیاں اپنے طالب علموں کی طرف جنسی طور پر مائل ہوتے ہیں۔
جنسی ہراسگی کی جو تفصیلات مختلف ذرائع سے ملتی ہیں ، ان سے پتا چلتا ہے کہ طلبہ وطالبات سے زیادتی یا ان کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کی پاداش میں امریکا اور یورپ میں تقریباً ایک ہزار اساتذہ کو جیل بھیجا گیا ہے۔ اوسطاً ہر ماہ 20 واقعات اسی نوعیت کے ریکارڈ ہوتے ہیں اور ریکارڈ نہ ہونے والے واقعات کا علم نہیں۔
خبر کی تفصیل یہ بھی ہے کہ اساتذہ یعنی استاد اور استانیاں اپنے شاگردوں کو جنسی طور پر ورغلانے کے لیے ان کو بھنگ، چرس، افیون اور دیگر منشیات کی طرف راغب بھی کرتے ہیں تاکہ پھر ان منشیات کا محتاج بناکر ان سے جنسی لذت حاصل کی جاسکے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ متعدد خواتین اساتذہ نے کمسن طلبہ کو ورغلانے کا الزام تسلیم کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ اپنے شوہروں کی عدم توجہی کے سبب ایسا کرنے پر مجبور ہوئی ہیں۔
فریڈم آف انفارمیشن ایکٹ کے تحت حاصل معلومات کے ذیل میں پتا چلا ہے کہ 2015 میں 130 سے زائد برطانوی اساتذہ کو اخلاقی بے راہ روی کا مجرم پایا گیا ہے جن میں ایک سو خواتین اساتذہ شامل ہیں۔ 2016 میں 150 برطانوی اساتذہ کو طلبہ کو ہراساں کرنے پر گرفتار اور معطل کیا گیا ہے جبکہ 2017 میں 330 بد قماش اساتذہ کوگرفتار اور معطل کیا گیا ہے۔
یہ اعداد وشمار حیرت انگیزوعبرت انگیز ہیں جو معاشرہ ’’ کھلا ‘‘ معاشرہ ہونے کا فخر رکھتا ہو وہ ’’بند‘‘ گھٹے ہوئے معاشرے سے کس طور پر بہتر ہوسکتا ہے۔ جس معاشرے میں ہر قسم کی جنسی آزادی میسر ہو وہاں اساتذہ کا طلبہ کو اس طرح استعمال کرنا شاید لوگوں کے لیے ناقابل فہم ہو ہماری سمجھ میں آتا ہے۔
یہ نام نہاد آزادی جس کے ہم بھی شیدائی ہیں، خواہش مند ہیں اور اس کی طرف چل پڑے ہیں انسان کو انسان نہیں رہنے دیتی اسے حیوانیت کی طرف راغب کرتی ہے۔ اگر معاشرے کو اخلاقی قدروں کا حامل بنانا ہے تو افراد پر بعض پابندیاں لگانا اور انھیں قبول کرنا بھی لازمی ہوگا ورنہ معاشرہ اس سے زیادہ تذلیل کا شکار ہوگا۔
یہ بات بھی لطف سے خالی نہیں کہ اساتذہ کا محترم پیشہ تو مغرب نے رسوا کر ہی دیا امریکا میں تو صدر محترم پر آئے دن خواتین کو ہراساں کرنے یا جنسی تشدد کرنے کے انکشافات ہوتے رہتے ہیں اور یکے بعد دیگرے خواتین یہ الزامات لیے نمودار ہورہی ہیں۔
دیکھو مجھے جو دیدہ عبرت نگاہ ہو‘‘آپ نے دیکھا کالم کے ابتدائی حصے میں ڈاکٹر حسنی مغرب کی ہر چیز سے ’’متاثر‘‘ ہیں۔ اس کی آزادی سے، اس کی آزادی اظہار سے یہاں تک کہ اس کی جنسی آزادی سے بھی۔
بلکہ غور کیا جائے تو کالم کے عنوان ’’کھلے معاشرے کی عطائیں‘‘ میں بھی مغرب کا ’’جادو‘‘ سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی شخصیت اگر صرف ’’مغرب مرکز‘‘ یا west centric ہوتی تو ان کا کالم جس انداز، جس لب و لہجے اور دلائل کے جس سلسلے کے ساتھ شروع ہوتا اس سلسلے کے ساتھ آگے بڑھتا اور ’’یک رنگی‘‘ میں ختم ہوجاتا۔ یہ اس اعتبار سے افسوس ناک بات ہوتی کہ مسلم معاشرے کا ایک پڑھا لکھا شخص مغرب کے زیر اثر نظر آتا لیکن بہرحال ایسے کالم میں ’’فکری یک رنگی‘‘ ہوتی۔ تاہم جو کچھ ہوا ہے وہ آپ کے سامنے ہے۔ ڈاکٹر صاحب کو اچانک احساس ہوا کہ بے پناہ ’’آزاد ہوں‘‘ کے باوجود مغرب میں جنسی انارکی اور جنسی درندگی مسلسل اپنا اظہار کررہی ہے۔ چناں چہ ڈاکٹر صاحب کو ’’خیال‘‘ آیا کہ ہمارا ’’بند معاشرہ‘‘ مغرب کے ’’کھلے ڈھلے‘‘ معاشرے سے اتنا بہتر ہے کہ اس پر ’’فخر‘‘ کیا جاسکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ایسا ہی ہے تو مغرب کی آزادیوں کو ’’للچائی ہوئی‘‘ نظروں سے دیکھنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ بدقسمتی سے ڈاکٹر صاحب کے کالم میں جو ’’مسئلہ‘‘ نظر آرہا ہے وہ ’’شعوری‘‘ نہیں بلکہ اس کی نوعیت ’’لاشعوری‘‘ ہے۔ ہم ڈیڑھ سو سال سے لاشعوری طور پر یہی کررہے ہیں۔ ہمارا ایک پاؤں مغرب کی کشتی میں ہے اور دوسرا پاؤں اسلام کی کشتی میں اور ہم بیک وقت دونوں کشتیوں کی سواری سے ’’لذت‘‘ کشید کررہے ہیں اور ہمیں احساس تک نہیں کہ بیک وقت دو کشتیوں کی سواری ہمیں دو نیم شخصیتوں میں ڈھال رہی ہے اور ہماری شخصیت کی ’’وحدت‘‘ عرصے سے ایک ’’گمشدہ شے‘‘ ہے۔ ایسی گمشدہ شے جس کی ’’بازیافت‘‘ کے لیے کوئی ’’تلاش گمشدہ‘‘ کا اشتہار بھی شائع نہیں کراتا۔ اس کی وجہ کروڑوں افراد کو شخصیت کی وحدت کی گمشدگی کی ’’اطلاع‘‘ ہے نہ ’’علم‘‘ نہ ’’احساس‘‘۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ڈاکٹر حسنی کے کالم میں مغرب اور اسلام کے تشخص کے جو ’’نکات‘‘ سامنے آئے ہیں ہر شخص میں وہی نکات پائے جاتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ ہر شخص، گروہ اور طبقے میں ان نکات کی نوعیت مختلف ہوتی ہے یا ہوسکتی ہے۔ البتہ شخصیت کا دو نیم یا split ہونا ایک آفاقی یا universal حقیقت ہے۔ بدقسمتی سے ہماری زندگی کا کوئی دائرہ اس ’’مسئلے‘‘ سے ’’پاک‘‘ نہیں۔