ہمارے معاشرے میں انسانوں خصوصاً سیاست دانوں کی زندگیاں حقیقت کے بجائے افسانے پر کھڑی ہوتی ہیں۔ ہمارے یہاں جس آدمی کو زندگی میں ’’جناب‘‘ اور ’’صاحب‘‘ بھی نہیں کہا جاسکتا وہ مرتے ہی رحمتہ اللہ علیہ ہوجاتا ہے۔ جنرل ایوب خود ساختہ ’’فیلڈ مارشل‘‘ تھے۔ بھٹو صاحب خود ساختہ ’’قائد ایشیا‘‘ تھے جنرل ضیا الحق ’’مرد حق‘‘ کہلاتے تھے۔ بے نظیر بھٹو بھی قتل ہوتے ہی ’’شہید‘‘ ہوگئیں۔ اگرچہ بے نظیر ان کے پرستاروں کے مطابق ’’شہید‘‘ ہوچکی ہیں مگر ان کی ’’سالگرہ‘‘ ابھی تک منائی جارہی ہے۔ چند روز پیش تر 21 جون 2022ء کو ان کی 69 ویں سالگرہ منائی گئی۔ اس سلسلے میں تقریبات کا انعقاد کیا گیا۔ اخبارات میں مضامین شائع ہوئے۔ بلاول زرداری اور آصف زرداری نے خصوصی بیانات جاری کیے۔ ان مضامین اور بیانات میں بے نظیر بھٹو سے وہ عظمت وابستہ کی گئی جو عظمت ان میں تھی ہی نہیں۔ ان مضامین اور بیانات میں بے نظیر کے حوالے سے جو کچھ تھا افسانہ ہی افسانہ تھا۔ حقیقت بیانی کا دور دور تک نام و نشان نہ تھا۔
بلاول زرداری نے اس سلسلے میں جو بیان جاری کیا اس میں انہوں نے فرمایا کہ وہ بے نظیر کے ’’فلسفے‘‘ پر کار بند رہتے ہوئے ملک سے غربت، بھوک اور بیروزگاری کا خاتمہ کریں گے۔ بلاول کے اس بیان سے ظاہر ہے کہ بے نظیر بھٹو کا ایک ’’فلسفہ‘‘ بھی تھا۔ فلسفہ اتنا بڑا لفظ ہے کہ اس کا استعمال تاریخ کی عظیم الشان شخصیات ہی کے لیے ہوسکتا ہے۔ فلسفہ سقراط کا تھا۔ اس فلسفے کی عظمت یہ ہے کہ یہ فلسفہ دو ہزار سال سے زندہ ہے۔ اس فلسفے کی عظمت یہ ہے کہ اس نے افلاطون جیسے فلسفی کو جنم دیا۔ افلاطون کا بھی ایک فلسفہ تھا۔ اس کی تصنیف کی ہوئی کتب مکالمات افلاطون اور جمہوریہ دو ہزار سال سے پڑھی جارہی ہیں۔ مغرب کے ممتاز فلسفی وائٹ ہیڈ نے افلاطون کی عظمت بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ مغرب کا سارا فلسفہ افلاطون کے فلسفے پر ایک حاشیے کے سوا کچھ نہیں۔ فلسفہ ارسطو کا تھا جو افلاطون کا شاگرد تھا۔ ارسطو کی اہمیت یہ ہے کہ اسے آج بھی مجسم عقل کہا جاتا ہے۔ اس کی منطق سے اسلامی فلسفہ متاثر ہوا۔ ارسطو نے شاعری، المیے اور طربیے کے بارے میں جو کچھ کہا وہ آج دو ہزار سال کے بعد بھی علمی حلقوں میں زیر بحث ہے۔ فلسفہ تو امام غزالی کا تھا جن کی کتب آٹھ سو سال سے زندہ ہیں۔ جن کی احیا العلوم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اگر اسلامی فکر کسی وجہ سے مٹ جائے تو اسے احیا العلوم کی مدد سے دوبارہ زندہ کیا جاسکتا ہے۔ فلسفہ تو ابن عربی کا تھا۔ جن کو اسلامی تصوف کی روایت شیخ اکبر کہتی ہے۔ فلسفہ تو شاہ ولی اللہ کا تھا جنہوں نے برصغیر میں قرآن اور حدیث کے علم کو زندہ کیا۔ فلسفہ تو اقبال کا ہے جس نے لاکھوں دلوں کو موم کیا ہے۔ فلسفہ تو مولانا مودودی کا ہے جن کی فکر نے کروڑوں لوگوں کی زندگیوں کو بدلا ہے۔ فلسفہ اتنا بڑا لفظ ہے کہ بھٹو کیا قائداعظم کے سلسلے میں بھی اِسے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن بلاول زرداری نے اِسے بے نظیر بھٹو کے لیے استعمال کرکے لفظ فلسفے کی مٹی پلید کردی۔ جس طرح انسانوں کی بے تکریمی بری چیز ہے اسی طرح الفاظ کی بے تکریمی بھی سخت ناپسندیدہ چیز ہے۔ بلاول نے بے نظیر بھٹو کے ساتھ نہ صرف یہ کہ لفظ فلسفے کو منسلک کیا بلکہ یہ دعویٰ بھی فرمایا کہ وہ اس فلسفے پر کار بند رہتے ہوئے ملک سے غربت، بھوک اور بیروزگاری کا بھی خاتمہ کردیں گے۔ ارے بھائی جو کام تمہارے نانا ذوالفقار علی بھٹو نہ کرسکے، تمہاری والدہ بے نظیر بھٹو نہ کرسکیں وہ تم کیسے کرو گے۔ چہ پدی چہ پدی کا شوربہ۔ کیا بے نظیر بھٹو کے کسی نام نہاد فلسفے میں ایسی قوت ہے کہ اس کی مدد سے غربت، بھوک اور بیروزگاری ختم ہوجائے گی۔ ساری قوم جانتی ہے کہ بھٹو صاحب کا نعرہ تھا روٹی، کپڑا اور مکان۔ مگر وہ نہ قوم کو روٹی دے سکے، نہ کپڑا اور نہ ہی مکان۔ اس لیے کہ روٹی، کپڑا اور مکان محض ایک سیاسی نعرہ تھا۔ اس نعرے کی روٹی بھی خیالی تھی۔ کپڑا بھی خیالی تھا اور مکان بھی خیالی تھا۔ اس روٹی سے نہ پیٹ بھر سکتا تھا نہ اس کپڑے سے تن ڈھانکا جاسکتا تھا اور نہ اس گھر میں رہا جاسکتا تھا، اب اگر عوامی خدمت کے سلسلے میں بلاول کے نانا کا یہ حال ہے تو بے نظیر بھٹو کے فلسفے کا کیا عالم ہوگا۔
بے نظیر بھٹو کی سالگرہ کے موقع پر آصف زرداری نے بھی ایک بیان جاری کرنا ضروری سمجھا۔ انہوں نے دنیا بھر میں آباد جیالوں اور ہمدردوں کو بے نظیر کی 69 ویں سالگرہ کی مبارک باد دیتے ہوئے اس ’’عزم‘‘ کا اعادہ کیا کہ بے نظیر کے خواب کی تکمیل کرتے ہوئے ملک سے جہالت، شدت پسندی اور عدم برداشت کا خاتمہ کردیا جائے گا۔ لیجیے بے نظیر کے بیٹے نے بے نظیر سے فلسفہ منسلک کیا اور شوہر نے بے نظیر سے ’’خواب‘‘ وابستہ کردیا۔ فلسفے کی طرح خواب بھی ایک بڑا لفظ ہے۔ بے نظیر بھٹو کا اس لفظ سے بھی کوئی تعلق تھا۔ خواب تھا افلاطون کا وہ دنیا میں ایک مثالی ریاست قائم ہوتے دیکھنا چاہتا تھا اس مثالی ریاست کا پورا خاکہ اس نے اپنی کتاب جمہوریہ یا ری پبلک میں پیش کیا ہے۔ خواب تھا کارل مارکس کا وہ دنیا میں سوشلزم کی بنیاد پر انقلاب برپا ہوتے دیکھنا چاہتا تھا اور بالآخر یہ خواب روس میں حقیقت بنا۔ خواب تھا ماوزے تنگ کا وہ چین کی افیون زدہ قوم کو بیدار اور متحرک کرکے انقلاب کے لیے بروئے کار آتے دیکھنا چاہتا تھا اور مائو کا یہ خواب بھی حقیقت بنا۔ چین میں سوشلسٹ انقلاب آگیا۔ خواب تھا اقبال کا۔ وہ برصغیر میں مسلمانوں کے لیے ایک علٰیحدہ ریاست کا قیام چاہتے تھے۔ خواب تھا قائداعظم کا۔ وہ اقبال کے خواب کو حقیقت بنانے کے لیے کوشاں تھے اور وہ اقبال کے خواب کو پاکستان کی صورت میں تعبیر دینے میں کامیاب رہے۔ خواب تھا مولانا مودودی کا وہ صرف پاکستان ہی میں نہیں پوری دنیا میں اسلام کو غالب دیکھنا چاہتے تھے۔ بے نظیر بھٹو تو خواب دیکھ ہی نہیں سکتی تھیں۔ وہ تو نیند میں چلنے والی یا sleep walker تھیں۔
بے نظیر بھٹو کو ایک کالم میں ’’دختر ِ مشرق‘‘ بھی قرار دیا گیا ہے۔ مشرق کی ایک پہچان مذہب اور روحانیت ہے مگر بے نظیر بھٹو کا مذہب اور روحانیت سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔ ان کے مذہبی علم کا یہ عالم تھا کہ وہ ایک بار جلسے سے خطاب کررہی تھیں کہ پاس کی مسجد سے اذان کی آواز بلند ہوگئی۔ وہ تقریر کرتے کرتے خاموش ہوگئیں۔ کہنے لگیں ’’اذان بج رہا ہے‘‘ بلاشبہ وہ چادر استعمال کرتی تھیں مگر یہ ’’مذہبی چادر‘‘ نہیں تھی۔ یہ ’’سیاسی چادر‘‘ تھی۔ وہ ہاتھ میں تسبیح بھی رکھتی تھیں مگر یہ ’’تسبیح‘‘ بھی مذہبی تسبیح نہیں تھی بلکہ یہ ’’سیاسی تسبیح‘‘ تھی۔ ان کی چادر پر بھی جگہ جگہ سیاست اور اقتدار لکھا ہوا تھا اور وہ اپنی تسبیح پر بھی سیاست اور اقتدار کی گردان کرتی نظر آتی تھیں۔ بے نظیر بھٹو کی پوری زندگی کو دیکھا جائے تو وہ دختر مشرق سے زیادہ دختر مغرب نظر آتی تھیں۔ ان کے والد کو امریکا نے پھانسی تک پہنچایا مگر وہ ہمیشہ اس بات کے لیے کوشاں رہیں کہ وہ کسی نہ کسی طرح امریکا کی ’’گڈ بکس‘‘ میں رہیں۔ یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ انہیں جنرل ضیا الحق نے امریکا کے دبائو پر ہی ملک سے باہر جانے دیا۔ وہ برسوں بعد وطن واپس لوٹیں تو لاہور میں ان کا تاریخی استقبال ہوا۔ اس وقت تک بھٹو صاحب کی موت کا زخم تازہ تھا۔ چناں چہ بے نظیر بھٹو کے استقبال کے لیے آنے والے جیالوں نے امریکا مردہ باد کے نعرے لگانے شروع کردیے۔ بے نظیر بھٹو یہ دیکھ کر گھبرا گئیں اور انہوں نے جیالوں کو امریکا مردہ باد کے نعرے لگانے سے روکا۔ پیپلز پارٹی کے رہنما ان سے اکثر کہتے تھے کہ اردو پریس آپ کے خلاف ہے آپ اردو پریس سے اپنے تعلقات کو بہتر بنائیں۔ مگر بے نظیر اردو پریس کی پروا نہیں کرتی تھیں۔ انہیں معلوم تھا کہ اردو پریس انہیں اقتدار میں لاسکتا ہے نہ اقتدار سے نکلوا سکتا ہے۔ البتہ انہیں معلوم تھا کہ امریکا اور برطانیہ کے ذرائع ابلاغ میں ان کا امیج اقتدار کے حوالے سے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ چناں چہ انہوں نے ہمیشہ مغرب کے صحافیوں کے ساتھ قریبی تعلق استوار رکھا۔ یہ بات بھی تاریخ کے ریکارڈ پر ہے کہ بے نظیر بھٹو اور جنرل پرویز مشرف کے درمیان این آر او کے سلسلے میں امریکا کی قومی سلامتی کی مشیر کونڈا لیزا رائس نے مرکزی کردار ادا کیا۔ یہ بات کونڈا لیزا رائس نے اپنی خود نوشت میں لکھی ہوئی ہے۔
بے نظیر بھٹو کے حوالے سے شائع ہونے والے ایک مضمون میں انہیں ’’ڈیموکریٹ‘‘ بھی قرار دیا گیا ہے۔ بدقسمتی سے نہ بھٹو صاحب ڈیموکریٹ تھے، نہ بے نظیر بھٹو ڈیمو کریٹ تھیں۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ نہ بھٹو نے کبھی پیپلزپارٹی میں انتخابات کرائے نہ بے نظیر نے کبھی پارٹی میں انتخابات کرانے کی کوشش کی۔ جمہوریت ایک چراغ ہے تو اس چراغ کی روشنی سے پیپلز پارٹی کیوں محروم ہے؟ اس میں پچاس سال سے بھٹو خاندان کی آمریت کا اندھیرا کیوں چھایا ہوا ہے؟۔