انسان کی روحانی، ذہنی اور نفسیاتی ساخت ایسی ہے کہ اس کی زندگی میں دوست کا تصور ہی نہیں دشمن کا تصور بھی اہم ہے۔ جس طرح دوست کے بغیر انسان کے ارتقا کا تصور نہیں کیا جاسکتا اسی طرح دشمن کے تصور کے بغیر بھی انسان کا ارتقا ممکن نہیں۔ مذہبی اعتبار سے دیکھا جائے تو انسان کئی دشمنوں کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ قرآن صاف کہتا ہے کہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔ اسی طرح نفس امارہ بھی انسان کا دشمن ہے۔ ماحول کا جبر بھی ایک مسلمان کا دشمن ہوتا ہے۔ اس لیے کہ رسول اکرمؐ نے فرمایا ہے کہ ہر بچہ اپنی فطرت یعنی اسلام پر پیدا ہوتا ہے مگر اس کے والدین اسے عیسائی یا یہودی بنادیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ماحول پر کفر غالب ہوگا تو بچہ کافر ہوجائے گا۔ ماحول پر شرک غالب ہوگا تو بچہ مشرک ہو جائے گا۔ ماحول پر دنیا پرستی غالب ہوگی تو بچہ دنیا کو پوجنے لگے گا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو صرف شیطان اور نفس امارہ ہی انسان کو برباد کرنے والا نہیں ہے ماحول کا جبر بھی انسان کو برباد کرنے والا ہے۔ بدقسمتی سے انسانوں کیا مسلمانوں کی عظیم اکثریت کا تصورِ شیطان انتہائی پست ہے۔ لوگوں کی اکثریت شیطان کو صرف تصور کی سطح پر پہچانتی ہے حالاں کہ شیطان صرف تصور نہیں ہے وہ ایک ٹھوس وجود ہے اور انسان کا ازلی و ابدی دشمن ہے۔ چوں کہ انسانوں بالخصوص مسلمانوں کی اکثریت شیطان کو صرف تصور کی سطح پر جانتی ہے اس لیے ہم میں سے اکثر لوگ زندگی بھر شیطان کی مزاحمت ہی نہیں کرتے۔ شیطان ہمیں خواہشات کا غلام بناتا ہے اور ہم خواہشات کے غلام بن جاتے ہیں۔ شیطان ہمیں صراطِ مستقیم سے بھٹکاتا ہے ہم بھٹک جاتے ہیں۔ شیطان ہمیں دنیا پرستی سکھاتا ہے ہم سیکھ لیتے ہیں۔ شیطان ہمارے دل میں وسوسے ڈالتا ہے اور ہم وسوسوں کو قبول کرلیتے ہیں۔ چناں چہ ہمارا روحانی، اخلاقی، ذہنی اور نفسیاتی ارتقا رک جاتا ہے۔ ہمارے مذہب میں تزکیہ ٔ نفس کی اہمیت یہ ہے کہ قرآن میں رسول اکرمؐ کی بعثت کے جو مقاصد بیان کیے گئے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپؐ اہل ایمان کے نفوس کا تزکیہ کرتے ہیں۔ تزکیے کے کئی معنی ہیں ان معنوں میں سے ایک مفہوم نفس کا ارتقا بھی ہے۔ انسانوں کی عظیم اکثریت نفس امارہ کی سطح پر زندہ ہوتی ہے اور نفس امارہ تاریکی میں ڈوبا ہوا نفس ہے۔ وہ نہ اپنے خالق کو ٹھیک ٹھیک طور پر جانتا اور پہچانتا ہے نہ وہ شعورِ بندگی سے ہمکنار ہوتا ہے۔ نفس امارہ کا ارتقا اس وقت ہوتا ہے جو وہ اپنی اماریت یا برائی پر مطلع ہوجاتا ہے اور اس پر اس کے اندر ملامت پیدا ہوجاتی ہے۔ جب نفس امارہ خود کو کسی غلطی، کسی کوتاہی
کسی گناہ پر ملامت کرنے لگتا ہے تو پھر وہ اماریت سے ایک درجہ بلند ہوجاتا ہے اور نفس لوامہ یا ملامت کرنے والا نفس کہلانے لگتا ہے۔ نفس کا مزید تزکیہ ہوتا ہے تو وہ نفس مطمئنہ میں ڈھل جاتا ہے۔ اس درجے میں وہ اپنے خالق و مالک اور اپنے رب کا مطیع اور فرمانبردار بن جاتا ہے۔ نفس مطمئنہ مزید ترقی ہوتی ہے تو نفس ملہمہ بن جاتا ہے ایسا نفس جس کو الہام کے قابل سمجھا جاتا ہے۔ نفس ملہمہ ترقی کرتا ہے تو نفس راضیہ میں ڈھل جاتا ہے۔ نفس راضیہ ترقی کرکے نفس مرضیہ کا روپ اختیار کرلیتا ہے اور نفس مرضیہ کے بعد نفس کا ارتقا اسے نفس مطلقہ میں تبدیل کردیتا ہے۔ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ اگر انسان نفس امارہ کو دشمن نہ سمجھے تو اس کے نفس کے تزکیے اور ارتقا کی کوئی صورت ہی پیدا نہیں ہوگی۔ رسول اکرمؐ کی سیرت طیبہ سے ثابت ہے کہ آپؐ نے صحابہ کو صرف کتاب و حکمت کی تعلیم ہی نہیں دی بلکہ ان کے ایسے روحانی ارتقا کو بھی ممکن بنایا جس کی پوری انسانی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی۔ اسی لیے رسول اکرمؐ نے اپنے اصحاب کے بارے میں فرمایا کہ میرے اصحاب ستارے ہیں تم جس کی پیروی کرو گے فلاح پائو گے۔ ان اصحاب میں سے دس ایسے تھے جنہیں زندگی ہی میں جنت کی بشارت دے دی گئی۔ لیکن تزکیہ ٔ نفس بجائے خود مقصد نہیں، اصل چیز مسلمان کو تزکیے کے ذریعے باطل کی مزاحمت کے قابل بنانا ہے۔ باطل کی مزاحمت بجائے خود ایک شرف انسانی اور انسان کے روحانی ارتقا کو ممکن بنانے والا عمل ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال غزوئہ بدر ہے جسے یوم فرقان قرار دیا گیا۔ یعنی حق و باطل میں فرق کو ظاہر کرنے والا۔ غزوئہ بدر کی اہمیت یہ ہے کہ رسول اکرمؐ نے بظاہر بہت چھوٹی سی قوت کے ساتھ باطل کو چیلنج کیا۔ حق کا لشکر صرف 313 نفوس پر مشتمل تھا۔ مگر یہ 313 نفوس تزکیہ ٔ نفس کے تمام مراحل طے کیے ہوئے تھے۔ دوسری طرف ایک ہزار کا لشکر جرار تھا لیکن اس لشکر کو تزکیہ ٔ نفس کی ہوا بھی نہیں لگی تھی۔ چناں چہ 313 نفوس ایک ہزار کے لشکر پر غالب آگئے۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس لشکر کا تصور حق بہت قوی تھا۔ دوسری تصور اس کا ’’تصورِ دشمن‘‘ بہت مضبوط اور بہت واضح تھا۔ حق و باطل کی کشمکش اہل ایمان کے لیے اتنی اہم ہے کہ خدا نے خود قرآن کا ایک نام ’’فرقان‘‘ یعنی حق و باطل میں فرق کرنے والا رکھا ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ اہل ایمان کا تصور دوست بھی قوی ہو اور تصور دشمن بھی۔
ہمارے عہد میں اکبر الٰہ آبادی، اقبال اور مولانا مودودی کی عظیم مزاحمتی فکر خود ان شخصیات کے تصورِ حق اور تصورِ باطل کا نتیجہ ہے۔ اکبر الٰہ آبادی کی فکر اسلام، اسلامی تہذیب اور اسلامی تاریخ میں گہری جڑیں رکھتی تھی۔ ان کو معلوم تھا کہ ان کی تہذیب نے ہندوستان پر ایک ہزار سال حکومت کی ہے مگر پھر انہوں نے دیکھا کہ ان کی تہذیب عسکری سطح پر انگریزوں سے شکست کھا گئی۔ اس صورت حال نے اکبر کی پوری شخصیت کو ہلا کر رکھ دیا۔ چناں چہ اکبر نے اپنے وجود کی پوری قوت کو سمیٹ کر وہ شاعری کی جس نے کم از کم شاعری کی حد تک دشمن کی ناک رگڑ کر رکھ دی۔ ذرا اکبر کے یہ مزاحمتی شعر تو دیکھیے۔
خدا کی ہستی میں شبہ کرنا اور اپنی ہستی کو مان لینا
پھر اس پہ طرّہ اس ادعّا کا ہم ہیں اہلِ شعور ایسے
٭٭
منزلوں دور ان کی دانش سے خدا کی ذات ہے
خرد بیں اور دور بیں تک ان کی بس اوقات ہے
٭٭
علومِ دنیوی کے بحر میں غوطے لگانے سے
زباں گو صاف ہوجاتی ہے دل طاہر نہیں ہوتا
٭٭
نئی تعلیم کو کیا واسطہ ہے آدمیت سے
جنابِ ڈارون کو حضرتِ آدم سے کیا مطلب
٭٭
مذہب کبھی سائنس کو سجدہ نہ کرے گا
انسان اُڑیں بھی تو خدا ہو نہیں سکتے
٭٭
نہیں کچھ اس کی پرسش الفتِ اللہ کتنی ہے
سبھی یہ پوچھتے ہیں آپ کی تنخواہ کتنی ہے
اکبر کی یہ عظیم الشان شاعری ان کے تصور دشمن اور اس دشمن سے اکبر کی شدید نفرت کے بغیر وجود میں نہیں آسکتی تھی۔
اقبال کی اردو شاعری کا سب سے اہم مجموعہ ضرب کلیم ہے۔ یہ مجموعہ اس اعلان کے ساتھ شائع ہوا کہ ضرب کلیم عہدِ حاضر کے خلاف اعلان جنگ ہے۔ عہدِ حاضر کا مطلب مغرب ہے اس لیے کہ عہدِ حاضر مغرب کی تخلیق ہے۔ اقبال کے اعلان جنگ کی اہمیت یہ ہے کہ جنگ کے اعلان کی پشت پر ہمیشہ دشمن کا تصور موجود ہوتا ہے اس لیے کہ جنگ دوستوں سے نہیں دشمنوں سے کی جاتی ہے۔ ضرب کلیم میں اقبال کی ایک نظم ہے جس کا عنوان ہے ’’امامت‘‘۔ اس نظم میں اقبال نے کہا ہے۔
تونے پوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے
حق تجھے میری طرح صاحبِ اسرار کرے
ہے وہی تیرے زمانے کا امامِ برحق
جو تجھے حاضر و موجود سے بیزار کرے
موت کے آئینے میں تجھ کو دکھا کر رُخِ دوست
زندگی تیرے لیے اور بھی دشوار کرے
دے کے احساسِ زیاں تیرا لہو گرما دے
فقر کی سان چڑھا کر اسے تلوار کرے
فتنۂ ملت بیضا ہے امامت اس کی
جو مسلماں کو سلاطیں کا پرستار کرے
اس نظم میں اقبال نے صاف کہا ہے کہ زمانے کا امامِ برحق وہی ہے جو حاضر و موجود کی مزاحمت کرنے والا ہو، جس کا تصور دشمن واضح اور قوی ہو۔ اقبال نے اپنے ایک شعر میں مومن کی تعریف ان الفاظ میں بیان کی ہے۔
ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
مولانا مودودی نے اپنی غیر معمولی نثر میں حق و باطل کی کشمکش برپا کرنے کا حق ادا کردیا۔ انہوں نے ایک جانب جدید مغربی تہذیب کو جاہلیت خالصہ، تخم خبث شجر خبث اور باطل قرار دیا اور دوسری جانب اپنے قاری کو عہدِ حاضر کے دوسرے باطل یعنی سوشلزم کے خلاف صف آرا کیا۔ مولانا کی پوری دعوت کو ایک فقرے یہ بیان کرنا ہو تو کہا جاسکتا ہے کہ مولانا مسلمانوں پوری زندگی کو عبادت اور پوری دنیا کو مسجد بنا دینا چاہتے تھے۔ ان کا نعرہ تھا قرآن وسنت کی دعوت لے کر اٹھو اور پوری دنیا پر چھا جائو۔ اس فقرے کا مفہوم یہ ہے کہ مولانا کے لیے یہ دنیا ایک رزم گاہ یا میدان جنگ تھی اور وہ اس جنگ میں اسلام کو فاتح اور دنیا کے تمام باطل نظاموں کو مفتوح دیکھنا چاہتے تھے۔
تصور دشمن صرف مسلمانوں کے لیے ہی اہم ہیں دوسری اقوام نے بھی اس تصور سے بڑا کام کیا ہے۔ مغرب نے ایک ہزار سال کی تاریخ میں اسلام اور مسلمانوں کو ہمیشہ اپنا دشمن سمجھا ہے۔ صلیبی جنگیں اس لیے شروع ہوگئیں کہ اس وقت کے پوپ اربن دوم نے اسلام کو معاذ اللہ ایک شیطانی مذہب قرار دے دیا تھا۔ مغرب کا نوآبادیاتی دور بھی اسلام اور مسلمانوں کو ٹھکانے لگانے کے لیے تھا۔ نائن الیون کے بعد سے اب تک مغرب اسلام اور مسلمانوں کو ہزیمت سے دوچار کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ بدقسمتی سے مسلم دنیا کے حکمرانوں کا تصور دوست بھی ناقص ہے اور تصورِ دشمن بھی مبہم اور لاغر ہے۔ مسلم دنیا کے حکمران زندگی اور دنیا کو حق و باطل کے تناظر میں دیکھتے ہی نہیں۔ چناں چہ ان کے لیے مغرب دشمن نہیں ایک ’’قابل تقلید دوست‘‘ ہے۔ مسلم دنیا کے حکمرانوں کے تصورِ دشمن کے ناقص ہونے کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے بیتاب ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان کے حکمرانوں نے کبھی امریکا اور بھارت کو اپنا دشمن نہیں سمجھا چناں چہ ہمیں امریکا اور بھارت نے ہر دور میں نقصان پہنچایا ہے۔ پاکستان کے حکمرانوں نے بھارت کو اپنا دشمن سمجھا ہوتا تو پاکستان کبھی دولخت نہ ہوتا۔