اردو کا محاورہ ہے۔ نام بڑے اور دشمن چھوٹے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کی شہرت تو بہت ہے مگر جب دیکھو تو کچھ بھی نہیں۔ بھارت کا معاملہ یہی ہے اس کا حجم ہاتھی والا ہے اور دل چیونٹی جیسا۔ بھارت کی آبادی ایک ارب 40 کروڑ ہے۔ بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے۔ اس کا رقبہ 35 لاکھ مربع کلو میٹر ہے۔ اس وقت بھارت دنیا کی پندرہ بڑی معیشتوں میں سے ایک ہے۔ بھارت کی تاریخ چھے ہزار سال پرانی ہے۔ بھارت میں تین درجن سے زیادہ بڑی زبانیں بولی جاتی ہیں۔ بھارت دنیا کی دس بڑی عسکری طاقتوں میں سے ایک ہے۔ بھارت ویدوں کا ملک ہے۔ گیتا کا ملک ہے۔ اسپنشدوں کا ملک ہے۔ بھارت نے رام جیسی شخصیت پیدا کی جسے اقبال نے اپنی قوم پرستی کے زمانے میں امام ہند کہا ہے۔ بھارت نے کرشن اور گوتم بدھ جیسی شخصیات کو جنم دیا ہے۔ یہ بھارت کا نام ہے جو بہت بڑا ہے مگر بھارت کے درشن یا اس کا تجربہ بہت معمولی، بہت حقیر ہے۔ بھارت کا حال یہ ہے کہ اس نے خطے کے تمام ملکوں کا جینا حرام کیا ہوا ہے۔ نیپال چند سال پہلے تک ایک ہندو ریاست تھا مگر بھارت نے مدتوں سے نیپال کا جینا حرام کیا ہوا ہے۔ وہ کبھی نیپال میں پٹرول کی قلت پیدا کردیتا ہے کبھی کھانے پینے کی اشیا کو نایاب بنا دیتا ہے۔ یہ نیپال کو اپنی کالونی بنانے کے حربوں کے سوا کچھ نہیں۔ سری لنکا بھارت کا دوست ہے مگر بھارت سری لنکا کی خانہ جنگی میں ملوث رہا ہے۔ اس کی پاداش میں ایک تامل نے بھارت کے وزیراعظم راجیو گاندھی کو خودکش حملے میں ہلاک کردیا تھا۔ بھوٹان کو بھارت اپنی طفیلی ریاست سمجھتا ہے۔ بھارت مالدیپ میں ایک بار اپنی فوج اُتار چکا ہے۔ بنگلادیش کو بھارت نے بنگلادیش بنایا تھا مگر آج بھارت کی آمرانہ روش کی وجہ سے بنگلادیش میں بھارت مخالف جذبات کی آندھی چل رہی ہے اور بنگلادیش کا چین کی جانب جھکائو بڑھ رہا ہے۔ یہ منظرنامہ بھارت کی کم ظرفی کا ناقابل تردید ثبوت ہے۔ مگر پاکستان کے سلسلے میں بھارت کی کم ظرفی حد سے بڑھی ہوئی ہے۔ اس کا تازہ ترین ثبوت یہ ہے کہ 24 جون 2022ء کو چین میں برکس ممالک کا سربراہ اجلاس منعقد ہوا۔ برکس چین، روس، بھارت، برازیل اور جنوبی
افریقا پر مشتمل ایک تنظیم ہے۔ اس تنظیم کا ایجنڈا اقتصادی ہے۔ چناں چہ چین میں ہونے والے اجلاس میں عالمی ترقی کے موضوع پر تبادلہ خیال ہونا تھا۔ چین نے پاکستان کو بھی اس اجلاس میں مدعو کیا تھا مگر بھارت نے کم ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ورچوئل اجلاس میں پاکستان کی شرکت پر اعتراض کردیا۔ چناں چہ پاکستان اجلاس میں شریک نہ ہوسکا۔ اجلاس میں صرف روس، چین، بھارت، برازیل اور جنوبی افریقا کی قیادت ہی نے حصہ نہیں لیا بلکہ اس اجلاس میں الجزائر، ارجنٹائن، مصر، انڈونیشیا، ایران، قازقستان، سینیگال، ازبکستان، کمبوڈیا، ایتھوپیا، فجی، ملائیشیا اور تھائی لینڈ کے نمائندوں نے بھی شرکت کی۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ اگر اجلاس میں پاکستان بھی شریک ہوجاتا تو آسمان نہ گر جاتا مگر بھارت کو اجلاس میں پاکستان کی ورچوئل شرکت بھی گوارا نہ ہوئی۔ چناں چہ پاکستان اجلاس میں شرکت سے محروم رہ گیا۔ حالاں کہ اجلاس چین میں تھا اور پاکستان کے چین ہی سے نہیں روس سے بھی گہرے تعلقات ہیں۔ مگر ان ممالک نے بھی بھارت کے اعتراض کے آگے ہتھیار ڈال دیے۔ بھارت کی اس پاکستان دشمنی کو دیکھا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ بھارت کو پاکستان کا سانس لینا بھی گوارا نہیں۔ ایک جانب بھارت کی قیادت پاکستان کے ساتھ پرامن بقائے باہمی کے اصول کے تحت اچھے تعلقات قائم کرنے کا عزم ظاہر کرتی ہے اور دوسری جانب اسے ایک اجلاس میں پاکستان کی شرکت بھی گوارا نہیں۔
دیکھا جائے تو پاکستان سے بھارت کی نفرت تاریخی ہے۔ پاکستان اپنی اصل میں ایک نظریہ ہے۔ ایک Idea ہے۔ چناں چہ بھارت کو ہندو قیادت نے سب سے پہلے دو قومی نظریے ہی کی مخالفت کی۔ اس نے کہا کہ قومیں مذہب سے نہیں نسل، جغرافیے اور زبان سے بنتی ہیں اور برصغیر کے ہندوئوں اور مسلمانوں کی نسل بھی ایک ہے۔ جغرافیہ بھی ایک ہے اور زبان بھی تقریباً ایک جیسی ہے۔ چناں چہ پاکستان کے مطالبے کا کوئی جواز ہی نہیں۔ اس کے جواب میں قائداعظم کو وضاحت کرنی پڑی کہ ہندوئوں اور مسلمانوں کا مذہب بھی الگ ہے، تہذیب بھی جدا ہے، تاریخ بھی ایک جیسی نہیں ہے۔ قائد اعظم نے صاف کہا کہ ہمارے ہیروز اور ولن بھی الگ الگ ہیں۔ ہندو جس گائے کو پوجتے ہیں اور ماں کہتے ہیں مسلمان اس گائے کا گوشت کھاتے ہیں، مسلمان توحید پرست ہیں اور ہندو ایک سطح پر تین اور دوسری سطح پر 33 کروڑ خدائوں کو مانتے ہیں۔ ہندو قیادت نے اس سلسلے میں بعض علما اور مسلم سیاسی رہنمائوں کو دو قومی نظریے کے خلاف میدان میں اُتارا۔ ان علما اور سیاسی قائدین نے کہا کہ قومیں مذہب سے نہیں اوطان سے بنتی ہیں۔ برصغیر کے مسلمانوں کی عظیم اکثریت نے بعض علما اور سیاسی رہنمائوں کے اس دعوے کو مسترد کردیا اور دو قومی نظریے ہی کو اصل نظریہ قرار دیا۔ ہندو قیادت کو دو قومی نظریے سے اتنی نفرت تھی کہ جب سقوط ڈھاکا ہوا تو بھارت کی وزیراعظم اندرا گاندھی نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج ہم نے دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں غرق کردیا ہے۔ سقوط ڈھاکا پاکستان کی اتنی بڑی شکست تھی کہ اگر اندرا گاندھی صرف سقوط ڈھاکا کا جشن منالیتیں تو یہ بھی کافی ہوتا مگر ہندو قیادت کو معلوم تھا کہ پاکستان دو قومی نظریے کا حامل ہے چناں چہ اس نے پاکستان کے نظریے پر حملہ ضروری سمجھا۔
پاکستان اور دو قومی نظریے کی ایک علامت قائداعظم تھے۔ چناں چہ ہندو قیادت کو قائد اعظم سے شدید نفرت تھی۔ ہندو قیادت نے قائداعظم کے بارے میں اس تاثر کو عام کرنے کی بڑی کوشش کی کہ قائداعظم انگریزوں کے ایجنٹ ہیں۔ انگریز بھی ہندوستان کی تقسیم چاہتے ہیں اور محمد علی جناح کا ایجنڈا بھی تقسیم ہے۔ ہندو قیادت نے قائداعظم کو ’’ضدی‘‘ اور ’’ہٹ دھرم‘‘ ثابت کرنے کی بھی کوشش کی۔ ایک بار پنڈت جواہر لعل نہرو علامہ اقبال سے ملنے ان کی رہائش گاہ پر تشریف لائے۔ اقبال اس وقت پلنگ پر بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے نہرو کو اپنے ساتھ بٹھانے کی کوشش کی مگر نہرو زمین پر بیٹھ گئے اور کہنے لگے کہ میری یہی جگہ ہے۔ اس ملاقات میں نہرو نے اقبال کی بہت تعریفیں کیں اور کہا کہ برصغیر کے مسلمانوں کی قیادت کے اصل حقدار تو آپ ہیں۔ اقبال یہ سن کر سخت ناراض ہوئے اور انہوں نے کہا کہ میں تو جناح کا ایک سپاہی ہوں رہنما تو جناح ہی ہیں۔ نہرو یہ سن کر یقینا بہت مایوس ہوئے ہوں گے۔
پاکستان قائداعظم کی پرامن جدوجہد کا حامل تھا۔ پاکستان بنانے کے لیے قائداعظم نے ایک گولی بھی نہیں چلائی تھی۔ چناں چہ قیام پاکستان کے بعد پاکستان اور بھارت کے تعلقات ’’نارمل‘‘ اور ’’پرامن‘‘ ہوسکتے تھے۔ مگر بھارت کی متعصب ہندو قیادت کے لیے پاکستان کے وجود کو قبول کرنا دشوار تھا۔ چناں چہ بھارت کی ہندو قیادت نے پورے برصغیر میں مسلم کش فسادات کی آگ بھڑکادی۔ جہاں ہندو خود مسلمانوں کو مار سکتے تھے وہاں ہندوئوں نے خود مسلمانوں کو مارا۔ جہاں ان کا سب نہیں چلتا تھا وہاں انہوں نے سکھوں کو مسلمانوں کے خلاف کھڑا کردیا۔ چناں چہ برصغیر میں ہندوئوں اور سکھوں نے مل جل کر دس لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کو شہید کردیا۔ ہندو فسادات کا الزام مسلمانوں پر عائد کرتے ہیں مگر مسلمان پورے برصغیر میں ایک اقلیت تھے وہ چاہ کر بھی فسادات تخلیق نہیں کرسکتے تھے۔ ان مسلم کش فسادات کی خاص بات یہ تھی کہ ہندو قیادت ان کی سرپرستی کرتی نظر آرہی تھی۔
مولانا ابوالکلام آزاد تو آزاد بھارت کے وزیر تعلیم تھے۔ وہ پاکستان کی مخالفت کرنے والی سرکردہ شخصیت تھے مگر جب دلی میں مسلمانوں کے گھروں پر حملے ہونے لگے تو مولانا نے نہرو سے کہا کہ وہ حملوں کو روکنے کے سلسلے میں کچھ کریں۔ نہرو نے اس کے جواب میں کہا کہ میں تو وزیرداخلہ سردار پٹیل سے کئی بار کہہ چکا ہوں مگر وہ میری بات ہی نہیں سنتے۔ نہرو گاندھی کے بعد ہندوستان کی دوسری اہم ترین شخصیت تھے۔ وہ ہندوستان کے مقبول عوام وزیر اعظم تھے۔ سردار پٹیل ان کے کسی حکم کو نظر انداز نہیں کرسکتے تھے۔ مطلب یہ کہ خود نہرو مسلم کش فسادات کو رکوانا نہیں چاہتے تھے۔ ان کا خیال یہ تھا کہ مسلمانوںکو پاکستان کی زیادہ سے زیادہ قیمت ادا کرنی چاہیے۔
ہندو قیادت کی پاکستان دشمنی کی ایک صورت یہ تھی کہ ہندو قیادت نے پاکستان کے حصے کے 70 کروڑ روپے پاکستان کے حوالے کرنے سے انکار کردیا۔ پاکستان ایک ایک پیسے کا محتاج تھا مگر ہندو قیادت 70 کروڑ روپے پر سانپ بن کر بیٹھی ہوئی تھی۔ مسلم کش فسادات اور 70 کروڑ روپے کا مسئلہ اتنا سنگین ہوا کہ گاندھی کو اس سلسلے میں کانگریس کی کی قیادت پر دبائو ڈالنے کے لیے ’’مرن برت‘‘ رکھنا پڑا۔ تب کہیں جا کر ہندو قیادت نے پاکستان کے حصے کی رقم پاکستان کو فراہم کی۔
قیام پاکستان کے بعد ہندو قیادت کو چاہیے تھا کہ وہ پاکستان کو دل سے قبول کرلیتی مگر ہندو قیادت نے مشرقی پاکستان کے حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہاں فوجی مداخلت کی اور پاکستان کو دولخت کردیا۔ بلاشبہ سقوط ڈھاکا مغربی پاکستان کے حکمرانوں کی سازش اور نااہلیوںکا حاصل تھا مگر یہ بات بھی طے ہے کہ بھارت کی مداخلت کے بغیر مشرقی پاکستان بنگلادیش نہیں بن سکتا تھا۔ مشرقی پاکستان کی علٰیحدگی کے بعد بھی بھارت کو چین نہ آیا اور اس نے 1984ء میں پاکستان پر حملے کا منصوبہ بنایا۔ چناں چہ جنرل ضیا الحق نے بھارت جا کر بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی کو ایٹمی جنگ کی دھمکی دی۔ دھمکی کارگر ہوئی اور بھارت نے پاکستان پر حملے کا منصوبہ ترک کردیا۔ یہ بات بھی تاریخ کے ریکارڈ پر ہے کہ بھارت نے پاکستانی سرحد کے ساتھ کئی چھائونیاں بنائیں تا کہ پاکستان پر چار پانچ لاکھ فوج لے کر چڑھ دوڑے۔ پاکستان نے اس منصوبے کا توڑ کرنے کے لیے چھوٹے ایٹمی ہتھیار بنا ڈالے۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا غلط نہیں کہ اگر ڈاکٹر قدیر نے پاکستان کو ایٹمی طاقت نہ بنایا ہوتا تو بھارت اس بچے کھچے پاکستان کو بھی اب تک ٹھکانے لگا چکا ہوتا۔ بدقسمتی سے ایسے بھارت کے ساتھ شہباز شریف اور بلاول زرداری اچھے تعلقات قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے ساتھ تجارت فرمانا چاہتے ہیں۔