ہمارے معاشرے کے بہت سے المیوں میں سے ایک المیہ یہ ہے کہ جنہیں خود تعلیم و تربیت کی ضرورت ہے وہ معاشرے کی تعلیم و تربیت کے کام پر لگے ہوئے ہیں اور جنہیں خود رہنمائی کی ضرورت ہے وہ معاشرے کی روحانی، اخلاقی، علمی اور سیاسی قیادت کررہے ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے برا حال علمی قیادت کرنے والوں کا ہے۔
اسلامی معاشرے میں استاد سے بلند مرتبے کا تصور محال ہے اس لیے کہ رسول اکرمؐ نے خود کو معلم قرار دیا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ تعلیم کے شعبے سے وابستہ لوگ رسول اکرمؐ کے راستے پر چلنے والے ہیں۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا ہے کہ جب اہل دنیا اس دنیا سے رخصت ہوتے ہیں تو وہ اپنے پیچھے دولت اور جائداد چھوڑ کر چلے جاتے ہیں وہی ان کے وارثوں میں تقسیم ہوتی ہے لیکن انبیا کا ورثہ علم ہے جب کوئی نبی دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو وہ اپنے پیچھے علم کو ورثے کے طور پر چھوڑکر جاتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ علم کے شعبے سے وابستہ تمام لوگ رسول اکرمؐ کے ورثے کے امین ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ طلبہ والدین کے بعد سب سے زیادہ محبت اپنے اساتذہ سے کرتے تھے۔ محمد حسن عسکری اردو ادب کے سب سے بڑے نقاد ہیں۔ ان کا علم قاموسی یا Encyclopedic ہے۔ تہذیبوںکا جیسا علم عسکری صاحب کے پاس ہے ویسا علم شاید ہی کسی کے پاس ہو۔ لیکن عسکری جب تک زندہ رہے اپنی اہلیت و صلاحیت کو اپنے اساتذہ سے منسوب کرتے رہے۔ عسکری صاحب کو اپنے استاد فراق گورکھ پوری اور دیب صاحب سے ایسی محبت تھی کہ وہ ساری زندگی ان کا ذکر کرتے رہے۔ انہوں نے فراق کی شاعری کی غیر معمولی تعریف کی ہے۔ انہیں فراق جدید غزل کی سب سے توانا آواز نظر آتے تھے۔ سلیم احمد عسکری صاحب کے شاگرد تھے۔ وہ جب تک زندہ رہے عسکری عسکری کرتے رہے۔ انہوں نے ایک جگہ لکھا ہے کہ میں عسکری کے بغیر وہ نہیں ہوسکتا تھا جو میں ہوں۔ سلیم احمد کے بقول عسکری نے سلیم احمد کو جتنا متاثر کیا اتنا اثر تو سلیم احمد پر ان کے والد کا بھی نہیں تھا۔ سلیم احمد عسکری صاحب کو حقیقی معنوں میں شہر علم سمجھتے تھے۔ ان کے نزدیک عسکری کی تحریریں دراصل عسکری نگر کی تاریخ یا عسکری نگر کی جھلکیاں تھیں۔ محمد حسن عسکری کا انتقال ہوا تو پی ٹی وی پر عسکری صاحب کے حوالے سے تعزیتی پروگرام ہوا۔ سلیم احمد پروگرام میں مقرر کے طور پر موجود تھے۔ انہوں نے عسکری صاحب کا ذکر کیا تو اسکرین پر ہی رو دیے۔ سلیم احمد نے خود سراج منیر اور احمد جاوید جیسے شاگرد پیدا کیے۔ سراج منیر کا خیال تھا کہ اقبال نے جس سطح کا کام شاعری اور قرۃ العین حیدر نے ناول میں کیا ہے سلیم احمد نے ویسا ہی کام اپنی تنقید میں کیا ہے۔ سلیم احمد کے مجموعے چراغ نیم شب میں سراج منیر کا مضمون سلیم احمد پر اب تک لکھے گئے مضامین میں سب سے اچھا مضمون ہے۔ احمد جاوید کا سلیم احمد سے یہ تعلق ہے کہ آپ ان کے پاس بیٹھیں تو گفتگو خواہ کسی موضوع پر ہو رہی ہو وہ کہیں نہ کہیں سے سلیم احمد کا ذکر شروع کردیتے ہیں۔ وہ سلیم احمد کو مفکر شاعر کہتے ہیں۔ انہوں نے کہیں سلیم احمد کے حوالے سے یہ شعر لکھا ہوا ہے۔
تجھے دیکھنے کو ملی تھیں یہ آنکھیں
تجھے چاہنے کو ملا تھا مجھے دل
ظاہر ہے کہ یہ صرف عسکری، سلیم احمد، سراج منیر اور احمد جاوید کی کہانی نہیں ہے۔ ایک زمانہ ایسا تھا کہ اچھے اساتذہ اسکول میں بھی موجود تھے۔ کالج میں بھی دستیاب تھے۔ یونیورسٹی میں بھی مہیا تھے۔
بدقسمتی سے ہمارے زمانے تک آتے آتے صورت حال بدل چکی تھی۔ ہم نے 1982ء میں میٹرک کیا۔ کہنے کو ہمارے اسکول کا نام اشاعت القرآن گورنمنٹ بوائز اسکول تھا مگر پورے اسکول میں قرآن کا جاننے والا کیا اپنے مضمون کا ماہر بھی موجود نہ تھا۔ میٹرک میں پانچ ماہ تک ہمیں ریاضی پڑھانے والا استاد ہی موجود نہ تھا۔ پھر ایک صاحب کہیں سے لائے گئے، مگر بدقسمتی سے ان کا لہجہ اتنا پشتو زدہ تھا کہ ان کی کوئی بات طالب علموں کو سمجھ میں نہیں آئی تھی۔ باقی مضامین کی تدریس کا حال بھی پتلا تھا۔ اکثر اساتذہ قصے اور کہانیوں سنا کر اپنے وقت پورا کرتے۔ میٹرک کا نتیجہ آیا تو اکثر طلبہ فیصل ہوگئے۔ ہم نے میٹرک میں 64.44 فی صد نمبر حاصل کیے۔ سندھی میں ہم نے 75 میں سے 69 اور ریاضی میں 100 میں سے 75 نمبر حاصل کیے۔ ہم اپنی مارکس شیٹ لینے کے لیے اسکول پہنچے تو ہماری ملاقات سرعمر سے ہوگئی۔ وہ ہمیں جنرل سائنس پڑھایا کرتے تھے۔ کہنے لگے جانے سے پہلے اپنی مارکس شیٹ مجھے ضرور دکھانا۔ ہم نے اپنی مارکس شیٹ انہیں دکھائی تو کہنے لگے اس مارکس شیٹ میں جو کچھ ہے تمہاری اپنی محنت اور اہلیت ہے اس میں اسکول کا کوئی کردار نہیں۔
ہم نے انٹر پریمیر کامرس کالج ناظم آباد سے کیا۔ پریمیر اس وقت کراچی کا دوسرا اچھا کامرس کالج تھا۔ لیکن اس کے باوجود کالج کے اساتذہ کا حال ناگفتہ بہ تھا۔ ہم انٹر کے پہلے سال میں تھے کہ سلیم احمد کا شعری مجموعہ اکائی شائع ہوا۔ ہم نے وہ مجموعہ ایک دن میں پڑھ ڈالا۔ ہمیں مجموعے کی ہر چیز اچھی لگی البتہ سلیم احمد کی ایک نظم ’’چاند پر نہ جائو‘‘ بار بار کی کوشش کے باوجود ہماری سمجھ میں نہ آئی۔ اچانک ہمیں خیال آیا کہ کیوں نہ ہم اپنے اردو کے استاد سے استفادہ کریں۔ ہم نظم لے کر اردو کے استاد کے پاس پہنچے اور ہم نے کہا کہ سر ذرا یہ نظم ہمیں سمجھا دیجیے۔ انہوں نے نظم پڑھی، کہنے لگے کل آنا۔ کل بات ہوگی۔ ہم اگلے دن پہنچے تو کہنے لگے بھئی میں مصروفیت کے وجہ سے نظم پر غور نہ کرسکا۔ چناں چہ آپ کل آجائیے۔ ہم اگلے دن پہنچے تو کہنے لگے، بھائی مسئلہ یہ ہے کہ سلیم احمد ایک جدید شاعر ہیں، ان کی یہ نظم بھی جدید ہے اور جدید شاعری میں ابہام بہت ہوتا ہے۔ ہم نے کہا سر آپ کی تو پوری زندگی ادب پڑھتے اور ادب پڑھاتے ہوئے بسر ہوگئی۔ آپ اس نظم کا مفہوم نہیں بتائیں گے تو کون بتائے گا۔ کہنے لگے میاں ہماری طرف سے تو معذرت ہے۔ بہتر ہے کہ آپ کسی نقاد سے رابطہ کریں۔ انٹر کے دوسرے سال میں پہنچے تو کالج کے سالانہ میگزین کی اشاعت کا اعلان ہوا۔ اس میگزین کے لیے طلبہ سے بھی تخلیقات طلب کی گئی تھیں۔ ہم اپنی دو غزلیں اور ایک نظم لے کر میگزین کے انچارج سر سعید کے پاس پہنچے۔ انہوں نے ہماری غزلیں پڑھیں تو کہنے لگے یہ غزلیں اتنی معیاری ہیں کہ ہرگز آپ کی نہیں ہوسکتیں۔ البتہ آپ کی نظم شائع ہوسکتی ہے۔ ہم نے کہا سر اس کی بھی ضرورت نہیں۔ کہنے لگے طالب علموں کی حوصلہ افزائی ہمارا کام ہے نظم کو شائع ہونے دیں۔
ہمارا 1984ء میں جامعہ کراچی کے شعبہ صحافت میں داخلہ ہوا تو ہمیں لگا اب ہم علم کے دریا تک ضرور پہنچیں گے اور اپنی علمی پیاس بجھائیں گے۔ ہمیں اس وقت ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے کوئی خزانہ ہمارے ہاتھ آگیا ہے مگر ہماری امید کو مایوسی اور خوشی کو غم میں بدلنے میں زیادہ وقت نہیں لگا۔ ہمیں یونیورسٹی کے پہلے ہی سمسٹر میں معلوم ہوگیا کہ یونیورسٹی کی فضا اسکول اور کالج کی فضا سے زیادہ مختلف نہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ جامعہ کراچی اس وقت ملک کی سب سے اچھی جامعہ تھی مگر جامعہ کے کسی کلاس روم میں مکالمہ موجود نہ تھا۔ اساتذہ طلبہ کے سوالات اور ان کی جانب سے کی جانے والی بحث کو پسند نہیں کرتے تھے۔
بی اے آنرز میں ہمارے پاس ذیلی مضمون کے طور پر سیاسیات کا مضمون بھی تھا۔ اس کے استاد کا وتیرہ تھا کہ وہ کلاس میں ہمیشہ دس پندرہ منٹ تاخیر سے کرتے۔ پھر وہ آٹھ دس منٹ حاضری لینے میں گزار دیتے۔ جو وقت باقی رہ جاتا اس میں وہ پڑھاتے۔ وہ اس زمانے میں مارکسٹ تھے۔ چناں چہ کلاس میں مارکسزم پڑھانے کا مرحلہ آیا تو وہ نہ صرف یہ کہ وقت پر آگئے بلکہ انہوں نے حاضری لینے سے بھی صاف انکار کردیا۔ انہوں نے چار کلاسوں میں جم کر مارکسزم پڑھایا۔ چوتھے روز انہوں نے طلبہ سے کہا کہ کوئی سوال ہو تو پیش کیا جائے۔ کلاس میں سناٹا چھا گیا۔ وہ ہماری طرف دیکھ کر کہنے لگے آج تو فاروقی صاحب بھی سوال نہیں کررہے۔ ہم نے کہا سوال تو ہے کہنے لگے پیش فرمائیے۔ ہم نے کہا آپ نے مارکس کے بارے میں سب کچھ بتادیا مگر یہ نہیں بتایا کہ مارکس مذہب کے بارے میں کیا کہتا ہے؟ کہنے لگے آپ بتا دیجیے۔ ہم نے کہا کہ مارکس مذہب کو عوام کی افیون کہتا ہے اس لیے اس کی فکر کسی مذہبی معاشرے کے لیے قابل قبول نہیں ہوسکتی مگر آپ نے مارکس کی فکر کے اس پہلو کا ذکر ہی نہیں کیا۔ ہماری بات سن کر استاد مکرم ناراض ہوگئے۔ کہنے لگے آپ مجھ پر بددیانتی کا الزام لگا رہے ہیں بہتر ہے کہ آپ میری کلاس سے نکل جائیں۔ ہم نے عرض کیا کہ ہم نے کوئی بدتمیزی نہیں کی ہے۔ ایک علمی بات کی ہے۔ ہمارے سوال کا استاد مکرم نے اتنا برا منایا کہ انہوں نے ہمیں کبھی اپنے پرچے میں 70 سے زیادہ مارکس نہیں دیے۔
ہمیں ایم اے میں کراچی یونیورسٹی کی لائبریری پر ایک خبر بنانے کا اسائمنٹ ملا تو جامعہ کراچی کے کتب خانے کے نگران کے اس انکشاف نے ہمیں حیرت زدہ کردیا کہ جامعہ کے 70 فی صد اساتذہ لائبریری آتے ہی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ دس سے پندرہ فی صد اساتذہ لائبریری آتے ہیں چار پانچ کتب جاری کر اتے ہیں اور پھر ایک ایک سال تک نہیں لوٹاتے۔ کتب خانے کے نگراں نے بتایا کہ جامعہ کے دس فی صد اساتذہ ایسے ہیں جو پابندی سے لائبریری آتے ہیں۔ کتب جاری کراتے ہیں اور انہیں پڑھ کر جلد ہی لوٹا دیتے ہیں۔ اور یہ نئی کتب لے جاتے ہیں۔ صحافیوں کو صاحب علم سمجھا جاتا ہے مگر 80 فی صد سے زیادہ صحافی پورا اخبار نہیں پڑھتے۔ اخبارات میں شائع ہونے والے کالموں کا یہ حال ہے کہ 99 فی صد کالم جاری سیاست سے متعلق ہوتے ہیں۔ کالموں میں اب ادب، فلسفہ، عمرانیات، نفسیات، تاریخ اور تہذیب زیر بحث ہی نہیں آتے۔ اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کی طرح دینی مدارس کا حال بھی پتلا ہے۔ ان مدارس میں بھی تخلیقی ذہن موجود نہیں۔ ہم گزشتہ 25 سال سے مدارس کے نگرانوں یا اساتذہ سے ملتے ہیں تو ان سے یہ ضرور پوچھتے ہیں کہ آپ کے تخصص کے طلبہ نے قرآن، حدیث، فقہ، سیرت یا اسلامی فکر پر کوئی کتاب کوئی اعلیٰ درجے کا مقالہ لکھا ہے یا نہیں؟ ہر بار ہمیں یہی جواب ملتا ہے کہ کسی نے نہ کتاب لکھی نہ مقالہ تحریر کیا۔