موجودہ دنیا کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ دنیا بڑے انسانوں سے خالی ہوگئی ہے۔ دنیا میں نہ کوئی بڑی روحانی شخصیت موجود ہے۔ نہ بڑا مفکر دستیاب ہے۔ نہ کہیں بڑے شاعر کا سراغ ملتا ہے نہ کہیں بڑا ادیب دکھائی دیتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ دنیا بڑے سیاست دانوں سے بھی خالی ہوگئی ہے۔ بڑے انسانوں کے بارے میں اقبال نے دو متضاد شعر کہہ رکھے ہیں۔ اقبال نے ایک شعر میں کہا ہے۔
نہ اٹّھا پھر کوئی رومی عجم کے لالہ زاروں سے
وہی آب و گلِ ایراں وہی تبریز ہے ساقی
اقبال کہہ رہے ہیں عجم نے ایک رومی کو پیدا کردیا مگر دوسرا رومی نہ پیدا کرسکا۔ حالاں کہ ایران کی مٹی اور پانی بھی وہی ہے اور تبریز بھی وہی ہے۔ پاکستان میں ایسے کئی لوگ ہیں جو اقبال کو دنیا کا سب سے بڑا شاعر سمجھتے ہیں مگر رومی اور اقبال کا موازنہ کیا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ اقبال صدیوں میں پیدا ہوتا ہے اور رومی ہزاروں سال میں۔ مسلمانوں کی تاریخ چودہ سو سال پرانی ہے مگر اس تاریخ میں صرف ایک رومی ہے ہے۔ البتہ اقبال کی سطح کے کئی شاعر ہیں۔ اردو میں میر اور غالب اقبال کے ہم پلہ ہیں۔ اقبال کو خود بھی اس بات کا احساس تھا کہ حقیقی معنوں میں عظیم شخصیت روز روز پیدا نہیں ہوتی۔ چناں چہ انہوں نے کہا ہے۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
رومی حقیقی معنوں میں ایک دیدہ ور تھے۔ ان کی شاعری کو فارسی کا قرآن یوں ہی نہیں کہا جاتا۔ اقبال کو رومی کی عظمت کا پوری طرح احساس تھا۔ چناں چہ ایک جگہ انہوں نے لکھا ہے کہ مجھے لگتا ہے کہ رومی ایک سمندر ہیں اور میں ان کے ساحل پر پڑا ہوا ایک کوزہ، لیکن رومی تو دور کی بات ہے اب پوری دنیا میں کہیں اقبال کی سطح کا شاعر بھی موجود نہیں۔
بڑے آدمی کی عظمت کا احساس میر کے یہاں بھی موجود ہے۔ میر نے کہا۔
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
لیکن ہمارے زمانے تک آتے آتے انسانوں بالخصوص سیاست دانوں کی سطح یہ ہوگئی ہے کہ اس پر جگر مراد آبادی کا یہ شعر پوری طرح صادق آتا ہے۔ جگر نے کہا ہے۔
جہلِ خرد نے دن یہ دکھائے
گھٹ گئے انساں بڑھ گئے سائے
حقیقت یہ ہے کہ اب انسانوں بالخصوص سیاست دانوں کے سائے ان کے روحانی، اخلاقی، علمی اور ذہنی قدوقامت سے بڑے دکھائی دیتے ہیں۔ ان سیاست دانوں نے ایک ایسی دنیا تخلیق کی ہے جسے دیکھ کر فراق نے چیخ کر کہا تھا۔
اگر بدل نہ دیا آدمی نے دنیا کو
تو جان لو کہ یہاں آدمی کی خیر نہیں
یہ زیادہ پرانی بات نہیں برصغیر کے سیاسی اُفق پر قائداعظم جیسا سیاسی رہنما موجود تھا۔ قائداعظم کی عظمت یہ ہے کہ ان کے مورخ اسٹینلے وپرٹ نے لکھا ہے کہ تاریخ میں ایسے لوگ کم ہوئے ہیں جنہوں نے تاریخ کے دھارے کا رخ بدلا ہے۔ ایسے لوگ اور بھی کم ہوئے ہیں جنہوں نے جغرافیہ بدلا ہے۔ اور ایسا تو شاید ہی کوئی ہو جس نے ایک قومی ریاست قائم کی ہو۔ قائداعظم نے بیک وقت یہ تینوں کام کیے۔ تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ تاریخ کو وہی شخص بدلتا ہے جو تاریخ سے بلند ہوتا ہے۔ قائداعظم کے دو قومی نظریے نے قائداعظم کو ہندوستان کی تاریخ سے بلند کردیا تھا۔ تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ جغرافیے کو وہی بدل سکتا ہے جو جغرافیے کی حرکیات پر غالب ہو اور قائداعظم کے نظریے نے انہیں جغرافیے کی حرکیات پر غلبہ عطا کردیا تھا۔ قائداعظم سیاست دان تھے مگر ان کی اخلاقیات توانا تھی۔ اس کا ایک زندہ ثبوت یہ ہے کہ نواب زادہ لیاقت علی خان ایک دن نہرو اور لارڈ مائونٹ بیٹن کی بیوی ایڈوینا کے عشقیہ خطوط لے کر قائداعظم کے پاس آئے۔ لیاقت علی خان نے کہا کہ ہم ان خطوط کو مشتہر کرکے بڑا سیاسی فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔ ان خطوط سے واقعتاً انگریزوں اور کانگریس کا گٹھ جوڑ ثابت ہوتا ہے اور تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ایڈوینا نے برصغیر کی تقسیم کے حوالے سے لارڈ مائونٹ بیٹن پر گہرا اثر ڈالا تھا۔ لیکن قائداعظم نے نہرو اور لیڈی مائونٹ بیٹن کے عشقیہ خطوط پر سیاست سے صاف انکار کردیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ نہرو اور ایڈوینا کی ذاتی زندگی کا معاملہ ہے۔ ایسے خطوط آج کے کسی سیاست دان کو ملے ہوتے تو وہ ان پر جم کر سیاست کرتا اور حریفوں کو دیوار سے لگا کر دم لیتا۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ قائداعظم پاکستان کے خالق تھے مگر وہ پاکستان سے بھی بلند تھے۔ یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ قیام پاکستان کے بعد مسلم لیگ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ایک صاحب نے یہ کہا کہ پاکستان بن گیا ہے مگر پاکستان بننے کا ایک نتیجہ یہ نکلا ہے کہ بھارت کے مسلمانوں کے زعما اور سیاسی رہنمائوں کی عظیم اکثریت پاکستان آگئی ہے۔ چناں چہ بھارت میں رہ جانے والے مسلمان سیاسی قیادت سے محروم ہوگئے ہیں۔ قائداعظم نے اس بات سے اتفاق کیا اور کہا کہ اگر یہ اجلاس ایک قرار داد منظور کرلے تو میں پاکستان چھوڑ کر ہندوستان چلا جائوں گا اور وہاں رہ کر مسلمانوں کی قیادت کروں گا۔ عہد حاضر کے سیاست دانوں کا معاملہ یہ ہے کہ وہ جب اپنے دفاتر یا گھروں سے نکلتے ہیں تو راستے بند کردیے جاتے ہیں اور ہزاروں لاکھوں بندگان خدا کو تکلیف دی جاتی ہے اور قانون کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔ قائداعظم کی سوانح کا مطالعہ بتاتا ہے کہ قائداعظم ایک بار کراچی میں کہیں جارہے تھے کہ ریل کا پھاٹک بند کردیا گیا۔ قائداعظم کے ڈرائیور نے گاڑی سے اُتر کر پھاٹک بند کرنے والے سے کہا کہ ریل کے آنے میں ابھی کچھ دیر ہے۔ سامنے والی گاڑی میں قائداعظم موجود ہیں تم کچھ دیر کے لیے پھاٹک کھول دو۔ قائداعظم کی گاڑی گزر جائے تو پھاٹک بند کردینا۔ قائداعظم نے یہ سنا تو اپنے ڈرائیور سے کہا کہ ایسا مت کرو۔ ہم قانون کی پاسداری نہیں کریں گے تو کون کرے گا۔
بھٹو صاحب کے سیاسی منظر پر طلوع ہونے تک پاکستان میں سیاسی قیادت زوال کا شکار ہوچکی تھی۔ لیکن بھٹو صاحب کی شخصیت بھی غنیمت تھی۔ بھٹو صاحب مطالعہ شخص تھے۔ ان کے پاس ایک بڑا کتب خانہ تھا۔ علاقائی اور بین الاقوامی سیاست پر ان کی گہری نظر تھی۔ وہ بلا کے مقرر تھے۔ انہیں انگریزی زبان پر ہی نہیں اردو پر بھی عبور تھا۔ بھٹو صاحب ایک ’’انا پرست‘‘ انسان تھے مگر ان کی انا اتنی بڑی تھی کہ پاکستان اس کے لیے چھوٹا پڑتا تھا۔ چناں چہ وہ قائد ایشیا یا امت مسلمہ کے رہنما بن کر ابھرنا چاہتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اگر پاکستان ایٹم بم بنالے تو پاکستان کا بم عربوں کے پیٹرو ڈالر کے ساتھ مل کر ایک بڑی طاقت کو جنم دے گا اور ان کے لیے امت کا رہنما اور قائد ایشیا بن کر اُبھرنا ممکن ہو جائے گا۔ چناں چہ بھٹو نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے ’’اسلامی سوشلزم‘‘ کا نظریہ ایجاد کرکے بتایا کہ ان کی ایک نظریاتی جہت بھی ہے۔ انہوں نے عوام پر سحر طاری کرنے کے لیے روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ بلند کیا اور اس نعرے نے عوام میں واقعتاً سحر طاری کردیا۔ انہوں نے ملک کو 1973ء کا اسلامی آئین دیا۔ انہوں نے لاہور میں اسلامی ممالک کے سربراہوں کا اجلاس منعقد کرکے عالم اسلام میں پاکستان کی مرکزیت کو نمایاں کیا۔ ایک وقت آیا کہ بھٹو کی جگہ ان کی بیٹی بے نظیر بھٹو نے لی۔ وہ مغرب کے تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل تھیں۔ انہوں نے طویل عرصے تک جنرل ضیا الحق کی آمریت کو چیلنج کیا تھا مگر ہم نے ایک بار پروفیسر غفور سے پوچھا کہ آپ نے بھٹو کو بھی دیکھا ہے اور بے نظیر کو بھی۔ آپ دونوں کا موازنہ کس طرح کرتے ہیں۔ غفور صاحب یہ سن کر مسکرائے۔ کہنے لگے ذہانت میں بے نظیر بھٹو کا پاسنگ بھی نہیں البتہ وہ اپنے والد سے کہیں زیادہ متکبر ہیں۔ بے نظیر بھٹو کے پاس خیر پھر بھی ذہانت تھی۔ مگر میاں نواز شریف کو دیکھ کر تو خیال آتا ہے کہ وہ کوئی ’’سرکٹے‘‘ ہیں۔ ان کے پاس نہ دل ہے نہ دماغ، وہ سوچنے کا کام بھی پیٹ سے لیتے ہیں۔ وہ امریکا کے صدر اوباما سے ملتے ہیں تو لکھے ہوئے نکات کی پرچی ان کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ وہ اسلامی جمہوری اتحاد کی سیاست کرتے ہیں اور جاگ پنجابی جاگ کا نعرہ لگاتے ہیں۔
وہ بے نظیر بھٹو کی کردار کشی کے لیے ان کی خود ساختہ ننگی تصاویر ہیلی کاپٹر سے عوام میں پھنکواتے ہیں۔ وہ جنرل پرویز سے خفیہ ڈیل کرکے سعودی عرب بھاگ جاتے ہیں۔ بیماری کا بہانہ کرکے برطانیہ فرار ہوجاتے ہیں۔ عمران خان کی سیاست اور سیاسی سطح بھی ہمارے سامنے ہے۔ ان کی ہر تقریر ’’میں‘‘ سے شروع ہوتی ہے۔ ’’میں‘‘ میں آگے بڑھتی ہے اور میں ’’میں‘‘ ختم ہوجاتی ہے۔ لیکن عمران خان کی بھی ایک سطح ہے۔ مریم نواز کے ماتھے پر لکھا ہے کہ میں ایک جھوٹی اور مکار عورت ہوں۔ بلاول کی ذہنی سطح زیادہ بارش آتا ہے تو زیادہ پانی آتا ہے اور کانپیں ٹانگ رہی ہیں تک محدود ہے۔
ہندوستان ہمارا پڑوسی ملک ہے۔ وہاں بھی ہم نے اہل سیاست کا زوال دیکھا ہے۔ گاندھی ایک کٹر ہندو تھے مگر جب قیام پاکستان کے بعد بھارت نے پاکستان کے اثاثے روک لیے تو گاندھی نے ’’مرن برت‘‘ رکھ لیا اور کہا جب تک بھارت پاکستان کو اس کے حصے کے 70 کروڑ روپے جاری نہیں کرے گا وہ اپنا مرن برت نہیں توڑیں گے۔ چناں چہ بھارت کے حکمرانوں کو پاکستان کے اثاثے جاری کرنے پڑے۔ نہرو کے زمانے میں جب بھارت کا آئین بن رہا تھا اور بھارت کی قومی زبانوں کا تعین ہورہا تھا تو لوگوں نے انہیں بھارت کی دو درجن قومی زبانوں کی فہرست فراہم کی۔ نہرو نے فہرست کو غور سے دیکھا اور کہا کہ اس میں اردو کا نام موجود نہیں۔ آئین سازوں نے کہا کہ اردو ہم میں سے کسی کی مادری زبان نہیں۔ چناں چہ اردو کو کیوں کر آئین کا حصہ بنایا جائے۔ نہرو نے کہا اردو میری مادری زبان ہے۔ چناں چہ اردو بھارتی آئین کا حصہ بن گئی۔ لیکن بی جے پی کے رہنمائوں کا تصور مسلمان اتنا پست ہے کہ بی جے پی کے رہنمائوں کو انسان کہنا بھی انسان کی توہین ہے۔ نریندر مودی سے ایک بار پوچھا گیا کہ آپ کو مسلمانوںکے مرنے کا دکھ نہیں ہوتا۔ کہنے لگے آپ کی گاڑی کے نیچے کتے کا پلا آئے گا تو آپ کو افسوس تو ہوگا۔ اس جواب سے معلوم ہوا کہ مودی کے نزدیک بھارت کے مسلمان کتّے کے پلے ہیں۔ بھارتی ریاست اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ ایک جلسے میں موجود تھے، بی جے پی کے ایک رہنما کھڑا ہوا اور اس نے اپنی تقریر میں کہا کہ اگر مسلم خواتین کو قبروں سے نکال کر ریپ کرنا پڑے تو ایسا ضرور کیا جانا چاہیے۔ یہ صرف پاکستان اور بھارت کا معاملہ نہیں مغربی دنیا میں بھی کوئی بڑا سیاست دان موجود نہیں۔ امریکا میں رونلڈ ریگن اور جمی کارٹر کا انتخابی مقابلہ ہوا تو جمی کارٹر کی انتخابی مہم چلانے والوں نے ریگن کو تیسرے درجے کا اداکار قرار دیا۔ جواب میں ریگن کے حامیوں نے فرمایا کہ ایک تیسرے درجے کا اداکار بہرحال جوکر سے بہتر ہوتا ہے۔ بلاشبہ یہ دونوں گروہ ایک دوسرے کے بارے میں سچ بول رہے تھے۔