انسان اور ظاہر پرستی

انسان ظاہر اور باطن کا مجموعہ ہے۔ لیکن ظاہر اور باطن میں زیادہ اہم باطن ہے۔ جیسا جس کا باطن ہوتا ہے انسان ویسا ہی ہوتا ہے۔ انسان کے باطن پر نفس امارہ غالب ہوتا ہے تو انسان کی پوری زندگی اماریت میں ڈوبی ہوئی ہوتی ہے۔ انسان پر نفس لواّمہ کا غلبہ ہوتا ہے تو انسان کی زندگی لواّمیت میں ڈھلی ہوتی ہے۔ انسان کے باطن میں نفس مطمئنہ کا غلبہ ہوتا ہے تو انسان کی زندگی نفس مطمئنہ کا مظہر بنی ہوتی ہے۔ بلاشبہ جس طرح انسان کا باطن اس کے ظاہر کو متاثر کرتا ہے اس طرح انسان کا ظاہر بھی انسان کے باطن پر اثر انداز ہوتا ہے لیکن باطن کی خرابی انسان کو جس طرح خراب کرتی ہے ظاہر کی خرابی اس طرح انسان کو متاثر نہیں کرتی۔ اس مسئلے کا ایک پہلو یہ ہے کہ ظاہر کی خرابی کا علاج نسبتاً آسان ہے لیکن اگر انسان کا باطن درست نہ ہو تو اس کو درست کرنا نہایت مشکل ہے۔ اس لیے قرآن مجید فرقان حمید میں رسول اکرمؐ کی بعثت کا مقصد بیان کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وہ تمہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں۔ اور تمہارے نفوس کا تزکیہ کرتے ہیں۔ نفس کا تزکیہ یہ ہے کہ نفس امارہ کو نفس لوامہ اور نفس لوامہ کو نفس مطمئنہ میں ڈھالا جائے۔ ان حقائق کے باوجود جب ہم انسان کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ انسانوں کی عظیم اکثریت باطن کو نظر انداز کرکے ظاہر پرستی میں مبتلا رہی ہے اور اب بھی ہے۔ ظاہر پرستی کے ذکر سے یہاں میر کا ایک شعر یاد آگیا۔ میر نے کہا ہے۔
ظاہر پرست ہوتے نہیں معنی آشنا
ہے عشق سے بتوں کے مرا مدّعا کچھ اور
میر کہہ رہے ہیں کہ مین جو تمہیں حسین چہروں سے عشق کرنے کی تعلیم دے رہا ہوں تو میں تمہیں ظاہر پرستی نہیں سکھا رہا ہوں بلکہ میں تمہیں انسانوں کے باطن یا ان کے انسانی اوصاف سے محبت کرنے کی ہدایت کررہا ہوں اس لیے کہ ظاہر پرستوں کو معنی کی ہوا بھی نہیں لگتی اور زندگی میں اصل چیز صورت نہیں اس کے معنی ہیں۔ یہ ایک سامنے کی بات ہے کہ لفظ کا بھی ایک ظاہر اور باطن ہوتا ہے۔ لفظ کا ظاہر اس کا ڈھانچہ ہے اور لفظ کا باطن اس کا مفہوم۔ چناں چہ ظاہر پرست صرف ڈھانچے سے محبت کرنے والے ہوتے ہیں۔ انہیں معنی کی ہوا بھی نہیں لگنے پاتی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو میر نے اپنے مذکورہ بالا شعر میں یہ بات بھی فرمائی ہے کہ جو عشق مجازی انسان کی عشق حقیقی تک نہ پہنچا سکے وہ جھوٹا ہے۔ وہ ناقص ہے۔ وہ صرف صورت پرستی ہے۔ وہ صرف ظاہر کی محبت ہے۔ انسان کا جمال بجائے خود کچھ نہیں وہ اللہ کے جمال کی صرف ایک جھلک ہے۔
ظاہر اور باطن کی اس بحث کا ہمارے مذہب اور مذہبی انسانوں سے گہرا تعلق ہے۔ نماز دین کا ستون ہے۔ لیکن نماز کا بھی ایک ظاہر اور باطن ہے۔ نماز کا ظاہر رکوع ہے۔ سجدہ ہے۔ قیام ہے۔ نماز کے دوران کی جانے والی تلاوت ہے لیکن نماز کا باطن یہ ہے کہ نماز رسول اکرمؐ کی ہدایت کی روشنی میں اس طرح پڑھی جائے گویا ہم خدا کو دیکھ رہے ہیں اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو کم از کم اس شعور، اس احساس کے ساتھ پڑھی جائے کہ خدا ہمیں دیکھ رہا ہے۔ یہ ہدایت اس لیے ہے کہ بندے میں خدا کی ہر لمحے موجودگی کا شعور راسخ ہوجائے۔ بندے کو ہر لمحہ محسوس ہو کہ وہ خدا کے روبرو ہے۔ جو نماز اس طرح نہ پڑھی جائے وہ نماز نماز نہیں۔ اس لیے کہ اس نماز کا ظاہر تو ہے مگر اس کا کوئی باطن نہیں ہے۔ ایسی نماز کا ظاہر تو ٹھیک ہے مگر اس کے باطن میں نقص ہے۔ بدقسمتی سے مسلمانوں کی عظیم اکثریت ایسی نمازیں پڑھ رہی ہے جن کا کوئی باطن نہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ قرآن کہتا ہے نماز انسان کو برائیوں سے روکتی ہے مگر ہمارا مشاہدہ اور تجربہ یہ ہے کہ بے شمار لوگ دس، بیس، تیس، چالیس اور پچاس سال نماز پڑھتے ہیں مگر ان کی کوئی برائی دور نہیں ہوتی ہے۔ وہ نماز پڑھنے سے پہلے بھی جھوٹ بولتے تھے اور وہ برسوں نماز پڑھنے کے بعد بھی جھوٹ بولتے رہتے ہیں۔ وہ نماز پڑھنے سے پہلے بھی غیبت کرتے تھے اور وہ بیس سال تک نماز پڑھنے کے بعد بھی غیبت میں مبتلا ہوتے ہیں۔ وہ نماز پڑھنے سے پہلے بھی حرام کھاتے تھے اور وہ نماز پڑھنے کے بعد بھی حرام کھاتے ہیں۔ وہ نماز پڑھنے سے پہلے بھی سخت دل تھے اور وہ تیس سال نماز پڑھنے کے باوجود بھی سخت دل رہتے ہیں۔ اس سے ثابت ہوجاتا ہے کہ ان کی نماز صرف ان کے ظاہر کی نماز ہے۔ ان کے باطن کی نماز نہیں۔ اس نماز کا ان کے باطن پر کوئی اثر ہی نہیں۔ نماز نے ان میں تقویٰ پیدا ہی نہیں کیا۔ اس میں قصور نماز کا نہیں نماز پڑھنے والے کا ہے۔ خدا نے روزہ رکھنے والوں سے صاف کہا ہے کہ مجھ تک تمہاری بھوک پیاس نہیں پہنچتی۔ مجھ تک تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔ بھوک پیاس روزے کا ظاہر ہے اور تقویٰ روزے کا باطن ہے۔ بدقسمتی سے روزے داروں کی عظیم اکثریت صرف روزے کے ظاہر سے چمٹی ہوئی ہے۔ روزے کے باطن کی طرف کوئی متوجہ نہیں۔ یہی حال قربانی کا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے واضح کیا ہے کہ مجھ تک قربانی کے جانور کا گوشت اور خون نہیں پہنچتا بلکہ قربانی کرنے والے کا تقویٰ پہنچتا ہے۔ مگر ایک ارب 80 کروڑ مسلمانوں میں کتنے لوگ ہوں گے جو قربانی کے جانور کے گوشت اور خون سے بلند ہوتے ہوں۔ جو تقوے کے ساتھ قربانی کرتے ہوں۔ جن کے باطن پر قربانی کی معنویت اثر انداز ہوتی ہو۔
یہ منظر ہمارے سامنے ہے کہ پاکستان میں عیدمیلادالنبیؐ بڑے اہتمام سے منایا جانے لگا ہے۔ اس دن بڑے بڑے شہروں میں چراغاں ہوتا ہے، جلسے اور اجلاس ہوتے ہیں۔ نعتوں کی محافل برپا ہوتی ہیں۔ اس منظرنامے سے کسی کو بھی یہ خوش فہمی لاحق ہوسکتی ہے کہ معاشرے میں رسول اکرمؐ سے محبت بہت بڑھ گئی ہے۔ ہم رسول اکرمؐ سے زیادہ قریب ہوگئے ہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ عیدمیلادالنبیؐ کی ساری رونقیں ایک طرح کی تقریب پسندی اور ظاہر پرستی کی ایک صورت ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ عیدمیلادالنبیؐ پر چراغاں کرنے والوں اور جلوس نکالنے والوں کے کردار پر رسول اکرمؐ کی سیرت طیبہؐ کا کوئی اثر نہیں۔ ان میں سے کوئی رسول اکرمؐ کی خدا پرستی کے ایک ارب ویں حصے کے برابر بھی خدا پرست نہیں۔ ان میں سے کوئی بھی رسول اکرمؐ کی طرح دنیا سے بے نیاز نہیں۔ ان میں کوئی بھی رسول اکرمؐ کی طرح معاف کرنے والا نہیں۔ ان میں کوئی بھی رسول اکرمؐ کی طرح احسان کرنے والا نہیں۔ ان میں کوئی بھی رسول اکرمؐ کی طرح درگزر کرنے والا نہیں۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ لوگوں کی عظیم اکثریت نے رسول اکرمؐ کے ساتھ تعلق کے ایک آدھ ظاہری پہلو کو پکڑ لیا ہے اور رسول اکرمؐ کے ساتھ تعلق کے باطن کو ہم سب نے فراموش کیا ہوا ہے۔
یہاں ہمیں مولانا مودودی کی تصنیف رسائل و مسائل کا ایک سوال اور مولانا مودودی کا جواب یاد آگیا۔ سوال یہ تھا کہ ہم سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ صحیح معنوں میں مسلمان بننے کے لیے آدمی کو لباس اور چہرے کی اسلامی وضع قطع اختیار کرنی چاہیے۔ براہِ کرم بتائیے کہ اس سلسلے میں اسلام نے کیا احکام دیے ہیں۔ مولانا نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ آپ یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ ظاہر کی اصلاح باطن کی اصلاح پر مقدم نہ ہونی چاہیے۔ سب سے پہلے تو آپ اپنے آپ کو قرآنی معیار کے مطابق حقیقی مسلمان بنانے کی کوشش کیجیے۔ پھر ظاہر کی تبدیلی اس حد تک کرتے چلے جائیے جس حد تک باطن میں واقعی تبدیلی ہوتی جائے۔ ورنہ مجرد ضابطہ و قانون (rules and regulations) کو سامنے رکھ کر اگر آپ نے ظاہر کو اس نقشے پر ڈھال لیا جو حدیث و فقہ کی کتابوں میں ایک متقی انسان کے ظاہری نقشے کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے اور اندر تقویٰ نہ پیدا ہو تو آپ کی مثال ایسی ہوگی جیسے تانبے کے سکے پر اشرفی کا ٹھپا لگا ہوا ہو۔ اشرفی کا ٹھپا لگانا کوئی بڑا مشکل کام نہیں۔ بڑی آسانی سے جس سستی سے سستی دھات پر چاہیں اس کو لگا سکتے ہیں۔ لیکن زرِ خالص بہم پہنچانا ایک مشکل کام ہے اور مدت کی کیمیا گری سے یہ چیز حاصل ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاں ایک مدت سے ظاہر پر غیر معمولی زور دیا جارہا ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اشرفی کے ٹھپے کے ساتھ تانبے، لوہے، سیسے اور ہر قسم کی گھٹیا دھاتوں کے سکے چل پڑے ہیں۔ عملی دنیا کا بازار ایسا بے لاگ صراف ہے کہ وہ زیادہ مدت تک اس جعل سازی سے دھوکا نہیں کھا سکتا۔ کچھ مدت تک تو ہماری دھوکے کی اشرفیاں چل گئیں لیکن اب بازار میں کوڑی بھر بھی قیمت ان کی باقی نہیں رہی۔ پس ہمیں اسلامی جماعت میں جس قسم کی دین داری پیدا کرنی ہے اس کا تقاضا ہے کہ ہم اشرفی کا ٹھپا لگانے سے قبل پہلے سونے کا سکہ بننے کی کوشش کریں۔
لباس اور چہرے کی وضع اور ایسے ہی دوسرے ظواہر کے متعلق نبیؐ نے جتنی ہدایات دی ہیں وہ مدینہ طیبہ کے آخری پانچ برسوں کی ہیں۔ اس سے پہلے پندرہ سولہ سال تک آپؐ اپنے متبعین میں تقوے اور احسان کی وہ صفات پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہے جن کا مفصّل نقشہ قرآن مجید اور احادیث نبویؐ میں بیان ہوا ہے۔ اس ترتیب پر غور کرنے سے معلوم ہوا کہ خدا نے جس کو تزکیہ نفوس کی خدمت پر مقرر فرمایا تھا اس نے بھی پہلے اپنی پوری توجہ مسِ خام کو کندن بنانے پر صرف کی تھی۔ پھر جب کندن بنالیا تب اس پر اشرفی کا نقش مرتسم کیا۔ (رسائل و مائل جلد اوّل، صفحہ 99-98)
ایک زمانہ تھا کہ شادی بیاہ کے معاملات میں لڑکے کا حسب نسب دیکھا جاتا تھا۔ شرافت و نجابت کو اہمیت دی جاتی تھی۔ کردار کی تحقیق کرائی جاتی تھی۔ تعلیم و تربیت پر نظر ڈالی جاتی تھی مگر ہماری ظاہر پرستی نے اب صرف لڑکے کی تنخواہ کو اہم بنادیا ہے۔ اکبر نے ڈیڑھ سو سال پہلے کہا تھا۔
نہیں پرسش کچھ اس کی الفتِ اللہ کتنی ہے
سبھی یہ پوچھتے ہیں آپ کی تنخواہ کتنی ہے
اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اگر آج سے ڈیڑھ سوسال پہلے یہ مسئلہ اتنا اہم تھا تو آج یہ مسئلہ کتنا اہم ہوچکا ہوگا۔ کبھی لڑکیوں کی شادی کے حوالے سے لڑکیوں کی سیرت اہم ہوتی تھی۔ امور خانہ داری میں ان کی مہارت دیکھی جاتی تھی۔ ان کے ملنسار ہونے یا نہ ہونے کا پتا لگایا جاتا تھا مگر اب لڑکی میں صرف یہ دیکھا جاتا ہے کہ وہ فلموں اور ڈراموں کی ہیروئن کی طرح ہے یا نہیں۔ اس کے چہرے بشرے میں ماڈل گرلز کی جھلک موجود ہے یا نہیں۔ اب لڑکیوں کے سلسلے میں یہ بھی دیکھا جانے لگا ہے کہ وہ ’’جاب‘‘ کرتی ہے یا نہیں کرتی۔ اب گھریلو لڑکیاں کم ہی لوگوں کو درکار ہوتی ہیں۔ تجزیہ کیاجائے تو ہماری ظاہر پرستی ہماری سرسری اور سطحی مذہبیت کی چغلی کھاتی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مذہب ہمارے باطن میں اترا ہوا نہیں ہے۔ ہماری ظاہر پرستی سے ثابت ہوتا ہے کہ ہم خدا پرستوں کے معاشرے کے بجائے دنیا پرستوں کا معاشرہ ہیں۔ ہماری ظاہر پرستی سے یہ امر بھی صاف ظاہر ہے کہ ہم نمائش پسند لوگ ہیں۔ ہم تقوے اور علم سے محبت کرنے والے نہیں بلکہ ہم دولت اور طاقت کے پرستار ہیں۔ ہماری ظاہر پرستی اس امر کی بھی چغلی کھاتی ہے کہ ہم محنت سے گھبرانے والے ہیں۔ باطن کو بدلنے کے لیے سخت محنت درکار ہوتی ہے اور ہم محنت سے گھبراتے ہیں۔

Leave a Reply