انسانوں کی عظیم اکثریت ماحول کے جبر کے تحت زندگی بسر کرتی ہے۔ انسانوں کے ماحول میں کفر ہوتا ہے تو انسان کافر ہوجاتے ہیں۔ انسانوں کے ماحول پر شرک کا غلبہ ہوتا ہے اور انسان مشرک ہوجاتے ہیں۔ انسان کے ماحول پر حق کا غلبہ ہوجاتا ہے تو انسان حق کو قبول کرلیتا ہے۔ ماحول کا جبر اتنی اہم چیز ہے کہ رسول اکرمؐ کی ایک حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ بچہ اپنے والدین کے زیر اثر ہوتا ہے، والدین عیسائی ہوتے ہیں تو بچہ عیسائی ہوجاتا ہے، والدین یہودی ہوتے ہیں تو بچہ یہودیت اختیار کرلیتا ہے، والدین مجوسی ہوتے ہیں تو بچہ مجوسیت کو اوڑھنا بچھونا بنالیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے مسلمانوں کو ماحول کے جبر کو چیلنج کرنے کی تعلیم دی ہے۔ ایک حدیث شریف کا مفہوم یہ ہے کہ اگر تم برائی کو طاقت سے روک سکتے ہو تو طاقت سے روک دو۔ یہ ممکن نہ ہو تو اس کے خلاف زبان سے جہاد کرو۔ یہ بھی ممکن نہ ہو تو اسے دل میں بُرا خیال کرو۔ مگر یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔ اقبال نے اپنی معرکہ آرا نظم ’’امامت‘‘ میں امام کی پہچان بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے۔
تُو نے پُوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے
حق تجھے میری طرح صاحبِ اَسرار کرے
ہے وہی تیرے زمانے کا امامِ برحق
جو تجھے حاضر و موجود سے بیزار کرے
موت کے آئینے میں تجھ کو دکھا کر رُخِ دوست
زندگی تیرے لیے اور بھی دُشوار کرے
دے کے احساسِ زیاں تیرا لہُو گرما دے
فقر کی سان چڑھا کر تجھے تلوار کرے
فتنۂ ملتِ بیضا ہے امامت اُس کی
جو مسلماں کو سلاطیں کا پرستار کرے!
اقبال کی اس نظم کے تناظر میں دیکھا جائے تو باطل کے حاضر و موجود کے خلاف جہاد صرف امام وقت ہی کی نہیں مسلمانوں کی بھی نشانی ہے۔ جو مسلمان باطل کے حاضر و موجود کے خلاف صف آرا نہیں ہے اس کے ایمان اور اس کے اسلام میں ایک نقص ہے۔
اللہ تعالیٰ نے نبوت کا سلسلہ قائم ہی اس لیے کیا کہ انبیا اور ان کی نبوت کو قبول کرنے والے باطل کے پیدا کردہ ماحول کے جبر کو چیلنج کرسکیں۔ انسانیت کی تاریخ یہ ہے کہ انسان حق کو پہچانتا ہے۔ اسے قبول کرتا ہے لیکن پھر انفرادی اور اجتماعی نسیان کا شکار ہو کر حق کو فراموش کردیتا ہے اور باطل کو اختیار کرلیتا ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ہر نبی نے توحید کی تعلیم دی مگر انسانوں نے کفر اور شرک ایجاد کرلیے۔ چناں چہ اللہ تعالیٰ کو تواتر کے ساتھ انبیا مبعوث کرنا پڑے۔ زیر بحث موضوع کے حوالے سے سیدنا نوحؑ کی اہمیت یہ ہے کہ انہوں نے ساڑھے نو سو سال حق کی تبلیغ کی۔ کفر اور شرک کے مقابلے پر توحید کو پیش کیا مگر ان کی قوم نے سیدنا نوحؑ کی بات مان کر نہ دی۔ ایک روایت کے مطابق طوفانِ نوح آیا تو سیدنا نوحؑ کے ساتھ صرف 40 آدمی تھے۔ دوسری روایت کے مطابق اہل ایمان کی تعداد 60 سے زیادہ تھی۔ یہ ساڑھے نو سو سال کی محنت شاقہ کا حاصل تھا۔ بلاشبہ یہ سیدنا نوحؑ کی ناکامی نہیں تھی۔ یہ ان کی قوم کی ناکامی تھی۔ وہ ساڑھے نو سو سال کی تبلیغ کے باوجود نہ حق کو پہچان سکی نہ اسے قبول کر سکی۔ حد تو یہ ہے کہ نوحؑ کا بیٹا بھی اپنے والد پر ایمان نہ لاسکا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ سیدنا نوحؑ کی قوم ماحول کے جبر کا شکار تھی۔ اس کے ماحول پر کفر اور شرک کا غلبہ تھا اور اس غلبے کا اندھیرا ایسا تھا کہ نبوت کا سورج بھی اس اندھیرے کو دور نہ کرسکا۔ اصل میں جب ماحول کا جبر بڑھ جاتا ہے تو وہ دلوں کو اندھا کردیتا ہے۔ پھر انسان کسی اور کو کیا نبی تک کو نہیں دیکھ پاتا۔ نبی تک کو نہیں پہچان پاتا۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ایک لاکھ 24 ہزار انبیا نازل فرمائے۔ ایک حدیث شریف کے مطابق آخرت میں بعض انبیا کی امت ایک اور چند افراد پر مشتمل ہوگی۔ ہمارے سامنے سیدنا عیسیٰؑ کی مثال بھی ہے۔ سیدنا عیسیٰؑ حق کے ساتھ مبعوث کیے گئے تھے۔ انہیں مُردوں کو زندہ کرنے اور بیماروں کو شفا عطا کرنے کے معجزات دیے گئے تھے۔ انہیں لوگوں نے پنگھوڑے سے کلام کرتے ہوئے دیکھا تھا مگر ماحول کے جبر نے سیدنا عیسیٰؑ کے زمانے کے اکثر لوگوں کے دلوں کو اندھا کردیا تھا۔ چناں چہ انہیں سیدنا عیسیؑ نظر آئے نہ ان کے معجزات دکھائی دیے۔ یہاں تک کہ سیدنا عیسیٰؑ کے زمانے کے یہودیوں نے سیدنا عیسیٰؑ کو سولی پر چڑھانے کی سازش کی۔ خود رسول اکرمؐ کی سیرت طیبہ اور جدوجہد ہمیں بتاتی ہے کہ رسول اکرمؐ خاتم النبیین تھے۔ آپؐ کی انگلی کے اشارے سے چاند دو ٹکڑے ہوگیا تھا۔ آپؐ کو معراج عطا کی گئی تھی، مگر رسول اکرمؐ 13 سال تک مکے میں حق کی تبلیغ کرتے رہے اور 13 برسوں میں چند سو افراد اسلام لائے۔ انسانوں کی اکثریت اس وقت منقلب ہوئی جب رسول اکرمؐ نے مکہ فتح کرکے فیصلہ کن سیاسی اور عسکری قوت حاصل کرلی۔
ماحول کے جبر کا کیا نتیجہ ہوتا ہے اس کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ ہندو ازم کی مقدس کتابوں میں صاف لکھا ہوا ہے کہ خدا ایک ہے اور اس کی کوئی صورت یا شبیہ نہیں ہے۔ مگر ہندوازم نے ایک سطح پر تین اور دوسری سطح پر 33 کروڑ خدا ایجاد کرلیے ہیں۔ اب یہی شرک ہندوئوں کا ’’مذہبی ماحول‘‘ ہے۔ چناں ہندوئوں کی عظیم اکثریت اسی ماحول کے جبر کے تحت خود اپنی مقدس کتابوں کی بات بھی نہیں مانتی۔ ہندوئوں کی مقدس کتابوں میں لکھا ہوا ہے کہ برہمن، شتری، ویش اور شودر انسانوں کی روحانی یا نفسیاتی اقسام ہیں۔ برہمن وہ ہے جو سب سے زیادہ خدا پرست اور سب سے زیادہ علم والا اور مذہب کی تعبیر بیان کرنے والا ہے۔ شتری وہ ہے جو سپاہی بن کر معاشرے اور ریاست کا دفاع کرسکتا ہے۔ ویش وہ ہے جو زیادہ عقل معاش رکھتا ہے۔ یعنی تجارت پیشہ انسان۔ شودر وہ ہے جو صرف جسمانی مشقت کرسکتا ہے۔ لیکن ہندوئوں نے برہمن، شتری، ویش اور شودر کو پیدائشی سلسلہ بنا کر رکھ دیا ہے۔ حالاں کہ مہا بھارت میں صاف لکھا ہے کہ ایک برہمن کے گھر شودر اور شودر کے گھر برہمن پیدا ہوسکتا ہے۔ چوں کہ ذاتوں کی یہی تعبیر صدیوں سے ہندوازم کا ’’ماحول‘‘ ہے اس لیے کوئی ہندو ذاتوں کی اصل تعبیر کی طرف نہیں دیکھتا، نہ اسے مانتا۔ انجیل میں کہیں نہیں لکھا کہ معاذ اللہ سیدنا عیسیٰؑ خدا کے بیٹے ہیں اور انہوں نے سولی کو اختیار کرکے عیسائیوں کے گناہوں کا کفارہ ادا کردیا ہے۔ لیکن عیسائیوں نے صدیوں پہلے یہ دونوں عقائد گھڑلیے تھے اور اب یہی عقائد عیسائیت کا ’’ماحول‘‘ ہیں۔ اس لیے کوئی عیسائی اصل انجیل کی طرف نہیں دیکھا۔ وہ دیکھتا ہے تو چرچ کی تعلیمات کی طرف۔
ماحول کے جبر کی ہولناکی عہد حاضر میں مسلمانوں کی دنیا پرستی نے بھی ظاہر اور ثابت ہے۔ اسلام میں دنیا کی ’’اوقات‘‘ یہ ہے کہ قرآن نے اسے دھوکے کی ٹٹی یعنی Smoke Screen اور متاع قلیل قرار دیا ہے۔ رسول اکرمؐ کی سیرت طیبہ کا مشہور واقعہ ہے کہ رسول اکرمؐ ایک بار صحابہ کے ساتھ کہیں جارہے تھے کہ راستے میں بکری کا مرا ہوا بچہ پڑا تھا۔ رسول اکرمؐ اسے دیکھ کر ٹھیر گئے۔ صحابہ بھی رُک گئے۔ رسول اکرمؐ نے صحابہ سے پوچھا کہ کیا تم میں سے کوئی بکری کے اس مرے ہوئے بچے کو خریدنا پسند کرے گا۔ صحابہ نے کہا ہم تو اسے مفت بھی لینا پسند نہیں کریں گے۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا یاد رکھو دنیا بکری کے اس مرے ہوئے بچے سے زیادہ حقیر ہے۔ ایک حدیث شریف میں رسول اکرمؐ نے فرمایا کہ اگر دنیا مچھر کے پَر کے برابر بھی اہم ہوتی تو کافروں اور مشرکوں کا اس میں کوئی حصہ نہ ہوتا۔ لیکن آج پوری مسلم دنیا میں دنیا پرستی عام ہے۔ اس لیے کہ دنیا پرستی ہی آج کا ماحول ہے۔ آج کے ماحول کا جبر انسانوں کو بتارہا ہے کہ قابل عزت وہی انسان ہے جس کے پاس دوست یا طاقت یا دونوں ہیں۔ آج مسلم دنیا میں تقوے اور علم کی فضیلت کو کوئی گھاس نہیں ڈالتا۔ اس لیے کہ تقویٰ اور علم ہمارا ماحول نہیں ہیں۔
اس سلسلے میں مسلمان نہ قرآن کی طرف دیکھتے ہیں نہ احادیث کی طرف، وہ نہ سیرت طیبہؐ سے متاثر ہوتے ہیں نہ صحابہ اور بڑے صوفیا اور علما کی زندگی سے کوئی سبق لیتے ہیں۔ مسلمانوں کی عظیم اکثریت دنیا کی محبت کھا رہی ہے، دنیا کی محبت پی رہی ہے، دنیا کی محبت اوڑھ رہی ہے، دنیا کی محبت بچھا رہی ہے۔
ماحول کا جبر کیا چیز ہے اور اس سے کس طرح لڑنا پڑتا ہے اس کا ہمیں ذاتی طور پر بھی تجربہ ہے۔ ہماری پرورش ننھال میں ہوئی اور ہمارا ننھال علمائے دیوبند کے زیر اثر تھا۔ چناںچہ ہم نے بچپن میں اپنے بڑوں سے مولانا مودودی کی برائی سنی۔ ہم نے سنا کہ مولانا صحابہ کیا پیغمبروں تک پر اعتراض کرتے ہیں۔ انہوں نے دین کا مفہوم ہی بدل ڈالا ہے۔ ہمارے ننھال میں ہمارے والد کی بڑی عزت کی جاتی تھی مگر ساتھ ہی یہ بھی کہا جاتا تھا کہ وہ مودودیے ہیں۔ چناں چہ ہم جب نویں جماعت میں تھے تو ایک دن اپنی بڑی بہن کے سامنے مولانا مودوودی کی مذمت کررہے تھے۔ بہن نے کہا تم نے مولانا کو پڑھا بھی ہے یا سنی سنائی باتوں سے کام چلا رہے ہو۔ ہم نے کہا کہ ہم نے مولانا کو نہیں پڑھا۔ ہماری بہن نے ہمیں مولانا کی کتاب خلافت اور ملوکیت تھمادی۔ ہم نے تین چار دن میں خلافت اور ملوکیت کو پڑھ ڈالا۔ اس کتاب کو پڑھ کر ہمارے دل کی دنیا بدل گئی اور ہمارے دل میں مولانا کی محبت اور احترام پیدا ہوگیا۔ پھر ہم نے مولانا کی دوسری کتب پڑھیں تو بچپن کے ماحول کے جبر سے آزاد ہوگئے۔ ہمارے ماحول میں ایسے بڑے بھی موجود تھے جو بھٹو صاحب کی محبت میں گرفتار تھے۔ چناں چہ بچپن میں ہم بھی بھٹو صاحب کی شخصیت کے اسیر تھے۔ مگر جب ہم نے بھٹو کی شخصیت اور ان کی فسطائیت کے بارے میں پڑھا تو بھٹو کے بارے میں بھی ہماری رائے تبدیل ہوگئی۔ ہم آج محسوس کرتے ہیں کہ اگر ہم ماحول کے جبر سے آزاد نہ ہوتے تو نہ صرف یہ کہ ہمارا تناظر غلط ہوتا بلکہ ہمارا روحانی، ذہنی اور نفسیاتی ارتقا بھی ممکن نہ ہوتا۔ یہاں سوال یہ ہے کہ آخر انسان ماحول کے جبر کی مزاحمت کیوں نہیں کرتا؟ اس کی کئی وجوہ ہیں، اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ انسان اکثریت کی رائے کو دیکھتا ہے اور وہ اکثریت ہی کو حق سمجھتا ہے مگر اکثریت ہر معاملے میں حق پر نہیں ہوتی۔ ماحول کے جبر کی مزاحمت نہ کرنے کی ایک وجہ انسان کی انا پرستی ہوتی ہے۔ انسان اپنی پسند اور ناپسند کو انا مرکز بنادیتا ہے، چناں چہ پھر اس کے سامنے حق بھی آتا ہے تو اس کی انا اسے قبول نہیں کرنے دیتی۔ تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان کی خاندان قبیلے اور قوم کی پرستش بھی انسان کو ماحول کی مزاحمت نہیں کرنے دیتی۔ رسول اکرمؐ کے زمانے میں کافر اور مشرکین اپنے کفر اور شرک کا جواز یہ پیش کیا کرتے تھے کہ ہم نے اپنے بزرگوں کو کفر اور شرک پر کھڑا پایا ہے۔ چناں چہ ہم ان کا راستہ ترک نہیں کرسکتے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ انسان کے مفادات بھی اسے حق کو قبول نہیں کرنے دیتے۔ تبدیلی کا خوف بھی انسان کو ماحول کے جبر میں مبتلا رکھتا ہے۔