اسلام اور حقیقت محمدیؐ راز نہیں۔ ہمارے پاس قرآن موجود ہے۔ صحیح احادیث کے مجموعے موجود ہیں۔ مستند سیرت طیبہؐ موجود ہے۔ لیکن اس کے باوجود مغرب اور اس کے آلہ کار مسلم دنیا میں اسلام اور سیرت طیبہ کا خود ساختہ تصور پیش کرتے رہتے ہیں۔ اس کی ایک بڑی مثال سرسید ہیں۔ سرسید نے ایک جانب قرآن و حدیث کا انکار کیا اور دوسری جانب انہوں نے فرمایا کہ جہاد کا زمانہ گزر چکا ہے۔ ہمارا زمانہ قلم کا زمانہ ہے۔ چناں چہ اب جہاد بالسیف نہیں ہوگا۔ صرف جہاد بالقلم ہوگا۔ اس پر اقبال نے جہاد کے عنوان سے ایک نظم کے ذریعے سرسید کو جواب دیا۔ اقبال کی نظم یہ ہے۔
فتویٰ ہے شیخ کا یہ زمانہ قلم کا ہے
دُنیا میں اب رہی نہیں تلوار کارگر
لیکن جنابِ شیخ کو معلوم کیا نہیں؟
مسجد میں اب یہ وعظ ہے بے سُود و بے اثر
تیغ و تُفنگ دستِ مسلماں میں ہے کہاں
ہو بھی، تو دل ہیں موت کی لذّت سے بے خبر
کافر کی موت سے بھی لَرزتا ہو جس کا دل
کہتا ہے کون اُسے کہ مسلماں کی موت مر
تعلیم اُس کو چاہیے ترکِ جہاد کی
دُنیا کو جس کے پنجہ خُونیں سے ہو خطر
باطل کے فال و فر کی حفاظت کے واسطے
یورپ زِرہ میں ڈوب گیا دوش تا کمر
ہم پُوچھتے ہیں شیخِ کلیسا نواز سے
مشرق میں جنگ شر ہے تو مغرب میں بھی ہے شر
حق سے اگر غرض ہے تو زیبا ہے کیا یہ بات
اسلام کا محاسبہ، یورپ سے درگزر!
ہمارے زمانے میں جاوید احمد غامدی بھی اسلام کے خود ساختہ تصور کو عام کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کا اصرار ہے کہ اسلام تو امن کا دین ہے، اس کو جنگ اور جہاد سے کیا لینا دینا۔ وہ سیرت طیبہ کا بھی ایک ایسا تصور پیش کرتے ہیں جس کا اصل اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کی ایک مثال غامدی صاحب کے شاگرد رشید خورشید ندیم کے حالیہ کالم میں ملتی ہے۔ خورشید ندیم نے اس حوالے سے کیا فرمایا ہے۔ انہی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے۔ لکھتے ہیں۔
’’بطور مسلمان جب میں اپنے ہم مذہب لوگوں سے سنتا ہوں کہ دنیا آج اسلام کے خوف میں مبتلا ہے اور اسے ختم کرنا چاہتی ہے، تو میں حیرت میں مبتلا ہوجاتا ہوں۔ یہ بات میرے لیے باعث تشویش ہونی چاہیے یا باعث فخر و انبساط؟ اسلام تو ہر طرح کے خوف سے آزاد کرانے کے لیے آیا ہے۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ پیغمبر اسلامؐ کا تعارف ہی یہ ہے کہ وہ عالمین کے لیے رحمت ہیں۔ آپؐ نے کبھی یہ نہیں فرمایا کہ میں کوئی نیا دین لے کر آیا ہوں۔ یہی کہا کہ میرا دین وہی ہے جو ابراہیمؑ، موسیٰؑ و عیسیٰؑ کا تھا۔ ایسے دین سے کسی کو وحشت اور خوف کیسے ہوسکتا ہے؟‘‘
اس چھوٹے سے اقتباس میں خورشید ندیم نے اعلان کے بغیر قرآن اور سیرت طیبہ، مذہب کی پوری تاریخ اور خود اسلام کی پوری تاریخ کا انکار کردیا ہے۔
قرآن و سیرت طیبہؐ کا تو ذکر ہی کیا وہ تو مسلمانوں کے لیے علم کے سب سے بڑے سرچشمے ہیں، مسلمانوں کا تو پہلا کلمہ بھی انقلابی اور باطل کے خلاف جنگ کا اعلان ہے۔ کلمہ طیبہ یہ ہے۔ نہیں ہے کوئی خدا، سوائے اللہ کے اور محمد اللہ کے رسول ہیں۔ اس کلمے کے ابتدائی حصے میں اللہ تعالیٰ نے تمام اہل ایمان کو تعلیم دی ہے کہ وہ دنیا کے تمام جھوٹے خدائوں کا انکار کریں۔ اگر لوگ کفر میں مبتلا ہیں اور اسے خدا بنائے ہوئے ہیں تو مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ کفر کا انکار کریں۔ اگر معاشرہ شرک میں مبتلا ہے اور اس نے جعلی خدا ایجاد کیے ہوئے ہیں تو مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ ہر سطح پر جعلی خدائوں کی مزاحمت کریں۔ اگر دنیا سوشلزم کے بت کو پوج رہی ہے تو مسلمانوں کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ اس بت کو پاش پاش کریں۔ دنیا اگر سیکولر ازم اور لبرل ازم کی خدائی کے آگے سر جھکائے ہوئے ہے تو مسلمانوں کا فرض ہے کہ ان تمام جھوٹے خدائوں کا انکار کریں اور انہیں منہ کے بل گرانے کی کوشش کریں۔ رسول اکرمؐ نے اپنے عہد مبارک میں یہی کیا۔ انہوں نے کفر کی خدائی کو للکارا، شرک کی خدائی کا انکار کیا۔ انہوں نے قبیلے، رنگ اور نسل کے بتوں کو پاش پاش کیا۔ رسول اکرمؐ نے ایک بار بھی یہ نہیں کہا کہ چوں کہ میں تمام عالموں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں اس لیے میں کفر اور شرک کے حوالے سے پُرامن بقائے باہمی کا راستہ اختیار کروں گا۔ چوں کہ رسول اکرمؐ نے اپنے زمانے کے تمام جھوٹے خدائوں اور باطل نظریات کو چیلنج کیا اس لیے پورا عالم عرب آپؐ کا دشمن ہوگیا۔ یہ دشمنی معمولی نہیں تھی۔ اس دشمنی کے تحت آپؐ کو شاعر کہا گیا، مجنون قرار دیا گیا۔ آپؐ اور آپؐ کے اہل خانہ کو ساڑھے تین سال تک شعب ابی طالب میں محصور کیا گیا۔ یہاں تک کہ بالآخر آپ کو جان سے مارنے کا فیصلہ کرلیا گیا۔ چناں چہ آپؐ کو مکے سے مدینے ہجرت کرنی پڑی۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی۔ آپؐ 10 سال کی مدنی زندگی میں 60 سے زیادہ غزوات اور سرایہ سے گزرے۔ غزوات وہ جنگیں ہیں جن میں آپؐ نے بہ نفس نفیس شرکت کی۔ سرایہ وہ جنگیں ہیں جو آپؐ کے حکم سے ہوئیں مگر جن میں آپؐ خود شریک نہیں ہوئے۔ تو کیا رسول اکرمؐ کی سیرت کے یہ پہلو آپؐ کے رحمت اللعالمین ہونے کا انکار ہیں؟ خدا کی رحمت رسول اکرمؐ کی رحمت سے کھربوں گنا زیادہ ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جہاد سے متعلق اتنی آیات نازل کی ہیں کہ انہیں پڑھ کر خیال آتا ہے کہ قرآن صرف کتاب ہدایت نہیں ہے۔ وہ کتاب جہاد بھی ہے۔ کتاب جنگ بھی ہے۔ ذرا قرآن کی چند آیات کا ترجمہ تو ملاحظہ کیجیے۔
’’تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ اللہ کی راہ میں ان کمزور مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہیں لڑتے جو کہتے ہیں اے خدا ہمیں اس بستی سے نکال جہاں کے لوگ بڑے ظالم اور جفاکار ہیں اور ہمارے لیے خاص اپنی طرف سے ایک محافظ اور مددگار مقرر فرما‘‘۔ (النساء: 75)
ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
’’جو لوگ ایمان لاتے ہیں وہ اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں اور جو کافر و نافرمان ہیں وہ ظلم و سرکشی سے لڑتے ہیں۔ پس شیطان کے دوستوں سے لڑو کہ شیطان کی جنگ کا پہلو کمزور ہے‘‘۔ (النساء: 76)
اللہ تعالیٰ نے جہاد کی صورت میں جنگ کرنے والوں کے حوالے سے فرمایا ہے۔
’’اللہ ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اس کی راہ میں صف باندھے ہوئے جم کر لڑتے ہیں گویا وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں‘‘۔ (الصف: 4)
اللہ کے لیے جہاد کرنے والوں کی فضیلت قرآن میں اس طرح بیان ہوئی ہے۔
’’کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد حرام کو آباد کو ان لوگوں کے کام کے برابر ٹھیرایا ہے جو اللہ اور یوم آخر پر ایمان لائے اور اللہ کی راہ میں لڑے۔ اللہ کے نزدیک یہ دونوں برابر نہیں۔ اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ جو لوگ ایمان لائے جنہوں نے حق کی خاطر گھر بار چھوڑا اور اللہ کی راہ میں جان و مال سے لڑے ان کا درجہ اللہ کے نزدیک زیادہ بڑا ہے اور وہی لوگ ہیں جو حقیقت میں کامیاب ہیں‘‘۔ (التوبہ: 20-19)
تو کیا ان آیات جہاد کا مطلب یہ ہے کہ معاذ اللہ کی رحمت کچھ کم ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ جہاد بجائے خود اللہ کی رحمت کا ایک مظہر ہے۔ اس لیے کہ اللہ نے قرآن میں جنگ کی مصلحت بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے۔
’’اگر خدا لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرتا تو صومعے اور گرجے، اور معبد اور مسجدیں، جن میں اللہ کا ذکر کثرت سے کیا جاتا ہے مسمار کردیے جاتے‘‘۔ (الحج: 4)
جنگ اور جہاد صرف اسلام اور سیرت محمدیؐ سے مخصوص نہیں۔ بائبل کی تین آیات جنگ ہمارے سامنے رکھی ہیں۔ ذرا دیکھیے تو وہ کیا کہتی ہیں۔
’’جب تو کسی شہر سے جنگ کرنے کو اس کے نزدیک پہنچے تو پہلے اسے صلح کا پیغام دینا اور اگر وہ تجھ کو صلح کا جواب دے اور اپنے پھاٹک تیرے لیے کھول دے تو وہاں کے سب باشندے تیرے باجگزار بن کر تیری خدمت کریں اور اگر وہ تجھ سے صلح نہ کرے بلکہ تجھ سے لڑنا چاہے تو تو اس کا محاصرہ کر ڈالنا لیکن عورتوں اور بال بچوں اور چوپایوں اور اس شہر کے سب مال اور لوٹ کو اپنے لیے رکھ لینا اور تو اپنے دشمنوں کی اس لوٹ کو جو خداوند تیرے خدا نے تجھ کو دی وہ کھانا۔ ان سب شہروں کا یہی حال کرنا جو تجھ سے بہت دور ہیں اور ان قوموں کے شہر نہیں‘‘۔ (استثنا 15-20)
کنعانیوں سے جنگ کا اصول
’’اور جب خداوند تیرا خدا ان کو تیرے آگے شکست دلائے اور تو ان کو مار لے تو تو ان کو بالکل نابود کر ڈالنا۔ تو ان سے کوئی عہد نہ باندھنا اور نہ ان پر رحم کرنا۔ تو ان سے بیاہ شادی بھی نہ کرنا نہ ان کے بیٹوں کو اپنی بیٹیاں دینا اور نہ اپنے بیٹوں کے لیے ان کی بیٹیاں لینا کیوں کہ وہ تیرے بیٹوں کو میری پیروی سے برگشتہ کردیں گے تا کہ وہ اور معبودوں کی عبادت کریں۔ یوں خداوند کا غضب تم پر بھڑکے گا اور وہ تجھ کو جلد ہلاک کردے گا بلکہ تم ان سے یہ سلوک کرنا کہ ان کے مذبحوں کو ڈھادینا۔ ان کے ستونوں کو ٹکڑے ٹکڑے کردینا اور ان کی یسیرتوں کو کاٹ ڈالنا اور ان کی تراشی ہوئی مورتیں آگ میں جلا دینا‘‘۔ (استثنا 5-7)
’’خداوند کے کہنے پر موسیٰ نے مدیانیوں سے بنی اسرائیل کا انتقام لینے کے لیے بارہ ہزار مسلح آدمی جنگ کے لیے چنے اور مدیانیوں سے جنگ کرکے ان کے سب مردوں کو قتل کیا، ان کی عورتوں اور بچوں کو قید کیا۔ سب مال و اسباب اور جانور لوٹ کے ان مدیانیوں کے سب شہروں اور چھائونیوں کو آگ سے پھونک دیا۔ بعد میں موسیٰ کے کہنے پر بچوں میں سے تمام لڑکوں کو قتل کر ڈالا اور جتنی عورتیں مرد کا منہ دیکھ چکی تھیں وہ بھی قتل کردی گئیں لیکن ان اچھوتی لڑکیوں کو جو مرد سے واقف نہیں تھیں اپنے لیے زندہ رکھ لیا جن کی تعداد بتیس ہزار تھی‘‘۔
عیسائیت کو ’’امن‘‘ کا مذہب قرار دیا جاتا ہے مگر انجیل کی بعض آیات کچھ اور ہی بیان کرتی ہیں۔ سیدنا عیسیٰؑ کی زبان سے انجیل کہتی ہے۔
’’میرے دشمنوں کو میرے سامنے لا کر قتل کرو۔ جنہوں نے نہیں چاہا کہ میں ان پر بادشاہی کروں‘‘۔ (لوقا: 27-19)
سیدنا عیسیٰؑ نے ایک جگہ فرمایا۔
’’تم گمان کرتے ہو کہ میں زمین میں صلح کرانے آیا ہوں؟ میں تم سے کہتا ہوں کہ نہیں۔ بلکہ میں جدائی کرانے آیا ہوں‘‘۔ (لوقا: 15-12)
سیدنا عیسیٰؑ کا ایک اور ارشاد ہے۔
’’میں زمین میں آگ بھڑکانے آیا ہوں اور آگ لگ چکی ہوتی تو میں کیا ہی خوش ہوتا‘‘۔ (لوقا: 49-12)
سیدنا عیسیٰؑ کا ایک اور فرمان ہے۔
’’اگر کوئی میرے پاس آئے اور اپنے باپ، اور ماں اور بیوی بچوں اور بھائیوں اور بہنوں بلکہ اپنی جان سے دشمنی نہ کرے تو میرا شاگرد نہیں ہوسکتا‘‘۔ (لوقا: 26-14)
تو کیا ان ارشادات سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ سیدنا عیسیٰؑ جیسے جلیل القدر بنی رحم و کرم کی علامت نہیں تھے۔ ظاہر ہے کہ کوئی جاہل ہی یہ نتیجہ اخذ کرسکتا ہے۔
ہندوازم کو بھی جنگ سے عاری مذہب سمجھا جاتا ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ ذرا ہندوئوں کی مقدس کتاب رگ وید کے اشلوکوں کا یہ ترجمہ تو ملاحظہ کیجیے۔
’’پس اے اندر ہم کو بڑھنے والی شرکت عطا فرما۔ ہم کو وہ قہر اور طاقت عطا کر جو قوموں کو مغلوب کرے۔ ہمارے دوست مند سردھروں کو برقرار رکھ۔ ہمارے راجائوں کی حفاظت کر اور ہم کو دولت اور خوراک شریف اولاد کے ساتھ عنایت کر۔ (رگ وید: 11-54)
’’اے اندرمگھون۔ ہم جنگ میں تجھ سے امداد پا کر ان لوگوں کو مغلوب کریں جو ہمارا مقابلہ کرتے ہیں۔ ان کو ختم کریں جو ہم سے لڑتے ہیں۔ آج کے دن سوم رس انڈپلنے والوں کو برکت دے۔ ہم اپنی اس قربانی سے اپنی قوت دکھا کر مال غنیمت تقسیم کریں۔ لڑائی کا مال غنیمت‘‘۔ (رِگ وید: 1-32)
بلاشبہ اسلام اور رسول اکرمؐ تمام جہانوں کے لیے رحمت ہیں مگر باطل پرستوں نے کبھی اسلام کو دین حق اور رسول اکرمؐ کو نبی تسلیم نہیں کیا۔ مسلمانوں اور عیسائیوں کے باہمی تعلقات کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہ عیسائی تھے جنہوں نے اسلام کے خوف اور نفرت میں صلیبی جنگیں ایجاد کیں۔ پوپ اربن دوم نے 1095 میں بکواس کی کہ اسلام ایک شیطانی مذہب ہے اور مسلمان ایک شیطانی مذہب کے ماننے والے ہیں اور میرے قلب پر یہ بات القا کی گئی ہے ہم اس شیطانی مذہب اور اس کے ماننے والوں کو فنا کردیں۔ پوپ کو یہ کہتے ہوئے رسول اکرمؐ کی عظمت کا کوئی پہلو نظر نہ آیا۔ 19 ویں صدی آئی تو یورپی اقوام ایک بار پھر عالم اسلام پر چڑھ دوڑیں۔ یورپی اقوام نے جو مستشرق پیدا کیے انہوں نے رسول اکرمؐ کی توہین اور اہانت کی ایک تاریخ پیدا کی اور ایسا کرتے ہوئے انہیں یاد ہی نہیں رہا کہ رسول اکرمؐ تمام جہانوں کے لیے رحمت ہیں۔ 2009ء میں ایک بار پھر ایک پوپ بینی ڈکٹ شش دہم نے رسول اکرمؐ کی ذات اقدس پر حملہ کیا اور یورپ کے کئی ملکوں میں رسول اکرمؐ کے کارٹون بنائے گئے۔ یہ سب اس کے باوجود ہوا کہ مسلمانوں نے کبھی سیدنا عیسیٰؑ کی شان کے خلاف ایک حرف نہیں کہا۔ مسلمان ایسا کر بھی نہیں سکتے اس لیے کہ مسلمان حضور اکرمؐ کے ساتھ ساتھ تمام سابقہ انبیاء پر بھی لائے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اسلام اور مسلمانوں سے مغرب کی نفرت کا سبب کیا ہے؟ اس کا ایک سبب مغرب کی جہالت ہے۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ باطل نے ہمیشہ حق کا انکار کیا ہے۔ اس کی توہین کی ہے۔ مغرب کی اسلام اور پیغمبر اسلام سے نفرت کا ایک سبب یہ ہے کہ مغرب ایک ہزار سال کی کوششوں کے باوجود نہ اسلام کا راستہ روک سکا نہ وہ مسلمانوں کے دل سے رسول اکرمؐ کی محبت نکال سکا۔