پاکستان کے سیکولر کالم نگاروں کو اسلام پر حملہ کرنا ہوتا ہے تو وہ اسلام پر براہِ راست حملہ نہیں کرتے۔ وہ علما، مولویوں اور ملائوں کو بُرا بھلا کہتے ہیں۔ مگر پاکستان میں سیکولر اور لبرل لکھنے والوں کی جرأت اب اتنی بڑھ چکی ہے کہ انہوں نے براہِ راست اسلام پر حملہ کیا ہے۔ اس سنگین حملے کا پس منظر یہ ہے کہ گورنر پنجا نے پنجاب کی جامعات میں قرآن مجید کو ترجمے سے پڑھنا لازم قرار دے دیا ہے۔ قرآن کو ترجمے سے پڑھے بغیر کسی کو ڈگری نہیں مل سکے گی۔ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا ہے اور اگر پاکستان میں قرآن مجید تعلیم و تدریس کا حصہ نہیں بنے گا تو کیا سوشلسٹ چین اور لبرل امریکا میں بنے گا۔ مگر قرآن کو پنجاب کی جامعات کا حصہ بنانے کا عمل تین سیکولر کالم نگاروں کو اتنا بُرا لگا ہے کہ انہوں نے اس عمل پر اپنے اپنے حوالے سے بھرپور حملہ کیا ہے۔ ایاز امیر نے اس سلسلے میں کیا لکھا ہے انہی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے۔ لکھتے ہیں۔
’’شاعر مشرق نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری جرمنی کی ہائیڈل برگ یونیورسٹی سے حاصل کی۔ قائد اعظم نے بارایٹ لا لنکنز اِن (Lincoln’s Inn) سے کیا۔ اپنی اپنی ڈگریاں حاصل کرنے سے پہلے نہ مفکر مسلمانانِ ہند اور نہ ہی معمارِ پاکستان پہ ایسی کوئی شرط عائد ہوئی کہ وہ قرآن پاک کی ناظرہ اور ترجمے کی مہارت حاصل کریں۔
دونوں کی خوش قسمتی ہی سمجھی جانی چاہیے کہ وہ گورنر پنجاب چودھری محمد سرور کے عہد میں طالب علم نہ تھے۔ ورنہ ممکن ہے یوں کرنا پڑتا۔ شاعر مشرق کو شاید مشکل نہ پیش آتی لیکن قائد اعظم، جن کی ساری تعلیم انگریزی میں تھی، کو تھوڑی بہت دِقت ضرور ہوتی۔
قائد اعظم سے بڑا محافظ مسلمانانِ ہند کا کوئی نہیں رہا۔ اُن کے بغیر برصغیر میں ایک مسلم ریاست کا قیام ناممکن ہوتا‘ لیکن قائد اعظم نے اپنی درخشاں زندگی میں عملی کام کیا شوشوں کا سہارا کبھی نہ لیا۔ برصغیر کے مسلمانوں کے لیے الگ ریاست قائم کردی لیکن اُن کے اقدامات دیکھیے، اُن کی تمام کی تمام تقاریر چھان ڈالیے، کوئی فضول کا نعرہ نہیں ملے گا۔ لیکن اُن کی وجہ سے بننے والے ملک کی جو پاکستانی قوم کہلاتی ہے اُس کی تو زندگی ہی فقط نعروں اور شعبدہ بازی پہ مبنی ہے۔
جہاں سے شاعرِ مشرق اور معمارِ پاکستان فارغ التحصیل ہوئے وہاں اگر یہ کہا جائے کہ ڈگریاں تب ملیں گی جب آپ انجیل سے چند اوراق پڑھیں گے اور اُن کا مفہوم بیان کرسکیں گے تو قہقہہ ایسا اُٹھے گا کہ اُس کی گونج ساتویں آسمان تک پہنچ جائے‘ لیکن یہاں بغیر کسی چوں و چرا کے چھ سات یونیورسٹیوں کے وائس چانسلروں کا اجلاس منعقد کیا جاتا ہے‘ اور فیصلہ ہوتا ہے کہ کالج اور یونیورسٹی کی ڈگریاں تب تک نہیں دی جائیں گی جب تک طالب علم قرآن پاک کو بطور مضمون اختیار نہیں کریں گے‘‘۔
(روزنامہ دنیا۔ 20 جون 2020ء)
ایاز امیر نے قرآن کی تعلیم کا جس طرح مذاق اُڑایا ہے وہ آپ کے سامنے ہے مگر غازی صلاح الدین نے بھی دی نیوز کراچی میں شائع ہونے والے اپنے کالم میں قرآن کی تعلیم کا مذاق اُڑانے میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی۔ انہوں نے لکھا۔
“believe it or not, the punjab governor has, through a notification, made it compulsory for students to read the Holy Quran with Urdu translation before getting a degree from any university in the province. Forget about the old scheme for introducing ‘modern’ subjects in the Madrassah curriculum.”
(The News-21 june 2020)
ترجمہ: ’’یقین کریں یا نہ کریں پنجاب کے گورنر نے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے صوبے بھر کی جامعات میں قرآن کو ترجمے کے ساتھ پڑھنا لازمی قرار دے دیا ہے۔ اس کے بغیر کسی کو ڈگری نہیں مل سکے گی۔ مدارس میں جدید مضامین کی شمولیت کو تو آپ بھول ہی جائیے‘‘۔
آئی اے رحمن نے روزنامہ ڈان میں قرآن کی تعلیم پر حملے کے لیے جو کالم لکھا اس کا عنوان ہی توہین آمیز ہے۔ یعنی Creeping Islam‘‘۔ یعنی ’’رینگتا ہوا اسلام‘‘ آئی اے رحمن نے اپنے کالم میں لکھا۔
’’یہ بات عجیب محسوس ہوتی ہے کہ ضیا الحق اور اس کی جگہ لینے والوں نے چالیس سال تک معاشرے میں اپنی طرز کا اسلام مسلط کرنے کے بعد ایک قانون بنا ڈالا ہے جس کے تحت نوجوانوں کو قرآن پڑھنے پر مائل کیا جائے گا۔ اسلام ایک رضا کارانہ مذہب ہے، پنجاب کی حکومت کو یہ خیال کہاں سے آیا کہ ان طلبہ کو سزا دی جائے گی جو قرآن نہیں پڑھیں گے۔ علما خود اس بات کا جائزہ لیں کہ کیا پنجاب حکومت کا اقدام ’’دین میں کوئی جبر نہیں ہے‘‘ کے مذہبی اصول کے مطابق ہے؟
(ڈان کراچی۔ 25 جون 2020ء)
سوال یہ ہے کہ بات کہاں سے شروع کی جائے؟ ایاز امیر کے کالم کے مندرجات سے یہ تاثر پیدا ہوا ہے کہ اقبال اور قائد اعظم صرف جدید تعلیم سے آراستہ تھے۔ قرآن یا اس کے علم سے ان کا کوئی تعلق نہ تھا۔ اقبال تو شاید قرآن پڑھ بھی لیتے مگر قائد اعظم کو قرآن پڑھتے ہوئے بڑی مشکل ہوتی۔
قارئین کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ ایاز امیر نے جس اقبال اور جس قائد اعظم کا ذکر کیا ہے وہ سیکولر ایاز امیر کے اقبال اور قائد اعظم ہیں۔ ’’حقیقی اقبال‘‘ اور ’’حقیقی قائداعظم‘‘ نہیں۔ اقبال کو قرآن سے عشق تھا اور ان کی شاعری قرآن کی تعلیمات میں ڈوبی ہوئی شاعری ہے۔ ذرا اقبال کے قرآن سے متعلق یہ شعر پڑھیے۔ اقبال کہتے ہیں۔
وہ زمانے میں معزّز ہے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر
٭٭
اُسی قرآں میں ہے اب ترکِ جہاں کی تعلیم
جس نے مومن کو بنایا مہ و پرویں کا امیر
٭٭
خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق
٭٭
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآں
٭٭
قرآن میں ہو غوطہ زن اے مردِ مسلماں
اللہ کرے تجھ کو عطا جدّتِ کردار
اقبال کے یہ اشعار بتا رہے ہیں کہ اقبال کے نزدیک مسلمانوں کا عروج قرآن کو اختیار کرنے کی وجہ سے تھا اور مسلمانوں کا زوال قرآن کو ترک کردینے کی وجہ سے ہے۔ اقبال مسلمانوں سے کہہ رہے ہیں کہ اگر تمہیں جدت کردار درکار ہے تو قرآن میں ڈوب کر ہی یہ متاع ہاتھ آسکتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جس اقبال کو قرآن سے اتنی محبت ہے وہ قرآن کو نہیں پڑھتا ہوگا؟ لاحول ولاقوۃ۔ اقبال خود کو مولانا روم کا مرید کہتے تھے۔ انہوں نے ایک جگہ لکھا ہے کہ مولانا علم کا ایک سمندر ہیں اور میں اس سمندر کے ساحل پر پڑا ہوا ایک کوزا۔ اور یہ بات کون نہیں جانتا کہ مولانا کی شاعری کو فارسی کا قرآن کہا گیا ہے۔ جنہوں نے اقبال کی شاعری کو سرسری طور پر پڑھا ہے انہیں معلوم ہے کہ اقبال کی پوری شاعری کی لغت مذہبی یا قرآنی ہے۔ اقبال کی اردو شاعری میں خدا کا لفظ 81 بار، اللہ کا لفظ 43 بار، توحید کا لفظ 22 بار، اسلام کا لفظ 18 بار حرم کا لفظ 53 بار اور دل کا لفظ 198 بار آیا ہے۔ ہر باشعور شخص جانتا ہے کہ قلب یا دل ایک قرآنی اصطلاح بھی ہے اور قرآنی تصور بھی۔ ان حقائق کے باوجود ایاز امیر ’’تاثر‘‘ دینا چاہ رہے ہیں کہ اقبال کی ساری دلچسپی جدید مغربی تعلیم سے تھی۔ قرآن سے انہیں کچھ لینا دینا نہیں تھا۔ ہر پڑھا لکھا شخص جانتا ہے کہ زندگی کے آخری حصے میں اقبال کا یہ حال ہوگیا تھا کہ وہ قرآن کے سوا کوئی کتاب نہیں پڑھتے تھے اور جب بھی انہیں کوئی مسئلہ درپیش ہوتا وہ رہنمائی کے لیے قرآن اُٹھالیتے تھے۔
ایاز امیر نے اقبال کو تو کچھ نہ کچھ ’’مسلمان‘‘ مان بھی لیا مگر قائد اعظم کو تو انہوں نے تقریباً ’’کافر‘‘ بنا کر کھڑا کردیا۔ ایک ایسا آدمی جس کا قرآن سے کوئی تعلق ہی نہیں ہوسکتا۔ پاکستان کے سیکولر اور لبرل عناصر کا خمیر لاعلمی، جہالت، اسلام دشمنی اور ان چیزوں پر فخر سے اُٹھا ہے۔ چناں چہ قائد اعظم کے سلسلے میں ایاز امیر لاعلمی کا بھی شکار ہیں اور جہالت کا بھی۔ انہوں نے بچپن میں سیکولر اور لبرل شیاطین سے قائد اعظم کے بارے میں سن لیا ہوگا کہ وہ قرآن نہیں پڑھتے تھے حالاں کہ تاریخی شہادتوں سے ثابت ہے کہ وہ تواتر کے ساتھ قرآن کا انگریزی ترجمہ پڑھا کرتے تھے۔ قائد اعظم کے قرآن کے ساتھ گہرے تعلق کو ثابت کرنے کے لیے ہم کسی مذہبی اسکالر کی سند بھی لاسکتے ہیں مگر بہتر ہے کہ اس سلسلے میں ایک بڑی حد تک ایماندار سیکولر محقق خاتون سلینا کریم سے رجوع کیا جائے۔
سلینا کریم نے قائد اعظم پر ایک ضخیم کتاب ’’SECULAR JINNAH And PAKISTAN what The Nation Doesn’t Know‘‘ لکھی ہوئی ہے۔ چودہ ابواب پر مشتمل اس کتاب کے ایک پورے باب کا عنوان ہے۔
The Quran and Jinnah’s Speeches۔ یعنی قرآن اور جناح کی تقاریر۔ اس باب میں سلینا کریم نے سات موضوعات پر قائد اعظم کی تقاریر کے اقتباسات پیش کیے ہیں اور پھر وہ قرآنی آیات درج کی ہیں جن سے قائد اعظم کے سات بیانات برآمد ہوئے ہیں۔ تفصیلات کے لیے ملاحظہ کیجیے۔
Secular Jinnah and Pakistan۔ صفحہ 235 سے صفحہ 252 تک۔ اس باب کے خاتمے پر سلینا کریم جس ’’Conclusion‘‘ تک پہنچتی ہیں وہ یہ ہے۔
“Hopefolly these examples should suffice to demonstrate how staunchly Jinnah abided by Quranic Principles both in letter and in spirit. He was especially dedicated to Living by the most important Quranic Principle, tauheed, or unity.”
ترجمہ:۔ ’’یہ مثالیں یہ ظاہر کرنے کے لیے کافی ہیں کہ جناح کس پر جوش طریقے سے قرآنی اصولوں کی لفظی اور معنوی اعتبار سے پاسداری کرتے تھے۔ وہ خاص طور پر قرآن کے اصول توحید کے مطابق زندگی بسر کرتے تھے‘‘۔
جیسا کہ ظاہر ہے یہ کسی ’’اسلامسٹ‘‘ کی رائے نہیں بلکہ یہ ایک سیکولر اسکالر کی رائے ہے۔ ایک اطلاع کے مطابق یہ سیکولر اسکالر آج کل اس بات پر تحقیق کررہی ہیں کہ قائد اعظم کی تقاریر کی جڑیں کن کن احادیث میں پیوست ہیں۔
ایاز امیر نے لکھا ہے کہ مغرب کی جن جامعات سے اقبال اور قائد اعظم نے تعلیم حاصل کی ان جامعات میں اگر کسی طالب علم کو انجیل کی آیات پڑھنے کے لیے کہا جاتا تو وہاں قہقہہ بلند ہوتا۔ ایاز امیر کا خیال غلط نہیں۔ مغرب کے بے خدا، لامذہب، رسالت اور وحی بیزار معاشرے میں ایسا ہی ہوگا لیکن کیا پاکستانی معاشرہ بھی خدا کا انکار کرچکا ہے۔ مذہب سے لاتعلق ہوچکا ہے۔ رسالت اور وحی کا منکر ہوچکا ہے؟ نہیں، تو پھر ایاز امیر اور ان جیسے سیکولر اور لبرل جہلا پنجاب کی جامعات میں قرآن کی تعلیم کا مذاق کیوں اُڑا رہے ہیں؟۔
غازی صلاح الدین نے قرآن کی تعلیم پر Believe it or not کے الفاظ اس طرح لکھے ہیں جیسے ویٹی کن سٹی میں نفاذ اسلام کردیا گیا ہو۔ ارے بھائی یہ ابھی تک اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے، یہاں تعلیمی اداروں میں قرآن نہیں تو کیا بائبل اور گیتا پڑھائی جائے گی۔ ہمیں یقین ہے کہ پنجاب کی جامعات میں اگر بائبل اور گیتا کی تعلیم لازمی قرار دے دی گئی ہوتی تو غازی صلاح الدین خوشی سے بے ہوش ہوجاتے۔ البتہ قرآن کی تعلیم سے ان کا رنگ فق ہوگیا ہے۔
آئی اے رحمن کی دیدہ دلیری ملاحظہ کیجیے انہوں نے قرآن کی تعلیم کو ’’سزا‘‘ ہی بنادیا۔ پاکستان کے سیکولر اور لبرل لوگوں کے لیے سیکولر ازم اور لبرل ازم کی تعلیم ’’جزا‘‘ ہے اور قرآن کی تعلیم سزا ہے۔ آئی اے رحمن کی جہالت کا یہ عالم ہے کہ انہوں نے قرآن کی آیت ’’دین میں کوئی جبر نہیں‘‘ تک کو اپنے ناپاک مقصد کے لیے استعمال کر ڈالا۔ ارے بھائی دین میں کوئی جبر نہیں کا تعلق اس بات سے ہے کہ اسلام میں کسی غیر مسلم کو جبر کے تحت مشرف بہ اسلام نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ ایک اسلامی ریاست میں قرآن و سنت کی تعلیم جبر نہیں عین رحمت ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ پاکستان کے سیکولر اور لبرل عناصر سرعام قرآن و سنت کے خلاف صف آرا ہوگئے ہیں، مگر نہ ریاست کو اس بات کی فکر ہے، نہ علما اور مذہبی طبقات اس کا نوٹس لے رہے ہیں۔