یاسر پیرزادہ روزنامہ جنگ کے کالم نگار ہی نہیں معروف کالم نویس عطا الحق قاسمی کے فرزند اور ’’پنجاب کے پیرزادے‘‘ بھی ہیں۔ اقبال نے اپنے مجموعہ کلام بال جبریل میں ’’پنجاب کے پیرزادوں سے‘‘ کے عنوان کے تحت ایک معرکہ آرا نظم کہہ رکھی ہے۔ گفتگو کے آغاز سے پہلے اس نظم کو ملاحظہ کرنا مفید ہوگا۔ اس نظم سے پنجاب کے پیرزادوں کا باطن پوری طرح عیاں ہو کر سامنے آتا ہے۔
اقبال کی معرکہ آرا نظم یہ ہے۔
حاضر ہوا میں شیخ مجدّد کی لحد پر
وہ خاک کہ ہے زیر فلک مطلع انوار
اس خاک کے ذرّوں سے ہیں شرمندہ ستارے
اس خاک میں پوشیدہ ہے وہ صاحبِ اسرار
گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے
جس کے نفسِ گرم سے ہے گرمیٔ احرار
وہ ہند میں سرمایۂ ملّت کا نگہباں
اللہ نے بروقت کیا جس کو خبردار
کی عرض یہ میں نے کہ عطا فقر ہو مجھکو
آنکھیں مری بینا ہیں و لیکن نہیں بیدار
آئی یہ صدا سلسلۂ فقر ہوا بند
ہیں اہلِ نظر کشورِ پنجاب سے بیزار
عارف کا ٹھکانہ نہیں وہ خطہ کے جس میں
پیدا کُلَہِ فقر سے ہو طرئہ دستار
باقی کُلَہِ فقر سے تھا ولولۂ حق
طروّں نے چڑھایا نشہ خدمت سرکار
اس نظم کا لب لباب یہ ہے کہ اقبال نے مجدد الف ثانی سے فقر مانگا مگر انہیں جواب ملا کہ اہل نظر پنجاب کے پیرزادوں سے سخت ناراض ہیں اس لیے کہ انہوں نے فقر کو بھی دنیا پرستی کا ذریعہ بنالیا ہے۔ پنجاب کے پیرزداوں کی حقیقت پر اس مختصر سی گفتگو کے بعد ہم یاسر پیرزادہ کے کالم کی طرف چلتے ہیں۔
دراصل یاسر پیرزادہ نے موٹر وے سانحے کے حوالے سے ایک کالم تحریر فرمایا ہے۔ ان کے کالم کا عنوان ہے ’’ریپ کلچر‘‘۔ انہوں نے اپنے کالم میں سانحہ موٹر وے کو ’’ریپ کلچر‘‘ کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ ہمارے یہاں کلچر کا لفظ استعمال تو کثرت سے ہوتا ہے مگر اس کے معنی اکثر لوگوں کو معلوم نہیں۔ ان لوگوں میں یاسر پیرزادہ بھی یقینا شامل ہیں۔ ہمیں یہاں کلچر کے حوالے سے لکھی گئی معرکہ آرا تصنیف Culture And Anarchy یاد آگئی۔ یہ میتھوآرنلڈ کی تصنیف ہے جسے کلچر پر اتھارٹی سمجھا جاتا ہے۔ آرنلڈ نے اپنی کتاب میں کلچر کو Light and Sweetness یعنی روشنی اور شائستگی قرار دیا ہے اور ہمارے معاشرے میں کلچر کے لفظ کی بے حرمتی کا یہ عالم ہے کہ ہمارے یہاں کرپشن کا کلچر اور گن کلچر کی اصلاحیں عام ہیں۔ یہاں تک کہ یاسر پیرزادہ نے ’’ریپ‘‘ کو بھی کلچر کے ساتھ وابستہ کرکے ’’ریپ کلچر‘‘ کی اصطلاح وضع کرلی ہے۔ خیر یہ تو کلچر کے بارے میں تکنیکی قسم کی بات تھی۔ کلچر کے بارے میں دو عمومی باتیں یہ ہیں کہ کلچر کا کسی قوم کی الٰہیات سے گہرا تعلق ہوتا ہے اور کلچر کو وسیع پیمانے پر عوامی قبولیت حاصل ہوتی ہے۔ تو کیا خدانخواستہ ریپ کا تعلق ہماری الٰہیات سے ہے اور اسے پاکستانی معاشرے کی عظیم اکثریت نے قبول کرلیا ہے؟ ان سوالات کا جواب یاسر پیرزادہ پر واجب ہے۔
یاسر پیرزادہ نے ملک میں موجود ’’ریپ کلچر‘‘ کو ایک خاص ذہنی سانچے یا مائنڈ سیٹ کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے کیا لکھا ہے۔ انہی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے، لکھتے ہیں۔
’’سوال یہ ہے کہ ہم خواتین کو زیادتی سے بچانے کے لیے کیا کریں؟ جواب یہ ہے کہ ہمیں ریپ کلچر کو ختم کرنا ہوگا۔ یہ ریپ کلچر کیا ہے۔ یہ وہ مائنڈ سیٹ ہے جو کہتا ہے کہ عورت رات کو گھر سے باہر کیوں نکلی۔ اُس کے کپڑے ٹھیک نہیں تھے، وہ اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ فلم دیکھنے کیوں گئی۔ یہ عورتیں گھر کیوں نہیں بیٹھتیں۔ مردوں کی طرح بے شرمی کی باتیں کیوں کرتی ہیں۔ اس مائنڈ سیٹ کو ختم کرنے کے بجائے ہمارے پاس ہر بات کا ایک ہی علاج ہے۔ سرِعام پھانسی۔ سوال یہ ہے کہ سرِعام پھانسی سے بھی ریپ نہ رُکے تو کیا اگلے مرحلے میں مجرموں کے اعضا کاٹے جائیں گے‘‘ (روزنامہ جنگ، 16 ستمبر 2020ء)
لیجیے یاسر پیرزادہ نے ملک میں ہونے والے ریپ کے تمام واقعات کو اس ذہنی سانچے کا نتیجہ قرار دے دیا جو خواتین سے کہتا ہے کہ وہ رات کو گھر سے باہر کیوں نکلیں؟ بلاشبہ آئیڈیل اسلامی معاشرہ وہ ہے جس میں عورت رات کو تین بجے بھی گھر سے نکلے تو کوئی اس کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہ دیکھے۔ لیکن ہمارا معاشرہ آئیڈیل اسلامی معاشرہ نہیں ہے۔ یہ لاکھوں نفسیاتی، روحانی اور اخلاقی بیماروں کا معاشرہ ہے۔ چناں چہ ایسے معاشرے میں اگر عورت رات کو گھر سے تنہا نکلے گی تو اس کے لیے کسی بھی طرح کا مسئلہ کھڑا ہوسکتا ہے۔ چناں چہ جو لوگ پوچھتے ہیں کہ عورت رات کو تنہا گھر سے کیوں نکلی وہ عورت کے تحفظ کے نقطہ نظر سے یہ سوال اُٹھاتے ہیں۔ اس سوال کا مقصد عورت کی توہین نہیں ہوتا بلکہ عورت کو توہین سے بچانا ہوتا ہے۔ جس دن ہمارا معاشرہ آئیڈیل اسلامی معاشرہ بن جائے گا اس دن یہ سوال خود بخود ختم ہوجائے گا۔ یاسر پیرزادہ کا کہنا ہے کہ اگر عورت جنسی جذبات کو اُبھارنے والا لباس پہنے ہوئے ہو تو اس کے لباس پر اعتراض نہیں کیا جانا چاہیے۔ اسلام مرد اور عورت دونوں کو ساتر لباس زیب تن کرنے کی ہدایت کرتا ہے۔ چناں چہ عورت کیا اگر مرد بھی جنسی جذبات کو اُبھارنے والا لباس پہنے ہوگا تو اس پر ایک اسلامی معاشرے میں بجا طور پر اعتراض کیا جائے گا۔ اس لیے کہ ایک اسلامی معاشرے میں لباس شخصی انتخاب کا مسئلہ نہیں ہے۔ اسلامی معاشرے کے ہر فرد کو لباس کے سلسلے میں اسلامی احکامات کی پاسداری کرنی ہوگی۔ یاسر پیرزادہ کا اصرار ہے کہ اگر ایک اسلامی معاشرے میں عورت بوائے فرینڈ کے ساتھ نکلی ہوئی ہو تو اس پر بھی کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ حالات یہی رہے تو یاسر پیرزادہ کل کہیں گے کہ اگر کوئی لڑکا یا لڑکی سرعام زنا کررہے ہوں تو اس پر بھی کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ یاسرپیرزادہ کا تصور عورت یہ ہے کہ اگر کوئی عورت مردوں کی طرح بے شرمی کی باتیں کررہی ہو تو معاشرے کو اپنے کان بند کرلینے چاہئیں بلکہ شاید عورت کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ ارے بھائی اسلامی معاشرے میں عورت کیا مرد کو بھی بے شرمی کی باتیں زیب نہیں دیتیں اور اگر کوئی سرعام ایسا کرتا ہے تو ’’collective good‘‘ کا تقاضا ہے کہ اسے ایسا کرنے سے روک دیا جائے۔ یاسر پیرزادہ کی دلیل کو ایک اور زاویے سے دیکھا جائے تو یاسر پیرزادہ کہہ رہے ہیں کہ چوں کہ عورت رات کو گھر سے نکلتی ہے اس لیے مرد سزا کے طور پر اسے ریپ کرتے ہیں۔ چوں کہ وہ مناسب لباس پہنے ہوئے نہیں ہوتی اس لیے اسے سزا کے طور پر زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ چوں کہ وہ بوائے فرینڈ کے ساتھ فلم دیکھنے نکلی ہوتی ہے اس لیے اسے سزا کے طور پر ریپ کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ چوں کہ وہ بے شرمی کی باتیں کرتی ہوئی پائی جاتی ہے اس لیے اس پر سزاً ریپ مسلط کردیا جاتا ہے۔ لاحول ولاقوۃ۔
یاسر پیرزادہ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اگر سرعام پھانسی سے بھی ریپ نہ رکے تو کیا اگلے مرحلے میں مجرموں کے اعضا کاٹے جائیں گے؟ اس سلسلے میں ہمارے پاس بھی ایک جواب ہے مگر اس سلسلے میں یاسر پیرزادہ خود اپنے والد عطا الحق قاسمی کے خیالات ملاحظہ فرمالیں۔ وہ اپنے کالم میں لکھتے ہیں۔
’’اِن بدترین گناہگاروں کے لیے جو سزائیں بتائی جاتی ہیں اس سے کہیں زیادہ عذاب ان درندوں کو اسی دنیا میں دیا جائے۔ پہلے اُن کا ایک ہاتھ کاٹا جائے اور وہ پورا دن تڑپتے رہیں۔ دوسرے دن اُن کا دوسرا ہاتھ کاٹا جائے۔ اس سے اگلے روز ان کی ایک ٹانگ اور اُس سے اگلے روز ان کی دوسری ٹانگ بھی کاٹ دی جائے۔ پھر وقفے وقفے کے بعد اُن کے دوسرے اعضا کان، ناک، زبان، آنکھیں وغیرہ کاٹ کر شہر کے چوراہے میں لٹکا دیا جائے۔ مگر اُن کے زندہ رکھنے کے لیے تمام ماہرین طب کی خدمات حاصل کی جائیں۔ اگر یہ ممکن ہو تو ہر آنے جانے والا ان پر تھوکتا ہوا وہاں سے گزرے۔ اور ان غلیظوں کو ٹوائلٹ کے طور پر بھی استعمال کیا جائے۔ اگر انہیں زندہ رکھنا ممکن نہ ہو اور لگتا بھی یہی ہے تو پھر اُن کے باقی ماندہ حصوں سمیت انہیں بھوکے کتوں کے سامنے ڈال دیا جائے‘‘۔
(روزنامہ جنگ 14 ستمبر 2020ء)
مسلم معاشروں میں جرائم کا مسئلہ زیر بحث آتا ہے تو سیکولر اور لبرل افراد مسلم معاشروں اور مغربی معاشروں کے موازنے پر اُتر آتے ہیں اور ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ مغربی معاشروں میں نہ شرعی قوانین ہیں نہ موت کی سزائیں مگر اس کے باوجود وہاں مسلم معاشروں سے کم جرائم ہوتے ہیں۔ یاسر پیرزادہ نے بھی یہی کیا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے۔
’’خواتین امن اور تحفظ کے ادارے کے مطابق خواتین کے لیے پانچ بہترین ممالک میں ناروے، سوئٹزرلینڈ، ڈنمارک، فن لینڈ اور آئس لینڈ شامل ہیں۔ آخری اطلاعات ملنے تک ان میں کسی ملک میں سرعام پھانسی کا رواج نہیں، کہیں شرعی سزائیں نہیں دی جاتیں اور عریانی فحاشی کو موردِ الزام نہیں ٹھیرایا جاتا۔
باقی صفحہ7نمبر1
شاہنواز فاروقی
اس کے برعکس پانچ ممالک میں یمن، افغانستان، شام، پاکستان اور جنوبی سوڈان شامل ہیں۔ بدقسمتی سے یہ اکثریتی مسلم ممالک ہیں‘‘۔
مسلم دنیا کے سیکولر اور لبرل لکھاریوں میں بے ایمانی عام ہے۔ یاسر پیرزادہ نے بھی اعداد و شمار کے حوالے سے بے ایمانی کا مظاہرہ کیا ہے۔ ملک کے معروف کالم نگار محمد اظہار الحق نے numbeo.com کے حوالے سے اپنے کالم میں کچھ اعداد و شمار پیش کیے ہیں۔ محمد اظہار الحق کے بقول numbeo.com کو مغربی دنیا کے ممتاز اخبارات اور جرائد حوالے کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ اس ویب سائٹ کے مطابق رواں سال یعنی 2020ء میں امریکا اور یورپ کے کئی ممالک میں کرائم انڈیکس یہ رہا۔
امریکا…47.70
فرانس…47.37
برطانیہ…44.54
نیوزی لینڈ…42.19
سوئیڈن…47.43
بیلجیم…45.29
اٹلی…44.24
آسٹریلیا…41.67
اس ویب سائٹ کے مطابق سعودی عرب جہاں سزائے موت پر عمل ہوتا ہے وہاں کا کرائم انڈیکس صرف 26.68 فی صد رہا۔ مسلم معاشروں میں شرعی قوانین اور موت کی سزا کیا کرسکتی ہے مذکورہ اعداد و شمار سے صاف ظاہر ہے۔