عیسائیوں کے کیتھولک فرقے کی سب سے بڑی روحانی شخصیت پوپ فرانسس نے ہم جنس پرستی کی حمایت کردی ہے۔ روزنامہ جنگ کراچی کی ایک خبر کے مطابق پوپ نے ہم جنس پرست سول یونین کی حمایت کی ہے۔ یعنی انہوں نے ہم جنس پرستوں کی باہمی شادی کے حق کو تسلیم کرلیا ہے۔ اس حق کو سول یونین کی حمایت کا نام دیا گیا ہے۔ پوپ نے ایک دستاویزی فلم میں کہا ہے کہ ہم جنس پرستوں کو بھی ’’خاندان‘‘ بنانے کا حق ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں قانون سازی کی ضرورت پر بھی زور دیا تاکہ ہم جنس پرست جوڑوں کو قانونی تحفظ حاصل ہوسکے۔ پوپ نے کہا کہ وہ ہم جنس پرستوں کو قانونی تحفظ مہیا کرنے کے لیے کھڑے ہوگئے ہیں۔ (روزنامہ جنگ کراچی 22 اکتوبر 2020)۔
مذہب دنیا میں توحید کا پیغام لے کر آیا مگر انسانوں نے کفر ایجاد کیا۔ مذہب دنیا میں ایک خدا کی پرستش کو عام کرنے کے لیے آیا مگر انسانوں نے شرک تخلیق کر ڈالا۔ مذہب دنیا کو بدلنے کے لیے آیا مگر دنیا نے بالآخر خود مذہب کو بدل ڈالا۔ اقبال نے اسی لیے کہا ہے۔
خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق
ظاہر ہے کہ اقبال کا بیان کردہ یہ اصول صرف اسلام سے متعلق نہیں۔ انسان نے ہر آسمانی کتاب اور اس کی تعبیر کو بدلا ہے۔ قرآن مجید فرقان حمید کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا لوطؑ کی قوم ہم جنس پرست تھی اور سیدنا لوطؑ کے بہت سمجھانے کے باوجود بھی وہ ہم جنس پرستی سے باز نہ آئی۔ چناں چہ اللہ تعالیٰ نے بالآخر اس قوم کو صفحہ ہستی سے مٹادیا۔ خود عیسائیوں کی کتاب مقدس انجیل میں بھی سیدنا لوطؑ کی قوم پر عذاب نازل ہونے کا ذکر موجود ہے۔ عہدنامہ قدیم کے باب پیدائش کا بیان ملاحظہ کیجیے۔
’’تب خداوند نے اپنی طرف سے سدوم اور عمورہ پر گندھک اور آگ آسمان سے برسائی اور اس نے ان شہروں اور اس ساری ترائی کو اور ان شہروں کے سب رہنے والوں کو اور سب کچھ جو زمین سے اُگا تھا غارت کیا۔ مگر اس کی یعنی سیدنا لوطؑ کی بیوی نے پیچھے مڑ کر دیکھا اور وہ نمک کا ستون بن گئی اور ابراہم صبح سویرے اُٹھ کر اس جگہ گیا جہاں وہ خداوند کے حضور کھڑا ہوا تھا۔ اور اس نے سدوم اور عمورہ اور اس ترائی کی ساری زمین کی طرف نظر کی اور کیا دیکھتا ہے کہ زمین سے دھواں ایسے اٹھ رہا ہے جیسے بھٹی کا دھواں‘‘ (پرانا اور نیا عہدنامہ صفحہ 19)
عیسائیوں کی کتاب مقدس کی مذکورہ بالا عبارت سے صاف ظاہر ہے کہ ہم جنس پرستی عیسائیت میں بھی اسی طرح گناہ اور ممنوع ہے جس طرح اسلام میں گناہ اور ممنوع ہے مگر عیسائیوں کی سب سے بڑی روحانی شخصیت پوپ نے اپنی کتاب مقدس کی تعلیم کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے ہم جنس پرستی کو گلے لگالیا ہے وہ خود نہیں بدلے مگر انہوں نے بائبل کو بدل ڈالا ہے۔ اس وقت دنیا کے تین بڑے مذاہب
ہیں۔ اسلام، عیسائیت اور ہندوازم۔ ہم جنس پرستی کے سلسلے میں ہندوازم کی پوزیشن یہ ہے کہ کچھ عرصہ پہلے بھارت کی عدالت عظمیٰ نے ہم جنس پرستی کو قانونی قرار دے دیا ہے۔ بھارت کی دوسری بڑی جماعت کانگریس نے ہم جنس پرستی کو قانونی قرار دینے کے عمل کا خیر مقدم کیا ہے۔ بی جے پی ایک جماعت کی حیثیت سے عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر خاموش رہی ہے اور خاموشی کا مطلب رضا مندی ہوتا ہے۔ اس لیے کہ بی جے پی اگر ہم جنس پرستی کے خلاف بولنا چاہتی تو اسے ایسا کرنے سے کون روک سکتا تھا۔ شری شری روی شنکر ہندوازم کی بڑی روحانی شخصیات میں سے ایک ہیں۔ انہوں نے ہم جنس پرستی کو قانونی قرار دینے کے فیصلے کے آگے سر تسیلم خم کیا ہے اور اب عیسائیت کی سب سے بڑی روحانی شخصیت نے ہم جنس پرستی کو گلے لگالیا ہے۔ اس طرح ہندو ازم اور عیسائیت ہم جنس پرستی کو قبول کرنے والے مذاہب بن گئے ہیں۔ یہ دنیا کے دو بڑے مذاہب پر دنیا اور جدیدیت کی فتح کا منظرنامہ ہے۔ دنیا کے دو بڑے مذاہب نے دنیا اور اس کی جدیدیت کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔ عیسائیت اور ہندوازم اپنے دعووں کے مطابق دنیا بدلنے آئے تھے مگر دنیا نے ان دونوں کو بدل ڈالا ہے۔
مذہب کا بنیادی اصول خدا کو خوش کرنا ہے خواہ خدا کو خوش کرنے کے عمل سے پوری دنیا ہی کیوں نہ ناراض ہوجائے۔ لیکن عیسائیت کی سب سے بڑی روحانی شخصیت نے اس اصول کو اُلٹ دیا ہے۔ انہوں نے دنیا کو خوش کرنے کا مشن اختیار کرلیا ہے خواہ اس عمل میں ان سے خدا ہی کیوں ناراض نہ ہوجائے۔ اس سے معلوم ہوا پوپ کے نزدیک اصل چیز دنیا اور اس کے مطالبے اور تقاضے ہیں۔ پوپ کے نزدیک دنیا اور اس کے مطالبوں کو تسلیم کرنا خیر ہے اور دنیا اور اس کے مطالبوں کو رد کرنا شر ہے۔ یہ مذہب اور دنیا کے تعلق کی ایک نئی تشریح اور تعبیر ہے اور اس تشریح و تعبیر کا اسلام کیا خود عیسائیت سے بھی کوئی تعلق نہیں۔ عیسائیت صاف کہتی ہے کہ سیدنا عیسیٰ دنیا میں دنیا سے صلح کرنے اور اس کے آگے سجدہ ریز ہونے کے لیے نہیں آئے تھے بلکہ وہ دنیا کو بدلنے آئے تھے۔ سیدنا عیسیٰؑ نے عیسائیوں کی کتاب مقدس میں فرمایا ہے۔
’’یہ نہ سمجھو میں زمین پر صلح کرانے آیا ہوں۔ میں صلح کرانے نہیں بلکہ تلوار چلوانے آیا ہوں۔ میں اس لیے آیا ہوں کہ آدمی کو اس کے باپ سے اور بیٹی کو اس کی ماں سے اور بہو کو اس کی ساس سے جدا کردوں اور آدمی کے دشمن اس کے گھر ہی کے لوگ ہوں گے۔ جو کوئی ماں باپ کو مجھ سے زیادہ عزیز رکھتا ہے وہ میرے لائق نہیں اور جو کوئی صلیب نہ اُٹھائے اور میرے پیچھے نہ چلے وہ میرے لائق نہیں اور جو کوئی اپنی جان بچاتا ہے وہ اسے کھوئے گا اور جو کوئی میرے سبب اپنی جان کھوتا ہے اسے بچائے گا‘‘۔ (متی 10۔34۔ 39)
سیدنا عیسیٰؑ فرما رہے ہیں اصل چیز وہ پیغام ہے جو میں لایا ہوں۔ اس کے لیے تمہیں ماں باپ کو چھوڑنا پڑے تو چھوڑ دو۔ اپنے رشتوں اور ناتوں سے لاتعلق ہونا پڑے تو لاتعلق ہوجائو۔ سیدنا عیسیٰؑ نے صاف کہا ہے کہ جو میرے پیچھے نہ چلے وہ میرا نہیں اور آج ثابت ہوگیا ہے کوئی اور کیا خود پوپ بھی سیدنا عیسیٰؑ کا نہیں ہے۔ اس لیے کہ اس نے جان بچانے کے لیے دنیا سے صلح کرلی ہے اس کے آگے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔
دیکھا جائے تو پوپ نے ہم جنس پرستی کو قبول کرکے عیسائیت کو ’’جمہوری‘‘ بنادیا ہے۔ جمہوریت کا اصول اکثریت ہے۔ اکثریت جو کہے وہی حق ہے۔ وہی خیر ہے۔ وہی جمال ہے اور مغرب کی اکثریت کہہ رہی ہے کہ ہم جنس پرستی قابل قبول ہے۔ چناں چہ پوپ نے بھی اکثریت کی آواز میں آواز ملا دی ہے اور ہم جنس پرستی کو گلے لگالیا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو جمہوریت نے مذہب پر غیر معمولی فتح حاصل کرلی ہے۔ مذہب نے تسلیم کرلیا ہے کہ وہ جدیدیت اور اس کی جمہوریت کا ادنیٰ خادم ہے۔ جمہوریت آئندہ بھی مذہب سے جو کچھ کہے گی مذہب اسے دل و جان سے قبول کرے گا۔ مسلم دنیا میں یہ کوشش ہوتی رہی ہے کہ جمہوریت کو مذہب کے مطابق بنایا جائے اور مغرب میں یہ کوشش ہورہی ہے کہ مذہب کو زیادہ سے زیادہ جمہوریت کے ساتھ ہم آہنگ کیا جائے۔ اس سے معلوم ہوا مغربی دنیا کا اصل اصول مذہب نہیں جمہوریت ہے۔ جمہوریت ہی مغرب کا نظام ہے اور جمہوریت ہی مغرب کا مذہب ہے۔ جمہوریت ہی مغرب کا اخلاق ہے۔
پوپ کا اصرار ہے کہ ہم جنس پرستوں کو بھی خاندان بنانے کا ’’حق‘‘ ہے۔ اس طرح انہوں نے ہم جنس پرستی کو انسانی حقوق کا مسئلہ بنادیا ہے۔ مذہبی اصطلاح میں بات کی جائے تو اب مغرب میں گناہ کبیرہ بھی انسانوں کا ’’حق‘‘ ہے اور عیسائیت کی سب سے بڑی شخصیت اس حق کے تحفظ کے لیے اُٹھ کھڑی ہوئی ہے۔ پوپ نے ہم جنس پرست افراد کی شادیوں کو خاندان کا ادارہ تشکیل دینے کا عمل قرار دیا ہے۔ خاندان اپنی اصل میں خود ایک مذہبی تصور ہے۔ اسلامی تہذیب میں خاندان کا ادارہ اصول توحید کا سماجی مظہر ہے۔ دوسری سطح پر خاندان کا ادارہ مرد اور عورت کے تعلق سے وجود میں آنے والی حقیقت ہے۔ اس لیے کہ خاندان کے تصور میں یہ بات بھی موجود ہے کہ خاندان کے ادارے سے ’’نئی نسل‘‘ جنم لے گی۔ لیکن ہم جنس پرستوں کی شادی میں نئی نسل کے ظہور کا کوئی امکان ہی نہیں ہوگا۔ چناں چہ ہم جنس پرستوں کی یکجائی کو خاندان کے ادارے کا نام دینا جہالت ہے۔ بدقسمتی سے عیسائیت کی سب سے بڑی شخصیت اس جہالت کی مرتکب ہوئی ہے۔ ایک وقت تھا کہ عیسائیت میں تجرد کی زندگی کو ’’روحانی زندگی‘‘ سمجھا جاتا تھا۔ عیسائیت میں بہترین لوگ وہ تھے جو شادی نہیں کرتے تھے اور پوری زندگی تنہا گزار دیتے تھے اس لیے کہ عیسائیت میں جنس کو فی نفسہٖ برا سمجھا جاتا تھا۔ مگر اب عیسائیت کا یہ عالم ہے کہ وہ ہم جنس پرستوں کی شادی کی حمایت کررہی ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عیسائیت پہلے بھی غلط تھی اور اب بھی غلط ہے۔ اسلام میں نکاح سنت ہے اور اس کا بڑا اجر ہے۔ اسلام میں جنس کا تصور یہ ہے کہ شوہر اور بیوی کا مخصوص تعلق بھی خیر کے سوا کچھ نہیں۔ اس تعلق میں خیر بھی ہے، حسن و جمال بھی ہے اور معنویت بھی ہے۔
ہندوازم اور عیسائیت کا ہم جنس پرستی کو قبول کرنا مذاق نہیں۔ اس سے مسلمانوں پر بھی جدیدیت کے دبائو میں اضافہ ہوگا اس لیے کہ اب صرف مسلمان ہی ایسی امت ہیں جو ہم جنس پرستی کو قبول نہیں کرتے۔ مسلمانوں کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ ایک وقت تھا کہ مغرب میں آباد مسلمان ہم جنس پرستی کو قبول نہیں کرتے تھے۔ مگر ایک سروے کے مطابق اب مغرب میں آباد 25 فی صد مسلمان ہم جنس پرستی کو قبول کرنے لگے ہیں۔