مشرقی پاکستان کی علٰیحدگی کے حوالے سے مغربی پاکستان کے لوگوں نے اپنے دلوں میں ایک دو نہیں درجنوں چور پالے ہوئے ہیں۔ ان چوروں کو جیسے ہی موقع ملتا ہے سامنے آکر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ یہ آج سے بیس سال پہلے کی بات ہے۔ امین صادق روزنامہ جسارت کے میگزین ایڈیٹر تھے۔ انہوں نے ایک مذاکرے کا اہتمام کیا تو ہم سے مذاکرے کے سلسلے میں معاونت کے طالب ہوئے، مذاکرے کے تین مہمان تھے۔ جنرل عمر، پروفیسر غفور اور نثار کھوڑو۔ مذاکرے میں جنرل عمر نے عجیب گفتگو کی۔ کہنے لگے مشرقی پاکستان بلاشبہ الگ ہوگیا مگر مشرقی پاکستان کی علٰیحدگی کوئی سانحہ تھوڑی ہے۔ مشرقی پاکستان الگ ہوگیا مگر وہ آج بھی امت مسلمہ کا حصہ ہے۔ مشرقی پاکستان کے بنگلادیش بن جانے سے اسلامی کانفرنس کی تنظیم میں ایک رکن کا اضافہ ہوگیا۔ یہ گفتگو غلط ہی نہیں اشتعال انگیز بھی تھی۔ چناں چہ ہم نے عرض کیا کہ آپ کے اصول کو درست مان لیا جائے تو موجودہ پاکستان کے ٹوٹ جانے میں بھی کوئی مضائقہ نہ ہوگا اس لیے کہ اس صورت میں اسلامی کانفرنس کی تنظیم میں چار اراکین کا اضافہ ہوجائے گا۔ ہماری بات سنتے ہی جنرل عمر کا چہرہ پیلا پڑ گیا اور ان کے چہرے پر پسینہ نمودار ہوگیا۔ گفتگو تلخ سے تلخ تر ہوتی جارہی تھی۔ چناں چہ پروفیسر غفور نے مداخلت کی اور فرمایا کہ جنرل عمر کو اپنی رائے رکھنے کا پورا حق ہے۔ بہرحال جنرل عمر کی گفتگو سے مشرقی پاکستان کے سلسلے میں ان کی سفاکی پوری طرح عیاں ہو کر سامنے آگئی۔
یہاں ہمیں مشہور ترقی پسند شاعر فیض احمد فیض کا ایک انٹرویو یاد آرہا ہے۔ انٹرویو میں طاہر مسعود نے فیض احمد فیض سے پوچھا۔ مشرقی پاکستان الگ ہوگیا مگر اتنے بڑے سانحے پر ہمارے یہاں قابل ذکر ادب تخلیق نہیں ہوا۔ اس کے جواب میں فیض نے پوری بے حسی کے ساتھ فرمایا کہ مشرقی پاکستان کی علٰیحدگی مغربی پاکستان کے لوگوں کے لیے نہیں مشرقی پاکستان کے لوگوں کے لیے ’’تجربہ‘‘ تھی۔ چناں چہ ادب تو مشرقی پاکستان کے لوگوں کو تخلیق کرنا چاہیے تھا۔ سقوط ڈھاکا صرف مشرقی پاکستان کے لوگوں کا ’’تجربہ‘‘ نہیں تھا۔ یہ پوری امت مسلمہ بالخصوص برصغیر کی پوری ملت اسلامیہ کا تجربہ تھا۔ مغربی پاکستان کے لیے تو یہ ایک ایسا زلزلہ تھا کہ جس کے نفسیاتی اثرات آج تک ہمارے تعاقب میں ہیں۔ چناں چہ ادب تو مغربی پاکستان کے شاعروں اور ادیبوں کو بھی تخلیق کرنا چاہیے تھا مگر فیض احمد فیض نے اس سلسلے میں مغربی پاکستان کے شاعروں اور ادیبوں کو بری الذمہ قرار دے دیا ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ مشرقی پاکستان کی علٰیحدگی کے سلسلے میں ان کے دل میں بھی چور موجود تھا۔ اس چور کا تعلق اس بات سے تھا کہ مشرقی پاکستان مغربی پاکستان کے لوگوں کا ’’محبوب‘‘ نہیں تھا۔ محبوب ہوتا تو محبوب کے بچھڑ جانے کا غم مغربی پاکستان کے شاعروں اور ادیبوں سے ضرور ادب تخلیق کرواتا۔ اس سلسلے میں ن م راشد نے تو سفاکی کی انتہا ہی کردی۔ انہوں نے مشرقی پاکستان کی علٰیحدگی کے بعد فرمایا کہ اب تک پاکستان آہنگ میں نہیں تھا مگر مشرقی پاکستان کی علٰیحدگی کے بعد پاکستان کو آہنگ میسر آگیا ہے۔
مشرقی پاکستان کے سلسلے میں مغربی پاکستان کے دل کا چور آصف محمود کے کالم میں پوری شدت سے چیخا ہے۔ آصف محمود لکھتے ہیں۔
’’جب میں نے سانحہ مشرقی پاکستان پر کھلے ذہن کے ساتھ مطالعہ شروع کرکے اپنے نتائج فکر مرتب کرنے شروع کیے تو کھلنے والی بہت سی فکری گرہوں میں سے ایک یہ بھی تھی کہ جنرل نیازی بزدل نہیں تھے اور ان کے سپاہیوں نے بھی یہ جنگ آخری دم تک حیران کن جذبے سے لڑی‘‘۔ (روزنامہ 92 نیوز، 20 دسمبر 2020ء)
پاکستان میں یہ اب تک جنرل نیازی کا دفاع ناممکن تھا مگر معلوم ہوا کہ ہمارے درمیان جنرل نیازی کا دفاع کرنے والے بھی موجود ہیں۔ جنرل نیازی کا دفاع ایسا ہی ہے جیسے کوئی شیطان کا دفاع کرتا ہوا پایا جائے۔ جنرل نیازی وہ شخص ہے جس نے مشرقی پاکستان میں تعینات ہونے سے پہلے فرمایا تھا کہ ہم اس بڑے پیمانے پر بنگالی خواتین کو ریپ کریں گے کہ بنگالیوں کی نسل بدل کر رہ جائے گی۔ جنگ کے دوران ریپ ایک جنگی جرم ہے اور اپنوں کو کیا پرایوں کو بھی اس کا نشانہ نہیں بنایا جانا چاہیے۔ مگر جنرل نیازی پوری بے شرمی کے ساتھ اپنی ہی قوم کی عورتوں کو بڑے پیمانے پر ریپ کرنے کا اعلان کررہا تھا۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ جنرل نیازی ایک شیطان صفت انسان تھا اور وہ مشرقی پاکستان کے لوگوں کو پاکستانی قوم کا حصہ تصور نہیں کرتا تھا۔ خوش قسمتی سے جنرل نیازی بنگالیوں کی نسل کو نہ بدل سکے مگر مشرقی پاکستان میں ریپ کے واقعات بہرحال رونما ہوئے۔ شیخ مجیب کا دعویٰ تھا کہ مشرقی پاکستان میں ایک لاکھ سے زیادہ بنگالی خواتین ریپ ہوئیں مگر یہ بات ہولناک حد تک مبالغہ آمیز ہے۔ اس سلسلے میں سب سے اچھی بات میجر صدیق سالک نے اپنی کتاب ’’میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا‘‘ میں لکھی۔ انہوں نے کہا کہ اگر مشرقی پاکستان میں ریپ کا ایک واقعہ بھی ہوا تو کیوں ہوا؟۔ جنرل نیازی کے کردار کی ہولناکی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جب پاکستان ٹوٹ رہا تھا تو جنرل نیازی بھارت کے جنرل اروڑا کو فحش لطیفے سنا رہا تھا۔ آپ کا ملک ٹوٹ رہا ہو تو انسان بات کرنے کے قابل بھی نہیں رہتا۔ مگر جنرل نیازی سقوط ڈھاکا کے وقت بھی اتنا ہشاش بشاش تھا کہ اسے فحش لطیفے سوجھ رہے تھے۔ نہ صرف یہ کہ فحش لطیفے سوجھ رہے تھے بلکہ وہ دشمن کے جنرل کو ان لطیفوں سے فیض یاب بھی کررہا تھا۔ حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ میں جنرل نیازی کے ایک اور کارنامے کا ذکر ہے۔ رپورٹ کے مطابق جنرل نیازی مشرقی پاکستان میں پان کی اسمگلنگ میں ملوث تھا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جنرل نیازی مشرقی پاکستان جنگ کرنے نہیں گیا تھا بلکہ وہ بنگالی عورتوں کو ریپ کرنے، بھارت کے سامنے ہتھیار ڈالنے اور پانوں کی اسمگلنگ میں ملوث ہونے کے لیے مشرقی پاکستان گیا تھا۔ کتنی عجیب بات ہے کہ پاکستان کا ایک اہم کالم نگار جنرل نیازی کا دفاع کرتا ہوا پایا جارہا ہے۔ وہ کہہ رہا ہے کہ جنرل نیازی بزدل نہیں تھے۔ سوال یہ ہے کہ اس شخص سے بڑا بزدل کون ہوگا جو اپنی ہی قوم کی عزت مآب خواتین کو ریپ کرنے کا اعلان کرے اور دشمن کے سامنے ہتھیار ڈال دے۔
آصف محمود کا اصرار ہے کہ جنرل نیازی کے سپاہیوں نے مشرقی پاکستان کی جنگ حیران کن جذبے کے ساتھ لڑی۔ مگر انہوں نے حیران کن جذبے کی ایک مثال بھی پیش نہیں کی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی مثال موجود ہی نہیں۔ جو لوگ حیران کن جذبے کے ساتھ لڑتے ہیں وہ دشمن کا بہت نقصان کرتے ہیں مگر آصف محمود نے چار کیا ایک مثال بھی ایسی پیش نہیں کی جس سے معلوم ہو کہ ہمارے فوجیوں نے ہندوستان کا بڑا نقصان کیا۔ حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ کا شائع شدہ حصہ ہم نے پڑھا ہے۔ اس رپورٹ میں ایک درجن سے زیادہ اعلیٰ فوجی اہلکاروں کے کورٹ مارشل کی سفارش کی گئی ہے اور کورٹ مارشل بزدلوں اور نااہلوں کا ہوتا ہے۔ حیران کن جذبے سے جنگ لڑنے والوں کا نہیں۔
آصف محمود صاحب نے اپنے کالم میں یہ بھی فرمایا ہے کہ جنرل نیازی کے ساتھ جو جوان اور جو سپاہی تھے وہ بھی کسی ماں کے بیٹے تھے، وہ بکری کے بچے نہیں تھے کہ جنرل نیازی انہیں قربان کردیتا۔ لاحول ولاقوۃ۔ فوجی ہوتے ہی مادرِ وطن پر جان قربان کرنے کے لیے ہیں۔ یہ ان کا فرض بھی ہے اور پیشہ بھی۔ سقوط ڈھاکا کے المیوں میں سے ایک المیہ یہ ہے کہ پاکستان ٹوٹ گیا مگر فوج کا ڈسپلن نہیں ٹوٹا۔ حالاں کہ سقوط ڈھاکا سے پہلے فوج کا ڈسپلن ٹوٹ جانا چاہیے تھا۔ ہمارے 90 ہزار فوجیوں میں سے پانچ دس ہزار فوجی تو ایسے ہوتے جو کہتے فوج کا ڈسپلن سر آنکھوں پر مگر آج ہمارا ملک ٹوٹ رہا ہے، چناں چہ ہم دشمن کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے حکم کو نہیں مانیں گے۔ ہم مرجائیں گے مگر بھارت جیسے دشمن کے سامنے سرینڈر نہیں کریں گے۔ لیکن افسوس ایسا نہ ہوسکا۔ جنرل نیازی نے 90 ہزار فوجیوں کو ہتھیار ڈالنے کا حکم دیا اور ان سب نے ہتھیار ڈال دیے اور مسلمانوں کی تاریخ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے شرمندہ کرکے رکھ دیا۔ بدقسمتی سے فوجیوں کی تعداد کے حوالے سے بھی بعض لوگ ’’سیاست‘‘ کرتے رہتے ہیں۔ بہت سے لوگ ہیں جو کہتے ہیں ہتھیار ڈالنے والوں کی اصل تعداد 90 ہزار نہیں 45 ہزار تھی۔ چلے مان لیا ہمارے 90 ہزار فوجیوں نے نہیں 45 ہزار فوجیوں نے ہتھیار ڈالے تھے مگر کیا 45 ہزار فوجیوں کا ہتھیار ڈالنا کوئی اعزاز کی بات ہے؟ اصل بات تو یہ ہے کہ ہمارے تمام فوجیوں نے دشمن کے آگے ہتھیار ڈالے اور پاکستان ٹوٹ کر رہ گیا۔