اگر آپ کچھ لوگوں کو پی ایچ ڈی کے بعد میٹرک کرتے ہوئے پائیں تو آپ ان کے بارے میں کیا خیال کریں گے؟ اگر آپ من و سلویٰ کھانے کے بعد کسی کو پیاز اور دال کی تعریف کرتے ہوئے پائیں تو آپ اس کے بارے میں کیا سوچیں گے؟ اگر آپ کچھ لوگوں کو سورج کے مشاہدے اور تجربے کے بعد ٹمٹماتی ہوئی موم بتی کا طواف کرتے ہوئے دیکھیں تو آپ ان کے بارے میں کیا رائے قائم کریں گے؟ یہ محض قیاسی باتیں نہیں۔ دنیا میں ایسے بہت سے لوگ ہوتے ہیں جو بہترین اور بدترین کے فرق کو مٹادیتے ہیں۔ جو بہترین کو بدترین سے ملادیتے ہیں۔ کیسے، آئیے خورشید ندیم کے کالم کا ایک اقتباس ملاحظہ کرتے ہیں۔ خورشید ندیم نے نواز لیگ کے رہنما مشاہد اللہ کی رحلت کے حوالے سے لکھا۔
’’مشاہد اللہ خان کا جسد خاکی سپرد خاک ہوا۔ انسان مگر محض پیکرِ گِل تو نہیں۔ اس کے سوا بھی بہت کچھ ہے جو کبھی نہیں مرتا۔
فرشتہ موت کا چھوتا ہے گو بدن تیرا
ترے وجود کے مرکز سے دور رہتا ہے
بے پناہ اداسی ہے اور مایوسی کا گہرا احساس۔ آج پارلیمان میں کوئی دوسرا مشاہد اللہ نہیں ہے۔ ایسی قدرتِ کلام، ایسا دبنگ لہجہ، قسام ازل نے کسی دوسرے کو ارزاں نہیں کیا۔ اس پہ مستزاد غیر معمولی حافظہ۔ دیوان کے دیوان یادداشت میں اس طرح محفوظ تھے کہ ایک دریا بہتا چلا جاتا تھا۔ اشعار کا انتخاب ایسا کہ ابتذال سے دور۔ پھر جرأت اظہار ایسی کہ اسلاف کی یاد تازہ کردے۔
مشاہد اللہ خان نے جماعت اسلامی کی آغوش تربیت میں آنکھ کھولی۔ ماں باپ دونوں جماعت سے وابستہ تھے۔ وابستگی بھی ایسی کہ ان کا گھر راولپنڈی میں جماعت کا دوسرا دفتر بن گیا۔ سب بھائی دور طالب علمی ہی میں طلبہ سیاست میں متحرک تھے۔ یہ خود اسلامی جمعیت طلبہ کا حوصلہ تھے اور ان کا گھر جمعیت کے نوجوانوں کے لیے پناہ گاہ۔ اس تربیت اور پس منظر کے ساتھ عملی سیاست میں قدم رکھا۔
اسلامی جمعیت طلبہ نے مسلم لیگ کو بھی کم رجال کار فراہم نہیں کیے۔ مشکل کے دنوں میں (ن) لیگ کا بھرم قائم رکھنے میں ان کا کردار مرکزی ہے۔ جاوید ہاشمی، احسن اقبال، صدیق الفاروق اور مشاہد اللہ۔ پرویز رشید بھی ان میں شامل ہیں مگر وہ دائیں طرف سے نہیں، بائیں سمت سے آئے تھے۔ قدر مشترک اگر کوئی تھی تو وہ نظریاتی پختگی‘‘۔
(روزنامہ دنیا، 20 فروری 2021ء)
جماعت اسلامی ایک جماعت نہیں ہے وہ ایک تحریک ہے۔ اس تحریک کا پورا ڈھانچہ مولانا مودودیؒ کے بے مثال لٹریچر پر کھڑا ہوا ہے۔ کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ کوئی صحیح الدماغ شخص مولانا کی کتب کے مطالعے اور اسلامی جمعیت طلبہ اور جماعت اسلامی کے نظام تربیت سے گزرنے کے بعد نواز لیگ اور تحریک انصاف جیسی جماعتوں کا حصہ بن سکتا ہے۔ اگر کوئی شخص ایسا کرتا ہے تو وہ بلاشبہ ایک بہترین جماعت کا بدترین شخص ہے۔ خواہ وہ مشاہد اللہ ہو۔ یا احسن اقبال۔ وہ جاوید ہاشمی ہو یا صدیق الفاروق۔ وہ عارف علوی ہو یا اعجاز چودھری۔ مولانا کا لٹریچر اپنی روح میں انقلابی ہے۔ مولانا کی تحریریں انسان پر حق و باطل کا فرق عیاں کردیتی ہیں۔ مولانا کی تحریریں انسان کو کھرے اور کھوٹے کے امتیاز سے آگاہ کردیتی ہیں۔ چناں چہ جو شخص مولانا کو پڑھنے کے بعد اور جمعیت اور جماعت اسلامی کے تربیتی نظام سے گزرنے کے بعد نواز لیگ اور تحریک انصاف جیسی جماعتوں یا ان کی قیادت میں کشش محسوس کرے وہ یقینا بدترین خلائق میں سے ہے۔ اس لیے کہ وہ شخص بہترین سے آگاہ ہونے کے باوجود بدترین کی کشش محسوس کرتا ہے۔ اس لیے کہ وہ شخص بہترین کو برتنے کے باوجود بدترین کو اختیار کرتا ہے۔ ملک میں ایسے ہزاروں سیاسی کارکن اور سیاسی رہنما ہیں جو آئے دن پارٹی بدلتے رہتے ہیں۔ وہ کبھی پیپلز پارٹی میں ہوتے ہیں، کبھی نواز لیگ میں، کبھی تحریک انصاف میں ہوتے ہیں، کبھی کسی اور جماعت میں۔ ایسے لوگ پورے سیاسی نظام کو گندہ کرنے والے ہوتے ہیں مگر بہرحال ان لوگوں نے اقبال یا مولانا مودودیؒ کو نہیں پڑھا۔ کسی نے اسلامی خطوط پر ان کی تعلیم کا اہتمام کیا ہوتا ہے نہ تربیت کا۔ ایسے لوگ پوری زندگی غیر تعلیم یافتہ اور غیر تربیت یافتہ رہتے ہیں۔ ان کی روحانیت اور ان کی اخلاقیات پست ہوتی ہے اور پست ہی رہتی ہے۔ چناں چہ ایسے لوگ اگر تحریک انصاف سے نواز لیگ میں آجاتے ہیں یا نواز لیگ سے تحریک انصاف میں چلے جاتے ہیں تو ان پر اخلاقی اعتبار سے اعتراض کرنا ناممکن ہوتا ہے۔ لیکن جو لوگ مولانا کی تحریروں کے ایک حصے کو شعور میں راسخ کیے ہوئے ہوں جو اسلامی جمعیت طلبہ اور جماعت اسلامی کے تربیتی نظام سے فیض حاصل کرچکے ہوں وہ اگر نواز لیگ، تحریک انصاف، پیپلز پارٹی یا ایم کیو ایم میں شمولیت اختیار کرتے ہیں تو یہ ایک بڑی ہی شرمناک صورت حال ہوتی ہے۔ یہی پی ایچ ڈی کرنے کے بعد میٹرک کرنا ہے، یہی من و سلویٰ پر پیاز اور دال کو ترجیح دینا ہے، یہی سورج پر موم بتی کو فوقیت دینے کا عمل ہے۔ تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ جماعت اسلامی کو چھوڑا ہی نہیں جاسکتا؟ کیوں نہیں جماعت اسلامی کو چھوڑا جاسکتا ہے اور جماعت اسلامی سے بہترین جماعت میں شمولیت اختیار کی جاسکتی ہے، بشرطیکہ ملک میں جماعت سے بہتر جماعت موجود ہو۔ جماعت اسلامی کو چھوڑ کر گھر میں بھی بیٹھا جاسکتا ہے، مگر جمعیت اور جماعت اسلامی کو چھوڑ کر نواز لیگ، تحریک انصاف، پیپلز پارٹی یا ایم کیو ایم جوائن نہیں کی جاسکتی۔
اس کے اسباب ہیں۔ جماعت اسلامی ایک نظریاتی جماعت ہے لیکن نواز لیگ، تحریک انصاف، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کو نظریہ چھو کر بھی نہیں گزرا۔ جماعت اسلامی کی سیاست کا مرکزی نکتہ معاشرے اور ریاست کے دائرے میں غلبہ ٔ اسلام کی راہ ہموار کرنا ہے۔ نواز لیگ، تحریک انصاف، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کو غلبہ ٔ اسلام کے نعرے کی ہوا بھی نہیں لگی۔ جماعت اسلامی اوّل و آخر ایک جمہوری جماعت ہے۔ نواز لیگ، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور ایم کیو ایم سر سے پیر تک غیر جمہوری ہیں۔ جماعت اسلامی ’’اسلامیت‘‘ میں اپنے سفر کا آغاز کرتی ہے۔ ’’اسلامیت‘‘ میں آگے بڑھتی ہے اور ’’اسلامیت‘‘ ہی میں اس کا سفر ختم ہوتا ہے۔ اس کے برعکس نواز لیگ پنجاب میں سفر کا آغاز کرتی ہے۔ پنجاب ہی میں آگے بڑھتی ہے اور اس کا سفر پنجاب ہی پر ختم ہوجاتا ہے۔ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم ’’سندھیت‘‘ اور ’’مہاجریت‘‘ سے ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھ پاتیں۔ جماعت اسلامی قوم، ملت اور امت کے تصورات پر کھڑی ہوئی جماعت ہے۔ نواز لیگ، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور ایم کیو ایم ملت اور امت کے تصورات سے آگاہ ہی نہیں ہیں۔ جماعت اسلامی کو موروثیت نے چھوا تک نہیں۔ نواز لیگ اور پیپلز پارٹی میں ہر طرف موروثیت چھائی ہوئی ہے۔ رہی تحریک انصاف اور ایم کیو ایم تو ان پر شخصیات کا غلبہ ہے۔ ان حقائق کے تناظر میں کوئی ہمیں بتائے کہ مولانا مودودی کو پڑھنے اور جمعیت اور جماعت اسلامی کے نظام تربیت کو برتنے والا کوئی شخص کیسے نواز لیگ، تحریک انصاف، پیپلز پارٹی یا ایم کیو ایم میں جاسکتا ہے اور اگر کوئی شخص جاتا ہے تو یقینا اس کی شخصیت میں بڑے بڑے عیب ہوں گے۔
پاکستانی معاشرے کا ایک بہت بڑا عیب ’’اقتدار پرستی‘‘ ہے۔ جماعت اسلامی میں درجنوں خوبیاں ہیں مگر اس کا ’’عیب‘‘ یہ ہے کہ وہ نہ کبھی اقتدار میں آئی ہے اور نہ مستقبل قریب میں اس کے اقتدار میں آنے کا کوئی امکان ہے۔ اس کے برعکس نواز لیگ میں درجنوں عیوب ہیں مگر ایک خوبی یہ ہے کہ وہ تین بار اقتدار میں آچکی ہے اور آئندہ بھی اقتدار میں آسکتی ہے۔ چناں چہ جو لوگ مولانا کے فکری اور جماعت اسلامی کے نظریاتی ورثے سے غداری کرکے نواز لیگ میں جاتے رہے ہیں وہ سب کے سب ’’اقتدار پرست‘‘ تھے اور ہیں۔ میاں نواز شریف نے ہمیشہ پنجاب میں پنجابی عصبیت کو ہوا دی ہے۔ انہوں نے آئی جے آئی کے زمانے میں جاگ پنجابی جاگ کا نعرہ لگایا تھا۔ اب بھی انہیں پنجاب اور پنجابیت کی علامت بنا کر پیش کیا جارہا ہے۔ مریم خود کو اسلام یا پاکستان کی بیٹی باور کرانے کے بجائے ’’پنجاب کی بیٹی‘‘ باور کرانے میں لگی ہوئی ہیں۔ چناں چہ جو لوگ مولانا مودودی کی فکری اور جمعیت اور جماعت اسلامی کی تربیت کو پھلانگ کر نواز لیگ میں جاتے رہے ہیں وہ کسی نہ کسی درجے میں پنجابی عصبیت کا شکار تھے۔
تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ دانش ور اور صحافی کسی قوم کا دماغ ہوتے ہیں۔ وہ قوم کی فکری رہنمائی بھی کرتے ہیں اور اس کے اخلاق و کردار کی تعمیر و تشکیل بھی کرتے ہیں۔ اسی لیے قائد اعظم نے فرمایا ہے کہ صحافت اور قوم کا عروج و زوال ایک ساتھ ہوتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان کے دانش وروں اور صحافیوں کی عظیم اکثریت صرف قوم کے زوال کا سبب بن رہی ہے۔ خورشید ندیم پاکستان کے اہم لکھنے والے ہیں مگر وہ اپنے کالموں میں مشاہد اللہ جیسے لوگوں کو ہیرو کے طور پر پیش کررہے ہیں۔
حالاں کہ مولانا کے فکری اور جماعت اسلامی کے تربیتی ورثے کو چھوڑ کر نواز لیگ میں شمولیت اختیار کرنے والا معاشرے کا ہیرو نہیں اس کا ولن ہے۔ خورشید ندیم نے مشاہد اللہ کے لیے اقبال کا بے مثال شعر استعمال کرلیا۔ یعنی
فرشتہ موت کا چھوتا ہے گو بدن تیرا
ترے وجود کے مرکز سے دور رہتا ہے
یہ اقبال کا ایسا شعر ہے جو صدیقین، صالحین، شہداء اور غازیوں ہی کے لیے استعمال ہوسکتا ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ خورشید ندیم نے ایک بار میاں نواز شریف کے لیے اپنے کالم میں ’’عزیمت‘‘ کی اصطلاح استعمال کی۔ حالاں کہ یہ اصطلاح ایسی ہے کہ امام ابوحنیفہ، امام مالک، مجدد الف ثانی اور مولانا مودودی جیسی شخصیات ہی اس اصطلاح کی حق دار ہیں۔ مگر خورشید ندیم نے میاں نواز شریف جیسے معمولی شخص کو بھی عظیم شخصیتوں کی صف میں شامل کردیا۔ بلاشبہ قوم کے زوال میں لکھنے والوں کا بھی کردار ہے۔