دنیا کے کسی ملک میں اس ملک کے نظریے پر حملہ ناممکن ہے۔ چین میں کوئی شخص تصور نہیں کرسکتا کہ وہ سوشلزم کے خلاف کھڑا ہوگا یا اس پر کوئی اعتراض کرے گا۔ امریکا اور فرانس میں سیکولر ازم کو مذہب کا درجہ حاصل ہے۔ چناں چہ امریکا اور فرانس کا کوئی شہری ان ملکوں میں سیکولر ازم کی طرف ٹیڑھی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا، مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلام اتنا ’’بیچارہ‘‘ ہے کہ جس کے جی میں آتا ہے اسلام پر حملہ کرسکتا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال یہ ہے کہ پنجاب کے ہیومن رائٹس اینڈ مینارٹیز افیئر کے شعبے نے دو ہفتے پہلے ایک خط جاری کیا جس میں صوبائی کریکولم ٹیکسٹ بک بورڈ سے کہا گیا تھا کہ وہ حمد، نعت، رسول اکرمؐ کی حیات طیبہ اور اسلامی تاریخ کے اہم کرداروں سے متعلق مواد کو صرف اسلامیات تک محدود کرے اور اس مواد کو اردو یا دوسرے مضامین کے نصاب سے نکال باہر کرے۔ یہ مطالبہ اس بنیاد پر کیا گیا تھا کہ اقلیتوں کو اسلام پڑھنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ اس خط کے خلاف ملک کے ممتاز علما اور مذہبی رہنمائوں نے سخت موقف اختیار کیا۔ چناں چہ پنجاب کے ایچ آر ڈیپارٹمنٹ نے بالآخر اپنا خط واپس لے لیا۔ لیکن اس کے باوجود بعض کالم نگاروں نے اس سلسلے میں اسلام اور مسلمانوں پر حملہ جاری رکھا۔ محمد بلال غوری نے روزنامہ جنگ میں اس حوالے سے ایک پورا کادنیا کے کسی ملک میں اس ملک کے نظریے پر حملہ ناممکن ہے۔ چین میں کوئی شخص تصور نہیں کرسکتا کہ وہ سوشلزم کے خلاف کھڑا ہوگا یا اس پر کوئی اعتراض کرے گا۔ امریکا اور فرانس میں سیکولر ازم کو مذہب کا درجہ حاصل ہے۔ چناں چہ امریکا اور فرانس کا کوئی شہری ان ملکوں میں سیکولر ازم کی طرف ٹیڑھی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا، مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلام اتنا ’’بیچارہ‘‘ ہے کہ جس کے جی میں آتا ہے اسلام پر حملہ کرسکتا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال یہ ہے کہ پنجاب کے ہیومن رائٹس اینڈ مینارٹیز افیئر کے شعبے نے دو ہفتے پہلے ایک خط جاری کیا جس میں صوبائی کریکولم ٹیکسٹ بک بورڈ سے کہا گیا تھا کہ وہ حمد، نعت، رسول اکرمؐ کی حیات طیبہ اور اسلامی تاریخ کے اہم کرداروں سے متعلق مواد کو صرف اسلامیات تک محدود کرے اور اس مواد کو اردو یا دوسرے مضامین کے نصاب سے نکال باہر کرے۔ یہ مطالبہ اس بنیاد پر کیا گیا تھا کہ اقلیتوں کو اسلام پڑھنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ اس خط کے خلاف ملک کے ممتاز علما اور مذہبی رہنمائوں نے سخت موقف اختیار کیا۔ چناں چہ پنجاب کے ایچ آر ڈیپارٹمنٹ نے بالآخر اپنا خط واپس لے لیا۔ لیکن اس کے باوجود بعض کالم نگاروں نے اس سلسلے میں اسلام اور مسلمانوں پر حملہ جاری رکھا۔ محمد بلال غوری نے روزنامہ جنگ میں اس حوالے سے ایک پورا کالم تحریر کرنا ضروری سمجھا۔ کالم کا عنوان ہے ’’دینی امور اسلامیات تک محدود کرنے پر اعتراض کیوں؟‘‘ بلال غوری نے کالم میں لکھا کہ وہ یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اردو، انگریزی، طبیعات، تاریخ، کیمسٹری اور اس طرح کے دوسرے مضامین اسلامی یا غیر اسلامی کیسے ہوسکتے ہیں؟ انہوں نے لکھا کہ ان مضامین کے مواد کو ’’تمام طلبہ‘‘ کے لیے قابل قبول ہونا چاہیے۔ ان کے بقول اگر مسلمان اپنی نئی نسلوں کو دین، اخلاقیات اور روایات سکھانا چاہتے ہیں تو اسے ’’اسلامیات کی کتاب‘‘ تک محدود رکھیں۔ ان کے بقول تمام مضامین میں اسلام داخل کرنے اور جبری طور پر طلبہ کے ذہن میں ٹھونسنے سے مسلمان طلبہ کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا البتہ ’’اقلیتی طلبہ‘‘ کی ’’حق تلفی‘‘ ضرور ہوگی۔ (روزنامہ جنگ۔ 26 اپریل)
مغرب کے ممتاز دانش ور جیمس فریزر نے انسانی تاریخ کو چار ادوار میں تقسیم کیا ہے۔ اس کے مطابق انسان جب بچہ تھا تو وہ جادو کے عہد میں زندہ تھا اور جادو اس کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی تعریف متعین کرتا تھا۔ انسان تھوڑا سا بڑا ہوا تو اس نے مذہب ایجاد کرلیا اور مذہب انسان کی زندگی کی تعریف متعین کرنے والی حقیقت بن گیا۔ فریزر کے بقول انسانیت ’’بالغ‘‘ ہوئی تو وہ فلسفے کے عہد میں داخل ہو گئی اور فلسفہ پوری انسانیت کی عینک بن گیا۔ فریزر کے بقول اب جب کہ انسانیت پوری طرح بالغ اور صاحب نظر ہوگئی ہے تو سائنسی تناظر انسان کو Define کرنے والی چیز بن گیا ہے۔ پوری مغربی دنیا اور اس کے زیر اثر افراد انسانی تاریخ کو اسی تناظر میں دیکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مذہب کو ایک ازکار رفتہ شے سمجھتے ہیں۔ ان کی نظر میں اصل چیز مغرب کی جدید سیکولر سائنس ہے۔ اس سائنس کا علم ہی اصل علم ہے۔ اس سائنس کا تناطر ہی اصل تناظر ہے۔ لیکن مسلمانوں کے لیے ان کا دین ہی سب کچھ ہے۔ مسلمانوں کے لیے اسلام جدید و قدیم کی بحث سے ماورا ہے، اس لیے کہ اسلام ایک دائمی اور وقت سے ماورا حقیقت ہے۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ چناں چہ اس کے تناظر کا اطلاق زبان پر بھی ہوگا، ادب پر بھی ہوگا، وہ عمرانیات کو بھی ہدایت دے گا اور طبیعات کو بھی ایک تناظر مہیا کرے گا۔ وہ معاشیات کے لیے بھی رہنما اصول مہیا کرے گا اور نفسیات کے علم کو بھی مخصوص اصولوں کی بنیاد پر مرتب کرے گا۔ اسلام کی نظر میں یہ زندگی اور یہ پوری کائنات اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کا ایک مظہر ہے۔ چناں چہ علم کے ہر گوشے اور ہر دائرے سے اس بات کی گواہی ملنی چاہیے کہ ہر چیز کی اصل اللہ ہے۔ جو لوگ اسلامیات اور غیر اسلامیات میں فرق کرتے ہیں وہ علم کے سلسلے میں اسلام کے نقطہ نگاہ سے یا تو آگاہ نہیں یا وہ اس نقطہ نگاہ کو حقیر سمجھتے ہیں۔ یہ ایک سامنے
کی بات ہے کہ اسلام انسانی نفس اور اس کے تزکیے کا ایک خاص تصور رکھتا ہے۔ اس کے نزدیک نفس کے چھ درجے ہیں۔ یعنی نفس امارہ، نفس لواما، نفس مطمئنہ، نفس ملہمہ، نفس راضیہ اور نفس مرضیہ۔ چناں چہ مسلم معاشرے میں علم نفسیات کو اسلام کے اس تصور انسان اور اس کے مخصوص تصور نفس کو اپنے اندر لازماً داخل کرنا ہوگا۔ اسی طرح اسلام معاشرے کا ایک مخصوص تصور رکھتا ہے۔ اسلام کی رو سے اس معاشرے کو خدا مرکز ہونا چاہیے۔ اسلام کا تقاضا ہے کہ اس معاشرے میں قرآن و سنت کو بالادست قانون کا درجہ حاصل ہو اور معاشرے میں خیر، حسن اور صداقت کی اقدار کا غلبہ ہونا چاہیے۔ چناں چہ مسلم معاشرے کی عمرانیات کو ان تمام باتوں کا لحاظ کرنا ہوگا۔ یہاں ہمیں اقبال کا ایک شعر یاد آیا۔ اقبال نے کہا ہے۔
حقیقت ایک ہے ہر شے کی نوری ہو کہ ناری ہو
لہو خورشید کا ٹپکے اگر ذرّے کا دل چیریں
اقبال کے اس شعر کی رو سے تو مسلم معاشرے کی فزکس اور کیمسٹری کو بھی اسلامی ہونا ہوگا۔ ایسی فزکس اور ایسی کیمسٹری جو انسان کو خدا تک نہ لے جائے وہ کسی طرح بھی اسلامی طبیعات اور اسلامی کیمیا نہیں ہوسکتی۔
زندگی، معاشرے اور کائنات کے بارے میں صرف اسلام ہی ایک مخصوص تناظر نہیں رکھتا۔ یہ تناظر ہر تہذیب اور ہر معاشرے میں موجود رہا ہے اور موجود ہے۔ سوویت یونین دنیا کی سب سے بڑی سوشلسٹ ریاست تھا۔ اس کا نظریہ سوشلزم تھا سوویت یونین میں زندگی کے ہر پہلو اور علم کے ہر دائرے کو سوشلزم کے تناظر میں دیکھا جاتا تھا۔ سوویت یونین میں ادب صرف ادب نہیں تھا۔ سوویت معاشرہ سرمایہ دارانہ ادب اور کمیونسٹ ادب میں فرق کرتا تھا اور وہ اپنے ادب کو کبھی ’’مارکسی ادب‘‘ کہتا تھا، کبھی سوشلسٹ ادب کہتا تھا، کبھی کمیونسٹ ادب کہتا تھا۔ سوویت معاشرے کی نظر میں معاشیات کا علم بھی غیر جانب دار نہ تھا۔ سوویت معاشرہ مغرب کی معاشیات کو طبقاتی معاشیات یا بورژوا معاشیات کہتا تھا اور اپنی معاشیات کو وہ سوشلسٹ معاشیات یا پرولتاری معاشیات کہتا تھا۔ ہر سوشلسٹ
معاشرے کا ایک مخصوص تصورِ تاریخ بھی تھا۔ اس تصورِ تاریخ کی بنیاد جدلیاتی مادیت پر رکھّی ہوئی تھی۔ جدلیاتی مادیت کے تصور کا خلاصہ یہ تھا کہ تاریخ میں ایک خیال یا نظریہ پیدا ہوتا ہے اور غالب آجاتا ہے۔ پھر کچھ عرصے کے بعد اس نظریے سے اس کی ضد پیدا ہوتی ہے۔ اس کے نتیجے میں نظریے اور اس کی ضد میں تصادم ہوتا ہے۔ نظریہ Thesis کہلاتا ہے اور اس کی ضد Anti Thesis۔ Thesis اور Anti Thesis کے تصادم سے ایک نیا نظریہ یا Synthesis وجود میں آتا ہے۔ اس طرح تاریخ کا سفر آگے بڑھتا ہے۔ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ کمیونسٹ آج بھی تاریخ کے اسی تصور کو درست سمجھتے ہیں اور ان کے یہاں تاریخ کا نصاب کبھی بھی مذکورہ تصور سے بے نیاز نہیں ہوسکتا۔ ان حقائق سے ثابت ہے کہ کمیونسٹ دنیا کے تمام علوم و تمام فنون ’’کمیونزم مرکز‘‘ تھے۔ یہی حال جدید مغربی دنیا کا ہے۔ جدید مغربی دنیا صرف ’’آرٹس‘‘ نہیں پڑھاتی ’’لبرل آرٹس‘‘ پڑھاتی ہے اور امریکا کے کسی اسکول، کسی کالج اور کسی یونیورسٹی میں کوئی مسلمان طالب علم یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں آپ کے لبرل آرٹس کو نہیں مانتا۔ آپ اپنے لبرل آرٹس کو کسی ایک مضمون تک محدود کردیں۔ مغرب کی جدید سائنس خدا اور مذہب کے خلاف سخت تعصب میں مبتلا ہے۔ سائنس کے کسی نظریے یا کسی دریافت سے اگر اس بات کا اشارہ بھی مل رہا ہو کہ خدا موجود ہے تو بھی مغربی سائنس خدا کے موجود ہونے کی گواہی دینے سے صاف انکار کردیتی ہے۔ وہ ہمیشہ صرف ایسی کائنات کا تصور پیش کرتی ہے جو ’’بے خدا‘‘ ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ جدید مغربی دنیا کا سیکولرازم اور لبرل ازم ان کے تمام علوم و فنون پر غالب ہے۔ سوال یہ ہے کہ پھر اسلام نے ایسا کیا قصور کیا ہے کہ ایک اسلامی معاشرے میں تمام علوم و فنون ’’اسلامی‘‘ نہیں ہوسکتے۔ آخر پاکستان میں سیکولر اور لبرل لوگ کس منہ سے یہ بات کہتے ہیں کہ اسلام کو صرف اسلامیات تک محدود ہونا چاہیے۔
بلال غوری اور ان جیسے احمقوں کا خیال یہ ہے کہ اگر ہم ہر مضمون میں اسلام داخل کریں گے تو اس سے مسلم طلبہ کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا بلکہ بقول شخصے وہ زیادہ اسلام سے بور ہوجائیں گے۔
سوال یہ ہے کہ جب کمیونسٹ ہر علم میں کمیونزم کی موجودگی سے بور نہیں ہوئے اور جب سیکولر اور لبرل دنیا کے طالب علم ہر مضمون میں سیکولر ازم اور لبرل ازم کی موجودگی سے وحشت زدہ نہیں ہوئے تو ایک اسلامی معاشرے کے طلبہ ہر مضمون میں اسلام کی موجودگی سے کیوں پریشان ہوں گے؟مجھا۔ کالم کا عنوان ہے ’’دینی امور اسلامیات تک محدود کرنے پر اعتراض کیوں؟‘‘ بلال غوری نے کالم میں لکھا کہ وہ یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اردو، انگریزی، طبیعات، تاریخ، کیمسٹری اور اس طرح کے دوسرے مضامین اسلامی یا غیر اسلامی کیسے ہوسکتے ہیں؟ انہوں نے لکھا کہ ان مضامین کے مواد کو ’’تمام طلبہ‘‘ کے لیے قابل قبول ہونا چاہیے۔ ان کے بقول اگر مسلمان اپنی نئی نسلوں کو دین، اخلاقیات اور روایات سکھانا چاہتے ہیں تو اسے ’’اسلامیات کی کتاب‘‘ تک محدود رکھیں۔ ان کے بقول تمام مضامین میں اسلام داخل کرنے اور جبری طور پر طلبہ کے ذہن میں ٹھونسنے سے مسلمان طلبہ کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا البتہ ’’اقلیتی طلبہ‘‘ کی ’’حق تلفی‘‘ ضرور ہوگی۔ (روزنامہ جنگ۔ 26 اپریل)
مغرب کے ممتاز دانش ور جیمس فریزر نے انسانی تاریخ کو چار ادوار میں تقسیم کیا ہے۔ اس کے مطابق انسان جب بچہ تھا تو وہ جادو کے عہد میں زندہ تھا اور جادو اس کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی تعریف متعین کرتا تھا۔ انسان تھوڑا سا بڑا ہوا تو اس نے مذہب ایجاد کرلیا اور مذہب انسان کی زندگی کی تعریف متعین کرنے والی حقیقت بن گیا۔ فریزر کے بقول انسانیت ’’بالغ‘‘ ہوئی تو وہ فلسفے کے عہد میں داخل ہو گئی اور فلسفہ پوری انسانیت کی عینک بن گیا۔ فریزر کے بقول اب جب کہ انسانیت پوری طرح بالغ اور صاحب نظر ہوگئی ہے تو سائنسی تناظر انسان کو Define کرنے والی چیز بن گیا ہے۔ پوری مغربی دنیا اور اس کے زیر اثر افراد انسانی تاریخ کو اسی تناظر میں دیکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مذہب کو ایک ازکار رفتہ شے سمجھتے ہیں۔ ان کی نظر میں اصل چیز مغرب کی جدید سیکولر سائنس ہے۔ اس سائنس کا علم ہی اصل علم ہے۔ اس سائنس کا تناطر ہی اصل تناظر ہے۔ لیکن مسلمانوں کے لیے ان کا دین ہی سب کچھ ہے۔ مسلمانوں کے لیے اسلام جدید و قدیم کی بحث سے ماورا ہے، اس لیے کہ اسلام ایک دائمی اور وقت سے ماورا حقیقت ہے۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ چناں چہ اس کے تناظر کا اطلاق زبان پر بھی ہوگا، ادب پر بھی ہوگا، وہ عمرانیات کو بھی ہدایت دے گا اور طبیعات کو بھی ایک تناظر مہیا کرے گا۔ وہ معاشیات کے لیے بھی رہنما اصول مہیا کرے گا اور نفسیات کے علم کو بھی مخصوص اصولوں کی بنیاد پر مرتب کرے گا۔ اسلام کی نظر میں یہ زندگی اور یہ پوری کائنات اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کا ایک مظہر ہے۔ چناں چہ علم کے ہر گوشے اور ہر دائرے سے اس بات کی گواہی ملنی چاہیے کہ ہر چیز کی اصل اللہ ہے۔ جو لوگ اسلامیات اور غیر اسلامیات میں فرق کرتے ہیں وہ علم کے سلسلے میں اسلام کے نقطہ نگاہ سے یا تو آگاہ نہیں یا وہ اس نقطہ نگاہ کو حقیر سمجھتے ہیں۔ یہ ایک سامنے
کی بات ہے کہ اسلام انسانی نفس اور اس کے تزکیے کا ایک خاص تصور رکھتا ہے۔ اس کے نزدیک نفس کے چھ درجے ہیں۔ یعنی نفس امارہ، نفس لواما، نفس مطمئنہ، نفس ملہمہ، نفس راضیہ اور نفس مرضیہ۔ چناں چہ مسلم معاشرے میں علم نفسیات کو اسلام کے اس تصور انسان اور اس کے مخصوص تصور نفس کو اپنے اندر لازماً داخل کرنا ہوگا۔ اسی طرح اسلام معاشرے کا ایک مخصوص تصور رکھتا ہے۔ اسلام کی رو سے اس معاشرے کو خدا مرکز ہونا چاہیے۔ اسلام کا تقاضا ہے کہ اس معاشرے میں قرآن و سنت کو بالادست قانون کا درجہ حاصل ہو اور معاشرے میں خیر، حسن اور صداقت کی اقدار کا غلبہ ہونا چاہیے۔ چناں چہ مسلم معاشرے کی عمرانیات کو ان تمام باتوں کا لحاظ کرنا ہوگا۔ یہاں ہمیں اقبال کا ایک شعر یاد آیا۔ اقبال نے کہا ہے۔
حقیقت ایک ہے ہر شے کی نوری ہو کہ ناری ہو
لہو خورشید کا ٹپکے اگر ذرّے کا دل چیریں
اقبال کے اس شعر کی رو سے تو مسلم معاشرے کی فزکس اور کیمسٹری کو بھی اسلامی ہونا ہوگا۔ ایسی فزکس اور ایسی کیمسٹری جو انسان کو خدا تک نہ لے جائے وہ کسی طرح بھی اسلامی طبیعات اور اسلامی کیمیا نہیں ہوسکتی۔
زندگی، معاشرے اور کائنات کے بارے میں صرف اسلام ہی ایک مخصوص تناظر نہیں رکھتا۔ یہ تناظر ہر تہذیب اور ہر معاشرے میں موجود رہا ہے اور موجود ہے۔ سوویت یونین دنیا کی سب سے بڑی سوشلسٹ ریاست تھا۔ اس کا نظریہ سوشلزم تھا سوویت یونین میں زندگی کے ہر پہلو اور علم کے ہر دائرے کو سوشلزم کے تناظر میں دیکھا جاتا تھا۔ سوویت یونین میں ادب صرف ادب نہیں تھا۔ سوویت معاشرہ سرمایہ دارانہ ادب اور کمیونسٹ ادب میں فرق کرتا تھا اور وہ اپنے ادب کو کبھی ’’مارکسی ادب‘‘ کہتا تھا، کبھی سوشلسٹ ادب کہتا تھا، کبھی کمیونسٹ ادب کہتا تھا۔ سوویت معاشرے کی نظر میں معاشیات کا علم بھی غیر جانب دار نہ تھا۔ سوویت معاشرہ مغرب کی معاشیات کو طبقاتی معاشیات یا بورژوا معاشیات کہتا تھا اور اپنی معاشیات کو وہ سوشلسٹ معاشیات یا پرولتاری معاشیات کہتا تھا۔ ہر سوشلسٹ
معاشرے کا ایک مخصوص تصورِ تاریخ بھی تھا۔ اس تصورِ تاریخ کی بنیاد جدلیاتی مادیت پر رکھّی ہوئی تھی۔ جدلیاتی مادیت کے تصور کا خلاصہ یہ تھا کہ تاریخ میں ایک خیال یا نظریہ پیدا ہوتا ہے اور غالب آجاتا ہے۔ پھر کچھ عرصے کے بعد اس نظریے سے اس کی ضد پیدا ہوتی ہے۔ اس کے نتیجے میں نظریے اور اس کی ضد میں تصادم ہوتا ہے۔ نظریہ Thesis کہلاتا ہے اور اس کی ضد Anti Thesis۔ Thesis اور Anti Thesis کے تصادم سے ایک نیا نظریہ یا Synthesis وجود میں آتا ہے۔ اس طرح تاریخ کا سفر آگے بڑھتا ہے۔ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ کمیونسٹ آج بھی تاریخ کے اسی تصور کو درست سمجھتے ہیں اور ان کے یہاں تاریخ کا نصاب کبھی بھی مذکورہ تصور سے بے نیاز نہیں ہوسکتا۔ ان حقائق سے ثابت ہے کہ کمیونسٹ دنیا کے تمام علوم و تمام فنون ’’کمیونزم مرکز‘‘ تھے۔ یہی حال جدید مغربی دنیا کا ہے۔ جدید مغربی دنیا صرف ’’آرٹس‘‘ نہیں پڑھاتی ’’لبرل آرٹس‘‘ پڑھاتی ہے اور امریکا کے کسی اسکول، کسی کالج اور کسی یونیورسٹی میں کوئی مسلمان طالب علم یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں آپ کے لبرل آرٹس کو نہیں مانتا۔ آپ اپنے لبرل آرٹس کو کسی ایک مضمون تک محدود کردیں۔ مغرب کی جدید سائنس خدا اور مذہب کے خلاف سخت تعصب میں مبتلا ہے۔ سائنس کے کسی نظریے یا کسی دریافت سے اگر اس بات کا اشارہ بھی مل رہا ہو کہ خدا موجود ہے تو بھی مغربی سائنس خدا کے موجود ہونے کی گواہی دینے سے صاف انکار کردیتی ہے۔ وہ ہمیشہ صرف ایسی کائنات کا تصور پیش کرتی ہے جو ’’بے خدا‘‘ ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ جدید مغربی دنیا کا سیکولرازم اور لبرل ازم ان کے تمام علوم و فنون پر غالب ہے۔ سوال یہ ہے کہ پھر اسلام نے ایسا کیا قصور کیا ہے کہ ایک اسلامی معاشرے میں تمام علوم و فنون ’’اسلامی‘‘ نہیں ہوسکتے۔ آخر پاکستان میں سیکولر اور لبرل لوگ کس منہ سے یہ بات کہتے ہیں کہ اسلام کو صرف اسلامیات تک محدود ہونا چاہیے۔
بلال غوری اور ان جیسے احمقوں کا خیال یہ ہے کہ اگر ہم ہر مضمون میں اسلام داخل کریں گے تو اس سے مسلم طلبہ کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا بلکہ بقول شخصے وہ زیادہ اسلام سے بور ہوجائیں گے۔
سوال یہ ہے کہ جب کمیونسٹ ہر علم میں کمیونزم کی موجودگی سے بور نہیں ہوئے اور جب سیکولر اور لبرل دنیا کے طالب علم ہر مضمون میں سیکولر ازم اور لبرل ازم کی موجودگی سے وحشت زدہ نہیں ہوئے تو ایک اسلامی معاشرے کے طلبہ ہر مضمون میں اسلام کی موجودگی سے کیوں پریشان ہوں گے؟