اصول ہے چھوٹے لوگوں کے ساتھ رہنے والا بھی چھوٹا بن جاتا ہے۔ نواز لیگ میاں نواز شریف کی تخلیق ہے۔ چناں چہ اس کی کوئی بات بھی بڑی نہیں ہے۔ یہاں تک کہ نواز لیگ کے پرستار صحافی بھی چھوٹے پن کا شکار ہیں۔ اس کی ایک تازہ ترین مثال جنگ کے سنڈے میگزین میں شائع ہونے والا معروف کالم نگار وجاہت مسعود کا انٹرویو ہے۔ اس انٹرویو میں وجاہت مسعود نے فرمایا ہے کہ عمران خان کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ملک میں لانچ کیا گیا ہے۔ وجاہت مسعود کے بقول عمران خان کو لانچ کرنے کا مقصد ملکی معیشت اور وسائل کو آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھ کر پیوستہ مقاصد حاصل کرنا ہے۔ (جنگ سنڈے میگزین 23مئی 2021ء)
وجاہت مسعود کی یہ بات غلط نہیں کہ عمران خان کو لانچ کیا گیا ہے اور انہیں لانچ کرنے والی فوجی اسٹیبلشمنٹ ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان پاکستان میں لانچ ہونے والے واحد سیاست دان ہیں؟ کیا وجاہت مسعود کے سیاسی ہیرو میاں نواز شریف کو فوجی اسٹیبلشمنٹ نے لانچ نہیں کیا تھا۔ وجاہت مسعود کا چھوٹا پن یہ ہے کہ وہ عمران خان کے لانچ کیے جانے کا ماتم کرتے ہیں اور میاں نواز شریف کو لانچ کیے جانے کے ذکر کو گول کرجاتے ہیں۔ یہ مسئلہ صرف وجاہت مسعود کو لاحق نہیں۔ نواز لیگ کے صحافیوں کی اکثریت یہی کرتی ہے۔ وہ عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ یا مغرب کا ایجنٹ باور کراتی ہے مگر اس بات کا ذکر نہیں کرتی کہ میاں نواز شریف کی روح یا قلب، دماغ، جسم ہر چیز پر اسٹیبلشمنٹ کی مہر لگی ہوئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ میاں نواز شریف ہمیشہ امریکا اور یورپ کو خوش کرنے کے لیے کوشاں رہے ہیں۔ میاں نواز شریف کس حد تک اسٹیبلشمنٹ زدہ رہے ہیں اس کا اندازہ محترمہ بشریٰ رحمن کی خود نوشت ’’لکھی کو کون موڑے‘‘ پڑھتے ہوئے کیا جاسکتا ہے۔ بشریٰ رحمن نے اپنی آپ بیتی میں لکھا ہے کہ نواز شریف گورنر پنجاب جنرل جیلانی کے ساتھ ایک مجلس میں موجود تھے۔ گورنر جیلانی کو جانے کیا سوجھی انہوں نے سامنے چائے کا ٹرے پکڑ کر کھڑے ہوئے بیرے کے سر سے پگڑی اتاری اور میاں نواز شریف کے سر پر رکھ دی۔ نواز شریف اس اچانک حادثے کے لیے تیار نہ تھے۔ ان کا چہرہ گھبراہٹ اور خجالت سے سرخ ہوگیا۔ ان کے دونوں ہاتھ سر کی جانب بڑھ گئے مگر سر کی جانب بڑھنے کے بجائے گر گئے۔ انہوں نے اپنا ردِعمل روک لیا۔ گورنر جیلانی ان کے ’’محسن‘‘ تھے۔ تاحال ’’باس‘‘ بھی تھے۔ گورنر جیلانی نے جو کیا کیوں کیا کسی کو معلوم نہ تھا۔ یہ کوئی مذاق کا وقت نہیں تھا۔ سب سے بڑے صوبے کا نوجوان وزیراعلیٰ ان کے روبرو تھا گورنر جنرل جیلانی اس صورت حال پر قہقہے لگا کر ہنس رہے تھے۔ مجلس میں موجود باقی لوگ بھی ان کا ساتھ دینے لگے۔ بیرا اپنی جگہ حیران اور ششدر کھڑا رہا۔ میاں نواز شریف ’’جوکر‘‘ یا ’’بیرے‘‘ نہیں تھے۔ وہ پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے۔ جنرل جیلانی نے تنہائی میں ان کی بے عزتی نہیں کی تھی۔ انہوں نے میاں نواز شریف کو بھری محفل میں ذلیل کیا تھا۔ میاں نواز شریف میں غیرت ہوتی تو وہ پنجاب کی وزارت عُلیا کو لات مارتے اور بیرے کی پگڑی سر سے اُتار پھینکتے۔ اقبال نے کہا ہے۔
غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تک و دو میں
پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِدارا
مگر میاں صاحب میں غیرت نہیں تھی۔ وہ اس حد تک اسٹیبلشمنٹ کے جوتے چاٹنے والے تھے کہ ایک جنرل نے بھری محفل میں انہیں بیرا بنا کر کھڑا کردیا اور وہ خاموش رہے۔ ذرا کوئی جنرل عمران خان کو بھری محفل میں بیرے کی پگڑی سے سرفراز کرکے دکھائے۔ عمران خان جنرل اور پگڑی دونوں کو لات مار دیں گے۔ مگر اس کے باوجود وہ اسٹیبلشمنٹ کے ’’لانچ‘‘ کیے ہوئے ہیں اور میاں نواز شریف ’’اینٹی اسٹیبلشمنٹ‘‘ ہیں۔ واہ کیا چھوٹا پن ہے۔ واہ کیا بددیانتی ہے۔ بلاشبہ یہ چھوٹا پن اور یہ بددیانتی نواز لیگ کے صحافیوں کے لیے ہی زیبا ہے۔
بشریٰ رحمن نے اپنی آپ بیتی میں شریف خاندان کے دوسرے افراد کے چھوٹے پن کا بھی ذکر کیا ہے۔ بشریٰ رحمن نے لکھا ہے کہ چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہی وفا دار قسم کے لوگ ہیں اور دوستیوں کا پالن کرتے ہیں۔ جن دنوں میاں نواز شریف پابند سلاسل تھے انہوں نے محترمہ کلثوم نواز صاحبہ کی ہر طرح اخلاقی دل جوئی کی۔ انہیں اسلام آباد والا گھر رہنے کے لیے دیا۔ وہ جب کبھی اسلام آباد آتی تھیں انہی کے گھر میں ٹھیرتی تھیں اور یہیں سے ضرورت کی اشیا جیل میں میاں صاحب کو فراہم کی جاتی تھیں۔ کبھی کسی سیاسی آدمی نے چودھری برادران کے منہ سے شریف فیملی کی برائی نہیں سنی۔ البتہ بیگم صاحبہ نے اس ’’وفا داری‘‘ کا یہ جواب دیا کہ آخر وقت تک انہوں نے اس ’’ڈیل‘‘ کی خبر چودھری برادران کو نہ لگنے دی جس کے تحت مع ایک سو سوٹ کیس اور ملازموں کے شریف فیملی راتوں رات جدہ چلی گئی۔ انہوں نے جاتے ہوئے اپنی دل شکستہ اور بکھری ہوئی پارٹی کو بھی نہ بتایا کہ وہ ایک ڈیل کے تحت جارہے ہیں یا اپنی رضا کے تحت جارہے ہیں۔ (تلخ نوائی۔ محمد اظہار الحق، روزنامہ دنیا۔ 31 مئی 2021ء) نواز لیگ کے صحافی ان معاملات سے بھی آگاہ ہیں مگر وہ اپنے کالموں میں شریف خاندان کے چھوٹے پن کا کبھی ذکر نہیں کرتے۔ انہیں نظر آتا ہے تو دوسری جماعتوں کے رہنمائوں کا چھوٹا پن۔
وجاہت مسعود نے اپنے انٹرویو میں ملک کی بڑی آبادی پر بھی تبرہ بھیجا ہے۔ انہوں نے فرمایا ہے کہ ہم ملک کو کیسے سوئٹزرلینڈ بنائیں جب کہ ہمارے یہاں ہر سال سوئٹزرلینڈ کی آبادی کے برابر بچے پیدا ہوجاتے ہیں۔ یورپ میں ایسے 28 ملک ہیں جن کی آبادی 80 لاکھ سے کم ہے۔ جب کہ ہم ہر سال 60 لاکھ بچے پیدا کرتے ہیں۔ آبادی کا ماتم ایک بہت پرانی بات ہے۔ چین نے آبادی کو ایک ’’بوجھ کے بجائے ایک ’’اثاثہ‘‘ بنا کر دکھادیا ہے۔ چین کی ایک ارب 30 کروڑ آبادی اب ایک ’’اندیشہ‘‘ نہیں ایک ’’امکان‘‘ ہے۔ اس لیے کہ یہ آبادی نئی دنیا کی سب سے بڑی ’’مارکیٹ‘‘ ہے۔ سب سے بڑی منڈی ہے۔ یہ منڈی اتنی بڑی ہے کہ اگر کسی وجہ سے دنیا کا کوئی ملک دس سال تک چین سے ایک چیز بھی درآمد نہ کرے تو چین اپنی بڑی منڈی کے بل پر زندہ رہ کر دکھا سکتا ہے۔ خود بھارت اپنی بڑی آبادی کی وجہ سے دنیا کی بڑی طاقت اور مغرب کی آنکھ کا تارا بن کر اُبھرا ہے۔ پاکستان اور دوسرے ملکوں کے رہنمائوں میں اہلیت اور صلاحیت ہوتی تو وہ ایک ارب 80 کروڑ مسلمانوں کو بھی ایک بڑی منڈی بنا کر دکھا دیتے مگر مسلم دنیا کے حکمرانوں نے اثاثے کو بوجھ بنایا ہوا ہے۔ ایک وقت تھا کہ چین میں ایک خاندان ایک بچہ کی پالیسی چل رہی تھی۔ چین نے آبادی کو اثاثے میں ڈھالا تو ایک خاندان دو بچے کی پالیسی رائج ہوگئی۔ تازہ ترین اطلاع یہ ہے کہ اب چین کی حکومت نے ملک میں ایک خاندان تین بچوں کی پالیسی متعارف کرادی ہے۔ اس لیے کہ چین میں آبادی مطلوبہ رفتار سے نہیں بڑھ رہی جس سے ملک کو افرادی قوت میں کمی کا مسئلہ لاحق ہونے ہی والا ہے۔ مگر اب چین کی مشکل یہ ہے کہ لوگ ایک خاندان ایک بچہ کے اتنے عادی ہوچکے ہیں کہ وہ تین بچے کیا ایک بچہ بھی پیدا کرنے کے لیے تیار نہیں۔ انسان روبوٹس نہیں ہوتے۔ انہیں اپنی مرضی سے کھولا اور بند نہیں کیا جاسکتا۔ وہ ایک تصور زندگی کے عادی ہوجاتے ہیں تو پھر انہیں دوسرے تصور زندگی کی طرف مائل کرنا آسان نہیں ہوتا۔ یہ حقیقت اب راز نہیں کہ آبادی میں کمی کا نعرہ مغرب کے سیاسی ایجنڈے کا اسیر تھا۔ وجاہت مسعود اس سلسلے میں الزبتھ لیاگن کی کتاب ہی پڑھ لیں۔ یہ حقیقت بھی اب سامنے کی چیز ہے کہ مغرب کی سفید فام نسل ایک فنا ہوتی ہوئی نسل ہے۔ اس کا یہی خوف اسے دوسری نسلوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کے خلاف شور مچانے پر مجبور کرتا ہے۔
وجاہت مسعود نے اپنے انٹرویو میں فوجی آمریت کا بھی بڑا ماتم کیا ہے۔ ان کے بقول وہ پیدا ہوئے تو ایوب کی آمریت تھی۔ اسکول میں تھے تو جنرل یحییٰ کی آمریت کا زمانہ تھا۔ یونیورسٹی میں پہنچے تو جنرل ضیا الحق کی آمریت سامنے کھڑی تھی۔ ان کے بقول جوانی کے دس برس جنرل پرویز کی آمریت نگل گئی۔ بلاشبہ فوجی آمریت ایک بلا ہے اور اس نے ملک و قوم کو بڑا نقصان پہنچایا ہے، مگر مسئلہ یہ ہے کہ آمریت صرف فوجی نہیں ہوتی۔ بھٹو کی حکومت سول آمریت تھی۔ میاں نواز شریف کی حکومت بھی سول آمریت کا مظہر تھی مگر نواز لیگ کے صحافیوں کا چھوٹا پن یہ ہے کہ وہ جرنیلوں کی آمریت کی مذمت کرتے ہیں اور نواز شریف کی سول آمریت کا ذکر ہی نہیں کرتے۔