وزیراعظم عمران خان نے مختصر دورانیے کی شوقیہ فلموں کی تقریب میں ایک دانش ور کی طرح گفتگو کی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ انگریزی زبان اور لباس کا استعمال ہمارا سوفٹ امیج نہیں ہے بلکہ یہ چیزیں ہمارے احساس کمتری کی علامت ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں سوفٹ امیج کو فروغ دینا ہے تو ’’پاکستانیت‘‘ کو فروغ دینا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ جسے خود سے شرم آئے دنیا اس کی عزت نہیں کرتی۔ انہوں نے کہا کہ ہارنے سے ڈرنے والا شخص کبھی جیت نہیں سکتا۔ انہوں نے کہا کہ ہماری فلم انڈسٹری کے زوال کا سبب بھارت کی نقالی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں فحاشی کے کلچر کو سامنے لانے کے بجائے اپنا مواد سامنے لانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری فلمی صنعت نے ابتدا ہی میں بھارت کی نقالی کرنی شروع کردی تھی۔ دنیا میں صرف اصل چیز بکتی ہے، نقل کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ آپ مہنگی سے مہنگی پینٹنگ لے لیں اور اس کی بہترین سے بہترین کاپی کرالیں اس کی کوئی قدر نہیں کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہالی وڈ میں فحاشی کو فروغ دیا گیا۔ یہ وبا وہاں سے بالی وڈ یعنی بھارت آئی اور ہم نے بھارت کو کاپی کرنا شروع کیا۔ انہوں نے کہا کہ میں ارطغرل کو پاکستان لایا جو ایک متبادل ثقافت ہے۔ یہ ڈراما پاکستان میں مقبول ہے۔ انہوں نے فلم سازوں سے کہا کہ وہ ناکامی سے نہ گھبرائیں، وہ اپنی اصل چیز لے کر آئیں۔ انہوں نے کہا کہ سافٹ امیج کی اصطلاح ہمارے یہاں نائن الیون کے بعد آئی۔ اس وقت دنیا نے ہمیں خطرناک ملک قرار دیا تو ہم نے دفاعی پوزیشن اختیار کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہم اپنا سافٹ امیج دنیا کے سامنے پیش کریں گے تو دنیا کہے گی پاکستان بڑا زبردست ملک ہے، لیکن سافٹ امیج کوئی چیز نہیں، آپ احساس کمتری سے حریفوں کی چیزوں کی نقل کرنے لگ جاتے ہیں۔ ہم ان کے جیسے کپڑے پہننے لگ جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سافٹ امیج خود داری سے آتا ہے۔ دنیا اس کی عزت کرتی ہے جو خود اپنی عزت کرتا ہے۔ دنیا نقالوں کی عزت نہیں کرتی۔ انہوں نے کہا کہ پہلے ہم کرکٹ میں انگریزوں کی نقل کرتے تھے اور ان سے ہار جاتے تھے پھر ہم نے ریورس سوئنگ ایجاد کی اور دنیا نے ہمیں فالو کیا۔
عمران خان کے ان خیالات پر گفتگو سے پہلے یہ کہنا ضروری ہے کہ عمران خان نے جو کچھ کہا ہے وہ میاں نواز شریف، مریم نواز، آصف زرداری اور بلاول زرداری کے خواب میں بھی نہیں آسکتا۔ بلی کے خواب میں چھیچھڑے آتے ہیں۔ چناں چہ میاں نواز شریف کے خواب میں آلو گوشت، بریانی اور لسی تو آسکتی ہے گہرے خیالات نہیں آسکتے۔ آصف زرداری کے خواب میں پائونڈ، ڈالر اور روپیہ تو آسکتا ہے کوئی تخلیقی خیال نہیں آسکتا۔ میاں نواز شریف اور آصف زرداری کا یہ حال ہے تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس سلسلے میں مریم نواز اور بلاول زرداری کا کیا حال ہوگا؟ اس سلسلے میں دوسری بات یہ ہے کہ عمران خان نے جو کچھ کہا ہے پورے خلوص سے کہا ہے۔ وہ یقینا شوقیہ فنکار نہیں ہیں بلکہ ان کے خیالات کی جڑیں ان کی شخصیت میں موجود ہیں۔ اس کے بغیر ویسی گفتگو نہیں کی جاسکتی جیسی گفتگو عمران خان نے کی ہے۔
عمران خان کا یہ خیال درست ہے کہ انگریزی زبان اور مغربی لباس ہمارا سوفٹ امیج نہیں ہے بلکہ یہ چیزیں ہمارے احساس کمتری کی علامت ہیں۔ بلاشبہ انگریزی دنیا کی بڑی زبانوں میں سے ایک ہے۔ انگریزی ادب کی زبان ہے، فلسفے کی زبان ہے، سائنس کی زبان ہے، ٹیکنالوجی کی زبان ہے، معاشیات کی زبان ہے مگر ہماری تہذیبی فضا میں انگریزی زبان نہیں ہے۔ انگریزی برتر تہذیب کی علامت ہے، انگریزی ہمارے احساس غلامی کا استعارہ ہے۔ انگریزی آقا اور غلام کے رشتے کو ظاہر کرنے والی زبان ہے، انگریزی بولنے والا ہر شخص خود کو آقا اور انگریزی نہ بولنے والوں کو غلام سمجھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انگریزی ہمارے یہاں ایک ’’طبقاتی زبان‘‘ ہے۔ انگریزی بولنے والا طبقہ بھی برتر ہے، اس کی ذہنی ساخت بھی برتر ہے، اس کا علم بھی برتر ہے، اس کی ذہانت بھی دوسروں سے زیادہ ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاں مقامی یا مشرقی زبانوں کی تحقیر اور انگریزی کی توقیر کا آغاز سرسید سے ہوا۔ سرسید نے برصغیر کے مسلمانوں سے صاف کہا کہ عربی، فارسی اور اردو میں کچھ نہیں رکھا۔ آگے بڑھنا ہے تو انگریزی اور فرانسیسی سیکھو۔ سرسید یہ کہتے ہوئے بھول گئے کہ عربی قرآن کی زبان ہے۔ حدیث کی زبان ہے۔ فقہ کی زبان ہے۔ نماز کی زبان ہے۔ دعا کی زبان ہے۔ جنت کی زبان ہے۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا ہے کہ میں عرب کا سب سے فصیح شخص ہوں اور رسول اللہؐ صرف عرب کے سب سے فصیح شخص نہیں تھے وہ پوری دنیا کے سب سے فصیح شخص تھے، مگر آپؐ کی فصاحت کا سرچشمہ عربی تھی۔ فارسی بھی ہماری مذہبی زبان ہے۔ فارسی کبھی ہماری علمی زبان تھی۔ فارسی کی شاعری دنیا کی عظیم ترین شاعری ہے۔ ساری دنیا کی شاعری بھی فارسی شاعری کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ اردو لسانی تاریخ کا ایک معجزہ ہے مگر سرسید معجزات کے منکر تھے۔ انہوں نے پیغمبروں کے معجزات کو نہیں مانا تو اردو کے لسانی معجزے کو کیا مانتے۔ سرسید اگر برصغیر کے مسلمانوں سے کہتے کہ پرانے علم کو چھوڑو۔ اپنی زبانوں میں نیا علم پیدا کرکے دکھائو تو ان کی بات غلط ہونے کے باوجود قابل فہم ہوتی۔ مگر انہوں نے مقامی زبانوں کی جڑوں پر کلہاڑا چلا دیا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ خود سرسید کو ساری زندگی انگریزی نہیں آئی۔ وہ انگریزی میں صرف دستخط کرسکتے تھے لیکن انہوں نے انگریزی کے حوالے سے پورے برصغیر کی مسلم معاشرت میں ایک ایسا احساس کمتری پیدا کردیا جس سے ڈیڑھ سو سال کے بعد بھی ہمیں نجات نہیں مل سکی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو عمران خان سرسید سے بہتر شخص ہیں۔ انہوں نے ساری زندگی انگریزی میں پڑھا ہے مگر وہ انگریزوں کے ساتھ وابستہ احساس کمتری کو جانتے بھی ہیں اور اس کی مذمت بھی کرسکتے ہیں۔ بلاشبہ مغربی لباس بھی ہمارے لیے صرف لباس نہیں ہے بلکہ وہ بھی ہمارے اجتماعی احساس کمتری کا ایک مظہر ہے۔ انگریزوں نے بڑی کوشش کے ساتھ مقامی لوگوں میں اپنا لباس متعارف کرایا مگر جب مقامی لوگ پینٹ شرٹ پہننے اور نک ٹائی لگانے لگے تو انگریزوں نے انہیں بندر یا Baboon کہنا شروع کردیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس Baboon کا ’’n‘‘ غائب ہوگیا اور صرف ’’بابو‘‘ باقی رہ گیا۔ ہم میں سے ہر شخص مغربی لباس پہن کر خود کو ’’بابو‘‘ محسوس کرنا چاہتا ہے اور وہ نہیں جانتا کہ اس بابو سے ’’n‘‘ غائب ہوگیا ہے ورنہ یہ لفظ اصل میں Baboon تھا۔ یعنی بندر۔ نقلچی بندر۔ لیکن مسئلہ صرف اتنا سا نہیں ہے۔ عمران خان ہماری طرح عام آدمی نہیں ہیں۔ وہ ملک کے وزیراعظم اور ایک بڑی پارٹی کے سربراہ ہیں۔ چناں چہ انہیں ملک و قوم کو انگریزی کے احساس کمتری سے نکالنے اور قومی زبان اردو کو اس کا اصل مقام دلانے کے لیے عملاً کچھ کرنا چاہیے۔ عمران خان نے ملک سے انگریزی کے احساس کمتری کو ختم کردیا اور قومی زبان اردو کو ہر جگہ بالادست بنادیا تو وہ تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ ورنہ اس حوالے سے ان کی عمدہ گفتگو کچھ عرصے کے بعد ذہنوں سے محو ہوجائے گی۔ عمران خان نے بجا طور پر یہ کہنا ہے کہ سافٹ امیج کچھ نہیں ہمارا سافٹ امیج اگر کچھ ہے تو ’’پاکستانیت‘‘ ہے، اور پاکستانیت کی دو ہی بنیادیں ہیں۔ اسلام اور اردو۔ اگر اسلام نہ ہوتا تو پاکستان نہ ہوتا۔ اگر اردو نہ ہوتی تو بھی پاکستان نہ ہوتا۔
عمران خان کا یہ خیال بھی بڑا اہم ہے کہ زندگی میں نقل کی کوئی اہمیت نہیں۔ اہمیت ہے تو ’’اصل‘‘ یعنی ’’اوریجنل‘‘ کی۔ پاکستان خود ایک اصل یا اوریجنل خیال کا حاصل ہے۔ برصغیر کی سیاست میں نقل ’’ایک قومی نظریہ‘‘ تھا۔ جسے دیکھو کانگریس، گاندھی اور نہرو کا مقلد تھا۔ ان کی نقل کرنے والا تھا۔ اس فضا میں قائد اعظم نے دو قومی نظریے کی صورت میں ایک اصل خیال یا اوریجنل آئیڈیا پیش کیا۔ چوں کہ خیال اصل تھا اس لیے دیکھتے ہی دیکھتے پورے برصغیر کے مسلمانوں کے دل کی دھڑکن بن گیا۔ دو قومی نظریے کے تحت برصغیر کے مسلمانوں نے اپنے مذہب کی پیروی کی۔ اپنی تہذیب اور تاریخ کو اپنے لیے نمونہ عمل بنایا اور بے مثال کامیابی حاصل کی۔ قائد اعظم کانگریس میں رہتے اور ایک قومی نظریے کی پرستش کرتے رہتے تو وہ پاکستان نہیں بنا سکتے تھے اور نہ کبھی دوسرے تیسرے درجے کے رہنما کی سطح سے بلند ہوسکتے تھے۔ محمد علی جناح کے پاس چوں کہ ایک اصل خیال یا اوریجنل آئیڈیا آگیا تھا۔ چناں چہ اس خیال نے محمد علی جناح کو دیکھتے ہی دیکھتے قائد اعظم بنادیا۔ مولانا مودودی نے کہیں بجا طور پر لکھا ہے کہ کمیونزم مغربی تہذیب ہی کا ایک شاخسانہ ہے مگر کارل مارکس کے بعض تصورات سرمایہ دارانہ تہذیب سے الگ تھے۔ یہ مارکس کے اوریجنل خیالات تھے۔ اس نے ہیگل سے جدلیاتی مادیت کا سبق سیکھا مگر اس میں بھی اپنا رنگ داخل کردیا، ایسا نہ ہوتا تو روس میں کبھی کمیونسٹ انقلاب نہیں آسکتا تھا۔ میر، غالب اور اقبال اردو کے عظیم شاعر ہیں۔ مگر ان کی عظمت ان کی اصلیت یا Orignality کی وجہ سے ہے۔ یہ اصلیت میر، غالب اور اقبال کے یہاں کس طرح کلام کرتی ہے اس کا اندازہ ان اشعار سے کیا جاسکتا ہے۔ میر نے فرمایا ہے۔
سارے عالم پر ہوں میں چھایا ہوا
مستند ہے میرا فرمایا ہوا
غالب نے کہا ہے۔
ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِ بیاں اور
اقبال نے صدا بلند کی ہے۔
جہانِ تازہ کی افکارِ تازہ سے ہے نمود
کہ سنگ وخشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا
شاعری اور نثر میں لکھنے والے بہت ہوتے ہیں مگر اوریجنل لکھنے والے بہت کم ہوتے ہیں۔ عمران خان کا یہ تجزیہ بھی درست ہے کہ ہماری فلموں میں فحاشی و عریانی ’’نقل‘‘ سے آئی ہے۔ بھارت کی فلم انڈسٹری نے اس سلسلے میں ہالی وڈ کی نقل کی۔ ہماری فلم انڈسٹری نے بھارت کی فلم انڈسٹری کی نقل کی۔ چناں چہ ہماری فلمیں بھارتی فلموں کا چربہ محسوس ہوتی ہیں۔ اس کے برعکس ہمارے ٹیلی ڈرامے نے ایک طویل عرصے تک کسی کی نقل نہیں کی۔ چناں چہ ہم نے ایسا ٹیلی ڈراما تخلیق کیا جس نے بھارت کو متاثر نہیں ’’مبہوت‘‘ کیا۔ اصل خیال کی قوت واقعتاً بے پناہ ہوتی ہے۔ اس کی ایک مثال تو خود عمران خان بھی ہیں۔ عمران خان جب تک سیاست میں ’’اوریجنل‘‘ تھے وہ ’’تبدیلی‘‘ کی علامت تھے مگر جب سے انہوں نے سرمائے اور Electables کی سیاست شروع کی ہے وہ نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کی قیادت کی طرح نقلچی نظر آنے لگے ہیں۔