اقبال نے اپنی شاعری میں دل کھول کر افغانستان اور افغانیوں کی تعریف کی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ افغانستان ایشیا کا قلب ہے اور جب تک یہ قلب مضطرب رہے گا ایشیا کو سکون نہیں مل سکتا۔ یہ اقبال ہی تھے جنہوں نے
افغان باقی کہسار باقی
الحکم للہ الملک للہ
کا نعرہ لگایا۔ اقبال برصغیر کے ملا سے سخت ناراض ہیں۔ انہوں نے اپنی شاعری میں جگہ جگہ برصغیر کے ملا کا مذاق اڑایا ہے۔ مگر اقبال افغانستان کے ملا سے بہت خوش تھے۔ اس لیے کہ افغانستان کا ملا زمانہ امن میں مسجد اور مدرسے کو آباد کرتا ہے لیکن جیسے ہی کوئی دشمن افغانستان کو میلی آنکھ سے دیکھتا ہے افغانستان کا ملا تلوار سونت کر میدان جہاد میں کود پڑتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اقبال نے افغانستان کی تعریف اس وقت کی جب اس نے سوویت یونین اور امریکا کو شکست سے دوچار نہیں کیا تھا۔ اقبال آج ہمارے درمیان ہوتے تو وہ افغانستان اور افغانیوں پر سیکڑوں اشعار اور درجنوں نظمیں لکھ چکے ہوتے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو افغانستان کا مذاق اڑانا آسان نہیں۔ لیکن جاوید احمد غامدی کے شاگرد رشید خورشید ندیم نے اپنے ایک حالیہ کالم میں افغانستان کا مذاق اڑایا ہے۔ اس پر طنز کے تیر چلائے ہیں۔ انہوں نے لکھا ہے۔
’’افغانستان انسانی تہذیب سے بچھڑا ہوا ایک سماج ہے۔ آج امن اس کی پہلی ترجیح نہیں اور یہی اس کا المیہ ہے۔ افغانستان ایک قبائلی معاشرہ ہے، اس کا تصور مذہب بھی قدیم ہے اور تصور سیاست بھی۔ اسی طرح جدید سیاسی اداروں کے لیے وہاں فی الوقت کوئی پزیرائی نہیں۔ ابھی تک قدیم جرگہ عدالت بھی ہے اور انتظامیہ بھی۔ جدید مذہبی تعبیرات کے لیے وہاں کوئی جگہ ہے نہ سیاسی تصورات اور اداروں کے لیے‘‘۔ (24 جون 2021ء)
خورشید ندیم کا خیال یہ ہے کہ افغانستان تہذیب سے بچھڑا ہوا ایک سماج ہے اور وہ صرف قبائلی معاشرہ ہے۔ اقبال نے اپنی شاعری میں ایک مہذب اور صاحب تکریم انسان کی جو تعریف بیان کی ہے اس میں خودی کا تصور اہم ترین ہے۔ اقبال نے انسانی شخصیت میں خودی کا مرکز کہاں تلاش کیا ہے خود اقبال کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیے۔
خودی کا سر نہاں لاالہ الااللہ
خودی ہے تیغ فساں لاالہ الااللہ
خرد ہوئی ہے زماں و مکاں کی زناری
نہ ہے زماں نہ مکاں لاالہ الااللہ
یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں لاالہ الااللہ
یہ مال و دولت و دنیا یہ رشتہ و پیوند
بتانِ وہم گماں لاالہ الااللہ
اقبال کہہ رہے ہیں خودی کا پوشیدہ راز لاالہ الااللہ ہے۔ خودی اگر تلوار ہے تو لاالہ الااللہ اس کی دھار ہے۔ اقبال کے بقول ہمارے زمانے میں انسانی عقل زمان و مکان پر ایمان لے آئی ہے اور وہ ہر وقت زمان و مکاں، زمان و مکاں کی مالا جپتی رہتی ہے۔ کیوں کہ وہ زمان و مکاں کو حتمی بالادست اور فیصلہ کن سمجھتی ہے مگر اقبال کے مطابق اصل چیز زمان و مکان نہیں۔ اصل چیز لاالہ الااللہ ہے۔ اقبال کہہ رہے ہیں کہ ہمارا زمانہ بت پرستی کا زمانہ ہے، اس زمانے کے اپنے بت ہیں۔ ان میں سے ایک بت عقل ہے۔ ایک بت جمہوریت ہے۔ ایک بت مادی ترقی ہے۔ اقبال کہہ رہے ہیں کہ ہمارا زمانہ اپنے ابراہیم کی تلاش میں ہے کہ وہ آئیں اور عہد جدید کے تمام بتوں کو پاش پاش کردیں۔ اقبال کا ارشاد ہے کہ دنیا کا مال و متاع اور رشتوں اور تعلقات کے بتوں کی حقیقت کچھ بھی نہیں۔ یہ بت وہم و گمان نے تراشے ہیں۔ یہ تصورات ہمارے دین کے تصورات نہیں ہیں۔ ان باتوں کے تناظر میں عرض ہے کہ عہد حاضر میں افغانیوں نے اپنی انفرادی اور اجتماعی خودی کو جس طرح پہچانا ہے اور جس طرح اس کی حفاظت کی ہے مہذب سے مہذب معاشرہ بھی اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ افغانستان کے بہادر لوگ نہ سلطنت برطانیہ سے ڈرے، نہ سوویت یونین سے خوف زدہ ہوئے، نہ امریکا اور اس کے 48 اتحادی انہیں اپنی خودی کی حفاظت سے روک سکے۔ ایسے افراد کے معاشرے کو خورشید ندیم انسانی تہذیب سے بچھڑا ہوا سماج قرار دے رہے ہیں۔ یہ بلاشبہ افغان معاشرے کو دی جانے والی سب سے بڑی گالی ہے۔ اقبال نے اپنی شاعری میں آزادی کے بھی ترانے گائے ہیں۔ آزادی عہد حاضر میں بھی ایک بڑی قدر اور تہذیب کی علامت ہے اور بلاشبہ افغانیوں نے جس طرح ہر زمانے میں اپنی آزادی کا دفاع کیا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ انہوں نے سلطنت برطانیہ سے اپنی آزادی کا دفاع کیا اور قربانیاں پیش کیں۔ انہوں نے سوویت یونین کے پنجے سے اپنی آزادی کو بچایا اور 15 لاکھ افراد قربان کیے اور مزید 15 لاکھ افراد کی معذوری کو قبول کیا۔ انہوں نے امریکا اور اس کے اتحادیوں سے اپنی آزادی کو محفوظ رکھا اور چار سے پانچ لاکھ افراد کی قربانی پیش کی۔ کیا تہذیب سے بچھڑا ہوا سماج یہ سب کچھ کرسکتا ہے؟ چلیے مان لیتے ہیں کہ افغان سماج تہذیب سے بچھڑا ہوا سماج ہے اور وہ جدید اداروں کو قبول نہیں کرتا۔ اس کے برعکس خورشید ندیم کا پاکستانی سماج تہذیب کے مرکز میں کھڑا ہوا سماج ہے۔ یہ سماج جمہوریت کو مانتا ہے۔ اس کے پاس ایک آئین ہے جو عہد حاضر کی ایک نمایاں علامت ہے۔ یہ سماج جدید اداروں کا حامل ہے۔ اس سماج کے فیصلے ’’جرگے‘‘ میں نہیں ’’عدالتوں‘‘ میں طے ہوتے ہیں۔ مگر اس سماج کا کیا حال ہے۔ اس سماج میں انفرادی خودی موجود ہے نہ اجتماعی خودی موجود ہے۔ اس سماج میں نہ فرد آزاد ہے نہ خود سماج اور ریاست آزاد ہے۔ پاکستان امریکا کا غلام ہے، یورپ کا غلام ہے۔ ہماری سیاست امریکا کے پاس گروی رکھی ہے۔ ہماری معاشی خودی آئی ایم ایف کی جیب میں پڑی ہوئی ہے۔ ہم نہ سیاسی طور پر آزاد ہیں نہ معاشی طور پر آزاد ہیں۔ امریکا چاہتا ہے پاکستان میں جمہوریت آجاتی ہے۔ امریکا چاہتا ہے تو مارشل لا آجاتا ہے، پاکستان کے جرنیلوں اور سیاست دانوں دونوں کا حال پتلا ہے۔ دونوں واشنگٹن سے ’’Govern‘‘ ہوتے ہیں۔ ہماری عدالتیں جتنی آزاد ہیں اور جتنی حکمت کی حامل ہیں وہ ظاہر ہے۔ ہماری اعلیٰ عدالتوں نے ہمیشہ فوجی آمریت کو قبول کیا ہے اور سیاسی فیصلے کیے ہیں۔ بھٹو کی پھانسی عدالتی فیصلہ تھی یا سیاسی فیصلہ تھی؟ جونیجو حکومت کی عدم بحالی سیاسی فیصلہ تھی یا عدالتی فیصلہ تھی؟ سود کے سلسلے میں اعلیٰ عدالتوں کا رویہ ’’عدالتی‘‘ ہے یا ’’سیاسی‘‘ ہے۔ جہاں تک ہماری آزادی کا تعلق ہے تو ہم کسی اور سے کیا ہندوستان سے بھی اپنی آزادی کو محفوظ نہ رکھ سکے۔ رکھ سکتے ہوتے تو سقوط ڈھاکا نہیں ہوسکتا تھا۔ ہمارے 90 ہزار فوجی بھارت کے سامنے ہتھیار نہ ڈالے ہوئے ہوتے اور آج پاکستان قائد اعظم کا ’’اوریجنل پاکستان‘‘ ہوتا، ’’بچھا کچھا‘‘ پاکستان نہیں۔ ان حقائق پر غور کیا جائے تو تہذیب سے بچھڑا ہوا سماج افغانستان نہیں بلکہ خورشید ندیم کا ’’جدید‘‘ اور ’’مہذب‘‘ پاکستان ہے۔ خورشید ندیم نے افغان سماج کو ’’قبائلی‘‘ بھی قرار دیا ہے اور بلاشبہ افغان سماج قبائلی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے خورشید ندیم کا مہذب، جمہوری اور آئینی پاکستان بھی کم قبائلی نہیں۔ پاکستان کا ہر انتخاب ثابت کرتا ہے کہ پنجابی، پنجابی کو ووٹ دیتا ہے، مہاجر، مہاجر کو ووٹ دیتا ہے، سندھی، سندھی کو ووٹ دیتا ہے۔ پشتون، پشتون کو ووٹ دیتا ہے، بلوچ، بلوچ کو ووٹ دیتا ہے۔ یہ سب قبائلیت نہیں تو اور کیا ہے؟ فوج ملک کا سب سے منظم ادارہ ہے مگر جس طرح معاشرے میں پنجابیت، مہاجریت، سندھیت، پشتونیت اور بلوچیت چل رہی ہے اس طرح فوج کے دائرے میں ’’فوجیت‘‘ چل رہی ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے فوج بھی ایک ’’قبائلی‘‘ ادارہ ہے اور فوجیوں کو اپنے قبیلے کے سوا کچھ عزیز نہیں۔ ’’قبائلیت‘‘ صرف سیاسی دائرے میں نہیں چل رہی۔ ہماری مذہبی فکر بھی قبائلیت کی مظہر ہے۔ چناں چہ دیوبندی، دیوبندی کو ووٹ دیتا ہے، بریلوی، بریلوے کو کامیاب کرتا ہے۔ ہماری سیاست میں ذاتیں اور برادریاں بھی قبائلیت ہی کی ایک صورت ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا
جائے تو صرف افغان سماج ہی نہیں پاکستانی سماج بھی عملاًقبائلی ہے۔ چناں چہ ایک قبائلی معاشرے کا فرد دوسرے قبائلی معاشرے پر طنز کرتا ہوا اچھا نہیں لگتا۔ ماشا اللہ خورشید ندیم تو خود ’’پنجابی عصبیت‘‘ کے علمبردار ہیں۔ وہ اپنے کالموں میں میاں نواز شریف کو پنجابی عصبیت کی علامت باور کراکے اس صورت حال کی تعریف فرما چکے ہیں۔ خورشید ندیم مغربی دنیا کو جدید بھی سمجھتے ہیں اور مثالی بھی لیکن تجزیہ کیا جائے تو جدید مغرب دنیا بھی قبائلی دنیا ہے۔ ’’قبائلیت‘‘ اپنی ’’نسل‘‘، اپنے ’’جغرافیے‘‘ اور اپنی ’’زبان‘‘ پر فخر کرتی ہے۔ بدقسمتی سے جدید مغرب ’’نسل پرست‘‘ بھی ہے، جغرافیہ پرست بھی ہے، اور زبان پرست بھی ہے۔ اقبال نے ایک صدی قبل مسلمانوں سے مخاطب ہو کر فرمایا تھا۔
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
ان کی ملت کا ہے ملک و نسب پر انحصار
قوت مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری
اقبال کے ان شعروں کی روشنی میں دیکھا جائے تو مغربی اقوام قبائلی بھی ہیں اور غیر مہذب بھی۔ مگر خورشید ندیم افغانیوں کو قبائلی ہونے کا طعنہ دیتے ہیں اور خود پاکستانی معاشرے اور مغربی دنیا کے تجربے کو بھول جاتے ہیں۔
خورشید ندیم نے اپنے کالم کے آخر میں افغانستان پر ایک اور طنز کیا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ افغانستان صرف سوویت یونین اور امریکا ہی کا قبرستان نہیں بلکہ افغانستان خود افغانیوں کا بھی قبرستان ہے۔ یہاں ہمیں پھر اقبال یاد آئے۔ اقبال نے فرمایا ہے۔
خریدیں نہ وہ جس کو اپنے لہو سے
مسلماں کو ہے ننگ وہ بادشاہی
افغانستان کے مسلمان اقبال کے اس مشورے پر عمل کرنے والے ہیں۔ وہ سوویت یونین اور امریکا سے آزادی کی بھیک نہیں مانگتے وہ اپنی آزادی کو اپنی جانیں قربان کرکے خریدتے ہیں۔ مگر خورشید ندیم نے ان کے اس ’’ہنر‘‘ کو بھی ’’عیب‘‘ بنادیا ہے۔