پاکستان کے سابق وزیر خارجہ اور وزیر خزانہ سرتاج عزیز نے افغانستان کے بارے میں ایک آن لائن کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کئی اہم باتیں کہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کے استحکام کا تعلق افغانستان کے امن سے مشروط ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کی صورت حال میں ڈرامائی تبدیلیاں واقع ہورہی ہیں۔ چناں چہ افغانستان کے مستقبل کے بارے میں پیشگوئی آسان نہیں۔ تاہم انہوں نے کہا کہ افغانستان میں بعض مثبت چیزیں ہوئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ طالبان کی آمد پرامن ہوئی ہے، طالبان کے ابتدائی بیانات سے دوسری بات یہ ظاہر ہوئی ہے کہ انہوں نے ماضی کی غلطیوں سے سیکھا ہے۔ انہوں نے عام معافی کا اعلان کرکے بہت اچھا کیا ہے۔ پھر انہوں نے یہ اعلان بھی کرڈالا ہے کہ وہ ایک وسیع البنیاد حکومت قائم کریں گے۔ سرتاج عزیز نے یہ بہت کچھ کہنے کے بعد سوال اٹھایا کہ کیا ان تمام باتوں سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ افغانستان پرامن اور مستحکم رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ اس سوال کا جواب دینا مشکل ہے۔ اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ افغانستان کے سلسلے میں امریکا اور دیگر مغربی ممالک کا ابتدائی ردِعمل منفی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس ردِعمل سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ مغربی دنیا طالبان کو افغانستان میں اپنی پوزیشن مستحکم بنانے کی اجازت نہیں دے گی۔ مغربی دنیا نے افغانستان کے اثاثے منجمد کردیے ہیں۔ مغربی ذرائع ابلاغ ایسے شواہد کی تلاش میں لگے ہوئے ہیں جن سے ثابت کیا جاسکے کہ امریکا کو شکست دینے والے طالبان ’’نئے طالبان‘‘ نہیں ہیں بلکہ وہ پرانے طالبان ہی ہیں۔ (روزنامہ ڈان۔ 29 اگست 2021)
سرتاج عزیز ’’اسلامسٹ‘‘ نہیں ہیں۔ مگر چوں کہ وہ اپنی زندگی کی اننگ تقریباً کھیل چکے ہیں اس لیے انہوں نے مغربی دنیا کے بارے میں سچ بولنے کا ’’رسک‘‘ لے لیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلم دنیا کا عدم استحکام مغرب کا تزویراتی ایجنڈا ہے۔ مغرب ایک ہزار سال سے اسلام اور مسلمانوں کو فنا کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ اس نے صلیبی جنگیں ایجاد کیں تو اسلام اور مسلمانوں کو صفحہ ٔ ہستی سے مٹانے کے لیے۔ اس نے مسلم دنیا پر نوآبادیاتی دور مسلط کیا تو اسلام اور مسلمانوں کو مٹانے کے لیے۔ اس نے نائن الیون کے بعد افغانستان اور عراق پر حملے کیے تو اسلام اور مسلمانوں کی نفرت میں۔ پاک امریکا تعلقات کی تاریخ کا وہ دور ہمارے اجتماعی حافظے میں محفوظ ہے جب پاکستان سیٹو اور سینٹو کا رکن تھا اور مغربی دنیا ان معاہدوں کے تحت اس بات کی پابند تھی کہ اگر پاکستان کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہوگا تو مغربی دنیا اس کی مدد کرے گی مگر جب 1965ء میں پاک بھارت جنگ ہوئی تو پاکستان نے مغربی دنیا بالخصوص مغربی دنیا کے قائد امریکا کو مدد کے لیے پکارا۔ امریکا نے اس پکار کے جواب میں فرمایا کہ ہم صرف کمیونسٹ خطرے کی صورت میں پاکستان کی مدد کے پابند ہیں۔ حالاں کہ سیٹو اور سینٹو کے معاہدوں میں ایسی کوئی بات تحریری طور پر موجود نہ تھی۔ ہوتی تو پاکستان خود ہی مغرب سے مدد طلب نہ کرتا۔ نہ صرف یہ کہ امریکا نے 1965ء میں پاکستان کی مدد کرنے سے انکار کردیا بلکہ اس نے پاکستان کو ہتھیاروں کی فراہمی پر پابندی لگادی۔ 1965ء کا ہندوستان نہرو کا ہندوستان تھا اور نہرو خود کو ’’سوشلسٹ‘‘ کہا کرتے تھے مگر مغرب پاک بھارت جنگ میں غیر جانب دار بن کر کھڑا ہوگیا بلکہ امریکا نے ہتھیاروں پر پابندی لگا کر جنگ میں ہندوستان کا ساتھ دیا۔ یہ پاکستان کی بقا اور سلامتی کو خطرے میں ڈالنے والی بات تھی۔ بدقسمتی سے 1971ء کی پاک بھارت جنگ میں جب کہ سقوط ڈھاکا کا اندیشہ ایک حقیقت بن کر اُبھر رہا تھا پاکستان نے ایک بار پھر امریکا سے مدد کی اپیل کی۔ امریکا نے وعدہ کیا کہ وہ اپنا ساتواں بحری بیڑا پاکستان کی مدد کے لیے مشرقی پاکستان بھیج رہا ہے۔ سقوطِ ڈھاکا ہوگیا مگر امریکا کا ساتواں بحری بیڑا مشرقی پاکستان نہ پہنچ سکا۔ اس لیے کہ یہ بیڑا کبھی مشرقی پاکستان کے لیے روانہ ہوا ہی نہیں تھا۔ چناں چہ پاکستان ٹوٹ گیا اور مغربی دنیا نے اپنے تزویراتی اتحادی پاکستان کی کوئی مدد نہ کی۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ اندرا گاندھی مشرقی پاکستان کے بعد مغربی پاکستان پر بھی ہاتھ صاف کرنا چاہتی تھیں مگر امریکا نے انہیں روک دیا۔ چناں چہ اندرا گاندھی نے مغربی پاکستان پر حملے کا ارادہ ترک کردیا۔ معلوم نہیں اس اطلاع کی حقیقت کیا ہے لیکن اگر امریکا نے اندرا گاندھی کے بڑھتے ہوئے قدموں کو روکا ہوگا تو یہ اس کا تزویراتی مفاد ہوگا۔ بھارت خاکم بدھن پورے پاکستان کو ہڑپ کرجاتا تو اس کی علاقائی طاقت بہت بڑھ جاتی اور امریکا اسے سنبھالنے کی پوزیشن میں نہ رہتا۔
یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ امریکا، برطانیہ اور فرانس نے ایٹم بم بنایا تو اسے ’’عیسائی بم‘‘ کا نام نہیں دیا گیا۔ سوویت یونین اور چین نے ایٹم بم بنایا تو ان کے ایٹم بم کو ’’کمیونسٹ بم‘‘ قرار نہیں دیا گیا۔ بھارت نے 1974ء میں ایٹمی دھماکا کیا تو بھارت کے ایٹم بم کو ’’ہندو بم‘‘ قرار نہیں دیا گیا۔ اسرائیل نے ایٹم بم بنایا تو اس کے بم کو یہودی بم قرار نہیں دیا گیا، مگر پاکستان نے ایٹم بم بنایا تو اسے ’’اسلامی بم‘‘ قرار دے کر پاکستان کے خلاف ایک مہم شروع کردی گئی۔ پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لیے ڈاکٹر عبدالقدیر کے بارے میں یہ جھوٹ گھڑا گیا کہ وہ ہالینڈ سے بم کا فارمولا چوری کرکے بھاگے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالقدیر نے اس جھوٹ کو ہالینڈ کی عدالت میں چیلنج کیا اور ثابت کیا کہ الزام جھوٹ کا پلندہ ہے۔ یہ بات بھی تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ بھارت اور اسرائیل نے کئی بار پاکستان کی ایٹمی تنصیبات کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کی۔ اس سلسلے میں انہیں امریکا اور دیگر مغربی ممالک کی تائید حاصل تھی مگر پاکستان کی دھمکی کی وجہ سے وہ اپنے منصوبے پر عمل نہ کرسکے۔ پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لیے ڈاکٹر قدیر پر یہ الزام بھی عائد کیا گیا کہ انہوں نے پاکستان کے ایٹمی راز ایران کو فراہم کیے ہیں۔ یہ امر بھی عیاں ہے کہ بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں پاکستان نے ایٹمی دھماکے کرنے کی منصوبہ بندی کی تو امریکا نے پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی دھمکی دی اور اس نے دھماکوں کے بعد اس دھمکی پر عمل کرکے دکھا دیا۔ یہ بات بھی تاریخ کے ریکارڈ کا حصہ ہے کہ پاکستان میں مارشل لا آتا ہے تو امریکا کی تائید سے، جمہوریت بحال ہوتی ہے تو امریکا کے اشارے پر۔ جنرل پرویز اور بے نظیر کے درمیان معاہدہ ہوتا تو امریکا کی سرپرستی میں۔ لیکن یہ صرف پاکستان کا معاملہ نہیں۔
الجزائر میں اسلامی فرنٹ نے انتخابات کے پہلے مرحلے میں دو تہائی اکثریت حاصل کی تو مغرب نے الجزائر کی فوج کو اشارہ کردیا اور الجزائر کی فوج نے آگے بڑھ کر اقتدار پر قبضہ کرلیا اور انتخابات کے دوسرے مرحلے کی نوبت ہی نہ آسکی۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہوئی کہ مغرب کے حکم پر الجزائر کی ناپاک فوج اپنے ہی لوگوں پر چڑھ دوڑی اور ملک میں خانہ جنگی شروع ہوگئی۔ یہ خانہ جنگی دس برسوں میں 10 لاکھ لوگوں کو نگل گئی اور الجزائر غیر معمولی عدم استحکام سے دوچار ہوگیا۔ اس خانہ جنگی نے نہ صرف یہ کہ سیاسی عدم استحکام پیدا کیا بلکہ معاشی عدم استحکام کو بھی جنم دیا۔ مغرب گزشتہ ساٹھ سال سے مصر میں اخوان المسلمون کے پیچھے لگا ہوا ہے۔ اس نے ناصر سے اخوان کو کچلوایا، اس نے سادات سے اخوان کی بیخ کنی کرائی۔ اس نے حسنی مبارک سے اخوان کا گلا دبوایا اور اب اس نے جنرل سیسی کے ذریعے مصر کے منتخب صدر مرسی کو برطرف کرکے دم لیا۔ ہمیں وہ زمانہ بھی یاد ہے جب مہاتیر محمد ملائیشیا کے وزیراعظم تھے۔ مہاتیر ’’اسلامسٹ‘‘ نہیں تھے۔ وہ صرف قوم پرست تھے مگر مغربی دنیا نے ملائیشیا کی معیشت میں زلزلہ برپا کرنے کی سازش کی۔ مغرب کے سرمایہ کاروں نے اچانک ملائیشیا کی اسٹاک ایکسچینج سے سرمایہ نکال لیا۔ اس عمل میں جارج سوروس سرفہرست تھا۔ مہاتیر کبھی مغرب مخالف نہیں تھے مگر ملائیشیا کے معاشی عدم استحکام کو دیکھ کر وہ مغرب پر برس پڑے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے پچاس برس میں جو کچھ محنت سے تعمیر کیا ہے مغربی دنیا اسے چند ہفتوں میں تباہ کرنے پر تُلی ہوئی ہے۔ ترکی کے رجب طیب اردوان ناٹو کا حصہ ہیں۔ وہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات رکھے ہوئے ہیں مگر انہیں ترکی کی آزادی عزیز ہے اور وہ مغرب کے آلہ کار بننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ چناں چہ مغرب نے فوج کے ذریعے ان کے خلاف بغاوت کرادی اور اگر ترکی کے لوگ اردوان کی اپیل پر فوج کی عملی مزاحمت نہ کرتے تو مغرب نے ترکی کو بدترین سیاسی عدم استحکام سے دوچار کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی تھی۔ طالبان نے تو افغانستان میں پورے مغرب کو ہرایا ہے۔ انہوں نے مغرب کی طاقت اور عظمت کے غباروں سے ہوا نکال دی ہے۔ چناں چہ مغرب اپنی شکست کو آسانی سے ہضم نہیں کرے گا۔ وہ طالبان اور ان کے افغانستان کے خلاف سازشیں جاری رکھے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلم دنیا کا عدم استحکام مغرب کا تزویراتی مفاد ہے۔