میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کے تشخص کے دو پہلوئوں کا تذکرہ مشہور زمانہ ہے۔ ایک یہ کہ میاں صاحب اور ان کا خاندان مذہبی بہت ہے۔ دوسرا یہ کہ ان میں ’’پاکستانیت‘‘ کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ لیکن بدقسمتی سے میاں صاحب اور ان کے خاندان کا مذہبی تشخص بھی مشکوک ہے اور ان کی ’’پاکستانیت‘‘ بھی ’’مشتبہ‘‘ ہے۔ چودھری شجاعت حسین نے جو میاں صاحب کے قریبی رفقا میں شامل رہ چکے ہیں۔ اپنی خودنوشت ’’سچ تو یہ ہے‘‘ میں شریفوں کے حوالے سے ایک عجیب و غریب واقعہ لکھا ہوا ہے۔ چودھری صاحب نے لکھا ہے کہ شریف خاندان کے ساتھ ان کا معاہدہ ہوا تو شہباز شریف معاہدے کے سلسلے میں اپنی کمٹمنٹ کے اظہار کے لیے قرآن پاک اٹھا لائے اور کہنے لگے کہ قرآن ہمارے اور آپ کے درمیان ہونے والے معاہدے کا ’’ضامن‘‘ ہے۔ ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ آپ کے ساتھ کیے گئے معاہدے کی ایک ایک شق پر عمل ہوگا۔ کوئی مسلمان قرآن پر جھوٹ نہیں بول سکتا۔ اس لیے چودھری صاحب نے شہباز شریف کی یقین دہانی کا اعتبار کیا مگر چودھری صاحب نے اپنی خودنوشت میں لکھا ہے کہ بعدازاں شریفوں نے ہمارے ساتھ کیے گئے معاہدے کسی بھی شق پر عمل نہ کیا۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ شریفوں نے قرآن پر جھوٹ بولا۔ ظاہر ہے کہ جب شہباز شریف قرآن اٹھا کر لائے ہوں گے تو میاں نواز شریف بھی وہاں موجود ہوں گے۔ وہ چاہتے تو قرآن کو ضامن بنانے پر اعتراض کرسکتے تھے مگر انہوں نے اعتراض نہیں کیا۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ وہ خود بھی قرآن کو ضامن بنانے کے عمل میں شریک تھے۔ شریف خاندان کی پاکستانیت بھی مشہور زمانہ ہے مگر آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس کے سابق سربراہ جنرل اسد درانی نے اپنی تصنیف ’’دی اسپائی کرونیکلز‘‘ میں لکھا ہے کہ شہباز شریف ایک زمانے میں بھارتی پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ راجا امریندر سنگھ کے ساتھ بھارتی اور پاکستانی پنجاب کو ایک کرنے کے لیے مذاکرات فرما رہے تھے۔ ظاہر ہے کہ شہباز شریف یہ کام بھی اپنے بڑے بھائی صاحب کی مرضی ہی سے کررہے ہوں گے۔ اس لیے کہ پارٹی کے لیڈر کل بھی نواز شریف تھے اور آج بھی نواز شریف ہیں۔ پاکستانی پنجاب اور بھارتی پنجاب کو ایک کرنے کی سازش پاکستان توڑنے کی سازش تھی اور یہ سازش اگر کسی اور نے کی ہوئی ہوتی تو اس کا نام و نشان بھی مٹا دیا گیا ہوتا مگر میاں نواز شریف ’’پنجاب‘‘ کے رہنما ہیں۔ ان کو سات خون بھی معاف ہیں۔
ملک کے معروف صحافی ضیا شاہد جو ابھی حال میں مرحوم ہوئے ہیں میاں نواز شریف کے ’’دوست‘‘ تھے۔ وہ ایک ڈیڑھ سال تک نواز لیگ کا بھی حصہ رہے۔ انہوں نے میاں نواز شریف کو بڑے قریب سے دیکھا ہے۔ نواز شریف کے بارے میں اپنے مشاہدات اور تجربات کو ضیا شاہد نے ایک کتاب کی صورت دی ہے۔ کتاب کا نام ہے ’’میرا دوست نواز شریف‘‘۔ کتاب کیا ہے میاں نواز شریف کے خلاف ایک بہت طویل ایف آئی آر ہے۔ میاں نواز شریف کو جب جنرل ضیا الحق نے ’’لیڈر‘‘ بنانے کا فیصلہ کیا تو ضیا شاہد اس وقت روزنامہ جنگ میں ’’جنگ فورم‘‘ کیا کرتے تھے۔ ضیا شاہد کے بقول انہیں اور جنگ کے مالک میر خلیل الرحمن کو جنرل جیلانی نے ملاقات کے لیے بلایا اور کہا کہ جنرل ضیا نے میاں نواز شریف کو سیاست میں بہت آگے تک لے جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بڑے اخبارات دو ہیں۔ نوائے وقت اور جنگ۔ نوائے وقت کے ساتھ تو میاں شریف کی دوستی ہے مگر میر خلیل الرحمن کراچی میں رہتے ہیں۔ جنرل جیلانی نے میر خلیل الرحمن سے کہا کہ آپ کے اخبار نے نواز شریف کو بھرپور کوریج دینی ہے۔ جنرل جیلانی نے ضیا شاہد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تم جنگ فورم کرتے ہو۔ تم نواز شریف کو ہر فورم میں بلائو۔ خواہ فورم کا موضوع کچھ بھی ہو۔ تم میاں نواز شریف کی رنگین تصاویر بھی لو۔ میر خلیل الرحمن نے ملاقات کے بعد ضیا شاہد کو ہدایت کی کہ گورنر صاحب کی باتوں پر پوری طرح عمل کرو۔ (صفحہ۔ 17-16)
ضیا شاہد نے میاں نواز شریف کو Define کرتے ہوئے لکھا ہے کہ آج کا نواز شریف ایک ایسا آئینہ ہے کہ جو اس کے گرد کھڑے ہوں ان کی تصاویر آئینے میں نظر آتی ہیں۔ ضیا شاہد کے بقول میاں نواز شریف انڈین لابی، فوج مخالف اور پاکستان دشمن عناصر میں گھرے ہوئے ہیں۔ (صفحہ 19)۔ ضیا شاہد نے لکھا ہے کہ میاں نواز شریف کو قائد اعظم ثانی کہا جاتا ہے لیکن اگر قائد اعظم کو دوبارہ زندگی ملے اور انہیں بتایا جائے کہ نواز شریف کو قائد اعظم ثانی کہا جاتا ہے تو قائد اعظم رنج اور غصے کے عالم میں خودکشی کرلیں۔ (صفحہ 20)
ضیا شاہد نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ایک دن شریفوں کی ’’اتفاق لمیٹڈ‘‘ کے حوالے سے واپڈا کا ایک انسپکٹر ان سے ملا۔ اس کا کہنا تھا کہ اتفاق لمیٹڈ میں بجلی کی چوری کی تحریری شکایت کی تو اسے نوکری سے معطل کردیا گیا۔ اس کے خلاف انکوائری بھی شروع ہوگئی اور ایک رات پراسرار لوگوں نے اسے راستے میں سریے سے بری طرح مارا۔ ضیا شاہد کے بقول وینس سینما کے جنرل مینیجر بابو وارث نے بڑے بڑے شریفوں کے نام لے کر بتایا کہ اس نے فلاں کے لیے قتل کیا ہے۔ فلاں پر فلاں شریف کے کہنے پر گولی چلائی تھی اور فلاں کو مارا تھا۔ (صفحہ 28)۔
پاکستان کے انتخابات اربوں کھربوں کا کھیل بن گئے ہیں۔ اہل سرمایہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں پر کروڑوں روپے لٹادیتے ہیں۔ ضیا شاہد نے لکھا ہے کہ پتا نہیں اللہ کے ہاں اس معاملے پر بھی سوال جواب ہوگا یا نہیں۔ اگر ہوا تو انتخابی اخراجات میں سیکڑوں نہیں ہزاروں گنا اضافہ کرنے کا سہرا بھی میرے دوست نواز شریف کے سر ہے۔ (صفحہ 39)
ضیا شاہد نے لکھا ہے کہ میاں نواز شریف اقتدار میں آئے تو میاں نواز شریف کے دفتر واقع سیون کلب روڈ کے اردگرد متعدد کوٹھیاں خالی کرالی گئیں۔ یہاں پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے تحت کام کرنے والے خصوصی سیلز قائم کیے گئے۔ ان میں ایک سیل پلاٹوں کی تقسیم کا سیل تھا۔ دوسرا سیل سرکاری نوکریوں کی بندربانٹ کا سیل تھا۔ تیسرا سیل سرکاری ٹھیکوں کو من پسند افراد میں بانٹنے کا سیل تھا۔ چوتھا سیل وزیراعلیٰ کے صوابدیدی اختیارات کے فوری استعمال کا سیل تھا۔ یعنی میاں صاحب کا اقتدار لوٹ مار کی علامت تھا۔ (صفحہ 45)۔ ضیا شاہد نے لکھا ہے کہ میاں نواز شریف دو بار پنجاب کے وزیراعلیٰ رہے، ایک بار الیکشن سے پہلے عارضی طور پر دوسری بار الیکشن کے بعد منتخب ہو کر مگر دونوں مرتبہ ان کا سارا دور جمہوری سے زیادہ شخصی حکمرانی کی علامت رہا۔ (صفحہ 48)۔
ضیا شاہد نے اپنی کتاب میں میاں صاحب کی تخلیق بدنام زمانہ ’’چھانگا مانگا آپریشن‘‘ کا بھی ذکر کیا ہے۔ ضیا شاہد نے لکھا ہے کہ میاں نواز شریف کی وزارت اعلیٰ کے زمانہ میں یہ رواج شروع ہوا کہ اسمبلیوں میں گنتی سے پہلے اپنے بندے مخالفوں کے پریشر سے بچانے کے لیے باہر کسی جگہ پر بھیج دیے جائیں۔ میاں نواز شریف نے پہلے چھانگا مانگا اور بعدازاں مری میں مشکوک اراکین اسمبلی کو رکھا۔ پرویز الٰہی نے ضیا شاہد کو بتایا کہ ان اراکین کو میریٹ ہوٹل میں رکھنے پر صرف 4 کروڑ روپے صرف ہوئے۔ منتخب نمائندوں کا دل بہلانے کے لیے ناچ گانے کا بھی خصوصی اہتمام کیا جاتا۔ ضیا شاہد نے لکھا ہے کہ ایک روز وہ میاں نواز شریف کے دفتر سے نکل کر عقبی صحن کی طرف جارہے تھے کہ ایک باہر سے بند دروازے کو اندر سے کسی نے کھٹکھٹایا۔ ضیا شاہد نے کنڈی کھولی تو اندر سے اقلیت کی سیٹ پر منتخب ہونے والا شخص بشیر باہر نکلا۔ شور سن کر دوچار لوگ جمع ہوگئے اور کسی نے ضیا شاہد سے کہا کہ آپ اس جھگڑے میں نہ پڑیں۔ ضیا شاہد کو ایک صاحب نے بتایا کہ کمرے میں بند شخص نواز شریف سے پلاٹ بھی لے چکا ہے اور نوکریاں بھی مگر بھاگ کر بے نظیر کے کیمپ میں چلا گیا ہے۔ شہباز شریف نے اپنے لوگوں کو حکم دیا تھا کہ اسے تلاش کرو۔ انہوں نے بشیر کو تلاش کرلیا اور کمرے میں بند کردیا۔ (صفحہ 57-56)
ضیا شاہد مشکلات کا شکار ہوئے تو وہ مدد کے لیے میاں نواز شریف کے پاس پہنچے اور انہیں سارا ماجرا سنایا۔ انہوں نے کہا کہ تم چند روز کے بعد میرے پاس آئو۔ ضیا شاہد چند روز کے بعد میاں نواز شریف سے ملنے پہنچے تو معلوم ہوا کہ وہ نماز جمعہ پڑھنے گئے ہوئے ہیں۔ ضیا شاہد نے لکھا ہے کہ شریف خاندان میں ظاہری دینداری بھی ہے اور ظاہری عبادات پر زور بھی البتہ انہوں نے لکھا ہے کہ ایسے لوگ بلیک مارکیٹنگ میں بھی ملوث ہوتے ہیں، جھوٹ بھی بولتے ہیں، رشوت دینے اور لینے کا کام بھی کرتے ہیں۔ ضیا شاہد نے لکھا ہے کہ میرے دوستوں کا خیال ہے کہ نواز شریف کا تعلق ایسے ہی طبقے سے ہے۔ (صفحہ 64)
ضیا شاہد نے لفافہ جرنلزم کا بھی ذکر کیا ہے۔ انہوں نے لکھا کہ اسلام آباد اور لاہور میں نقدی پر مشتمل لفافے چل رہے تھے۔ پلاٹ بھی، نوکریاں بھی اور من پسند صحافیوں کو ٹھیکے بھی دیے جارہے تھے۔ ضیا شاہد کے بقول انہیں میاں نواز شریف کے گھر کے ایک نوجوان نے 72 صحافیوں کی ایک فہرست دکھائی اور کہا کہ ان تمام صحافیوں کو ’’عید گفٹ‘‘ بھیجے جارہے ہیں۔ اس نے ضیا شاہد سے کہا کہ آپ ذرا فہرست دیکھ لیں۔ کہیں کوئی اہم نام رہ نہ گیا ہو۔ (صفحہ 69)
میاں نواز شریف پہلی بار وزیراعظم بنے تو انہوں نے میاں نواز شریف کو مشورہ دیا کہ عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد اپنے اثاثہ جات اور کارخانوں کی تفصیلات جاری کردیں اور اعلان کردیں کہ آج کے بعد آپ اپنے کاروبار کو توسیع نہیں دیں گے۔ ضیا شاہد کے بقول نواز شریف کو جب کسی بات کا جواب دینا نہیں ہوتا تو وہ سوال کو دائیں بائیں لڑھکا دیتے ہیں۔ اس دن بھی یہی ہوا۔ انہوں نے پنجابی میں پاس کھڑے ہوئے شہباز شریف سے کہا کہ آپ ضیا شاہد کی بات کا جواب دیں۔ شہباز شریف نے ضیا شاہد سے کہا ہم اپنا خاندانی بزنس نہیں چھوڑ سکتے۔ (84) ضیا شاہد نے اپنی کتاب میں میاں اظہر اور نواز شریف کے تعلقات پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ جب میاں صاحب مشکل میں آئے تو ان کا زرضمانت میاں اظہر جمع کراتے تھے مگر بالآخر میاں نواز شریف نے انہیں دودھ سے مکھی کی طرح نکال کر پھینک دیا۔ ضیا شاہد نے میاں اظہر سے اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا کہ میں دوست بن سکتا ہوں مالشیا نہیں۔ (صفحہ 131-132)۔ کتاب میں میاں صاحب کے والد بزرگوار میاں شریف کا بھی ایک قصہ موجود ہے۔ ضیا شاہد کے بقول ایک بار میاں شریف نے طاہر القادری کو بتایا کہ وہ میاں نواز شریف کی سیاست پر تین ارب روپے صرف کرچکے ہیں۔ طاہر القادری نے کہا کہ آپ کو اس سودے پر کتنا منافع چاہیے۔ میاں شریف نے کہا کہ سو کا تین سو تو بنتا ہے۔ اس اعتبار سے نو ارب روپے کی ’’یافت‘‘ تو ہونی ہی چاہیے۔ (صفحہ 96)۔ اس کو کہتے ہیں باپ پہ پوت پتا پر گھوڑا۔ زیادہ نہیں تو تھوڑا تھوڑا۔