سیالکوٹ میں سری لنکا کے شہری پریانتھا کمارا کا ہولناک قتل ہر اعتبار سے قابل مذمت ہے۔ پریانتھا کمارا پر توہین رسالت کا الزام ثابت نہیں تھا۔ ویسے بھی انصاف ہجوم کا نہیں عدالت کا کام ہے۔ اگر ہجوم یونہی قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے لگے تو معاشرہ، معاشرہ اور ریاست، ریاست نہیں رہے گی۔ یہی وجہ ہے کہ پریانتھا کمارا کے قتل کی ہر مکتبہ فکر کے لوگوں نے کھل کر مذمت کی ہے۔ بلاشبہ جن لوگوں نے پریانتھا کمارا کو قتل کیا انہوں نے بدترین جذباتیت کا مظاہرہ کیا۔ جذبے اور جذباتیت میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ جذبہ شخصیت کے استحکام کی علامت ہوتا ہے اور جذباتیت شخصیت کے عدم استحکام کو ظاہر کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جذبہ آگہی کا ایک وسیلہ ہے اور جذباتیت کم فہمی کا دوسرا نام ہے۔ خدا کا شکر ہے۔ پریانتھا کمارا کے قتل پر پوری قوم ہم آواز پائی گئی۔ سیاست دانوں نے جو کچھ کہا وہی علما نے کہا۔ جو کچھ علما نے کہا وہی مبصروں اور تجزیہ نگاروں نے کہا۔ ہر طرف سے ایک ہی آواز آئی پریانتھا کمارا کے ساتھ بدترین ظلم ہوا۔ لیکن بدقسمتی سے پریانتھا کمارا کے قتل کے سلسلے میں ہمارے ذرائع ابلاغ بھی جذباتیت کا مظاہرہ کرتے پائے گئے۔ بہت سے اخبارات اور ٹی وی چینلز ایسے تھے جنہوں نے پریانتھا کے قتل کو ’’رپورٹ‘‘ نہیں کیا۔ اسے ’’فروخت‘‘ کیا۔ رپورٹنگ ہمیشہ معروضی یا Objective ہوتی ہے۔ خرید و فروخت اور جذباتیت ہمیشہ موضوعی یا Subjective ہوتی ہے۔ اسی لیے رپورٹنگ اور کالم کی زبان مختلف ہوتی ہے۔ خبر میں آپ وہی رپورٹ کرتے ہیں جو ہوا لیکن کالم میں آپ جذبات اور احساسات کا کھل کر اظہار کرسکتے ہیں۔ بلاشبہ پریانتھا کمارا کا قتل افسوسناک اور المناک تھا مگر اس کی رپورٹنگ اس طرح ہوئی جیسے اس سے بڑا جرم پاکستان کی تاریخ میں کبھی ہوا ہی نہ ہو۔ روزنامہ جنگ کراچی نے پریانتھا کمار کے قتل پر آٹھ کالم کی شہ سرخی لگائی جس کا ایک حصہ یہ فقرے تھے۔
پاکستانیوں کے سر شرم سے جھک گئے
نہ زمین کانپی
نہ آسمان گرا
روزنامہ ڈان کراچی کی شہ سرخی یہ تھی۔
Ghastly murder of lankan man in sialkot shames nation
یعنی سیالکوٹ میں سری لنکا کے باشندے کے ہولناک قتل نے پوری قوم کو شرمندہ کردیا۔
پاکستان کی تاریخ سانحوں، المیوں اور حادثات سے بھری ہوئی ہے۔ قیام پاکستان کے بعد ہونے والے مسلم کش فسادات میں 10 لاکھ سے زیادہ مسلمان قتل ہوئے۔ 80 ہزار مسلم خواتین اغوا ہوئیں۔ ہزاروں عورتوں کی عصمت دری کی گئی۔ ہزاروں بچوں کو بے رحمی سے قتل کردیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا روزنامہ جنگ نے اس ہولناک قتل عام پر یہ سرخی لگائی تھی کہ زمین کانپی نہ آسمان گرا؟۔ کیا روزنامہ ڈان نے اس قتل عام پر لکھا تھا کہ تمام ہندوئوں اور سکھوں کو اس ہولناک قتل عام پر شرمندگی کا سامنا ہے۔
پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کا قتل پاکستان کی پوری تاریخ پر اثر انداز ہوا ہے۔ قائد اعظم کے بعد وہی تھے جن کے پاس بصیرت تھی۔ جن کے پاس نگاہ تھی۔ قائدانہ صلاحیت تھی۔ جو پاکستان کے نظریے کے ساتھ گہری وابستگی رکھتے تھے۔ جو پاکستان کو ایک عظیم ملک بنا سکتے تھے۔ اس قتل پر یہ شہ سرخی وضع کی جاسکتی تھی کہ لیاقت علی خان کے قتل پر تمام پاکستانیوں کے سر شرم سے جھک گئے۔ اس قتل پر کہا جاسکتا تھا کہ زمین کانپی نہ آسمان گرا۔ سوال یہ ہے کہ کیا روزنامہ جنگ نے لیاقت علی خان کے قتل پر ویسی شہ سرخی نکالی تھی جیسی شہ سرخی اس نے پریانتھا کمارا کے قتل پر نکالی ہے؟۔ کیا روزنامہ ڈان کو لیاقت علی خان کے قتل پر یہ بات یاد آئی تھی کہ اس قتل نے پوری پاکستانی قوم کو شرمندہ کردیا ہے؟۔
سقوط ڈھاکا پاکستان کی تاریخ کا نہیں مسلم تاریخ کا سب سے بڑا سانحہ ہے۔ اس لیے کہ سقوط ڈھاکا کے نتیجے میں پاکستان آدھا رہ گیا۔ اس سانحے کا ایک المناک پہلو یہ ہے کہ ہمارے 90 ہزار فوجیوں نے بھارت جیسے دشمن کے سامنے ہتھیار ڈالے۔ بلاشبہ سقوط ڈھاکا کو پاکستان کے تمام اخبارات میں اس طرح رپورٹ ہونا چاہیے تھا کہ پاکستانیوں کے سرشرم سے جھک گئے ہیں۔ اس سانحے کی رپورٹنگ میں یہ کہا جاسکتا تھا کہ سقوط ڈھاکا کے دن نہ زمین کانپی نہ آسمان گرا۔ حالاں کہ زمین کو بھی کانپنا چاہیے تھا اور آسمان کو بھی گرجانا چاہیے تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا روزنامہ جنگ نے سقوط ڈھاکا پر ویسی ہی سرخی نکالی تھی جیسی سرخی اس نے پریانتھا کمار کے قتل پر نکالی ہے؟ کیا سقوط ڈھاکا کی خبر روزنامہ ڈان میں ویسی سرخی تخلیق کرنے میں کامیاب ہوئی تھی جیسی سرخی پریانتھا کے قتل نے تخلیق کرائی۔
پاکستان میں مارشل لائوں نے پاکستان کے جمہوری کردار کو پامال کرکے رکھ دیا ہے۔ پاکستان جرنیلوں کی نہیں عوامی جدوجہد کا حاصل تھا، مگر جرنیل پاکستان کے مائی باپ بن کر بیٹھ گئے ہیں۔ انہوں نے قوم کی زندگی کے 35 سال مارشل لا کے ذریعے ہڑپ کرلیے اور باقی برسوں میں وہ پردے کے پیچھے بیٹھ کر ڈوریاں ہلاتے رہے ہیں اور اب بھی ہلا رہے ہیں۔ یہ اتنی بڑی خبر ہے کہ اس پر واقعتاً پوری قوم شرمندہ ہے۔ یہ اتنی بڑی خبر ہے کہ کہا جاسکتا ہے کہ آخر زمین کیوں نہیں کانپتی اور آسمان کیوں نہیں گر پڑتا۔ سوال یہ ہے کہ کیا روزنامہ جنگ نے اس صورت حال پر بھی وہی شہ سرخی نکالی جیسی شہ سرخی اس نے پریانتھا کمار کے قتل پر نکالی ہے؟۔ کیا روزنامہ ڈان کی کسی شہ سرخی میں آج تک قارئین کو پوری قوم کی شرمندگی نظر آئی؟۔
الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی سیاست نے ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کو 35 سال تک یرغمال بنائے رکھا۔ اس دوران اتنے بڑے پیمانے پر قتل و غارت گری ہوئی کہ سندھ رینجرز کے سابق ڈی جی میجر جنرل محمد سعید نے اے آر وائی کو انٹرویو دیتے ہوئے انکشاف کیا کہ کراچی میں گزشتہ 35 سال کے دوران 92 ہزار افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ یہ ہلاکتوں کی اتنی بڑی تعداد ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں تو لوگ پاکستان اور بھارت کی تین جنگوں میں بھی ہلاک نہیں ہوئے۔ الطاف حسین نے جو بوری بند لاشوں کا کلچر پیدا کیا وہ بھی ہولناک تھا۔ ایم کیو ایم نے گزشتہ 35 سال کے دوران کراچی سے اربوں روپے کا بھتا بھی وصول کیا۔ یہ اتنی بڑی خبر تھی کہ اس پر پوری قوم کی شرمندگی کا اظہار کرنے والی شہ سرخی تخلیق کی جاسکتی تھی۔ یہ اتنی بڑی خبر تھی کہ کہا جاسکتا تھا کہ نہ زمین کانپی نہ آسمان گرا۔ سوال یہ ہے کہ کیا روزنامہ جنگ نے اس صورت حال کے حوالے سے کبھی 35 برسوں میں ایک شہ سرخی بھی ویسی تخلیق کی جیسی شہ سرخی اس نے ایک پریانتھا کمارا کے قتل پر تخلیق کی۔ کیا کبھی ڈان نے بھی اس حوالے سے ویسی سرخی وضع کی جیسی سرخی اس نے پریانتھا کے قتل کے حوالے سے وضع کی؟۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے 35 سال پر محیط پر جبر کے دوران ہمارے بڑے بڑے اخبارات نے الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے خلاف ایک لفظ نہیں لکھا۔ کبھی ایک آدھ خبر میں ایم کیو ایم کی خبر لی گئی تو ایم کیو ایم نے بڑے بڑے اخبارات کا بائیکاٹ کردیا اور بڑے بڑے اخبارات کے مالکان نائن زیرو میں الطاف حسین سے معافی مانگتے ہوئے پائے گئے۔
گزشتہ 35 سال میں بعض ایسی ایسی بڑی عالمی خبریں بھی سامنے آئیں جو ہولناک شہ سرخیاں تخلیق کرسکتی تھیں۔ مثلاً عراق پر امریکا اور یورپ کی اقتصادی پابندیوں سے عراق میں 10 لاکھ لوگ غذا اور دوائوں کی قلت سے ہلاک ہوگئے۔ ہلاک ہونے والوں میں دوچار دس ہزار نہیں پانچ لاکھ بچے بھی شامل تھے۔ یہ ایسی خبر تھی جس پر پوری انسانیت کو شرمندگی میں دکھایا جاسکتا تھا۔ اس خبر کے حوالے سے شہ سرخی تخلیق کی جاسکتی تھی کہ آخر دس لاکھ مظلوم لوگوں کی ہلاکت پر زمین کیوں نہیں کانپی اور آسمان ٹوٹ کر کیوں نہیں گرا؟۔ سوال یہ ہے کہ روزنامہ جنگ نے اس خبر کو اس طرح رپورٹ کیوں نہیں کیا جس طرح اس نے پریانتھا کمارا کے قتل کو رپورٹ کیا ہے؟ کیا ڈان کو کبھی امریکا اور یورپ کے جرائم پر کوئی شہ سرخی تخلیق کرنے کا خیال آیا؟ کیا اس نے کبھی امریکی قوم اور یورپی اقوام کو شرمندگی میں غرق کرنے کی صحافتی ضرورت محسوس کی؟۔
ہماری زندگی کے گزشتہ 31 سال صحافت میں بسر ہوئے ہیں اور اپنے اس طویل تجربے کی بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ پریانتھا کی خبر واقعتاً اہم خبر ہے مگر یہ خبر صفحہ اول پر زیادہ سے زیادہ چار کالمی سرخی کے ساتھ شائع ہونی چاہیے تھی مگر ہمارے یہاں اس خبر نے شہ سرخیاں تخلیق کیں۔ اس خبر کے سلسلے میں سوال یہ ہے کہ کیا اگر اس خبر کے پس منظر میں توہین رسالت کا معاملہ نہ ہوتا تو کیا پھر بھی یہ خبر اس جذباتیت کے ساتھ رپورٹ ہوتی جس جذباتیت کے ساتھ رپورٹ ہوئی۔ یہ ایک سامنے کی بات ہے ہمارے ذرائع ابلاغ میں ایسے لوگ موجود ہیں جو ملک و قوم کے مذہبی تشخص کو کسی نہ کسی صورت میں نقصان پہنچانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔