پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بانی اور پاکستان کو ایٹمی صلاحیت کا حامل بنانے والے ڈاکٹر عبدالقدیر خان 85 سال کی عمر میں انتقال کرگئے۔ وہ کچھ عرصہ پہلے کورونا میں مبتلا ہوئے تھے مگر انہوں نے اسے شکست دے دی تھی، تاہم کورونا نے ان کے پھیپھڑوں کو بری طرح متاثر کردیا تھا۔ ایک خبر کے مطابق اسی وجہ سے ان کی طبیعت خراب ہوئی۔ انہیں اسپتال لے جایا گیا مگر وہ جانبر نہ ہوسکے۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی زندگی پاکستان سے عشق کی ایک داستان تھی۔ پاکستانی قوم “Careerists” کی قوم ہے۔ جنرل ہو یا سیاست دان… ماہر معیشت ہو یا سائنس دان… صحافی ہو یا دانش ور… سب کو اپنا کیریئر عزیز ہے۔ ہمارے جرنیل 1954ء سے امریکہ کو خوش کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ ہمارے سیاست دان مدتوں سے امریکہ کے جوتے چاٹ رہے ہیں۔ ہمارے بڑے بڑے معیشت دان عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے ’’ملازم‘‘ ہیں۔ ان میں سے کوئی نہیں جو صرف پاکستان کے لیے سوچتا ہو، جو صرف پاکستان کے لیے کام کرتا ہو، جس نے صرف پاکستان کے لیے اپنے کیریئر کی قربانی دی ہو۔ مگر ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے پاکستان کی محبت میں اپنے کیریئر کی قربانی دی۔ بھارت نے 1974ء میں ایٹمی دھماکہ کیا تو اُس وقت ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہالینڈ میں ایک پُرلطف اور پُرتعیش زندگی بسر کررہے تھے۔ اصولی اعتبار سے بھارت کا ایٹمی دھماکہ پاکستانی سیاست دانوں اور جرنیلوں کا دردِ سر تھا۔ انہیں خود اس دھماکے کا جواب دینا تھا، مگر پاکستان کے کسی سیاست دان اور کسی جرنیل نے بھارت کے ایٹمی دھماکے کا جواب نہیں دیا، البتہ پاکستان کے عشق میں مبتلا ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو خیال آیا کہ اگر اب بھی پاکستان نے ایٹم بم نہ بنایا تو پاکستان دوبارہ 1971ء جیسی صورتِ حال سے دوچار ہوسکتا ہے۔ چنانچہ وہ پاکستان آئے اور بھٹو صاحب سے ملاقات کی۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے بھٹو صاحب کو یقین دلایا کہ وہ پاکستان کے لیے ایٹم بم بنا سکتے ہیں بشرطیکہ وہ انہیں مالی اور تکنیکی سہولتیں مہیا کریں۔ بھٹو صاحب خود ایک سیاسی “Careerist” تھے، مگر وہ قائدِ ایشیا بننے کا خواب دیکھ رہے تھے۔ بھٹو صاحب کی انا بہت بڑی تھی اور اُن کے لیے پاکستان کی قیادت کم پڑتی تھی۔ وہ علاقائی اور بین الاقوامی سطح کی شخصیت بن کر ابھرنا چاہتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اگر پاکستان کا ایٹم بم اور عربوں کا پیٹرو ڈالر یکجا ہوجائیں تو وہ علاقائی اور عالمی سیاسی افق پر قائدِ ایشیا، یا کم از کم امتِ مسلمہ کے رہنما بن کر ابھر سکتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے کہا کہ وہ پاکستان میں ایٹمی منصوبے پر کام شروع کریں۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ہالینڈ کے مقابلے پر پاکستان میں ایک معمولی تنخواہ پر کام شروع کیا۔ انہوں نے اپنا کیریئر تج دیا، یورپ کی پُرتعیش زندگی ترک کردی۔ یہ صورتِ حال روشنی سے اندھیرے میں چھلانگ لگانے کے برابر تھی۔ ڈاکٹر عبدالقدیر نے جب ایٹمی منصوبے پر کام شروع کیا اُس وقت پاکستان کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ سوئی بھی نہیں بنا سکتا۔ ملک میں سائنس کی بنیادی تعلیم کا بھی مناسب بندوبست نہیں تھا۔ تعلیم یافتہ اور ہنرمند لوگوں کی سخت قلت تھی۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی راہ میں روڑے اٹکانے والے اس کے سوا تھے۔ مگر ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کسی بات کی پروا نہیں کی۔ وہ ہر مشکل کو پھلانگتے چلے گئے، اور بالآخر ایک طویل جدوجہد کے بعد 1984ء میں وہ لمحہ آگیا جب پاکستان نے ایٹم بم بنا لیا۔ اُس وقت تک ایٹم بم دنیا کے صرف چھے ملکوں یعنی امریکہ، روس، چین، برطانیہ، فرانس اور بھارت کے پاس تھا۔ پاکستان کا ایٹم بم ناممکن کی جستجو تھی۔ ترقی یافتہ ممالک سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ پاکستان کبھی ایٹم بم بنا سکتا ہے۔ مگر ڈاکٹر عبدالقدیر نے ناممکن کو ممکن بناکر دکھا دیا۔ ایٹم بم کی تخلیق کے حوالے سے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ’’محسنِ پاکستان‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ خطاب ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے لیے چھوٹا پڑتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا کارنامہ بہت بڑا ہے۔ وہ ہر اعتبار سے اس قابل ہیں کہ انہیں ’’قائداعظم ثانی‘‘ کہہ کر پکارا جائے، یہ بات محض ایک دعویٰ نہیں ہے، اس کے بڑے مستحکم دلائل ہیں۔ اس دعوے کی پہلی دلیل یہ ہے کہ قائداعظم نے پاکستان بنایا اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے پاکستان کو بچایا۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ پاکستان کا دفاع جرنیل اور فوج ہی کرسکتی ہے، لیکن اگر جرنیل اور فوج پاکستان کا دفاع کرسکتی تو سقوطِ ڈھاکا نہ ہوتا، مشرقی پاکستان 1971ء میں ہم سے الگ نہ ہوتا، پاکستان دو ٹکڑے نہ ہوتا، قائداعظم کا ’’اوریجنل پاکستان‘‘ صفحۂ ہستی سے نہ مٹتا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ایٹم بم نے ملک کی تاریخ میں پہلی بار پاکستان کے دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنادیا۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو قائداعظم ثانی کہنے کی دوسری دلیل یہ ہے کہ جس طرح قائداعظم کے بغیر پاکستان کا تصور نہیں کیا جا سکتا، اسی طرح ڈاکٹر قدیر کے بغیر پاکستان کے ایٹم بم کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان کے جرنیل اور پاکستان کی سیاسی قیادت ایٹم بم بنانے کا تصور بھی نہیں کرسکتی تھی۔ یہ ڈاکٹر قدیر خان تھے جنہوں نے پاکستان کی عسکری اور سیاسی قیادت کو ایٹم بم کا خواب دکھایا، اور نہ صرف خواب دکھایا بلکہ خواب کو حقیقت بناکر بھی دکھایا۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو قائداعظم ثانی قرار دینے کی تیسری دلیل یہ ہے کہ قائداعظم نے تنِ تنہا پاکستان بنا کر دکھایا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا کارنامہ بھی یہ ہے کہ انہوں نے تنِ تنہا ایٹم بم بناکر دکھایا۔ بلاشبہ قائداعظم کی مدد کرنے والے بھی بہت تھے اور ڈاکٹر قدیر کا ہاتھ بٹانے والوں کی بھی کمی نہ تھی، مگر تخلیقِ پاکستان پر صرف قائداعظم کے نام کی مہر لگی ہوئی ہے۔ بلاشبہ ایٹم بم بنانے میں بہت سے ماہرین نے ڈاکٹر قدیر کی مدد کی، مگر پاکستان کے ایٹم بم پر ڈاکٹر عبدالقدیر کے نام کی مہر لگی ہوئی ہے۔ پاکستان قائداعظم کا ’’شخصی منصوبہ‘‘ تھا، تو ایٹم بم ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا شخصی منصوبہ تھا۔ ان حقائق کے تناظر میں دیکھا جائے تو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو قائداعظم ثانی قرار دینے کا جواز پوری طرح عیاں ہوکر سامنے آجاتا ہے۔ قوموں کی تاریخ ہمارے سامنے ہے، اور یہ تاریخ بتاتی ہے کہ تاریخ میں کوئی ایک فرد اس طرح کسی ملک اور کسی قوم کا حصار نہیں بنا جس طرح ڈاکٹر عبدالقدیر پاکستان اور پاکستانی قوم کا حصار بنے۔ قائداعظم بلاشبہ One Man Army تھے، اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان بھی ایک فرد ہونے کے باوجود ایک فوج تھے۔ ایسی فوج جس نے پاکستان کو ناقابلِ تسخیر قلعہ بنادیا۔
یہ حقیقت راز نہیں ہے کہ ہندوستان نے کبھی پاکستان کے وجود کو دل سے تسلیم نہیں کیا۔ چنانچہ 1971ء میں پاکستان کے جرنیلوں اور سیاست دانوں کی حماقتوں اور ضلالتوں سے ہندوستان کو موقع ملا کہ وہ پاکستان کو دولخت کردے۔ ہندوستان نے اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور پاکستان کی پوری فوج کیا، پوری قوم مل کر بھی ہندوستان کے ناپاک عزائم کو ناکام نہ بنا سکی۔ لیکن ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ایٹم بم نے ہندوستان کے ناپاک عزائم کو گزشتہ 37 سال میں ایک انچ بھی پیش قدمی نہ کرنے دی۔ 1980ء کی دہائی میں جنرل ضیاء الحق کو اطلاع ملی کہ بھارت پاکستان پر حملے کی تیاری کررہا ہے۔ جنرل ضیاء الحق کرکٹ ڈپلومیسی کی آڑ میں بھارت پہنچے اور انہوں نے پاکستان واپس آنے سے قبل ہوائی اڈے پر اُس وقت کے بھارت کے وزیراعظم راجیو گاندھی کو بتایا کہ پاکستان ایٹم بم بنا چکا ہے، چنانچہ اگر بھارت نے پاکستان پر حملے کی حماقت کی تو اُسے صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے گا۔ جنرل ضیاء الحق نے راجیوگاندھی سے کہا کہ میرے اسلام آباد میں لینڈ کرنے سے قبل صورتِ حال کو “De-escalate” کرو، ورنہ نتائج کے تم خود ذمہ دار ہوگے۔ جنرل ضیاء الحق کی دھمکی سن کر راجیو گاندھی دنگ رہ گئے اور انہوں نے پاکستان پر حملے کا ارادہ ترک کردیا۔ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ایٹم بم نہ بنایا ہوتا تو جنرل ضیاء الحق راجیو گاندھی کو دھمکی دینے کی پوزیشن میں نہ ہوتے، اور بھارت نے 1980ء کی دہائی ہی میں پاکستان پر حملہ کردیا ہوتا۔ پاکستان کے دفاع پر نظر رکھنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ بھارت نے پاکستان پر قبضے کے لیے پاکستان کی سرحد کے ساتھ کئی فوجی چھائونیاں تعمیر کیں۔ بھارت کا ناپاک منصوبہ یہ تھا کہ وہ عددی اکثریت کی بنیاد پر پاکستان پر غالب آجائے اور پاکستان کے وسیع علاقے پر قبضہ کرلے، اور پھر پاکستان سے اپنی بات منوائے۔ مگر پاکستان نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ایٹمی پروگرام سے استفادہ کرتے ہوئے چھوٹے چھوٹے ایٹم بم بناکر بھارت کے مذکورہ ناپاک منصوبے کو ناکام بنادیا۔ پاکستان چھوٹے ایٹم بموں سے اس پوزیشن میں آگیا کہ وہ بھارت کے بیس پچیس ہزار فوجیوں کو بھاپ بنا کر اڑا دے۔ چنانچہ فوجی چھائونیوں میں بھارت کی ساری سرمایہ کاری ڈوب گئی اور آج تک بھارت کو پاکستان پر حملے کی جرأت نہ ہوئی۔ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ یہ صورتِ حال پاکستان کے ایٹم بم کی وجہ سے رونما ہوئی۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان پاکستان کو بڑا ایٹم بم بناکر نہ دیتے تو پاکستان چھوٹے چھوٹے ایٹم بم بنانے کے قابل نہ ہوتا، اور بھارت اب تک پاکستان پر چڑھ دوڑتا۔
یہ امر بھی راز نہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان گزشتہ سال ہونے والی کشیدگی میں ایک مرحلہ ایسا آیا کہ بھارت نے پاکستان کے تین شہروں پر ایٹمی حملے کی تیاری کرلی تھی۔ اس کے جواب میں پاکستان نے بھارت کے 6 شہروں کو اڑانے کی تیاری پیش کردی۔ چنانچہ امریکہ درمیان میں کود پڑا اور اُس نے دونوں ملکوں سے کہا کہ وہ صورتِ حال کو معمول پر لائیں۔ یہ صورتِ حال بھی ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے کارنامے کا حاصل ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے پاکستان کو ایٹم بم بناکر نہ دیا ہوتا تو یا تو بھارت پاکستان کے تین شہروں کراچی، لاہور اور ملتان کو تباہ کردیتا، یا پھر پاکستان بھارت کی ’’ایٹمی بلیک میلنگ‘‘ کا شکار ہوجاتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو پورے شرحِ صدر کے ساتھ قائداعظم ثانی سمجھتے ہیں۔ لیکن ہماری قومی بدقسمتی دیکھیے کہ پاکستان کے حکمران طبقے نے قائداعظم ثانی کے ساتھ کیا سلوک کیا؟
جنرل پرویزمشرف نے امریکہ کے دبائو پر یہ کہانی گھڑی کہ ڈاکٹر قدیر نے ایٹمی ٹیکنالوجی ایران کو فروخت کی ہے۔ انہوں نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے کہا کہ وہ اپنے جرم پر معافی مانگیں۔ انہوں نے ڈاکٹر عبدالقدیر پر الزام لگایا کہ انہوں نے ایٹمی ٹیکنالوجی فروخت کرکے مال بنایا ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان پر الزام لگایا گیا کہ ان کے پاس بہت سرمایہ ہے اور دنیا کے کئی ملکوں میں ان کے اثاثے ہیں۔ انہیں چھے سال تک گھر میں قید رکھا گیا۔ ان کی ایک بیٹی ان کے گھر سے چار سو گز کے فاصلے پر رہتی ہے، اُس تک کو ڈاکٹر قدیر سے ملنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ پاکستان کے حکمران طبقے نے قائداعظم ثانی کو تنہا کیا، ان کی تذلیل کی۔ ڈاکٹر قدیر کی توہین کا سلسلہ صرف جنرل پرویزمشرف کے دور تک محدود نہ تھا، انہیں جنرل پرویز کے بعد بھی آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت نہیں دی گئی۔ اس سلسلے میں ملک کی اعلیٰ عدالتیں بھی ڈاکٹر صاحب کی کوئی خاص مدد نہ کرسکیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ملک کا نظامِ انصاف بھی اسٹیبلشمنٹ کی گرفت سے آزاد نہیں۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی توہین کا سلسلہ ان کی موت کے بعد بھی جاری رہا۔ ان کے جنازے میں وزیراعظم عمران خان، صدر عارف علوی اور جنرل باجوہ نے شرکت کی زحمت نہیں کی، حالانکہ تینوں شخصیتیں ملک میں بلکہ اسلام آباد میں موجود تھیں۔ قوم نے یہ بات نوٹ کی ہے، اور وہ قائداعظم ثانی کی اس توہین کو نہ کبھی فراموش کرے گی اور نہ کبھی معاف کرے گی۔ بدقسمتی سے پاکستان کی بڑی جماعتوں کے قائدین بھی ڈاکٹر قدیر کی نمازِ جنازہ میں شریک نہیں ہوئے۔ میاں شہبازشریف، بلاول بھٹو اور عمران خان معمولی تقریبات میں شریک ہوتے رہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان لوگوں نے ڈاکٹر قدیر کے جنازے میں اس لیے شرکت سے گریز کیا کہ کہیں امریکہ بہادر ان سے ناراض نہ ہو جائے؟ قائداعظم نے ایک بار کہا تھا کہ میں چاہتا ہوں کہ جب مرنے کے بعد میری خدا سے ملاقات ہو تو وہ کہے کہ تم نے بہترین کام کیا۔ ہمیں یقین ہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر مرنے کے بعد خدا کی جناب میں حاضر ہوں گے تو خدا اُن سے کہے گا: عبدالقدیر خان تم نے میرے نبیؐ کی امت کے 22کروڑ امتیوں کی بقا و سلامتی کو تحفظ مہیا کیا۔ تم نے بہترین کام کیا۔