جو قومیں جنگوں سے بھاگتی ہیں جنگیں اُن کا تعاقب کرتی ہیں
دنیا میں سب سے بلند مرتبہ اور بڑے لوگ وہ ہوتے ہیں جو اپنے نظریے کے سہارے زندہ رہتے ہیں۔ حالات کیسے ہی ہوں، ماحول کچھ بھی ہو، دنیا کہیں جارہی ہو، یہ لوگ اپنے نظریے پر قائم رہتے ہیں اور دنیا کو اس کے مطابق بدلنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ یہ انبیاء و مرسلین، ان کے وارثین اور تاریخ کی بڑی شخصیات کا طرزِ فکروعمل ہے۔ انبیاء و مرسلین نے بدترین حالات میں بھی وہی کیا جو ان کے خالق و مالک کا حکم اور ان کے عقیدے کا تقاضا تھا۔ جہانگیر بادشاہِ وقت تھا اور حضرت مجدد الف ثانیؒ محض ایک صوفی تھے، مگر حضرت مجدد الف ثانیؒ جہانگیر کی خلافِ اسلام پالیسیوں کے خلاف ڈٹ گئے اور انہیں تبدیل کراکے دم لیا۔ اقبالؒ نے انگریزوں کی غلامی اور اُن کے عہدِ عروج میں آنکھ کھولی، مگر انہوں نے مغربی تہذیب کے عروج کے زمانے میں فرمایا:
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہو گا
مولانا مودودیؒ نے اُس وقت اپنے کام کا آغاز کیا جب عالمی بساط پر اسلام اور مسلمانوں کی کوئی حیثیت نہیں تھی، اس کے باوجود انہوں نے مسلمانوں سے مخاطب ہوکر کہا ’’قرآن و سنت کی دعوت لے کر اٹھو اور پوری دنیا پر چھا جائو‘‘۔ قائداعظمؒ نے اُس وقت پاکستان بنایا جب پاکستان کے قیام کا دور دور تک امکان نہ تھا۔ ان کے ایک طرف وقت کی واحد سپرپاور سلطنتِ انگلشیہ تھی، اور دوسری طرف ہندو اکثریت… اور دونوں پاکستان نہیں چاہتے تھے، مگر قائداعظم نے انگریزوں اور ہندوئوں دونوں کو شکست دے کر پاکستان بنایا۔
دوسری طرف انسانوں کی وہ قسم ہوتی ہے جو حالات اور ماحول کے تحت ہوتی ہے۔ یہ لوگ حالات اور ماحول کی Dictation پر چلتے ہیں۔ پاکستان کا حکمران طبقہ اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔ ہمارے جرنیلوں کو امریکہ سے مارشل لا لگانے کا حکم دیا جاتا ہے تو وہ مارشل لا لگا دیتے ہیں۔ انہیں جمہوریت بحال کرنے کا اشارہ ملتا ہے تو وہ جمہوریت بحال کردیتے ہیں۔ انہیں جہاد کا حکم ملتا ہے تو وہ ایک رات میں ’’جہادی‘‘ بن جاتے ہیں۔ انہیں جہاد ترک کرنے کا حکم ملتا ہے تو وہ جہاد کو فساد اور جہادیوں کو فسادی قرار دے دیتے ہیں۔ انہیں امریکہ سے حکم ملتا ہے تو وہ بے نظیر کے ساتھ این آر او کرلیتے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کی ’’خاص ادا‘‘ یہ ہے کہ وہ اپنی قوم پر ہتھیار اٹھاتے ہیں، اور امریکہ و بھارت کے آگے ہتھیار ڈالتے ہیں۔ وہ قوم کے لیے شیر اور امریکہ اور بھارت کے لیے بھیگی بلی ہیں۔ یہ باتیں ہمیں اس لیے یاد آرہی ہیں کہ ان دنوں اخبارات میں جنرل باجوہ سے سینئر صحافیوں کی ملاقات قطرہ قطرہ رپورٹ ہورہی ہے۔ یہ ملاقات سات گھنٹے جاری رہی۔ اس ملاقات کی تفصیلات ششدر کردینے والی اور اشتعال انگیز ہیں۔
روزنامہ ڈان کے فہد حسین نے ڈان کی 25 اپریل کی اشاعت میں ملاقات کے حوالے سے جو خبر فائل کی ہے اس کے مطابق معاشرے سے عسکریت کو ختم کرکے پاکستان کو ایک ’’نارمل اسٹیٹ‘‘ بنانے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ یہ ایک شرمناک اور اشتعال انگیز بات ہے۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ جسے عسکریت کہتی ہے وہ جہادی عمل کے سوا کچھ نہیں، اور جہاد کے بارے میں بنیادی بات یہ ہے کہ جہاد اللہ کا حکم اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور حکمتِ عملی ہے۔ چنانچہ پاکستان جیسی اسلامی ریاست جہاد اور جہادی عمل کو سینے سے لگا کر کبھی ’’ایبنارمل اسٹیٹ‘‘ نہیں بن سکتی، بلکہ پاکستان کے لیے اس سے زیادہ ’’نارمل بات‘‘ کوئی ہو ہی نہیں سکتی کہ پاکستان بحیثیت ایک مملکت کے جہادی ریاست ہو۔ مگر ہماری اسٹیبلشمنٹ اب جہاد اور جہادی عمل کو اختیار کرنے والی ریاست کو “Abnormal” گردان رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ جب ریاست کو “Normal” بنایا جارہا ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ وہ اب سے پہلے “Abnormal” تھی۔ تجزیہ کیا جائے تو یہ انسانی تاریخ کا انوکھا واقعہ ہے۔ سوویت یونین سوشلزم کو گلے سے لگا کر بھی ’’ایبنارمل‘‘ نہ بنا۔ چین نے سرمایہ دارانہ معیشت کو اختیار کرلیا ہے مگر اس کا نظریہ آج بھی سوشلزم ہے، اور چین میں کوئی نہیں کہتا کہ چین ایبنارمل ہے۔ امریکہ اور یورپ کا نظریہ سیکولرازم ہے، اور وہ سیکولرازم کو سینے سے لگا کر آج تک ایبنارمل نہیں کہلاتے۔ مگر پاکستان نے جہاد کو سینے سے لگایا تو وہ اسٹیبلشمنٹ کی نظر میں ’’ایبنارمل‘‘ ہوگیا، اور اب اسے ’’نارمل‘‘ بنایا جارہا ہے۔ یہ خدا، رسول اور ان کے دین کے خلاف کھلی بغاوت ہے۔ تجزیہ کیا جائے تو پاکستان کو Abnormal جرنیلوں اور ان کے آلۂ کار سیاست دانوں نے بنایا۔ پاکستان اسلامی ریاست ہے، اور ایک اسلامی ریاست میں جرنیلوں کی بالادستی کا کوئی تصور نہیں، اور اگر اسلامی ریاست میں جرنیل بالادست ہوں گے تو وہ ریاست نارمل نہیں ’’ایبنارمل‘‘ ہوگی۔ قائداعظم نے فرمایا تھا: ’’پاکستان بن گیا ہے اور اب انسانی روح تخلیقی سرگرمیوں کے لیے آزاد ہوگئی ہے‘‘۔ مگر ہماری اسٹیبلشمنٹ نے پاکستان کو امریکہ کی کالونی بناکر اسے ایک ’’ایبنارمل ریاست‘‘ بنا دیا۔ دنیا کے ہر آزاد ملک کے بجٹ کا بڑا حصہ عوامی فلاح و بہبود پر خرچ ہوتا ہے۔ دنیا کی ہر ’’نارمل ریاست‘‘ یہی کرتی ہے۔ مگر ہمارے حکمران طبقے نے پاکستان کو اتنا ’’ایبنارمل‘‘ بنا دیا ہے کہ ہمارے بجٹ کا نصف حصہ آئی ایم ایف کے قرضوں کی ادائیگی پر صرف ہوجاتا ہے۔ دنیا کے ہر نارمل ملک میں لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر ہوتا ہے، مگر ہمارے حکمرانوں نے ملک کو اتنا ’’ایبنارمل‘‘ بنادیا ہے کہ ملک کی 80 فیصد آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ مگر ہماری اسٹیبلشمنٹ کو یہ اور اس جیسی درجنوں ایبنارمل باتیں نظر نہیں آتیں۔ اسے ملک کو ’’ایبنارمل‘‘ بنانے والی بات نظر آئی تو یہ کہ ملک میں جہادی کلچر پیدا ہوگیا۔ حالانکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے لیے اس سے ’’نارمل‘‘ بات کوئی نہیں ہوسکتی کہ ملک کا دفاع تصورِ جہاد پر کھڑا ہوجائے۔ یہ ہماری بدقسمتی نہیں تو کیا ہے کہ ہم نے بھارت سے جنگیں تو چار لڑی ہیں مگر اس کے خلاف جہاد ایک بار بھی نہیں کیا۔ ویسے یہاں پوچھنے کی ایک بات یہ بھی ہے کہ اگر ملک جہادی کلچر کی وجہ سے ’’ایبنارمل‘‘ ہوگیا تو اس کا ذمے دار کون تھا؟ کیا یہ کام عوام نے کیا؟ کسی مذہبی جماعت نے کیا؟ یا خود جرنیلوں نے کیا؟ یہاں کہنے کی ایک بات یہ بھی ہے کہ بھارت کا کیا پتا، وہ آج مذاکرات کی میز پر بیٹھا ہے کل وہ مذاکرات پر تھوک کر مذاکرات کی میز سے اٹھ جائے اور ممکن ہے پاکستان پر جارحیت مسلط کردے۔ ان حالات میں جرنیلوں کو ایک بار پھر جہادی جوش و جذبے کی ضرورت پڑے گی تو وہ کس منہ سے قوم کو آواز دیں گے کہ آئے اور بھارت کے خلاف جہاد میں حصہ لے؟
فہد حسین نے ملاقات کے حوالے سے یہ بھی لکھا ہے کہ جنگ نے کبھی مسئلے کا کوئی حل پیدا نہیں کیا۔ اطلاعاً عرض ہے کہ یہ ملک ’’مذاکرات‘‘ سے وجود میں نہیں آیا، یہ ’’مزاحمت‘‘ سے وجود میں آیا، اور جہاد بھی ایک مزاحمتی رویہ ہی ہے۔ چنانچہ پاکستان کو جہادی عمل ہی کا نتیجہ سمجھنا چاہیے۔ ایک قومی نظریے اور دو قومی نظریے کی کشمکش حق و باطل کی کشمکش تھی، اور مزاحمت کی بدولت اس کشمکش میں حق کو باطل پر فتح حاصل ہوئی۔ جہاد کی برکت کی دوسری مثال یہ ہے کہ آج پاکستان کے پاس جتنا کشمیر ہے وہ جہاد ہی کا حاصل ہے۔ جہاد نہ ہوتا تو آزاد کشمیر بھی ہمارے پاس نہ ہوتا۔ جہاد کی برکت کی تیسری مثال یہ ہے کہ آج بھارت پاکستان سے مسئلہ کشمیر پر بھی بات کرنا چاہتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے جہادی عمل نے بھارت کے لیے سنگین مسائل کھڑے کیے ہوئے ہیں۔ کشمیر میں جہاد نہ ہورہا ہوتا تو بھارت کشمیر کے حوالے سے بات بھی نہ کرتا۔ جہادی روح کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان طاقت کا ایک ہولناک عدم توازن پایا جاتا ہے، مگر ہم پاکستان کے فوجیوں کو جہاد اور شہادت کے تصور سے منسلک کرتے ہیں، چنانچہ ہمارا سپاہی بھارت کے سپاہی سے زیادہ دلیری کے ساتھ لڑتا ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو ہم بھارت کی بڑی عسکری قوت کے مقابلے کے قابل نہ ہوتے۔ 20 ویں اور 21 ویں صدی میں جہاد کا سب سے بڑا معجزہ یہ ہے کہ اس عمل نے افغانستان میں پہلے سوویت یونین اور پھر امریکہ کو شکست سے دوچار کیا۔ پاکستانی جرنیل ان معجزات کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے تھے۔ نائن الیون کے بعد جنرل پرویز کے ’’نارمل پاکستان‘‘ نے تو امریکہ کے آگے ہتھیار ڈال دیے تھے۔ یہ ملّا عمر کا ’’ایبنارمل افغانستان‘‘ تھا جو اقبال کے اس شعر کا مصداق بن کر کھڑا ہوگیا:
اگر ملک ہاتھوں سے جاتا ہے، جائے
تُو احکامِ حق سے نہ کر بے وفائی
پاکستان کے جرنیلوں نے اگر جہاد کو گلے لگایا ہوتا تو نہ صرف یہ کہ کشمیر ہمارا ہوتا بلکہ ہم اب تک بھارت کے حصے بخرے کرچکے ہوتے۔
فہد حسین نے اپنی خبر میں یہ ’’اطلاع‘‘ بھی دی ہے کہ پاک بھارت تعلقات ساس بہو کا جھگڑا بن چکے ہیں۔ پاکستان بھارت تعلقات کے بارے میں اس سے گھٹیا بات اور کوئی نہیں کہی جا سکتی۔ پاک بھارت تعلقات دو مذاہب، دو تہذیبوں، دو تاریخوں اور دو قوموں کے تعلقات ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ نے انہیں ساس بہو کے تعلقات قرار دے کر اپنے مذہب، اپنی تہذیب، اپنی تاریخ، اپنی قوم اور دو قومی نظریے کے علَم بردار بانیِ پاکستان قائداعظم کی کھلی توہین کی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ہمارے جرنیلوں کے لیے ساسیں اور بہوئیں بہت اہم ہوں، مگر وہ اپنے ’’شخصی کلچر‘‘ کو پوری قوم پر مسلط کرنے کا حق نہیں رکھتے۔ ویسے بھی پاکستان جرنیلوں کو جہیز میں نہیں ملا، چنانچہ وہ اس کے اجتماعی معاملات کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ کرنے کا حق اور اختیار نہیں رکھتے۔
جنرل باجوہ اور سینئر صحافیوں کی ملاقات میں یہ ’’انکشاف‘‘ بھی ہوا کہ اب اسٹیبلشمنٹ معیشت کو ترجیح دینا چاہتی ہے۔ وہ تعلیم اور بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے کا عزم رکھتی ہے اور آبادی کو کنٹرول کرنا چاہتی ہے۔ چین نے گزشتہ چالیس برس میں یہ تمام کام کیے ہیں مگر اُس نے ایک دن کے لیے بھی اپنے نظریے کو ترک نہیں کیا۔ چین میں سوشلزم بھی موجود ہے اور کمیونسٹ پارٹی بھی پھل پھول رہی ہے، مگر ہماری اسٹیبلشمنٹ اپنے نظریے پر شرمندہ ہے، اور وہ نظریے کی حامل ریاست کو ’’ایبنارمل‘‘ باور کرا رہی ہے، اور نظریے یا اس کے کسی تصور سے جان چھڑانے والی ریاست کو ’’نارمل‘‘ باور کرا رہی ہے۔
پاکستان کا اب تک بھارت کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے یہ مؤقف تھا کہ وہ بھارت کے ساتھ ’’جامع مذاکرات‘‘ چاہتا ہے۔ مگر پاکستان اب بھارت کے ساتھ جامع مذاکرات نہیںکر رہا، بلکہ وہ ہر مسئلے پر علیحدہ علیحدہ گفتگو کررہا ہے، اور یہ بات بھارت کے مفاد میں ہے۔ کہا جارہا ہے کہ پاک بھارت مذاکرات کا مفہوم یہ ہے کہ دونوں ملکوں میں ’’عقابی ذہن‘‘ پس منظر میں چلا گیا ہے اور ’’فاختائی ذہن‘‘ آگے آگیا ہے۔ مگر یہ ایک احمقانہ خیال ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ پاکستان کے جرنیل اچانک عقاب سے فاختہ بن گئے ہیں، البتہ بھارت کے عقابوں نے مصلحتاً فاختائی رویہ اختیار کرلیا ہے۔ یہاں مصلحت کی بات مذاق نہیں۔ چین کے ساتھ تصادم کی وجہ سے بھارت پاکستانی سرحد پر تعینات فوجیوں کی بڑی تعداد کو چین کی سرحد پر لے گیا ہے جس سے پاکستان اور بھارت کی سرحد پر فوجیوں کا عدم توازن دور ہوگیا ہے۔ پہلے پاکستان کے ایک فوجی کے مقابلے پربھارت کے چار فوجی موجود تھے، اب پاکستان کے ایک فوجی کے مقابلے کے لیے بھارت کا صرف ایک فوجی موجود ہے۔ طاقت کے توازن کی اس فضا میں بھارت چین کیا، پاکستان کے ساتھ بھی جنگ لڑنے کا متحمل نہیں ہوسکتا، چنانچہ اُس نے پاکستان کو مذاکرات کی دعوت دے ڈالی ہے۔ پاکستانی قوم کو یاد ہوگا کہ 1962ء میں چین بھارت جنگ کے موقع پر بھی بھارت اپنے فوجیوں کو پاکستانی سرحد سے چین کی سرحد پر لے گیا تھا۔ اُس وقت چین نے پاکستان سے کہا تھا کہ موقع ہے آگے بڑھو اور بھارت سے اپنا کشمیر چھین لو۔ مگر بزدل جنرل ایوب امریکہ کے دبائو میں آگیا اور ہم نے تاریخی موقع گنوا دیا۔ تاریخ نے ایک بار پھر ہمیں بھارت کے دانت کھٹے کرنے اور اُس سے کشمیر چھین لینے کا موقع فراہم کیا ہے، مگر ہم بھارت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر ایک بار پھر تاریخی موقع کو کھو رہے ہیں۔ یہ حقیقت بھی راز نہیں کہ امریکہ بھارت کو چین کا حریف بنا کر ابھارنا چاہتا ہے۔ ابھی چین اور بھارت کی طاقت کا کوئی موازنہ ہی نہیں۔ چین کی مجموعی قومی پیداوار 13 ہزار ارب ڈالر ہے، جب کہ بھارت کی صرف ڈھائی ہزار ڈالر۔ چین کے زرمبادلہ کے ذخائر 3 ہزار ارب ڈالر ہیں، اور بھارت کے 150 ارب ڈالر۔ چنانچہ ابھی بھارت چین کا مقابلہ نہیں کرسکتا، مگر جس دن بھارت کی طاقت چین کی طاقت کے آس پاس بھی آگئی اُس دن بھارت پہلا حملہ چین پر نہیں بلکہ پاکستان پر کرے گا۔ بھارت کا ہندو ذہن پاکستان کو بھارت کا حصہ یا اس کی کالونی بنانے سے کم پر آمادہ نہیں ہوگا۔ چنانچہ ہمیں بھارت کی مزاحمت کا راستہ ترک نہیں کرنا چاہیے۔ بھارت کی مزاحمت کا راستہ ہماری آزادی اور بقا و سلامتی کا راستہ ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اس راستے میں خود پاکستان اور پاکستانی قوم کے لیے گڑھے کھود رہی ہے۔ پاکستانی جرنیلوں کی تاریخ ہے کہ وہ لڑے بغیر ہتھیار ڈالتے ہیں۔ انہوں نے 1971ء میں بھارت سے تقریباً لڑے بغیر ہتھیار ڈال دیے۔ نائن الیون کے بعد انہوں نے امریکہ کی رتی برابر مزاحمت کے بغیر امریکہ کے آگے ہتھیار ڈالے دیے۔ اب وہ بھارت کے کھوکھلے امن مذاکرات کی آڑ میں بھارت کے سامنے ہتھیار ڈال رہے ہیں۔ بلاشبہ جنگ کوئی شوق نہیں ہے مگر تاریخ بتاتی ہے کہ جو قومیں جنگوں سے بھاگتی ہیں جنگیں اُن کا تعاقب کرتی ہیں۔ جنگ سے وہی بچتا ہے جو جنگ کے لیے ہر وقت تیار رہتا ہے۔ کہنے والے تو اس مرحلے پر یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ نے کشمیر کا بھارتی حل قبول کرلیا ہے۔ یعنی طے پا گیا ہے کہ جو کشمیر بھارت کے پاس ہے وہ اُس کے پاس رہے، اور جو کشمیر ہمارے پاس ہے وہ ہمارے پاس رہے۔ اقبال نے رہنما کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے کہا تھا:
نگہ بلند، سخن دلنواز، جاں پرسوز
یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لیے
مگر ہمارے جرنیلوںکے اندر ان تینوں میں سے کوئی خوبی بھی نہیں۔ان کی نگاہ شخصی اور اداراتی ہے۔ ان کا سخن امریکی ساختہ ہے۔ اور ان کی جان میں سوز کا دور دور تک نام و نشان نہیں ملتا۔