بھارت ازلی و ابدی طور پر جنگ کے سرطان میں مبتلا ہے۔ یہ سرطان داخلی بھی ہے اور خارجی بھی۔ شودر ہندوازم کا حصہ ہیں مگر اعلیٰ ذات کے ہندو ہزاروں سال سے شودروں کے خلاف جنگ چھیڑے ہوئے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ 20 سے 25 کروڑ شودر صدیوں سے حیوانوں سے بدتر زندگی بسر کررہے ہیں۔ شودر ہندو ہیں مگر وہ اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کے مندر میں جا کر عبادت نہیں کرسکتے۔ وہ ایسا کریں گے تو مندر ناپاک ہوجائیں گے۔ اعلیٰ ذات کے ہندو شودروں کے سائے سے بھی دور بھاگتے ہیں کہ کہیں وہ ناپاک نہ ہوجائیں۔ البتہ اعداد وشمار کے مطابق ہندوستان میں ہر سال اعلیٰ ذات کے ہندو ایک لاکھ سے زیادہ شودر خواتین کی عصمت دری کرتے ہیں، اور ایسا کرتے ہوئے نہ انہیں ’’پاپ‘‘ لگتا ہے اور نہ وہ ’’ناپاک‘‘ ہوتے ہیں۔ شودروں کی حالت اتنی ابتر تھی کہ گاندھی نے ان کی نفسیاتی صورتِ حال کو بہتر بنانے کے لیے انہیں ’’ہری جن‘‘ یعنی ’’خدا کے بندے‘‘ کا نام دیا، مگر گاندھی کو بھی یہ جرأت نہ ہوئی کہ وہ کہتے ہندوازم کی اصل تعلیمات کی رو سے برہمن اور شودر کوئی نسلی حقیقت نہیں ہیں بلکہ ہندوازم کی رو سے برہمن کا اصل مطلب خدا پرست انسان اور متقی آدمی ہے۔ اس کے برعکس شودر وہ ہے جس کی روحانی، اخلاقی اور علمی اہلیت معمولی درجے کی ہے۔ چناں چہ وہ جسمانی محنت کے سوا کچھ بھی نہیں کرسکتا۔ ہندوؤں کی مذہبی و تاریخی کتاب ’مہا بھارت‘ میں صاف لکھا ہے کہ برہمن کے گھر شودر اور شودر کے گھر برہمن پیدا ہوسکتا ہے۔ مگر اعلیٰ ذات کے ہندوؤں نے شودروں پر ظلم کرنے کے لیے اپنی مذہبی تعلیمات کو فراموش کیا ہوا ہے اور گاندھی جیسے ’’مہاتما‘‘ کو کبھی اصل بات کہنے کی جرأت نہ ہوسکی۔
ہندو مسلمانوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ مسلمان کبھی بھی ’’مقامی‘‘ نہیں ہوسکتے، اس لیے کہ ان کی ہر چیز عالم عرب میں ہے۔ ان کا مکہ بھی عالمِ عرب میں ہے اور ان کا مدینہ بھی۔ بلاشبہ مسلمانوں کا مکہ اور مدینہ عالمِ عرب میں ہیں، مگر مسلمانوں کی تاریخ یہ ہے کہ وہ جہاں گئے اپنی آفاقیت کو برقرار رکھتے ہوئے مقامی ہوگئے۔ وہ اسپین گئے تو ’’ہسپانوی مسلمان‘‘ بن گئے۔ چین گئے تو ’’چینی مسلمان‘‘ کہلائے۔ ہندوستان آئے تو ’’ہندوستانی مسلمان‘‘ باور کیے گئے۔ میر تقی میرؔ کا ایک شعر ہے:
میرؔ کے دین و مذہب کو تم پوچھتے کیا ہو ان نے تو
قشقہ کھینچا، دیر میں بیٹھا کب کا ترک اسلام کیا
بعض سیکولر اور لبرل لوگ اس شعر سے یہ مراد لیتے ہیں کہ میرؔ اس شعر میں ترکِ اسلام کا اعلان کررہے ہیں۔ حالاں کہ اس شعر میں میرؔ کہہ رہے ہیں کہ ہم عربوں کا اسلام ہندوستان آکر اتنا مقامی ہوچکا ہے کہ اس میں عربوں والی کوئی بات باقی نہیں رہی۔ لیکن چلیے مان لیتے ہیں کہ مسلمان مقامی نہیں ہیں، مگر بدھ ازم اور سکھ ازم تو مقامی مذاہب تھے، ان کے ساتھ اعلیٰ ذات کے ہندوؤں نے کیا کیا؟ اعلیٰ ذات کے ہندو مہاتما بدھ کو ’’اوتار‘‘ تو مانتے ہیں مگر انہیں ’’ملیچھ اوتار‘‘ یعنی ناپاک اوتار کہتے ہیں۔ چناں چہ اعلیٰ ذات کے ہندوؤں نے کبھی بدھسٹوں کو ہندوستان کے مرکز میں کام نہ کرنے دیا۔ بدھ ازم مشرق بعید میں پھیلا مگر ہندوستان میں نہ پھیل سکا۔ اعلیٰ ذات کے ہندوؤں نے سکھوں کے ساتھ جو سلوک کیا وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ ’’گولڈن ٹیمپل‘‘ سکھوں کا خانہ کعبہ ہے، مگر اندرا گاندھی نے سکھوں کے کعبے پر ٹینک چڑھا دیے اور اسے گولیوں سے چھلنی کردیا۔
ایک وقت تھا کہ ہندوستان میں ہندی چینی بھائی بھائی کے نعرے لگتے تھے، مگر ایک سرحدی تنازعے کے باعث ہندوستان دیکھتے ہی دیکھتے چین کے خلاف صف آرا ہوگیا۔ اس کا خیال تھا کہ وہ گراں خواب چینیوں کو پیٹ لے گا، مگر چین نے 1962ء کی جنگ میں بھارت کا بھرکس نکال دیا۔ 1962ء میں بھارت سوویت یونین کا اتحادی تھا۔ بھارت کے وزیراعظم نہرو خود کو سوشلسٹ کہتے تھے اور امریکہ کی مخالفت ان کی سیاست کا تقاضا تھا، مگر چین نے بھارت کو وہ مار لگائی کہ نہرو نے خفیہ طور پر امریکہ سے رابطہ کیا اور ہتھیاروں کی صورت میں مدد کی درخواست کی، اور امریکا نے بھارت کو ہنگامی طور پر ہتھیار فراہم کرنے شروع کردیے۔ چین نے خطرے کو بھانپتے ہوئے یک طرفہ طور پر جنگ بندی کا اعلان کردیا۔
بھارت پاکستان کے ساتھ چار چھوٹی بڑی جنگیں لڑ چکا ہے۔ وہ خاموش جنگ اس کے علاوہ ہے جو عرصے سے بھارت نے پاکستان پر دہشت گردی اور عدم استحکام کی صورت میں مسلط کی ہوئی ہے۔ چلیے پاکستان تو اسلامی ملک ہے اور وہ ’’بھارت ماتا‘‘ کے ٹکڑے کرکے وجود میں آیا ہے، مگر نیپال ہمیشہ سے ایک ہندو ریاست ہے لیکن بھارت کبھی اس کا پیٹرول بند کردیتا ہے، کبھی کھانے پینے کی اشیا کی ترسیل روک دیتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بھارت چاہتا ہے کہ نیپال بھارت کے اشاروں پر ناچے۔ نیپال نے چند سال پہلے ایک آئین بنایا ہے، بھارت نیپال پر دباؤ ڈالتا رہا کہ نیپال بھارت کی خواہشات کے مطابق آئین بنائے۔ چین کمیونسٹ ملک ہے مگر بھارت سے عاجز آکر نیپال چین کی طرف مائل ہوگیا ہے۔ سری لنکا میں تاملوں اور سنہالیوں کے درمیان خانہ جنگی شروع ہوئی۔ یہ سری لنکا کا داخلی معاملہ تھا، مگر جنگ کے سرطان میں مبتلا ہندوستان سری لنکا کی خانہ جنگی میں کود پڑا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک تامل خاتون بم باندھ کر بھارت کے سابق وزیراعظم راجیو گاندھی سے لپٹ گئی اور انہیں اُڑا دیا۔ اس سے پہلے سکھوں کے ’’کعبے‘‘ گولڈن ٹیمپل پر حملے کی وجہ سے اندرا گاندھی کو ان کے دو سکھ محافظوں نے قتل کر ڈالا تھا۔ بنگلہ دیش بھارت کی تخلیق تھا اور اس کے ساتھ بھارت کے تعلقات انتہائی ’’دوستانہ‘‘ ہوسکتے تھے، مگر بھارت نے بنگلہ دیش کو اپنی کالونی بنالیا۔ چناں چہ بنگلہ دیش کی فوج نے بابائے بنگلہ دیش شیخ مجیب الرحمن اور ان کے کئی اہلِ خانہ کو قتل کرڈالا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو بھارت سے زیادہ جنگ پسند ملک دنیا میں صرف امریکہ اور اسرائیل ہی ہیں۔ یہ تینوں ملک اپنی پالیسیوں اور اقدامات سے انسانوں میں کیسی نفرت پیدا کرتے ہیں اس کا اندازہ اسلامی جمعیت طلبہ کے اس نعرے سے بخوبی کیا جاسکتا ہے جو کبھی پاکستان کی دیواروں کی رونق ہوا کرتا تھا۔ نعرہ یہ تھا:
ایک سے بڑھ کے ایک ذلیل
یو ایس، بھارت، اسرائیل
بلاشبہ بھارت کا حجم بڑا ہے مگر اُس کا دل اور ظرف چھوٹا ہے۔ بھارت کا جغرافیہ 32 لاکھ مربع کلومیٹر ہے، مگر بھارت کا روحانی اور اخلاقی جغرافیہ ایک ڈیڑھ سینٹی میٹر سے زیادہ نہیں۔ بے شک بھارت کا حجم ہاتھی کا ہے، مگر اُس کا دل اور ظرف چیونٹی سے بھی چھوٹا ہے۔ بھارت کو اپنے بڑے ’’سائز‘‘ کا بڑا زعم ہے۔ چناں چہ خطے کے تمام ممالک کو مل کر کوشش کرنی چاہیے کہ بھارت کا سائز Abnormal سے Normal ہوجائے۔ جب تک بھارت کا سائز Normal نہیں ہوگا، وہ جنوبی ایشیا کے کسی ملک کو چین سے نہیں رہنے دے گا۔
بدقسمتی سے جس طرح بھارت جنگ کے سرطان میں مبتلا ہے اسی طرح پاکستان کے حکمرانوں کو بھارت کے حوالے سے ’’امن کا ہیضہ‘‘ لاحق ہے۔ اقبال کا بے مثال شعر ہے:
ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
اقبال کا یہ شعر قرآن مجید کی ایک آیت سے ماخوذ ہے۔ اقبال مومن کی صفت اور شان بیان کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ مومن دوستوں یعنی اپنوں کے لیے ریشم کی طرح نرم ہوتا ہے مگر جہاں اسے باطل سے مقابلہ درپیش ہوتا ہے وہ فولاد کی طرح سخت ہوجاتا ہے۔ مگر پاکستان کے حکمرانوں کا قصہ اس کے برعکس ہے۔ پاکستان کے حکمران اپنوں کو فتح کرتے ہیں اور دشمن کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہیں۔ وہ اپنوں کے لیے فولاد اور دشمنوں کے لیے ریشم کی طرح نرم ہیں۔ بنگالی ہمارے بھائی اور ہمارے قومی وجود کا حصہ تھے مگر جنرل نیازی نے کہا کہ ہم بنگالیوں کی نسل بدل دیں گے۔ جنرل ٹکا خان نے صاف کہا کہ انہیں مشرقی پاکستان میں لوگ عزیز نہیں ہیں بلکہ علاقہ عزیز ہے۔ ہمارا حکمران طبقہ بلوچستان میں پانچ فوجی آپریشن کرچکا ہے۔ جنرل پرویز نے نواب بگٹی کو ذلت کے ساتھ قتل کیا۔ جنرل ضیا الحق ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے سے پھانسی سے کم سزا پر آمادہ نہ ہوئے۔ ایم آر ڈی کی تحریک کے دوران سندھ کے حالات اتنے خراب تھے کہ سندھ الگ ہوتے ہوتے بچا۔ مگر پاکستان کے حکمرانوں کو امریکہ کے سلسلے ہی میں نہیں، بھارت کے سلسلے میں بھی ’’امن کا ہیضہ‘‘ لاحق ہے۔ جنرل ایوب خان نے بھارت کو پاکستان کے تین دریا دے دیے۔ 1962ء میں چین بھارت جنگ میں بھارت اپنی ساری فوج چین کی سرحد پر لے آیا تھا اور چین نے جنرل ایوب کو پیغام دیا تھا کہ آگے بڑھو اور بھارت سے اپنا کشمیر لے لو۔ مگر جنرل ایوب بھارت پر امریکی دباؤ کی وجہ سے ’’مہربان‘‘ ہوگئے۔ جنرل ضیا کے عہد میں بھارت نے خاموشی کے ساتھ سیاچن پر قبضہ کرلیا اور جنرل ضیا الحق نے بھارت کا کچھ بھی نہ بگاڑا۔ میاں نوازشریف عرصے سے بھارت کو اپنا ’’دوسرا گھر‘‘ سمجھے ہوئے ہیں۔ میاں صاحب بھارتی وزیراعظم اندر کمار گجرال کے ایسے عاشق تھے کہ انہیں اُن کے بیڈ روم میں رات گئے فون کردیتے تھے، اور اندر کمار گجرال کے بقول وہ میاں صاحب کی اس حرکت پر حیران ہوتے تھے۔ میاں صاحب نے واجپائی سے ایسا تعلق استوار کیا کہ وہ واجپائی کا ’’سایہ‘‘ محسوس ہوتے تھے۔ بھارت میں مسلم کُش فسادات کے حوالے سے گجرات کا قسائی کہلانے والا مودی، میاں صاحب کو اتنا عزیز ہوا کہ ’’مودی شریف بھائی بھائی‘‘ کا منظر طلوع ہوگیا۔ جنرل پرویز نے کارگل میں بھارت کے گلے پر پاؤں رکھا مگر کارگل سے اُترتے ہی وہ بھارت سے مذاکرات اور امن کی بھیک مانگتے نظر آئے۔ رہی سہی کسر عمران خان پوری کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ پاکستان پلوامہ کے واقعے میں ملوث نہیں مگر بھارت نے کسی تحقیق اور کسی شہادت کے بغیر پاکستان کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کیا۔ اس صورتِ حال میں پاک فضائیہ نے بھارت کے دو طیارے مار گرائے اور بھارت کے ایک پائلٹ کو پکڑ لیا۔ بھارت کا یہ پائلٹ اسی طرح بھارت کی جارحیت کا ثبوت تھا جس طرح کلبھوشن پاکستان کے خلاف بھارت کی سازش کی ٹھوس شہادت ہے، مگر عمران خان نے بھارتی پائلٹ کو امن کے نام پر فوراً ہی رہا کردیا ہے۔ کوئی عمران خان کو بتائے کہ یہ امن نہیں ہے، امن کا ہیضہ ہے۔ ایک حدیث شریف میں آیا ہے کہ متکبر کے ساتھ تکبر سے پیش آنا عین انکسار ہے۔ بھارت پاکستان توڑ چکا، باقی ماندہ پاکستان کو مٹانے کے لیے کوشاں ہے، کشمیر میں وہ 71 سال میں ہمارے چار لاکھ بھائیوں کو قتل کرچکا ہے، وہ کشمیر میں 11 ہزار سے زیادہ خواتین کی عزتیں لوٹ چکا ہے۔ چناں چہ اصولاً پاکستان کے حکمرانوں کو چاہیے تھا کہ وہ کلبھوشن اور بھارتی پائلٹ کو عالمی سطح پر بھارت کے خلاف فضا بنانے کے لیے استعمال کرتے، مگر افسوس ایسا نہیں ہوا۔ عمران کچھ اور نہیں تو صرف اتنا ہی کرلیتے کہ بھارتی پائلٹ کو دو چار ماہ پاکستان میں قید رکھ لیتے، مگر انہوں نے بھارتی پائلٹ کو تین ہی دن میں بھارت کے حوالے کردیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ بھارت کے ذرائع ابلاغ عمران خان اور پاکستان کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ بین الاقوامی برادری کے دباؤ نے عمران اور پاکستان کو جھکا دیا ہے۔ اپنے، یونیورسٹی کے زمانے میں ہم نے ایک ’’ایڈیٹر‘‘ کے حوالے سے شعر کہا تھا جو یہ ہے:
بھلا منظر ہے پوشیدہ بُرا منظر نمایاں ہ
اس ایڈیٹر میں ’’ایڈی‘‘ سے زیادہ ’’ٹر‘‘ نمایاں ہے
عمران خان خود کو ’’فائٹر‘‘ کہتے ہیں، مگر بدقسمتی سے ان میں بھارت کے حوالے سے ’’فائی‘‘ کہیں نظر نہیں آرہا۔ جو کچھ نظر آرہا ہے وہ صرف ’’ٹر‘‘ ہے۔ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کو یاد رکھنا چاہیے کہ ظالم پر مہربانی ظالم کی مدد ہے۔ پاک بھارت تعلقات کی تاریخ میں پاکستان ہمیشہ سے ’’مظلوم‘‘ اور بھارت ہمیشہ سے ’’ظالم‘‘ ہے، اور ہم پر اس ظالم کی مزاحمت مذہبی اعتبار سے بھی فرض ہے اور تہذیبی، تاریخی اور قومی اعتبار سے بھی فرض ہے۔ مگر بھارت کے حوالے سے امن کے ہیضے میں مبتلا حکمرانوں کو اس بات کا شعور ہی نہیں ہے۔
(شائع شدہ روزنامہ ’’جسارت‘‘3 مارچ 2019ء)