بھارت کے شیطانی کردار کو سمجھنے کے لیے اُس کی پوری تاریخ پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔
ہندوئوں کی مقدس کتاب یجروید میں ایک خدا کا تصور موجود ہے۔ یجروید کے مطابق یہ ایک خدا ایسا خدا ہے جس کی کوئی شبیہ نہیں بنائی جاسکتی۔ اُپنشدوں میں ہے کہ خدا ایک ہے اور وہ ہر جگہ ہے۔ مگر ہندوئوں نے ایک سطح پر تین خدا ایجاد کرلیے ہیں اور دوسری سطح پر وہ 33کروڑ خدائوں کو مانتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ معروف یا Popular hinduism اپنی مقدس کتابوں کے خلاف بغاوت پر کھڑا ہے۔ یعنی ہندوئوں کی عظیم اکثریت اپنی مقدس کتب کی باغی ہے۔ ہندوئوں کی مقدس کتاب یجروید میں لکھا ہے کہ بکریوں، بیلوں اور بھینسوں کی قربانی نہ صرف یہ کہ جائز ہے بلکہ اس سے دیوتا خوش ہوتے ہیں۔ ہندوئوں کی مقدس کتابوں میں لکھا ہوا ہے کہ کون سا دیوتا کس جانور کی قربانی سے خوش ہوتا ہے۔ ہندوئوں کی مقدس کتاب رامائن میں ہے کہ ہندو تاریخ کی عظیم شخصیت رام کی بیوی نے اُن سے ایک دن ہرن کے شکار کی فرمائش کی۔ مگر ہندوئوں کی عظیم اکثریت قربانی کے تصور کو نہ صرف فراموش کرچکی ہے بلکہ اس نے بھارت کے مسلمانوں کے لیے گائے کی قربانی بھیانک جرم بنادی ہے اور ہندو انتہا پسند آئے دن مسلمانوں کو گائے کے گوشت کے شبہ میں قتل کرتے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ بھارت کے مسلمانوں کے لیے گائے کی تجارت بھی بھیانک جرم بن گئی ہے۔
ایک طرف یہ صورتِ حال ہے کہ ہندو گائے کو ’’گائو ماتا‘‘ یا ’’گائے ماں‘‘ قرار دیتے ہیں، اور وہ گائے کا گوشت رکھنے کے شبہ میں کئی مسلمانوں کو قتل کرچکے ہیں۔ دوسری جانب یہ صورت حال ہے کہ بھارت دنیا میں گائے کے گوشت کا بڑا برآمد کنندہ ہے۔ بھارت نے 2014ء میں گائے کا 20 لاکھ 32 ہزار میٹرک ٹن گوشت، جبکہ 2015ء میں 2 ارب کلو گرام گوشت برآمد کیا، اور اس کی برآمد سے ’’صرف‘‘ 4 ارب 80 کروڑ ڈالر کمائے۔ یہ دولت ایک کروڑ 70 لاکھ سے زائد گائیں ذبح کرکے حاصل کی گئی۔ 2016ء میں بھارت نے 3 لاکھ 63 ہزار ٹن گائے کا گوشت برآمد کیا۔ مطلب یہ کہ مسلمانوں کو قتل کرنا ہو تو گائے ’’ماں‘‘ ہے اور ’’مقدس‘‘ ہے۔ لیکن ’’مال‘‘ کمانا ہو تو گائے ذبح کیے جانے کے لائق ہے۔ یہ صورتِ حال بتاتی ہے کہ ہندوئوں کی عظیم اکثریت اس دائرے میں بھی اپنی مقدس کتابوں کی تعلیمات سے بغاوت کررہی ہے۔ ہندوئوں کی مقدس کتاب مہا بھارت میں صاف لکھا ہے کہ ایک برہمن کے گھر شودر اور شودر کے گھر برہمن پیدا ہوسکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ کہ اصل ہندوازم میں برہمن اور شودر ’’نسلی حقیقت‘‘ نہیں ہیں، بلکہ برہمن، شتری، ویش اور شودر انسان کی روحانی یا نفسیاتی قسم ہیں۔ مگر ہندوئوں نے برہمن، شتری، ویش اور شودر کو نسلی معاملہ بنادیا ہے اور اعلیٰ ذات کے ہندو چار پانچ ہزار سال سے کروڑوں شودروں اور دلتوں کو حیوانوں سے بدتر زندگی بسر کرنے پر مجبور کررہے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ بھارت کے ہندوئوں کے بالائی طبقات اس دائرے میں بھی اپنی مقدس کتاب کی توہین اور تذلیل کررہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جو قوم اپنی مقدس کتابوں کی تعلیمات کی توہین کرسکتی ہے اُس سے یہ توقع کیسے کی جاسکتی ہے کہ وہ مسلمانوں یا پاکستان کے لیے احترام کے جذبات کی حامل ہوسکتی ہے؟ اعلیٰ ذات کے ہندوئوں نے شودروں اور دلتوں کی اتنی تذلیل کی ہے کہ شودروں کے عظیم رہنما اور بھارت کے آئین کے خالق ڈاکٹر امبیڈکر نے کہا کہ شودر پیدا ہونا میرے بس میں نہیں تھا، لیکن میرے بس میں یہ ہے کہ میں شودر کی حیثیت سے نہ مروں۔ چنانچہ انہوں نے مرنے سے پہلے ہندوازم ترک کردیا تھا اور بدھ ازم اختیار کرلیا تھا۔
بدھ ازم ہندو ازم کی ہی ایک شاخ ہے، مگر چونکہ بدھ ازم ذات پات کے نظام کو تسلیم نہیں کرتا تھا اس لیے ہندوئوں نے بدھ ازم کے ساتھ جو سلوک کیا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ ہندو بدھ ازم کے بانی گوتم بدھ کو ’’اوتار‘‘ تو مانتے ہیں مگر وہ گوتم بدھ کو ’’ملیچھ اوتار‘‘ یعنی ’’ناپاک پیغمبر‘‘ کہتے ہیں۔ گوتم بدھ بھارتی ریاست بہار کے علاقے گیا میں پیدا ہوئے مگر اعلیٰ ذات کے ہندوئوں نے بدھ ازم کو ہندوستان کے مذہبی مرکز یوپی یا اس سے متصل ریاستوں میں قدم نہ جمانے دیے۔ چنانچہ بدھ ازم نے خیبر پختون خوا اور افغانستان میں اپنے بڑے بڑے روحانی مراکز قائم کیے۔ یہاں تک کہ وہ مشرقِِ بعید کے کئی ممالک میں پھیلا۔ مگر اعلیٰ ذات کے ہندوئوں نے بدھ ازم کو ہندوستان کے مرکز میں نہ پھیلنے دیا۔
سکھ ازم بھی ہندوستان کی پیداوار ہے، اور سکھوں کی مقدس کتاب گروگرنتھ صاحب میں توحید بیان ہوئی ہے، اور گروگرنتھ صاحب میں کئی مسلم صوفیہ کے اقوال موجود ہیں، مگر اعلیٰ ذات کے ہندو، سکھ ازم کو کھاگئے اور انہوں نے سکھ ازم کو اپنے اندر اس طرح جذب کرلیا کہ اب بھارت میں موجود سکھوں کے ناموں اور طرزِ حیات کو دیکھ کر خیال آتا ہے کہ وہ ہندوازم ہی کا کوئی فرقہ ہیں۔ بھارت میں موجود ’’گولڈن ٹیمپل‘‘ سکھوں کا ’’خانہ کعبہ‘‘ ہے۔ بھارت کی سابق وزیراعظم اندراگاندھی نے 1970ء کی دہائی میں سکھوں کی جماعت اکالی دل کی قوت کو توڑنے کے لیے ایک سکھ شخص سنت جرنیل سنگھ بھنڈراں والا کو سیاسی رہنما کے طور پر ابھارا۔ بھنڈراں والا نے دیکھتے ہی دیکھتے سکھوں کی بڑی تعداد کو اپنے گرد جمع کرلیا۔ اس کی طاقت اتنی بڑھی کہ وہ اندراگاندھی کے ہاتھ سے اس طرح نکل گیا جس طرح الطاف حسین پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ سے نکل گئے۔ بھنڈراں والا اور اندراگاندھی کی محاذ آرائی بڑھی تو بھنڈراں والا نے اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ گولڈن ٹیمپل میں پناہ حاصل کرلی۔ اندراگاندھی چاہتیں تو گولڈن ٹیمپل کا محاصرہ کرکے پندرہ بیس دن میں بھنڈراں والا کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرسکتی تھیں، مگر اندراگاندھی برہمن تھیں۔ ان کی نظر میں گولڈن ٹیمپل کا کوئی ’’تقدس‘‘ نہیں تھا، چنانچہ انہوں نے سکھوں کے مقدس ترین مقام کو عسکری طاقت کے ذریعے روند ڈالا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اندراگاندھی کے دو سکھ محافظوں نے اندرا گاندھی کو قتل کردیا۔ اس قتل کے ذمے دار صرف دو سکھ تھے مگر اندراگاندھی کے قتل کے بعد ہندو اپنے اتحادیوں یعنی عام سکھوں پر چڑھ دوڑے اور صرف ایک دن میں دِلّی میں دو ہزار سے زیادہ سکھ قتل کردیے گئے۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جو قوم اپنے مذہبی، تہذیبی، تاریخی اور سیاسی اتحادیوں کے ساتھ یہ سلوک کرسکتی ہے وہ اپنے حریفوں کے خلاف کس سطح کے انتقامی جذبے کی حامل ہوگی؟
مسلمانوں نے بھارت پر ایک ہزار سال حکومت کی ہے، یہ اتنا بڑا عرصہ تھا کہ مسلمان ریاستی طاقت اور مالی وسائل کا دو فیصد بھی استعمال کرتے تو بھارت میں آج ایک بھی ہندو نہ ہوتا۔ لیکن طاقت اور لالچ کے ذریعے مذہب کی تبدیلی مسلمانوں کا طریقہ نہیں رہا۔ ایسا ہوتا تو موہن داس کرم چند گاندھی صادق حسین ہوتے۔ پنڈت نہرو کا نام محمد رمضان ہوتا۔ اندرا گاندھی ثمینہ خاتون ہوتیں اور نریندر مودی عارف قریشی کے نام سے یاد کیے جاتے۔ لیکن جن مسلمانوں نے ہندوئوں پر ایک ہزار سال تک رحم کیا، مہربانی کی اُن ہندوئوں نے بھارت کے آزاد ہوتے ہی 70 سال میں پانچ ہزار مسلم کُش فسادات کرا ڈالے۔ ان فسادات کا عالم یہ ہے کہ گاندھی جی اور نہرو کے دوست اور کانگریس کے رہنما مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنی تصنیف India Wins Freedom میں صاف لکھا ہے کہ انہوں نے 1947ء میں دِلّی میں ہونے والے مسلم کُش فسادات کو روکنے کے لیے بار بار نہرو سے بات کی، مگر نہرو نے مسلم کُشی کو روکنے میں کوئی دلچسپی ظاہر نہ کی۔ لیکن بھارت کی ہندو قیادت نے بھارت کے مسلمانوں کو صرف فسادات میں نہیں مارا، انہوں نے مسلمانوں کے معاشی، سماجی اور سیاسی قتل کی بھی راہ ہموار کی۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ بھارت کے مسلمانوں کو معاشی اور سماجی اعتبار سے بھارت کے نئے شودر کہا جارہا ہے۔ بھارت کی ہندو قیادت کی نظر میں مسلمانوں کا کیا مرتبہ ہے اِس کا اندازہ نریندر مودی کے اُس انٹرویو سے کیا جاسکتا ہے جس میں اُن سے پوچھا گیا کہ کیا آپ کو مسلمانوں کے قتل پر افسوس نہیں ہوتا؟ تو انہوں نے کہا کہ اگر آپ کی کار کے نیچے کتے کا پِلاّ آجائے تو آپ کو افسوس تو ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مودی کے نزدیک بھارت کے مسلمان کتے کے پلے ہیں۔ مسلمانوں نے ایک ہزار سال کے دورِ حکومت میں نریند مودی کی ذہنیت کا اعشاریہ ایک فیصد بھی اختیار کیا ہوتا تو بھارت کے ہندو کتے کے پلے کیا، سور کے بچے بھی نہ ہوتے۔ مگر اسلام اور ہندوازم اور مسلمانوں اور ہندوئوں میں ذہن کا فرق ہے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت دونوں مذاہب اور دونوں اقوام کی تاریخ ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ بھارت کے مسلمانوں پر سخت وقت بی جے پی کے دورِ حکومت میں آیا ہے۔ مگر یہ خیال درست نہیں۔ کانگریس نے اپنے پچاس سالہ دورِ حکومت میں مسلمانوں پر کم ظلم نہیں کیے۔ بابری مسجد بی جے پی کے دور میں نہیں کانگریس کے دور میں شہید ہوئی۔ مشرقی پاکستان اندرا گاندھی کے دور میں بنگلہ دیش بنا۔ اندرا گاندھی کی انتہا پسندی کا یہ عالم تھا کہ 1959ء میں جب نہرو نے اندرا گاندھی کے کہنے پر بھارتی ریاست کیرالا میں کمیونسٹوں کی حکومت برطرف کی تو اندرا گاندھی کے شوہر فیروز گاندھی نے اندرا گاندھی کو ’’فاشسٹ‘‘ اور ’’نسل پرست بلا‘‘ قرار دیا۔ یہاں تک کہ ان کی علیحدگی کی نوبت آگئی۔ حالانکہ اندرا گاندھی اور فیروز گاندھی کی شادی محبت کی شادی تھی۔
بھارتی حکمرانوں کے فاشزم اور استعماری ذہنیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بھارت گزشتہ 70 سال سے اپنے تمام پڑوسیوں سے یا تو جنگ لڑ رہا ہے، یا اُن کے معاملات میں مداخلت کررہا ہے، یا اُن کے خلاف سازشیں کرنے میں مصروف ہے۔ بھارت کا سب سے بڑا دردِ سر پاکستان ہے۔ ہندوستان کی کسی بھی قیادت نے پاکستان کے وجود کو دل سے تسلیم نہیں کیا۔ چنانچہ قیام پاکستان کے وقت پاکستان کے اثاثے روک لیے گئے، اور ان اثاثوں کو بحال کرانے کے لیے گاندھی جی کو بھوک ہڑتال کرنی پڑی۔ تقسیم کے بنیادی فارمولے کے تحت پورا کشمیر پاکستان کا حق تھا اس لیے کہ کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت تھی، مگر بھارت نے عسکری طاقت کے زور پر کشمیر کا ایک حصہ ہتھیا لیا۔ بین الاقوامی برادری کا زور پڑا تو پنڈت نہرو مسئلہ کشمیر کو خود اقوام متحدہ میں لے کر پہنچے اور وعدہ کیا کہ وہ حقِ رائے دہی کے ذریعے کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کریں گے۔ لیکن بھارت نے گزشتہ 70 سال میں کبھی اس کی نوبت نہیں آنے دی اور بھارت مقبوضہ کشمیر میں ظلم کو بڑھاتا ہوا اس سطح پر لے آیا ہے کہ کشمیر کے نوجوانوں کے چہروں پر پیلٹ گن سے فائرنگ کرکے انہیں نابینا بنارہا ہے۔ خواتین کی بے حرمتی کا یہ عالم ہے کہ بھارت اب تک پانچ ہزار سے زیادہ خواتین کی عصمتوں کو پامال کرچکا ہے۔ قیام پاکستان کے وقت جونا گڑھ اور حیدرآباد دکن کے مسلم حکمرانوں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا تھا، مگر بھارت نے یہاں بھی فوجی جارحیت کی اور ان علاقوں کو پاکستان میں شامل ہونے سے روک دیا۔ پاکستان کے خلاف بھارت نے 1965ء میں جارحیت کی، اور 1971ء میں اس نے پاکستان کے حکمرانوں کی حماقتوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی ایک بڑا سانحہ تھی مگر اندراگاندھی کا جوشِ انتقام مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے بھی سرد نہ ہوا۔ چنانچہ انہوں نے یہ کہنا ضروری سمجھا کہ ہم نے آج دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں غرق کردیا ہے اور ہم نے ایک ہزار سال کی غلامی کا حساب بے باق کردیا ہے۔ لیکن مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد بھی پاکستان کے خلاف بھارت کی سازشیں جاری رہیں۔ اس وقت بھارت بلوچستان میں مداخلت کررہا ہے۔ ’را‘ سی آئی اے اور ایم آئی۔6 کے ساتھ مل کر الطاف حسین کی سرپرستی کررہی ہے۔ یہاں تک کہ بھارت ایک خالصتاً اقتصادی منصوبے سی پیک کو بھی ہضم نہیں کرپارہا اور اُس نے جنرل زبیر کے مطابق سی پیک کو ناکام بنانے کے لیے 55 ارب روپے مختص کردیے ہیں۔
لیکن بھارت نے صرف پاکستان کے خلاف ہی سازشیں نہیں کی ہیں۔ بھارت 1962ء میں چین کے خلاف جنگ لڑ چکا ہے، جس میں اسے بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ سری لنکا ایک چھوٹا سا پُرامن ملک ہے، مگر بھارت نے اُس کی خانہ جنگی میں ’’ولن‘‘ کا کردار ادا کیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک تامل عورت نے خودکش حملے کے ذریعے بھارت کے وزیراعظم راجیو گاندھی کو قتل کردیا۔ بھارت مالدیپ میں ایک بار اپنی فوجیں اتار چکا ہے۔ میانمر کے لیے بھارت اپنے بجٹ میں اس طرح رقم مختص کرتا ہے جیسے میانمر بھارت کی کوئی ’’ریاست‘‘ ہو۔ نیپال ایک ہندو ریاست ہے اور اُس نے حال ہی میں خود کو سیکولر قرار دیا ہے، مگر بھارت گزشتہ پچاس سال سے نیپال کے گلے پر پائوں رکھے کھڑا ہے۔ بھارت کبھی نیپال کو پیٹرول کی سپلائی معطل کردیتا ہے، کبھی اسے غذائی قلت سے دوچار کردیتا ہے۔ نیپال نے نیا آئین بنایا تو بھارت نے نیپال پر دبائو ڈالا کہ وہ اپنا آئین بھارت کی خواہش کے مطابق بنائے۔ نیپال نے مزاحمت کی تو بھارت نے نیپال میں ہنگامے کرا دیے اور اس کا پیٹرول بند کردیا۔ چنانچہ نیپال نے ہنگامی طور پر چین کی مدد طلب کی۔ بنگلہ دیش بھارت نے بنایا، مگر بنگلہ دیش میں بھارت کا رسوخ اتنا بڑھا کہ بنگلہ دیش کی فوج نے آزادی کے صرف تین سال بعد جنرل ضیاء الرحمن کی قیادت میں ’’بابائے قوم‘‘ شیخ مجیب الرحمن کے خلاف بغاوت کرکے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ فوج کی بغاوت اتنی شدید تھی کہ اس نے شیخ مجیب الرحمن اور اس کے خاندان کے تمام افراد کو مار ڈالا۔
بھارت کی ہندو قیادت ہمیشہ سے ’’اکھنڈ بھارت‘‘ یا غیر منقسم بھارت کے تصور کو سینے سے لگائے ہوئے ہے، مگر نریندر مودی کی حکومت کئی ریاستوں کے اسکولوں اور کالجوں میں ایسا نصاب پڑھا رہی ہے جس میں پاکستان ہی نہیں، افغانستان سمیت خطے کے تمام ملکوں کے بارے میں پڑھایا جارہا ہے کہ ان ملکوں پر مشتمل جغرافیہ کبھی بھارت کا حصہ تھا۔ بھارت خود کو ’’جدید ملک‘‘ کہتا ہے، لیکن اس ملک کے جدید ہونے کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ اس جدید ملک کی 80 فیصد آبادی خطِ غربت سے نیچے کھڑی ہوئی ہے۔ بھارت کے 60کروڑ شہریوں کو رفع حاجت کے لیے ’’باتھ رومز‘‘ دستیاب نہیں، چنانچہ وہ جنگلوں، کھلے علاقوں اور ریلوے لائنوں پر رفع حاجت کے لیے مجبور ہیں۔ بھارت میں روزانہ 93 خواتین عصمت سے محروم ہوجاتی ہیں اور بھارت کے 38 فیصد بچے غذائی قلت اور صحت و صفائی کی غیر تسلی بخش صورتِ حال کی وجہ سے پورے قد کاٹھ کے حامل نہیں ہوپا رہے ہیں۔ بھارت کی ’’تھڑدلی‘‘ کا یہ عالم ہے کہ وہ سو سال سے ایسی فلمیں بنارہا ہے جن کے 90 فیصد مکالمے اور 98 فیصد گیت اردو میں ہوتے ہیں مگر اس کے باوجود بھارت اپنی فلموں کو ’’اردو فیچر فلم‘‘ کے بجائے ’’ہندی فیچر فلم‘‘ کہتا ہے۔ بھارت خود کو عظیم تہذیب اور جمہوریت کی علامت کہتا ہے مگر اس کے خوف کا یہ عالم ہے کہ وہ ڈاکٹر ذاکر نائک کے مکالمے سے اس طرح ڈر گیا جس طرح وہ پاکستان کے ایٹم بم سے خوفزدہ ہے۔ حالانکہ ڈاکٹر ذاکر نائک تقابلِ ادیان کے ایک طالب علم ہیں اور وہ صرف اپنے علم کے ذریعے ہندوئوں کو مسلمان بنارہے تھے۔ ان کا چیلنج تھا کہ ہندوئوں کے پاس کوئی بڑا عالِم ہے تو وہ اسے ان کے سامنے لائیں۔ لیکن ہندو قیادت کی کم ظرفی کہ اس نے ایک عالم، ایک دانشور اور ایک مکالمے کے عاشق کو ’’دہشت گرد‘‘ بناکر ملک سے بھگادیا۔ اس کا مطلب اِس کے سوا کیا ہے کہ ’’عظیم بھارت‘‘ صرف ایک مسلمان عالم سے بھی مقابلے کے قابل نہیں۔ ان تمام حقائق کو دیکھا جائے تو بھارت کہیں امریکہ کی طرح ’’بدمعاش ریاست‘‘ نظر آتا ہے، کہیں وہ اسرائیل کی طرح ’’شیطانی ریاست‘‘ دکھائی دیتا ہے، اور کہیں علمی اور تہذیبی اعتبار سے اتنا کھوکھلا اور کمزور نظر آتا ہے کہ ڈاکٹر ذاکر نائک جیسا ایک مسلمان بھی پورے بھارت کے لیے کافی محسوس ہوتا ہے۔
بھارت کے انتہا پسند ہندو کہتے ہیں کہ بھارت کے مسلمان حملہ آور یا Invaders ہیں۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ اعلیٰ ذات کے ہندو آریائوں کی اولاد ہیں اور آریا بھی حملہ آور یا Invaders ہی تھے۔ ہندوستان اصل میں دراوڑوں کا ملک تھا، مگر آریائوں نے باہر سے آکر دراوڑوں کے ملک پر قبضہ کرلیا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو مسلمانوں اور ہندوئوں میں فرق یہ ہے کہ مسلمان جدید حملہ آور یا Invaders ہیں اور ہندو قدیم حملہ آور یا Invaders ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس حوالے سے ہندوئوں اور مسلمانوں میں کیا فرق ہے؟ لیکن ہندوستان کے حکمران طبقات سوالات پر غور کہاں کرتے ہیں! وہ سوالات پر غور کرتے تو انہیں معلوم ہوتا کہ ان کی اجتماعی ذہنیت اتنی مریضانہ اور مجرمانہ ہے کہ وہ جدید ہندوستان کے بانی موہن داس کرم چند گاندھی کو بھی محض اس لیے ہضم نہ کرسکی کہ گاندھی نے قیام پاکستان کو قبول کرلیا تھا اور انہوں نے پاکستان کو اُس کے حصے کے وسائل مہیا کرنے کے لیے بھوک ہڑتال کی تھی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نتھو رام گوڈسے نے گاندھی کو دن دہاڑے قتل کردیا۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ بی جے پی نتھو رام گوڈسے کو ہندوستان کا ’’ہیرو‘‘ تصور کرتی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کے احمق حکمران فلم کو ’’تفریح‘‘ سمجھتے ہیں، لیکن بھارت کی قیادت فلم کو ’’ہتھیار‘‘ سمجھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کانگریس کی رہنما اور راجیو گاندھی کی بیوہ سونیا گاندھی نے ایک بار کہا تھا کہ پاکستان پر حملہ کرنے کی کیا ضرورت ہے! ہم نے اُسے اپنی فلموں کے ذریعے فتح کرلیا ہے۔ تجزیہ کیا جائے تو یہ مریضانہ ذہنیت کی انتہا ہے۔ اس انتہا نے ہندوستان کی حددرجہ سیکولر اور لبرل کہلانے والی فلمی صنعت کو مسلم دشمنی کے سیلاب میں غرق کردیا ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ شبانہ اعظمی جیسی اداکارہ شکایت کرتی ہیں کہ انہیں ممبئی کے Posh ہندو علاقوں میں مکان نہیں لینے دیا جاتا۔ شاہ رخ خان اور عامر خان شکایت کرتے ہیں کہ ان کے بچوں کا مستقبل ہندوستان میں محفوظ نہیں۔ حد یہ ہے کہ ہندو انتہا پسندوں نے الزام لگایا ہے کہ سیف علی خان اور عامر خان “Love Jihad”کی قیادت کررہے ہیں۔ یعنی انہوں نے کرینہ کپور اور کرن رائے سے شادی کی۔ وشوہندو پریشد کے بقول مسلمان اس طرح ہندو لڑکیوں کو مسلمان کرتے ہیں، اور وہ یہ بھی نہ کریں تو کم از کم ان کی اولاد مسلمان ہوتی ہے۔ یہ مسئلہ بھارت میں اتنا سنگین ہوگیا ہے کہ حکومت نے انتہا پسندوں کے دبائو میں آکر معروف فلم ڈائریکٹر سنجے لیلا بھنسالی کی فلم ’’پدماوتی‘‘ کو نمائش کی اجازت دینے سے انکار کردیاہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فلم میں ہندو عورت کو مسلمان بادشاہ علاالدین خلجی کی محبت میں گرفتار دکھایا گیا۔ وشوہندو پریشد نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ جو شخص فلم کے ڈائریکٹر سنجے لیلا بھنسالی اور فلم کی ہیروئن دپیکا پدوکون کا سر اور ناک کاٹ کر لائے گا اسے 10 کروڑ روپے انعام میں دیے جائیں گے۔
ان حقائق سے تشکیل پانے والی ہندوستان کی ہولناک اور شرمناک تصویر کو دیکھا جائے تو خیال آتا ہے کہ پاکستان کے فوجی اور سول حکمران ہی نہیں، ہمارے سیاسی رہنما، دانشور اور صحافی بھی ہندوستان کے حقیقی فہم سے عاری ہیں۔ ہندوستان صرف سی پیک کے خلاف سازش نہیں کررہا۔ وہ پاکستان کے وجود کے خلاف 1947ء سے جنگ جاری رکھے ہوئے ہے، اور ہندوستان کسی صورت میں بھی اس جنگ سے دست بردار نہیں ہوگا۔ وہ یا تو ہمیں فنا کرکے خوش ہوگا، یا ہمیں اپنے آگے سجدہ ریز دیکھ کر مطمئن ہوگا۔ کیا کوئی دیکھنے والا ہے؟ کیا کوئی سننے والا ہے؟ کیا کوئی سمجھنے والا ہے؟ کیا اسلام یا دو قومی نظریے کی قوت کے بغیر ہندوستان جیسے عفریت کا مقابلہ ممکن ہے؟ کیا پاکستان کو پاکستان بنائے بغیر اور پاکستان کو پاکستان کے لائق حکمران مہیا کیے بغیر ہم ہندوستان کے چیلنجوں کا مقابلہ کرسکتے ہیں؟