اپنی 28 سالہ تخلیقی زندگی میں ہم نے ہزاروں موضوعات پر لکھا ہے، مگر ایک موضوع پر تقاضوں اور مطالبوں کے باوجود لکھنے سے گریز کیا۔ یہ موضوع ہے: جدید مغربی دنیا پر مسلمانوں کے علمی احسانات۔ اس موضوع پر لکھنے سے اجتناب کی وجہ یہ ہے کہ اسلامی تہذیب میں سب سے بڑا اور سب سے اہم علم الٰہیات کا علم ہے۔ الٰہیات میں خدا کی ذات اور صفات کا علم بھی شامل ہے اور اس کے احکامات کا علم بھی۔ دنیا اور آخرت میں مسلمانوں کی کامیابی اسی علم کی رہینِ منت ہے۔ لیکن جدید مغرب کا مسئلہ یہ ہے کہ اس نے سائنس اور ٹیکنالوجی کے علم کو بلند ترین علم کا درجہ دے رکھا ہے، چنانچہ جیسے ہی ہم یہ گفتگو شروع کرتے ہیں کہ جدید مغرب کی ساری سائنسی اور تکنیکی ترقی مسلمانوں کی مرہونِ منت ہے تو ہم سائنس اور ٹیکنالوجی کو غیر ضروری اہمیت دینے کے عمل کا آغاز کردیتے ہیں۔ اسلام سائنس اور ٹیکنالوجی کے خلاف نہیں، مگر اسلام کی تہذیبی کائنات میں سائنس اور ٹیکنالوجی کو ثانوی علم کا درجہ حاصل ہے۔ اسلام مادی دنیا اور مظاہرِ کائنات کے مطالعے کا قائل ہے، مگر اس کے نزدیک مادی حقائق اور کائناتی مظاہر کو ’’الحق‘‘ کی نشانیوں کا درجہ حاصل ہونا چاہیے، اور ان کے ذریعے انسان کو اپنے خالق اور مالک کے زیادہ قریب ہونا چاہیے۔ لیکن جدید مغربی سائنس خدا کو مانتی ہے نہ مذہب کی قائل ہے۔ چنانچہ جدید سائنس کو مسلمانوں کی علمی روایت سے منسلک کرنا خطرے سے خالی نہیں۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے یہاں ایسے لکھنے والے موجود ہیں جو جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کو مغرب کی امتیازی شان باور کرتے ہوئے مسلمانوں کو کوستے بلکہ گالیاں دیتے رہتے ہیں، اور کہتے رہتے ہیں کہ مغرب کے سامنے تمہاری اوقات ہی کیا ہے؟ نہ تمہارے پاس سائنس ہے، نہ ٹیکنالوجی۔ نہ تم کچھ ایجاد کررہے ہو، نہ کچھ اختراع کررہے ہو، اوپر سے مغرب کو برا بھلا بھی کہتے رہتے ہو۔ تمہیں شرم نہیں آتی! ایسی تحریریں پڑھ کر ہمارا خون کھولتا رہا ہے، مگر چونکہ ہماری نظر میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کی کوئی خاص اہمیت ہی نہیں ہے، اس لیے ہم اس موضوع پر گفتگو کو ٹالتے رہے ہیں، مگر جاوید چودھری، حسن نثار اور محمد بلال غوری نے اسلامی تہذیب اور مسلمانوں کی توہین کی حد کردی ہے، اس لیے آج ہم زیر بحث موضوع پر قلم اٹھانے اور جدید مغرب پر مسلمانوں کے علمی، سائنسی، تکنیکی اور ثقافتی احسانات کا ذکر کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ لیکن اصل موضوع پر گفتگو سے قبل ملاحظہ کیجیے کہ جاوید چودھری، حسن نثار اور محمد بلال غوری نے اسلامی تہذیب اور مسلمانوں کی توہین کی کس سطح کو چھوا ہے؟
جاوید چودھری لکھتے ہیں:
’’آپ اسلامی دنیا کی بدقسمتی ملاحظہ کیجیے، ہم لوگ آج یورپی بندوقوں، ٹینکوں، توپوں، گولوں اور امریکی جنگی جہازوں کے بغیر خانہ کعبہ کی حفاظت بھی نہیں کرسکتے، ہماری تعلیم کا حال یہ ہے کہ دنیا کی 100 بڑی یونیورسٹیوں کی فہرست میں اسلامی دنیا کی ایک بھی یونیورسٹی نہیں آتی، ساری اسلامی دنیا مل کر جتنے ریسرچ پیپر تیار کرتی ہے وہ امریکہ کے ایک شہر بوسٹن میں ہونے والی ریسرچ کا نصف بنتا ہے، پوری اسلامی دنیا کے حکمران علاج کے لیے یورپ اور امریکہ جاتے ہیں، یہ اپنی زندگی کا آخری حصہ یورپ، امریکہ، کینیڈا اور نیوزی لینڈ میں گزارنا چاہتے ہیں، دنیا کی نوّے فیصد تاریخ اسلامی ملکوں میں ہے لیکن اسلامی دنیا کے نوّے فیصد خوش حال لوگ سیاحت کے لیے مغربی ملکوں میں جاتے ہیں، ہم نے پانچ سو سال سے دنیا کو کوئی دوا، کوئی ہتھیار، کوئی نیا فلسفہ، کوئی خوراک، کوئی اچھی کتاب، کوئی نیا کھیل اور کوئی اچھا قانون نہیں دیا، ہم نے اگر ان پانچ سو برسوں میں کوئی اچھا جوتا ہی بنالیا ہوتا تو ہمارا فرضِ کفایہ ادا ہوجاتا، ہم ہزار برسوں میں صاف ستھرا استنجہ خانہ نہیں بناسکے، ہم نے موزے اور سلیپر اور گرمیوں میں ٹھنڈا اورسردیوں میں گرم لباس تک نہیں بنایا، ہم نے اگر قرآن مجید کی اشاعت کے لیے کاغذ، پرنٹنگ مشین اور سیاہی ہی بنالی ہوتی تو ہماری عزت رہ جاتی، ہم تو خانہ کعبہ کے غلاف کے لیے کپڑا بھی اٹلی سے تیار کراتے ہیں، ہم تو حرمین شریفین کے لیے سائونڈ سسٹم بھی یہودی کمپنیوں سے خریدتے ہیں، ہمارے لیے آبِ زم زم بھی کافر کمپنیاں نکالتی ہیں، ہماری تسبیحات اور جاء نمازیں بھی چین سے آتی ہیں، اور ہمارے احرام اور کفن بھی جرمن مشینوں پر تیار ہوتے ہیں، ہم مانیں یا نہ مانیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمان صارف سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔ یورپ نعمتیں ایجاد کرتا ہے، بناتا ہے، اسلامی دنیا تک پہنچاتا ہے اور ہم استعمال کرتے ہیں اور اس کے بعد بنانے والوں اور ایجاد کرنے والوں کو آنکھیں نکالتے ہیں۔ آپ یقین کیجیے جس سال آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ نے سعودی عرب کو بھیڑیں دینے سے انکار کردیا، اُس سال مسلمان حج پر قربانی نہیں کرسکیں گے، اور جس دن یورپ اور امریکہ نے اسلامی دنیا کو گاڑیاں، جہاز اور کمپیوٹر بیچنا بند کردیے ہم اُس دن گھروں میں محبوس ہوکر رہ جائیں گے، ہم شہر میں نہیں نکل سکیں گے۔ یہ ہیں ہم اور یہ ہے ہماری اوقات‘‘۔
(جاوید چودھری کا کالم۔ روزنامہ ایکسپریس، 4 مارچ 2018ء)
اب آپ حسن نثار کی بکواس ملاحظہ کیجیے۔ اپنے ایک ٹی وی پروگرام میں جس کی ریکارڈنگ یوٹیوب پر موجود ہے، ایک ’’مولانا‘‘ کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا:
’’یار خدا کا واسطہ یہ ’’مولانے‘‘ مسلمانوں کو جینے دیں۔ انہیں زندہ رہنے دیں۔ یہ ہمارے بچوں کو مغرب سے مقابلہ کرنے دیں۔ احسان کریں۔ کس بات کا انتقام لے رہے ہیں یہ ہم سے۔ بیڑہ غرق، ستیاناس مسلمانوں کا تب سے شروع ہوا جب ’’مولانا اسلام‘‘ نے کہا ’’پرنٹنگ پریس‘‘ نہیں (چاہیے) ہم صدیوں پیچھے چلے گئے۔ پہلا میڈیکل کالج، مولانا نے کہا نہیں یہ غیر اسلامی ہے۔ صبح کرتے ہیں یہ فلش سسٹم، Tooth brush (یہ سب اہلِ مغرب لائے) سمجھ آئی بات۔ کوئی کنویں کھودنے والے (یعنی مسلمان) نہیں، یہ Hand Pump گورا لایا تھا۔ یہ رحم کریں ہم لوگوں پہ۔ بیمار ہوتے ہیں پہنچ جاتے ہیں اسپتال، کوئی ایک دوائی، کوئی وہ جس کو Surgical آلات کہتے ہیں، Machine وہ تمہاری میری بنائی ہوئی ہیں؟ شرم نہیں آتی؟ اس سے تو بہتر ہے مر جائیں۔ Hospital جانے کا مطلب ہے کہ آپ نے خود کو مغرب کے رحم و کرم پہ ڈال دیا۔ سارے وہ Tests وغیرہ یہ وہ…
جہاز پر بیٹھتے ہیں حج اور عمرہ کا ثواب کمانے، تو یار کوئی تو 5 فیصد ثواب اس کو بھی دے دو جس نے تمہیں Facilitate کیا۔ عمریں بیت جاتی تھیں حج اور عمرہ پہ جاتے ہوئے، واپس آتے ہوئے… اور پتا بھی نہیں ہوتا تھا کہ واپس لوٹے گا کہ نہیں۔ Air Conditioned مسجدوں میں اب ہماری ماشا اللہ، زیادہ تر مسجدیں اب Air Conditioned ہیں، بیٹھ کے پرسکون طریقے سے اب آپ نماز ادا فرماتے ہیں۔ بجلی انھوں نے دی جس کے صدقے یہ گفتگو ہورہی ہے اور کروڑوں لوگوں تک پہنچ رہی ہے۔ ریل اور کار، اس پہ تشریف رکھ لیتے ہیں اور کروزوں پہ ہاں، سائیکل سے لے کر Satellite تک اہلِ مغرب نے، Poultry سے لے کر Hybrid Seed تک انھوں نے، ٹی وی سے لے کر Super Computer، Smart Phone سے لے کر خون کی تبدیلی تک۔ کوئی شرم حیا ہمیں نہیں آتی۔ Injection جس کا مذاق اڑایا تھا ملا حضرات نے، Loudspeaker اس کا مذاق اڑایا، اسے شیطانی آلہ قرار دیا۔ Disprin سے لے کر Liver Transplant تک۔ میں دعاگو ہوں اللہ ان کی صحت درست رکھے۔ چلتے پھرتے جائیں۔ Liver Transplant کی نوبت نہ آئے۔ خدا کا خوف کرو Robot سے لے کر مریخ تک جانا ہے، یہ ہمارے پلے کیا ہے؟ یہ جو عہدِ حاضر ہے اس میں مسلمانوں کی بنی نوع انسانی کے لیے ایک Contribution بتائو۔ او زندگیاں تم ان کے صدقے گزار رہے ہوں۔ ٹرکی سے انہوں نے برباد، سلطنت عثمانیہ، خلافت عثمانیہ، تین کونٹینٹ پہ حکومت۔ انہوں نے مسلمانوں کو ایسا Reverse پر ڈالا، ان کے نزدیک پتا ہے کیا ہے، مغرب؟
ننگی ٹانگیں اور حجاب نہ ہونا یا الکوحل، اور نہیں ہے۔ ایڈیسن نے اپنی زندگی دے دی ہمیں ایک ہزار سے زیادہ ایجادات دینے کے لیے۔ ان کو یہ کیوں نہیں لگتا۔ ان کے دماغوں میں اہلِ مغرب بھی مخلوق ہے… میرے رب کی مخلوق ہے۔ قرآن ایک Wisdom بتاتا ہے، لکھا ہے: بے شک تم غالب آئوگے اگر تم مومن ہو۔ غالب ہمیشہ وہ ہوتا ہے جو مومن کے قریب تر ہو۔ اور ہم جھوٹے لوگ ہیں۔ ہمارے یہاں خالص چیز کوئی نہیں ملتی، وہاں ملاوٹ کا تصور ہی نہیں ہے۔ دو نمبر فیکٹریاں ہیں۔ ملک لوٹ کر باہر جاتے ہیں۔ او تم کرتے کیا ہو؟ اور گالیاں اہلِ مغرب کو! او کس بات پہ ہم ایٹمی طاقت ہیں۔ تم ایٹمی طاقت کہاں سے ہو؟ یہ تو 2nd ورلڈ وار میں ایک پرزہ، ایک آلہ، یہ اسلحہ، یہ تو Use ہوچکا۔ اس سے پہلے اسے Conceive کیا گیا تھا۔ بنالیا گیا۔ پھر یہ ہیروشیما، ناگاساکی یہ تو پھر۔ تو ہم ایٹمی طاقت؟ ٹینک، یہ جتنا ماڈرن Weapon ہے، کدھر ہے۔ یہ کون لوگ ہیں، اہلِ مغرب۔ اوئے اہل مغرب سے Compete کرنے کے لیے بچے تیار کرو اپنے۔ اپنے بچے تیار کرو ورنہ ہمارے بچے ان کے قدموں تلے روند دیئے جائیں گے۔ جو ہمارے ساتھ ہورہا ہے۔ او اعلیٰ تعلیم کے لیے جاتے کہاں ہو تم؟ تمہارے تو پورے ملک میں اعلیٰ تعلیمی ادارہ ڈھنگ کا نہیں ہے۔ یہ میرا بلڈ پریشر تباہ کرنے کے لیے تم نے یہ سوال کیا ہے۔ مولانا خدا کا خوف کرو۔ ڈرو۔ اس طرح کی باتیں کرنے کا مطلب یہ ہے کہ تمہاری نظر میں روزِ محشر نہیں ہے۔ انصاف نہیں ہونا، اس کا مطلب یہ ہے۔ اہلِ مغرب… اہلِ مغرب موریلٹی میں، اخلاقیات میں بلند ترین مقام پر فائز ہیں۔ میں کہہ رہا ہوں۔ دو فتویٰ میرے خلاف۔ اور ہمارے قدم قدم پر تمہارے الیکشن جھوٹے، خود کہہ رہے ہو۔ تمہاری اسمبلیاں جھوٹی۔ ہمارے الیکشن فراڈ۔ تمہارا وزیراعظم، تمہارا سب کچھ غلط۔ ان کا سب کچھ صحیح۔ پھر اہلِ مغرب… او ان کی نقل کرلو۔ زندہ رہ لو، کیوں ہم کو برباد کررہے ہو۔ (یوٹیوب پر 9 ستمبر 2018ء کو پوسٹ کیا گیا)
محمد بلال غوری نے اپنے کالم میں ہندوئوں کے اس دعوے کا مذاق اڑایا ہے کہ انہوں نے ماضیِ بعید میں سائنس اور ٹیکنالوجی میں بڑے کارنامے انجام دیئے ہیں۔ یہ مسلمانوں پر کیچڑ اچھالنے کا موقع نہ تھا، مگر وہ نوازشریف کا پرستار ہی کیا جو اسلامی تہذیب اور مسلمانوں کا مذاق نہ اڑائے۔ چنانچہ محمد بلال غوری نے ’’بھارت کو مات دی جاسکتی ہے‘‘ کے عنوان کے تحت اپنے کالم میں لکھا:
’’ہمارے ہاں بھی اس حوالے سے کئی محققین نے جانفشانی سے کام کیا ہے۔ ایسے ایسے نابغہ روزگار لوگ موجود ہیں جو ہر ایجاد یا دریافت کے بعد کوئی حوالہ ڈھونڈ لاتے ہیں کہ قرطبہ، طلیطلہ یا پھر اشبیلیہ کی فلاں یونیورسٹی میں فلاں ابن فلاں نے تو یہ نظریہ کئی سو سال پہلے پیش کردیا تھا۔ ہمارے کئی علما و محققین اپنی تصانیف میں یہ ثابت کرچکے ہیں کہ جدید سائنسی ایجادات و تحقیق جو آج ہورہی ہے مسلمان وہ کئی سو سال قبل کرچکے ہیں۔ بھارت کے مقابلے میں سائنس و تحقیق پر ہمارا حق شفعہ کہیں زیادہ مضبوط ہے۔ مثال کے طور پر ہم بتا چکے ہیں کہ رائٹ برادران سے پہلے ابن فرناس نے اڑن کھٹولہ ایجاد کیا۔ گلیلیو سے 500 سال قبل ابن حزم ثابت کرچکے تھے کہ زمین گول ہے۔ ہمارے حقِ ملکیت کی فہرست بھارت کے مقابلے میں کہیں زیادہ طویل ہے۔ لیکن اس ضمن میں حکومت سرپرستی کرے تو مزید جوش و جذبے کے ساتھ آگے بڑھا جاسکتا ہے۔ اگر تاریخی واقعات کے حوالے ڈھونڈ کر دعویٰ دائر کردیا جائے تو کم از کم ان کافروں کی دھوکہ دہی اور فراڈ کو طشت ازبام کیا جاسکتا ہے۔ اگر ہمارے ہاں بھی بھارت کے طرز پر سالانہ پاکستان کانگریس کا انعقاد ہو اور اس میں جید علماء کرام کے علاوہ ایسے متبادل بیانیے کو فروغ دینے والے دانشور مدعو کیے جائیں تو یقیناً اس شعبے میں بہت جلد بھارت کو مات دی جاسکتی ہے‘‘۔
(روزنامہ جنگ۔ 10 جنوری 2019ء)
ہم نے جاوید چودھری، حسن نثار اور بلال غوری کے ’’ارشادات‘‘ ایک ساتھ ملاحظہ کیے تو ایک پرانا شعر یاد آگیا:
جعفر از بنگال صادق از دکن
ننگِ ملت، ننگِ دیں، ننگِ وطن
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اسلامی تہذیب کی ترقی کی بلند ترین علامت مسلم اسپین، غرناطہ اور قرطبہ ہیں۔ لیکن جو لوگ یہ بات کہتے ہیں وہ اسلام کی اصل روح اور اس کے اصل تشخص سے آگاہ نہیں ہیں۔ مسلم تہذیب کا بلند ترین نقطہ غرناطہ اور قرطبہ نہیں بلکہ مدینہ ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مدینہ، خلفائے راشدین کا مدینہ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مدینہ اس لیے کہ خود آپؐ نے فرمایا ہے کہ میرا زمانہ سب سے بہتر ہے۔ اور خلفائے راشدین کا زمانہ اس لیے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ میرے زمانے کے بعد بہترین زمانہ وہ ہے جو میرے بعد آئے گا۔ حالانکہ یہ حقیقت عیاں ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے عہد میں نہ سائنس کی ترقی تھی، نہ ٹیکنالوجی کی ترقی تھی۔ اس زمانے میں مسلمانوں کی ’’تہذیب‘‘ کا عالم یہ تھا کہ حضرت عمرؓ مصر کی چابیاں لینے کے لیے مصر پہنچے تو مصر کے گورنر نے کہا کہ اہلِ مصر ’’نفاست پسند‘‘ ہیں اور آپ کے کپڑے گرد آلود ہیں، اگر آپ لباس بدل لیں تو اچھا ہو۔ یہ سن کر حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ ہماری عزت اسلام کی وجہ سے ہے، لباس کی وجہ سے نہیں۔ حضرت عائشہؓ نے بھی ایک بار حضرت عمرؓ کی توجہ اس جانب دلائی۔ انہوں نے کہاکہ خیبر کی فتح تک ہمارا حال یہ تھا کہ ہم کھجوریں کھاتے تھے اور پانی پیتے تھے۔ مگر اب ہماری سلطنت وسیع ہوگئی ہے اور ہمارے پاس بہت سے مالی وسائل ہیں، آپؓ سے (یعنی حضرت عمرؓ سے) غیر ملک کے وزیر اور سفیر ملنے آتے ہیں چنانچہ اگر آپ پیوند لگا ہوا لباس ترک کردیں تو اچھا ہو۔ یہ سن کر حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ میں اپنے دونوں رفیقوں یعنی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکرؓ کے راستے کو نہیں چھوڑ سکتا۔ یہ مسلمانوں کی ’’اصل تہذیب‘‘ تھی۔ یہ مسلمانوں کی ’’اصل ترقی‘‘ تھی۔ ان کے مقابلے پر مسلم اسپین، بغداد اور دِلّی کی تہذیب اور ترقی کچھ بھی نہیں تھی۔ مگر چونکہ جاوید چودھری، حسن نثار، بلال غوری اور ان جیسے لوگوں کے لیے سائنس اور ٹیکنالوجی، طب، اسپتال، طرزِبودوباش ہی سب کچھ ہے، اس لیے ہم ان دائروں میں مسلمانوں کی ’’تہذیب‘‘ اور مسلمانوں کی ’’ترقی‘‘ کا ذکر کرنے پر ’’مجبور‘‘ ہیں۔ تو بات کا آغاز کہاں سے کیا جائے؟
رابرٹ بریفالٹ کی کتاب Making of Humanity کا ذکر برادرم عمر ابراہیم کے کالموں میں ہوچکا ہے، مگر انہوں نے اس کتاب سے بہت کم چیزیں اقتباس کی ہیں۔ جاوید چودھری، حسن نثار اور بلال غوری جیسے لوگوں کے علاج کے لیے اس کتاب سے زیادہ سے زیادہ استفادے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مائیکل ہملٹن مورگن کی بے مثال تصنیف Lost History زیر بحث موضوع کے حوالے سے ایسی چیز ہے کہ اس کا ذکر تواتر کے ساتھ ہونا چاہیے۔ بریفالٹ لکھتا ہے:
’’وہ شان و شکوہ جو خلفائے اسلام کے اشارے پر جنّات کی خیالی مخلوق کی طرح نمودار ہوگئی تھی، اور جس نے اپنی درخشاں ثروت اور نازک سحرکاری کو الف لیلہ کی تہذیب میں نمایاں کردیا تھا، اس کی روحیت میں کسی قدر قدیم ہیلانی اور کافرانہ لذتِ حیات بھی شامل تھی۔ یہ ایک ایسی لذتیت تھی جس کو بدویوں کی اعلیٰ متانت نے لطیف تر اور باوقار بنادیا تھا۔ یہ ایک فلسفیانہ سنجیدگی تھی جو جام ومینا سے لطف اندوز ہوتے وقت سمجھتی تھی کہ یہ معمولی بات ہے اور اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ مدتِ عیش ناپائیدار ہے، اور قسمت کی تلون مزاجی کا کوئی اعتبار نہیں۔ بغداد، شیراز اور قرطبہ کے حکمران ذہنی ثقافت کے لازوال خزائن اور اُن کی مسرتوں کو اپنے درباروں کی بہترین شوکت و عظمت خیال کرتے تھے، لیکن ان کی سرپرستی میں اسلامی علوم و فنون نے جو حیرت انگیز ترقی کی، اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ محض اُن کے شاہانہ پندار کا لازمہ تھا، بلکہ وہ ذاتی جوش و خلوص سے ثقافت کے حصول کی کوشش کرتے تھے اور اس کے حامل و مالک بن جانے کے خواہاں تھے۔ اس امر کی نہ کوئی مثال پہلے موجود تھی نہ اب تک ہے کہ کسی وسیع سلطنت کے طول و عرض میں حکمران طبقے اتنے بڑے پیمانے پر حصولِ علم کی مجنونانہ خواہش سے سرشار ہوگئے ہوں۔ خلفا و اُمرا اپنے محلوں سے اٹھ کر کتب خانوں اور رصدگاہوں میں جاگھستے تھے۔ وہ اپنے امورِ سلطنت سے عام طور پر غفلت برتتے تھے اور نظم و نسق خاطر خواہ نہ ہوتا تھا۔ لیکن اہلِ علم کے خطبات کو سننے اور اُن سے مسائلِ ریاضی کے متعلق مذاکرات کرنے میں ہرگز کوتاہی نہ کرتے۔ مسودات و مخطوطات اور نباتیاتی نمونوں سے لدے ہوئے کاروان بخارا سے دجلہ تک اور مصر سے اندلس تک رواں دواں رہتے تھے، صرف کتابوں اور معلموں کے حصول کی خاطر قسطنطنیہ اور ہندوستان کو خاص سفیر بھیجے جاتے تھے۔ کسی سلطنت سے تاوانِ جنگ وصول کرنے کے سلسلے میں یونانی مصنفین یا کسی ممتاز ریاضی دان کی تصنیف حاصل کرنے کا مطالبہ کیا جاتا تھا۔ ہر مسجد کے ساتھ ایک مدرسہ ملحق ہوتا تھا۔ وزرائے سلطنت کتب خانوں کے قیام، مدارس کے لیے اوقاف کے انتظام اور غریب طلبہ کے لیے وظائف کے اہتمام میں اپنے آقائوں سے بھی آگے بڑھ جانا چاہتے تھے، اہلِ علم کو بلاامتیاز نسل و مذہب دوسرے سب لوگوں پر فوقیت دی جاتی تھی، ان پر دولت و ثروت اور اعزازات کی بارش کردی جاتی۔ وہ ولایات کے حاکم تک مقرر کردیئے جاتے۔ جب خلفا کسی سفر یا مہم پر روانہ ہوتے، تو اہلِ علم کا ایک گروہ اور کتابوں سے لدے ہوئے اونٹوں کی قطار ہمراہ ہوتی۔
یورپ کی حقیقی نشاۃ ثانیہ پندرہویں صدی میں نہیں بلکہ عربوں اور مُوروں کی احیائے ثقافت کے زیراثر وجود میں آئی۔ یورپ کی نئی پیدائش کا گہوارہ اٹلی نہیں ہسپانیہ تھا۔ یہ براعظم بربریت کے گڑھوں میں گرتے گرتے جہالت و تنزل کی تاریک ترین گہرائیوں میں پہنچ چکا تھا، حالانکہ اسی زمانے میں عربی دنیا کے شہر بغداد، قاہرہ، قرطبہ، طلیطلہ تہذیب اور ذہنی سرگرمی کے روزافزوں مرکز بن چکے تھے۔ وہیں وہ زندگی نمودار ہوئی جس کو آئندہ چل کر انسانی ارتقا کی ایک نئی منزل کی شکل اختیار کرنا تھی۔ جس وقت اس ثقافت کے اثرات معرضِ احساس میں آئے اسی زمانے میں ایک نئی زندگی کی حرکت شروع ہوئی۔‘‘
(تشکیلِ انسانیت، رابرٹ بریفالٹ۔ مترجم عبدالمجید سالک۔ صفحہ 252 تا 254)
گیارہویں صدی میں مسلمانوں کی علمی شان و شوکت کا حال کیا تھا، ملاحظہ کیجیے:
“Late in the reing of the Umayyad caliphs of Spain, the Great Mosque of Cordoba begun by Abd al-Rahman I will be enlarged and embellished, and a new royal retreat called Medina Azahara outside Cordoba will be built, At its peak in the 11th century, Cordoba will be the most advanced city in Europe with a population of half a million, boasting of some 300 baths, 300 mosques, 50 hospitals, and a high public literacy expressed in libraries public and private, with more books than in all the rest of Europe”
(Lost History- By Michal Hamilton Morgan page-69)
مائیکل ہملٹن مورگن کہہ رہا ہے کہ 11 ویں صدی کے قرطبہ کی آبادی صرف 50 لاکھ تھی مگر اس میں 300 مساجد، 50 اسپتال اور 300 حمام تھے۔ ان تمام چیزوں سے زیادہ اہم یہ ہے کہ مسلمانوں کے صرف ایک شہر میں جتنی کتابیں تھیں اتنی کتابیں پورے یورپ میں بھی نہیں تھیں۔ آپ کو معلوم ہے اُس وقت یورپ کی آبادی کتنی تھی؟ چار کروڑ۔
یہاں مغرب کے ذہنی اور نفسیاتی غلاموں کو یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ جدید مغربی تہذیب پر اسلامی تہذیب کا اثر سرسری، سطحی اور معمولی نہیں تھا، بلکہ یہ اثر اتنا بڑا، اتنا گہرا، اتنا ہمہ جہت تھا کہ بریفالٹ کو لکھنا پڑا:
’’یہ اغلب خیال ہے کہ اگر عرب نہ ہوتے تو زمانۂ حاضر کی یورپی تہذیب پیدا ہی نہ ہوئی ہوتی۔ اور یہ قطعی و یقینی ہے کہ یورپی تہذیب ایسی نوعیت اختیار نہ کرسکتی جس کی وجہ سے وہ ارتقا کی تمام ماقبل منزلوں سے آگے بڑھ گئی ہے، کیونکہ اگرچہ یورپ کی نشوونما کا کوئی ایک پہلو بھی ایسا نہیں جس میں ثقافتِ اسلامی کے قطعی اثر کا سراغ نہ مل سکے۔ لیکن اس کا نہایت واضح اور مہتم بالشان ثبوت یہ ہے کہ یورپ میں وہ قوت پیدا ہوگئی جو دنیائے حاضر کی اعلیٰ ترین امتیازی قوت اور اس کی کامیابی کا سب سے بڑا سرچشمہ ہے۔ (یعنی طبیعی سائنس اور سائنسی روح)
اس قسم کی مدح خوانیوں کے خلاف اعتراض کرنے والوں نے کہا ہے کہ عرب سائنس نے کوئی عالی پایہ ’’نابغہ‘‘ اور کوئی نمایاں اکتشاف مہیا نہیں کیا، اور یہ سائنس بعض خارجی سرچشموں سے ماخوذ تھی۔ یہ زیادہ تر صحیح ہے لیکن قطعی طور پر غیر متعلق بھی ہے۔ عربوں کے علم ہیئت نے کوئی کوپر نیکس یا نیوٹن پیدا نہیں کیا، لیکن انہوں نے جو کچھ کیا، اس کے بغیر کوپرنیکس اور نیوٹن پیدا ہوہی نہ سکتے تھے۔ اگرچہ مُوروں کے علمائے ہیئت نے نظام بطلیموسی کی پیچیدگیوں کو باربار نشانۂ تنقید بنایا۔ اگرچہ الزرؔکیال نے اعلان کیا کہ سیاروں کے مدار دائروں کی شکل میں نہیں بلکہ بیضوی ہیں، اگرچہ عطارد کے مدار کو الفارانی نے اپنے نقشوں میں بیضوی ظاہر کیا ہے، اور اگرچہ محمد ابن موسیٰ نے ’’حرکتِ نجوم‘‘ اور ’’کشش اتصال‘‘ کے متعلق اپنی کتابوں میں عالمگیر کشش ثقل کے قانون کی طرف اشارہ کیا ہے، لیکن صداقت کی یہ تمام جھلکیاں کسی بڑی اصلاح میں نتیجہ خیز ثابت نہ ہوئیں۔ عربوں کے علم ہیئت نے صرف چند اہم حقائق کو بے نقاب کیا۔ مثلاً البستانی نے سورج کے اوجِ مدار کی حرکات کا انکشاف کیا۔ اور ابوالوفا نے قمر کے ثانوی اختلافات کا پتا چلایا، لیکن ان سے تحقیق کی رفتار پر کوئی نمایاں اثر نہ پڑا۔ چنانچہ ٹائیکو کو انہی اکتشافات کا اعادہ کرنا پڑا۔ کہا جاتا ہے کہ ابن سینا نے ہوائی مقیاس الحرارت سے کام لیا تھا۔ اور ابن یونس نے وقت کی پیمائش کے لیے یقیناً پنڈولم استعمال کیا تھا، لیکن چونکہ گلیلیو نے بطور خود ان ایجادوں کو متعارف کرایا تھا، اس لیے ظاہر ہے کہ ان سے سائنس کی نشوونما میںکوئی اضافہ نہیں ہوا۔
تاہم یہ امر قطعی طور پر خارج ازبحث ہے، ہماری سائنس پر عربوں کا جو احسان ہے، وہ چونکا دینے والے اکتشافات یا انقلابی نظریات پر مشتمل نہیں، بلکہ سائنس اس سے بھی زیادہ عربی ثقافت کی ممنونِ احسان ہے، کیونکہ دراصل سائنس کو اسی ثقافت نے جنم دیا ہے۔ ہم اس سے قبل ثابت کرچکے ہیں کہ دنیائے قدیم ’’قبلِ سائنس‘‘ کی دنیا تھی۔ یونانیوں کی فلکیات و ریاضیات باہر سے درآمد ہوئی تھیں۔ چنانچہ یونانی ثقافت انھیں پورے طور پر کبھی جذب نہ کرسکی۔ اس میں شک نہیں کہ یونانی اپنے علوم کو مرتب کرتے تھے۔ عمومیت دیتے تھے۔ نظریات قائم کرتے تھے۔ لیکن صابرانہ تحقیق و تفتیش، مثبت علم کی فراہمی، سائنس کی باریک بینی، مفصل و طویل مشاہدات اور تجربی تجسس… یہ سب لوازمِ علمی یونانی مزاج سے قطعاً بعید تھے۔ قدیم کلاسیکی دنیا میں صرف ہیلانی اسکندریہ کے اندر سائنسی عمل کی سعی کا سراغ ملتا ہے۔ ہم جس چیز کو سائنس کے نام سے موسوم کرتے ہیں وہ اِن امور کا نتیجہ ہے کہ تحقیق کی نئی روح پیدا ہوگئی، تفتیش کے نئے طریقے معلوم کیے گئے۔ تجربے، مشاہدے اور پیمائش کے اسلوب اختیار کیے گئے۔ ریاضیات کو ترقی دی گئی۔ اور یہ سب کچھ ایسی شکل میں نمایاں ہوا جس سے یونانی بالکل بے خبر تھے۔ دنیائے یورپ میں اس روح کو اور ان اسالیب کو رائج کرنے کا سہرا عربوں کے سر ہے۔‘‘
(تشکیلِ انسانیت۔ از رابرٹ بریفالٹ۔ مترجم عبدالمجید سالک۔
صفحہ 256تا258)
کیا کسی کو مذکورہ بالا حقائق کی معنویت کا ادراک ہے؟ جدید مغربی تہذیب پر اسلامی تہذیب کا اثر ایسا ہے کہ اس کے بغیر جدید مغرب، جدید مغرب بن ہی نہیں سکتا تھا۔ بریفالٹ نے صاف کہا ہے کہ بلاشبہ اسلامی تہذیب نے کوپرنیکس اور نیوٹن کو پیدا نہیں کیا، مگر اس کے بغیر کوپرنیکس اور نیوٹن پیدا بھی نہیں ہوسکتے تھے، اور اگر یہ لوگ نہ ہوتے تو مغرب میں کوئی جدید سائنس بھی نہ ہوتی۔
اسلامی تہذیب کے احسانات کا ذکر ہوتا ہے تو بعض لوگ کہنے لگتے ہیں کہ مسلمانوں نے کیا ہی کیا ہے، انہوں نے اکثر علوم یونانیوں سے لیے اور یورپ کو منتقل کردیئے۔ مگر یہ بات مسلمانوں کی غیر معمولی تخلیقی صلاحیتوں کی توہین ہے۔ ذرا پڑھیے تو رابرٹ بریفالٹ مسلمانوں کے بارے میں کیا کہہ رہا ہے:
’’یونانیوں نے جن نتائج کا استخراج کیا تھا اُن کو عربوں نے قبول کرلیا، کیونکہ وہ سائنسی تحقیق کی رفتار میں عملی نظریات کی حیثیت سے ضروری تھے۔ لیکن جہاں کہیں علم وسیع تر ہوجانے کی وجہ سے ان نتائج کو نئے حقائق کے مطابق بنانے کی ضرورت پیش آئی، عربوں نے اُن پر تنقید بھی کی اور انہیں ترمیم بھی کرلیا۔ اُن کو ملامت کی جاتی ہے کہ انہوں نے یورپ کی سائنس پر اذعانی روح عائد کردی، یعنی ’’عقائد‘‘ تجویز کردیئے۔ حالانکہ مسیحی یورپ پہلے ہی عقیدہ و اذعان کے راستے پر گامزن تھا، اور یاد رکھنا چاہیے کہ یہ نظریات یعنی نظام بطلیموسی، ’’آب و ہوا‘‘ کا جغرافیائی عقیدہ اور کیمیائی استحالہ کا عقیدہ جو یورپ کو عربوں سے حاصل ہوئے ہیں عربی نہیں بلکہ یونانی تھے، لیکن عربوں نے اُس زمانے کے موجودہ مواد کو جس طریقے سے استعمال کیا، وہ یونانیوں کے طریقے سے بالکل متضاد تھا۔ یونانی نابغہ کا جو پہلو کمزور اور ناقص تھا، اس کی کمی کو عربوں نے پورا کردیا۔ یونانیوں کو صرف نظریہ اور تعمیم سے شغف تھا۔ وہ واقعیت سے غافل و بے پروا تھے، لیکن اس کے بالکل برعکس عرب محققین نظریے کو چنداں اہمیت نہ دیتے تھے۔ ٹھوس حقائق کی جمع آوری میں مصروف رہتے تھے اور اپنے علم کی باقاعدگی اور کمیت کی طرف زیادہ توجہ کرتے تھے۔ نتیجہ خیز پائیدار سائنس اور محض ڈھیلی ڈھالی سائنسی عجائب پسندی کے درمیان جو فرق و تفاوت ہے، وہ یہی ہے کہ کمیت کو کیفیت پر ترجیح دی جائے اور پیمائش میں انتہائی قابلِ حصول صحت و درستی کا خیال رکھا جائے۔ عربوں کی سائنس کا وسیع عمل اسی معروضی تحقیق اور صحتِ کمیت کے ساتھ جاری رکھا جاتا تھا۔ انہوں نے بطلیموس کے علم الکائنات کو تو قبول کرلیا، لیکن اُس کی فہرستِ نجوم یا سیاروں کی جدول یا اس کی پیمائشوں کو تسلیم نہیں کیا۔ انہوں نے خود ستاروں کی بے شمار نئی فہرستیں مرتب کیں، جن میں بطلیموس کی فہرست کو صحیح بھی کیا اور اس میں بہت بڑا اضافہ بھی کیا۔ انہوں نے سیاروں کی نئی جدولیں تیار کیں، اور کسوف کے ترچھے پن اور استقبال اعتدالین کے متعلق صحیح اقدار معلوم کیں، اور سمت الراس کی دو الگ الگ پیمائشوں سے کرۂ ارضی کی جسامت کو معین کیا۔ انہوں نے ان مشاہدات کے لیے نہایت کارآمد آلات تیار کیے، جو یونانیوں کے آلات سے بہت بہتر تھے، اورصحت و درستی میں ان آلات پر فوقیت رکھتے تھے جو پندرہویں صدی میں نیورمبرگ کے مشہور کارخانے میں تیار کیے گئے تھے۔ ہر محقق بجائے خود اور آزادانہ کام شروع کردیتا۔ ذاتی شغف و رجحان کو بالکل کالعدم کردینے کی کوشش کرتا اور مسلسل مشاہدہ نہایت باقاعدگی کے ساتھ جاری رکھتا، بعض اوقات ایسا بھی ہوتا کہ دمشق، بغداد اور قاہرہ کی رصدگاہوں میں یہ مشاہدے بارہ بارہ سال سے بھی زیادہ مدت تک جاری رہتے۔ وہ اپنی یادداشتوں میں صحت و درستی کو اس قدر اہمیت دیتے تھے کہ خاص دلچسپی اور اہمیت رکھنے والی یادداشتوں پر باقاعدہ قانونی حلف اٹھانے کے بعد دستخط کیے جاتے تھے۔
اسی قسم کی معروضی اور کمیت پسند روح ان کی تمام سرگرمیوں میں نمایاں نظر آتی ہے۔ جب المامون نے اپنے صاحب البرید ابن خورداذبہ کو حکم دیا کہ اس کی قلمرو اور اس کے مستعمل برّی و بحری راستوں کا حال قلم بند کرے، تو اس کے ساتھ ہی یہ تاکید بھی کردی کہ ہر مقام کا محلِ وقوع طول بلد اور عرض بلد سے معین کردیا جائے (یہ کتاب عربوں کی ان بے شمار جغرافیائی تصانیف میں سے ہے، جنہوں نے دنیا کا ایک نیا منظر اور ایک نیا جغرافیہ اہلِ عالم کی نظروں کے سامنے پیش کردیا)۔ البیرونی نے معدنیاتی نمونے جمع کرنے کے لیے چالیس سال سفر میں بسر کردیئے۔ اُس نے مختلف اشیا کو الگ الگ تول کر اوزانِ مخصوصہ کے جو نقشے تیار کیے ہیں وہ اب تک بالکل صحیح ہیں۔ ابنِ بیطار نے پوری دنیائے اسلام سے نباتاتی نمونے جمع کیے، اور ہندوستان اور ایران کی روئیدگیوں کا مقابلہ یونان اور ہسپانیہ کی نباتات سے کیا۔ اس کی کتاب میں چودہ سو پودوں کی تفصیلات درج ہیں۔ میئر نے اس کتاب کو ’’محنت و جفاکشی کا یادگاری مینار‘‘ قرار دیا ہے۔ اس سائنسی تدقیق اور محنتِ مشاہدہ کا مقابلہ قدما کے خیالی اسالیب سے کرو، جو محض تجربیت کو حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے۔ ارسطو سے مقابلہ کرو، جس نے طبیعات پر کتاب لکھ دی، اور تجربہ ایک بھی نہ کیا۔ تاریخِ طبعی پر تصنیف مرتب کردی، اور نہایت آسانی سے تصدیق ہوسکنے والے حقائق کو معلوم کرنے کی تکلیف بھی گوارا نہ کی۔ وہ نہایت متانت سے بیان کرتا ہے کہ مرد کے دانت عورت کے دانتوں سے زیادہ ہوتے ہیں۔ یہ ارسطو کی کیفیت تھی۔ اب جالینوس کی سنو، جو تشریحِ اعضا کے علم پر سند سمجھا جاتا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ انسان کے زیریں جبڑے میں دو ہڈیاں ہوتی ہیں۔ یہ بیان لوگوں نے تسلیم کرلیا اور کسی نے اس کی تردید نہ کی۔ یہاں تک کہ عبداللطیف نے انسانی کھوپڑیوں کا معائنہ کرنے کے بعد بتایا کہ جالینوس کا خیال غلط ہے۔
حسنِ اتفاق سے سائنسی علم کا ایک اور سرچشمہ بھی دستیاب ہوگیا۔ ہندوستان میں پانچویں صدی کے اندر ایک خاص ذہنی تحریک پیدا ہوئی، جسے گپت عہد کی نشاۃ الثانیہ کہنا چاہیے۔ خصوصاً اُس عہد میں آریہ بھٹ اور برہم گپت دو ایسے مصنفین پیدا ہوئے، جنہوں نے ریاضیات میں بعض اہم جدتیں پیدا کیں۔ عربوں کے ہاتھوں میں یہ دو طریقے یونانی ریاضی دانوں کے بے ہنگم اور غیر عملی طریقوں سے مخلوط ہوکر زیادہ مفصل و مشرح ہوگئے۔ مسیحی مغرب کا اعلیٰ ترین علم ریاضی اس سے آگے نہ بڑھ سکا کہ وہ ’’قاعدۂ ثلاث‘‘ کا استعمال (اور وہ بھی دشواری کے ساتھ) کرلیا کرتے تھے اور علم الحساب کے سادہ ترین حل بھی ’’ابیکس‘‘ کے ذریعے سے انجام دیتے تھے (یہ وہی تاروں اور منکوں کا آلہ تھا جو آج کل ہمارے کنڈرگارٹن اسکولوں میں استعمال کیا جاتا ہے)۔ لیکن عربوں نے ’’صفر‘‘ کا استعمال رائج کرکے ترمیم اعداد کے نظام اعشاریہ کو مکمل کردیا۔ انہوں نے الجبرا ایجاد کیا اور اسے چوتھے درجے کی تعدیلات کے حل تک پہنچادیا۔ انہوں نے ’’علم مثلث‘‘ کا استعمال شروع کیا اور یونانیوں کے’’وَتر‘‘ کی جگہ ’’جیبِ زاویہ‘‘ اور ’’مماس‘‘ کو ترویج دی۔ اس طرح انہوں نے انسانی تحقیق و تجسس کی قوتوں میں ہزار گنا اضافہ کردیا۔
عربوں نے صرف وہی ریاضیات پیدا نہیں کیں جو سائنسی تجزیہ و تحلیل کا ناگزیر آلہ بننے والی تھیں، بلکہ انہوں نے تجربی تحقیق کے ان اسالیب کی بنیاد رکھ دی جنہوں نے ریاضیاتی تجزیے کے ساتھ مل کر زمانۂ حال کے علم کیمسٹری کو جنم دیا۔ اس علم کی ابتدا اُن عملیات سے ہوئی تھی، جو مصر کے ماہرینِ فلنرات اور زرگر لوگ استعمال کیا کرتے تھے۔ (یعنی دھاتوں کو ملاکر مختلف قسم کی مرکب دھاتیں تیار کرنا اور انہیں ایسے طریق سے رنگ دے دینا کہ وہ سونے سے مشابہ معلوم ہوں) یہ عملیات مدتِ دراز سے پیشوایانِ مذاہب کے خفیہ اجارے کے طور پر محفوظ رکھے گئے تھے، اور حسبِ معمول صوفیانہ اور پراسرار افسونوں میں ملفوف تھے، لیکن جب وہ عربوں کے ہاتھ آئے تو ان سے تحقیق کا وسیع اور منظم جذبہ پیدا ہوگیا، جس سے عربوں نے تقطیر، تبخیر اور تصعید کے طریقے ایجاد کرلیے۔ اس کے علاوہ الکحل، شورے کا تیزاب، گندھک کا تیزاب (قدما کو سِرکے کے سوا اور کوئی تیزاب معلوم نہ تھا)، الکلی، پارے کے نمک، سرمہ اور بسمتھ کو دریافت کیا، اور بعد کی مکمل کیمسٹری اور طبیعاتی تحقیق کی بنیاد رکھ دی۔‘‘
(تشکیلِ انسانیت۔ رابرٹ بریفالٹ۔ مترجم عبدالمجید سالک۔ صفحہ 260تا262)
مسلمانوں کی بے مثال علمی ترقی کا صرف رابرٹ بریفالٹ ہی دیوانہ نہیں، مائیکل ہملٹن مورگن نے مسلمانوں کے علمی، سائنسی اور تکنیکی کارناموں پر Lost History کے عنوان سے 301 صفحات پر مشتمل جو کتاب لکھی ہے اس میں وہ رقم طراز ہے:
“Over the next four centuries in Baghdad, building on the tradition of al-Mamun and his forebears, new institutions will arise to supplement the House of Wisdom, even to replace it. The first major urban hospital anywhere will go up in the tenth century. Two madrassas are established They will grow into global universities, the 11th-century Niamiya and the 13th-century Mustansiriyah Colleges. Observatories will spring up at Shammasiyah, associated with the House of Wisdom, and in the private home of freelance astronomers like al-Hasan and the Banu Musa brothers. By the 13th century Badhdad will have 36 public libraries and 100 booksellers”
(Lost History-Hamilton- Page 60)
مائیکل کہہ رہا ہے کہ 10ویں صدی کے بغداد میں ایک اسپتال وجود میں آچکا تھا، دو مدرسے قائم ہوچکے تھے جو بعد میں جامعات بن گئے۔ بغداد میں علمِ فلکیات کا مرکز قائم ہوچکا تھا، اور صرف بغداد میں 36 عوامی کتب خانے، اور کتب فروشوں کی 100 دکانیں تھیں۔ اُس وقت کے یورپ میں ان میں سے کچھ بھی نہیں تھا، اور تھا تو بغداد کے پائے کا نہیں تھا۔ مائیکل ہملٹن کے بقول اُس وقت کے بغداد میں دنیا کی تاریخ کے پہلے Think Tanks وجود میں آچکے تھے۔ اس کے بقول Computing کا ایسا نظام موجود تھا جس کی کوئی دوسری نظیر نہ تھی۔ اس کی خاص بات یہ تھی کہ Computing کا کام کمپیوٹرز کے بجائے انسانی ذہنوں سے لیا جاتا تھا۔ (صفحہ 68)
آج جاوید چودھری، حسن نثار اور ان جیسے جاہل، مسلمانوں سے کہتے ہیں کہ ’’تم مغرب کے مقابلے پر کیا ہو؟‘‘ ایک وقت تھا کہ مغرب ہمارے مقابلے پر کچھ نہ تھا۔ آج جس طرح ہمارے نوجوان مغرب کی جامعات کا رخ کرتے ہیں، اسی طرح کبھی یورپ کے نوجوان اور بزرگ مسلمانوں کی جامعات کا رخ کرتے تھے۔ آج جس طرح ہم مغرب کی زبانیں سیکھتے ہیں، کبھی مغرب کے لوگ ہماری زبانیں سیکھتے تھے۔ ان تمام باتوں کا ذکر رابرٹ بریفالٹ نے تفصیل سے کیا ہے۔ وہ لکھتا ہے:
’’عربی علوم ابتدا ہی سے مسیحی یورپ میں نفوذ کرنے لگے تھے۔ اگر سینٹ ڈنسٹن کے کیمیائی مشاغل کی داستان میں حقیقت و واقعیت کا کوئی دخل ہے تو ماننا پڑتا ہے کہ دسویں صدی میں عربی اصول و عقائد نہایت وسیع اشاعت پاچکے تھے، گو موجودہ یادداشتوں سے اس کا پورا ثبوت مہیا نہ ہو۔ چونکہ ہسپانوی خلافت قطعی طور پر مذہبی رواداری پر عامل تھی، اس لیے مسیحیوں کو پوری آزادی حاصل تھی۔ دارالخلافہ کے مفصلات میں بے شمار صومعے اور خانقاہیں موجود تھیں جو مسافروں کے لیے قیام گاہوں کا کام بھی دیتی تھیں، اور راہب قرطبہ کے بازاروں میں عام طور پر چلتے پھرتے نظر آتے تھے۔ یورپ کے تمام حصوں سے بے شمار طالبانِ علم روشنی کی تلاش میں عربوں کے عظیم علمی مرکزوں کا رخ کررہے تھے، کیونکہ یہ روشنی صرف انہی شہروں میں دستیاب ہوسکتی تھی۔ قرطبہ کا ایک پادری الواروؔ نویں صدی میں لکھتا ہے ’’جتنے نوجوان مسیحی علم و استعداد کے اعتبار سے ممتاز ہیں وہ سب عربوں کی زبان و ادب کی وجہ سے۔‘‘
آئندہ دو صدیوں کے دوران میں نشر و توزیع کا عمل نہایت وسیع ہوگیا۔ ایک افریقی راہب قسطنطین نے جو رابرٹ گسکارڈ کا سیکریٹری تھا، نہایت ذوق و شوق سے عربوں کی درسی کتابوں کا ترجمہ کرنا شروع کردیا اور مائونٹ کازینو کے بینی ڈکٹی راہبوں کے مرکز میں نئے علوم رائج کردیئے، جہاں سے وہ اس سلسلۂ راہبین کے دوردست صومعوں تک پہنچ گئے۔ ایک اور بینی ڈکٹی راہب ایڈلہارڈ آف باتھ قرطبہ سے کتابوں کا ایک بڑا ذخیرہ اور عربوں کے اصول و قواعد تک لایا اور ان کو اس نے اور اس کے بھتیجے نے فرانس اور انگلستان میں پھیلادیا۔ اُس زمانے سے لے کر 1533ء تک اقلیدس کی جتنی کتابیں شائع ہوئیں وہ سب اسی راہب کے لائے ہوئے مسودے سے نقل کی گئی تھیں۔ اسی طرح ڈینیل وامورلے ریاضیات و فلکیات سیکھنے کے لیے قرطبہ گیا، اس نے اپنے مطالعہ کے نتائج کو شائع کیا اور آکسفرڈ میں لیکچر بھی دیئے۔ پلاٹو آف ٹیوالی نے البتّانی کی کتابِ ہیئت اور دوسری کتبِ ریاضی کا ترجمہ کیا۔ بارہویں صدی کے آخر میں پِیسا کا ایک نوجوان تاجر لیونارڈو فیبوناچی الجزائر اور ہسپانیہ کی سیاحت کے دوران میں عربوں کے جدید علومِ ریاضی پر فریفتہ ہوگیا اور متعدد نئے سفروں کے بعد اس نے الخوارزمی کی عظیم تصنیف ’’الجبرا‘‘ کا ترجمہ شائع کیا۔ اُس نے مکمل شدہ نظامِ اعشاریہ کو مقبولِ عام بنایا، اور اس سے جو سہل طریقۂ حساب پیدا ہوا وہ عرب مصنف کے نام کی رعایت سے ’’الگورزم‘‘ (الخوارزمی) کہلایا۔ فیبوناچی کو جس کا کام نہایت وسیع الاثر تھا، مسیحی یورپ میں ریاضیاتِ جدیدہ کا بانی سمجھنا چاہیے۔ اطالوی ریاضی دانوں کی طویل صف میں اس کا مقام اوّل ہے۔ جیرارڈ آف کریمونا ادبیاتِ عرب کو مقبول بنانے والوں میں سب سے زیادہ محنتی تھا۔ اُس نے قرطبہ کی خلافت میں پچاس سال بسر کیے، اور کوئی ساٹھ کتابوں کا ترجمہ کیا، جن میں المجسطی اور الہیشم کی کتاب الہیئت بھی شامل تھیں۔ مائیکل اسکاٹ نے مسودات کے حصول اور ترجمے کے لیے قرطبہ کے کئی پھیرے کیے۔ ہسپانیہ میں طلبہ کے ورود اور مترجموں کی سرگرمیوں کا سلسلہ خلافت کے آخری ایام تک برابر جاری رہا۔ آرنلڈ (آف وِلے نوف) اور ایمنڈلکی (بیکن کا دوست) نے ہسپانیہ میں تعلیم حاصل کی اور مونٹ پیلیئر میں پڑھاتے رہے۔ کمپانوس آف نوارا نے قرطبہ سے ریاضی کی تحصیل کی، اور ویانا میں اس کا درس دیتا رہا۔ اور الفانسو (دانش مند) نے طلیطلہ میں عربی کی درسی کتابوں کے ترجمے کے لیے باقاعدہ مکاتب قائم کیے۔‘‘
(تشکیلِ انسانیت۔ رابرٹ بریفالٹ۔ مترجم عبدالمجید سالک۔ صفحہ 267تا269)
حسن نثار اور جاوید چودھری جیسے لوگ مسلمانوں کو ایک طعنہ یہ بھی دیتے ہیں کہ تم ایک ارب 60کروڑ ہو مگر کچھ نہیں ہو۔ یہودیوں کو دیکھو کہ وہ مٹھی بھر ہیں مگر ساری دنیا پر چھائے ہوئے ہیں۔ ایسے لوگوں کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ خود یہودیوں کو بھی جدید علوم مسلمانوں نے ہی سکھائے۔ رابرٹ بریفالٹ لکھتا ہے:
’’مُوروں (یعنی مسلمانوں) کی حکومت کے کامل روادارانہ سلوک کی وجہ سے یہودیوں نے بھی خلافت کے ثقافتی ارتقا میں حصہ لیا، اور جب وہ (بالخصوص الموحدین کی فتح کے بعد) یورپ میں پھیل گئے تو انہوں نے اس ثقافت کو دُور دست نیم مہذب علاقوں تک پھیلادیا۔ وہ الگ تھلگ صومعوں کے راہبوں کو آزادانہ تعلیم دینے اور ان سے بحث کرنے میں مصروف ہوتے تھے۔ اور اس عجیب علم کے ساتھ راہبوں کا ذوق شوق اُن کے مذہبی تعصبات پر غالب آگیا تھا۔ فرانسیسی اور جرمن راہبوں نے نئے علوم کی کتب درسی انہی سے حاصل کیں۔ یہاں تک کہ Muriangian صومعوں کی بعض ادیب راہبات مثلاً مشہور Hildegrad اور Hroswitta نے بھی ان کے علم سے استفادہ کیا۔ انہوں نے بے شمار ایسے مدرسے قائم کیے (مثلاً Kimhis کا اسکول اور ناریونؔ میں Ben Esra کا مدرسہ) جہاں عربی علوم کو رواج دیا جاتا تھا، اور عربی کی کتابوں کا ترجمہ کیا جاتا تھا۔ بے شمار یہودی ولیم آف نارمنڈی کے جلو میں انگلستان آئے،اور اس کی حمایت و حفاظت سے مستفید ہوکر انہوں نے پہلے سنگین شہری مکانات بنائے جو آج بھی لنکن اور سینٹ ایڈمنڈزبری میں موجود ہیں، اور آکسفرڈ میں سائنس کا ایک مدرسہ بھی قائم کیا۔ اسی آکسفرڈ اسکول میں اُن کے جانشینوں ہی سے راجر بیکن نے عربی زبان اور عربی سائنس کا علم حاصل کیا تھا۔ راجر بیکن اور اس کے ہم نام کے متعلق جو بعد میں ہوا، یہ ہرگز نہیں کہا جاسکتا کہ تجربی اسلوب کی ترویج کا سہرا اُن کے سر ہے۔ راجر بیکن کی حیثیت اس سے زیادہ نہ تھی کہ وہ مسیحی یورپ کو مسلمانوں کی سائنس اور ان کا اسلوب سکھانے کا ذمہ دار تھا۔ اور وہ اس امر کا اعتراف کرتے ہوئے تھکتا ہی نہ تھا کہ اُس کے معاصرین کے لیے علمِ صحیح کا واحد ذریعہ صرف عربی زبان اور عربی سائنس ہے۔ اس کے بعد جو بحثیں ہوئیں کہ تجربی اسلوب کا بانی کون تھا، عربوں کے ہر اکتشاف اور ان کی ہر ایجاد کا سہرا اسی یورپین کے سر باندھ دیا گیا جس نے پہلے پہل اس کا تذکرہ کیا۔ مثلاً قطب نما کی ایجاد ایک فرضی شخص فلیبویوگیوجا (آف امالفی) کے سر منڈھ دی گئی۔ الکحل کا موجد وِلے نوف کے آرنلڈ کو قرار دیا گیا۔ عدسہ اور بارود کو بیکن یا شوارز کی ایجاد بتایا گیا۔ یہ بیانات اُن مہیب غلط بیانیوں میں سے ہیں، جو یورپی تہذیب کے ماخذوں کے متعلق کی گئیں۔ حالانکہ بیکن کے زمانے تک عربوں کا تجربی اسلوب یورپ بھر میں پھیل چکا تھا، اور نہایت سرگرمی سے اختیار کیا جارہا تھا۔ باتھ کے ایڈل ہارڈ، نیکم کے الگزنڈر، بودے کے ونسنٹ، دِلّے ناف کے آرنلڈ، برنرڈ سلویوسٹرس (جس نے اپنی کتاب کا نام ہی Experimentarius رکھا تھا)، کان تمپرلے کے ٹامس اور البرٹس میگنس سب نے اس امر کا اعلان کیا ہے۔
عربی مدارس میں فنِ طبابت قدیم حکما کے زمانے کی نسبت بہت زیادہ ترقی کرچکا تھا۔ اُن مدرسوں سے جو یہودی ڈاکٹر تربیت پاکر نکلے تھے وہی پورے ازمنۂ متوسطہ میں طب کی تعلیم اور پریکٹس پر قابض و مسلط رہے۔ جو فارما کوپبا (قرابادین) عربوں نے مرتب کیا تھا، وہی آج کل کے زمانے میں برابر زیر استعمال ہے۔ صرف حال میں بعض کیمیاوی اور عضوی نسخوں کا اس میں اضافہ کیا گیا ہے۔ ہماری عام دوائیں نکس وامیکا (کچلہ)، روبرب (ریوندچینی)، ایکونائٹ (جدوار)، جنتیانا مُر۔کیلومل (زیبق) اور ہمارے نسخوں کی ترکیب سب کچھ عربی طب سے ماخوذ ہے۔ مونٹ پیلیئر کا طبی مدرسہ یہودی ڈاکٹروں کے ماتحت قرطبہ کے مدرسہ کے نمونے پر قائم کیا گیا تھا۔ اسی مثال کی پیروی پہلے پڈوا میں اور پھر پِیسا میں کی گئی جہاں مُوروں کی ریاضیات و فلکیات بھی پڑھائی جاتی تھیں اور ابن سینا کی ’’قانون‘‘ اور ابوالقاسم کی ’’جراحت‘‘ کا درس بھی دیا جاتا تھا۔ یہ دونوں کتابیں سترہویں صدی تک سارے یورپ میں تعلیم طب کے درسی نصاب میں شامل رہیں۔ یہی وہ گہوارے تھے جن میں پل کر فیلوپیئس، ویسالیوس، کارڈن، ہاروے اور گلیلیو جیسے اشخاص دنیا میں نامور ہوئے۔
جس طاقت نے مادی اور ذہنی دنیا کی شکل بدل کر رکھ دی، وہ ازمنۂ متوسطہ کے اواخر کے منجموں، کیمیا دانوں اور طبی مدرسوں کے گہرے رابطے کی پیداوار تھی۔ اور یہ رابطہ بلاواسطہ اور صرف عربی تہذیب ہی کا نتیجہ تھا۔ پندرہویں صدی تک یورپ میں جتنی بھی سائنسی سرگرمی موجود تھی، وہ زیادہ تر عربوں کے علم و فضل سے ماخوذ تھی اور اس پر کوئی خاص اضافہ نہیں کررہی تھی۔ پرتگال کے پرنس ہنری نے سینٹ ونسنٹ کی راس پر عرب اور یہودی استادوں ہی کے زیر سایہ اپنی عظیم بحری اکاڈمی قائم کی جس نے واسکوڈی گاما کے لیے راستہ ہموار کیا، اور یورپ کو کرۂ ارضی کے آخری کناروں تک پھیلادیا۔ 1494ء میں یورپ کے اندر ریاضی کا جو پہلا رسالہ چھاپا گیا وہ صرف لیونارڈو فیبوناچی کے ترجموں کی تشریح ہے، اور بعض حصے تو بالکل اُن سے نقل ہی کرلیے گئے ہیں (یہ ترجمے لُوکا پاسیولی نے کیے تھے جو ایک دوسرے لیونارڈو یعنی مشہور مصور واوِنچی کا دوست تھا) Ragiomontanus نے البتانی کی الواح کی مدد سے نقشہ ہائے ہیئت (Ephemerides) تیار کیے جن کی مدد سے کولمبس کا بحری سفر ممکن ہوگیا۔ کیپلر نے اس کا کام ابن یونس کی الواح حاکمی کے ذریعے سے جاری رکھا۔ ویسالیوس نے الرازی کی کتابوںکا ترجمہ کیا۔ سائنس کی روح کلاسیکی نشاۃ ثانیہ کے زمانے سے غیر متاثر گزر گئی، اور کلاسیکی اثرات سے محفوظ اور بالکل آزاد رہ کر گوشۂ خلوت ہی میں ترقی کرتی رہی۔
سائنس حقیقت میں دنیائے حاضر پر عربی تہذیب کا بہت بڑا احسان ہے، لیکن اس کے ثمرات بہت آہستہ آہستہ پختہ ہوئے۔ مُوروں کی ثقافت دوبارہ تاریکیوں میں غرق ہوگئی۔ اور اس کے مدتوں بعد وہ دیو (جو اُس نے پیدا کیا تھا) پوری قوت و شوکت کے ساتھ اٹھا۔ لیکن صرف سائنس ہی نے یورپ کو حیاتِ تازہ نہیں بخشی، بلکہ اسلامی تہذیب کے دوسرے بے شمار اثرات نے بھی یورپی زندگی کو روشنی کی پہلی شعاعوں سے مالامال کیا۔‘‘
(تشکیلِ انسانیت۔ از رابرٹ بریفالٹ۔ مترجم عبدالمجید سالک۔ صفحہ 269تا272)
یورپ اور مسلمانوں کے تعلق کا ایک عجیب پہلو یہ ہے کہ مسلمانوں نے جدید دنیا خلق کی۔ یورپ نے ایک عرصے تک اس کا اعتراف بھی کیا، مگر پھر وہ مسلمانوں اور ان کے احسانات کو بھول گیا اور اس غلط فہمی میں مبتلا ہوگیا کہ وہ خود جدید دنیا کا خالق ہے۔ اس بات کو مائیکل ہملٹن مورگن نے اپنے الفاظ میں یوں بیان کیا ہے:
“Against this now vanished backdrop of an intergrated Muslim inivers, the various scientists, thinkers, and artists of lost histoiry will play out their role. They will lay many of many of the foundations of the modern world. And although, in the early years, non-Muslims in Europe and elsewhere will be in awe fo these achievments and will know the players` named and work, later they will forget the name of the authors and creators, and will come to think that they alone have created the modern world.”
(Lost world-Michel Hamilton Morgan- Page 79)
جدید مغرب اور اس کے ذہنی و نفسیاتی غلاموں کو مغرب کی ’’انفرادی اہلیت‘‘ پر بڑا ناز ہے۔ وہ کوپرنیکس، نیوٹن، گلیلیو اور آئن اسٹائن کا ذکر اس طرح کرتے ہیں جیسے یہ سائنس دان نہ ہوں معاذ اللہ پیغمبر ہوں۔ آیئے دیکھتے ہیں مسلمانوں کا انفرادی ٹیلنٹ کس درجے کا تھا؟ یہ قصہ بھی آپ ایک مغربی دانش ور ہی کی زبانی ملاحظہ فرمائیں گے، مائیکل ہملٹن مورگن نے الخوارزمی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے:
“This mathematician, al-Khwarizmi, creates a system that will provide the key to begin unlocking all planes of the universe. His numbers and new ways of calculation will enable the building of 100-story towers and mile-long bridges: calculating the point at which a space probe will intersect with the orbits of one of Jupiter’s moons; the reactions of nuclear physics; the cellular processes of biotechnology and pharmaceutical and marketing research the calculus of a global economy; the language and intelligence of software; and the confidentiallity of a mobile phone conversation”
(Lost History-By Michel Hamilton Morgan Page-92)
مائیکل ہملٹن مورگن کہہ رہا ہے کہ ریاضی داں الخوارزمی کی صلاحیت ایسی تھی کہ اُس کے بنائے ہوئے علمی نظام نے کائنات کے تمام تالوں کی کنجی مہیا کردی۔ اس کے اعداد اور Calculation کے جدید طریقوں نے 100 منزلہ عمارتوں اور میلوں لمبے پُلوں کی تعمیر ممکن بنائی۔ اس کے علم سے خلائی جہاز مشتری کے چاند کے مدار کو قطع کررہا ہے۔ اس کا علم جوہری طبیعات یا Nuclear Physics میں کام آرہا ہے۔ یہاں تک کہ اس کا علم Biotechnology، ادویہ سازی اور بازارکاری کی تحقیق میں کام آرہا ہے۔ مائیکل ہملٹن کے بقول الخوارزمی کا علم عالمی معیشت کی نظم کاری یا Calculus، زبان، سوفٹ ویئر کی ذہانت، حتیٰ کہ موبائل فون پر ہونے والی گفتگو کو Confidential رکھنے میں مدد کررہا ہے۔ اس کے معنی اس کے سوا کیا ہیں کہ مسلمانوں کا علم صرف یورپ کو یورپ بنا کر نہیں رہ گیا، بلکہ وہ 21ویں صدی تک مار کررہا ہے، بس ہم اس سے آگاہ نہیں ہیں۔ ایسا نہ ہوتا تو حسن نثار، جاوید چودھری اور ان جیسے لوگوں کی دال کیسے گلتی، اور ان کی گفتگوئوں اور کالموں میں ’’جہالت کا تیقن‘‘ کیسے پیدا ہوتا؟
خیال تھا کہ الخوارزمی سے بڑا عبقری یا Genius اب کوئی نہ آئے گا، مگر ابن الہیثم الخوارزمی کے مقابلے کی شخصیت بن کر ابھرا۔ اس نے کیا کیا، مائیکل ہملٹن کی زبانی سنیے۔ لکھتا ہے:
“This young man’s name is ibn al-Haytham, and someday he will rival his predecessor al-khwarizmi, building on the discoveries of all who have come in the century that separates them. He will author as many as 200 books on various subjects, and he will begin to lay the foundation for mathematical and optical theories that will later enable Galileo and Copernicus to understand the true relationship of the Earth to other heavenly bodies, and the shape of the planet tiself.
(Lost world. page 97)
مائیکل ہملٹن کے بقول ابن الہیثم نے سائنسی موضوعات پر صرف ’’200 کتب‘‘ تحریر کیں۔ اس نے Optical Theories کے دائرے میں ریاضی کی وہ بنیادیں مہیا کیں جو آگے چل کر گلیلیو اور کوپرنیکس کے کام آئیں۔ ان بنیادوں نے ان دونوں سائنس دانوں کو زمین اور اجرامِ فلکی کا باہمی تعلق سمجھنے میں مدد دی۔ اس سلسلے میں مائیکل ہملٹن کی تحریر کے تین اقتباس مزید ملاحظہ فرما لیجیے:
“Five hundred years before Leonardo da Vinci, he delves into things that will later be attributed to the great Italian and Kepler and Descartes, when in fact they, like some Renaissance and post.Renaissance thinkers are really replicating or building on what the great Muslim scientists had established long ago.
مائیکل کہہ رہا ہے کہ ابن الہیثم نے لیونارڈوڈاونچی سے پانچ سو سال قبل وہ کام کیے جو بالآخر ڈاونچی، کیپلر اور ڈیکارٹ سے منسوب ہوئے۔ مزید سنیے:
“He begins to understand the magnifying power of a lens, a critical discovery that willlater hel Galileo and Copernicus and Leeuwenhoek to find the stars and find microbes.”
اس نے Lens یا عدسے کی قوت کو سمجھنا شروع کردیا تھا۔ یہ ایک اہم دریافت تھی۔ اتنی اہم کہ یہ بعدازاں گلیلیو، کوپرنیکس اور لیوون ہاک کے کام آئی۔ اس کی مدد سے انہوں نے ستاروں اور Micrbes کو تلاش کیا۔
نیوٹن سے بہت پہلے ابن الہیثم کشش ثقل سے آگاہ تھا۔ مائیکل لکھتا ہے:
“Reaching out to the very limits of higher physics, he seems to be aware of gravity itself, and he writes about the attraction of masses 600 years before Galileo and Sir Isaac Newton.
(Lost world page 105)
اس سے مائیکل ہملٹن مورگن نے نتیجہ نکالتے ہوئے کہا ہے کہ ابن الہیثم آئن اسٹائن کے پائے کا سائنس دان تھا۔ (صفحہ 106)
مغرب کے علوم پر مسلمانوں کے اثرات و احسانات کا ذکر کرتے ہوئے ایک جگہ مائیکل ہملٹن مورگن نے لکھا ہے:
Muslim astronomic and mathematical calculations will help drive massive computations one day done by thinking machines. Had they never lived, would astronomy and computation have evolved in quite the same way?
Their contributions to modern astronomical knowledge and technology are almost beyond counting. In the field of astronomy alone, they will help develop modern astronomical theory, modern instruments, large international observatories, and a climate of reseaarch and discovery that will be the model for renaissance, Englihtenment, and even 21st century astronomy.
In star theory, they will articulate important critiques of Ptolemy’s ideas. They will also develop important instruments. As scientific historian David King will one day write.
What only recent research has shown is that… virtually all innovations in [astronomical] instrumention in Europe up to ca. 1550 were either directly or indirectly Islamic in origin or had been conceived previously by some Muslim astronomer somewhere.
(Lost World-Page-149)
مائیکل کہہ رہا ہے کہ مسلمانوں کی فلکیاتی اور ریاضیاتی Calculations نے سوچنے والی مشینوں یا Thinking Machines کی راہ ہموار کی۔ مسلمان نہ ہوتے تو ایسا کبھی نہ ہوتا۔ مسلمانوں نے علم فلکیات کو علم بھی دیا، جدید آلات بھی دیے، جدید تجربہ گاہیں یا رصدگاہیں بھی دیں، اس کے ساتھ ساتھ تحقیق کی فضا پیدا کی، دریافتوں کی راہ ہموار کی، صرف نشاۃ ثانیہ کے دوران نہیں بلکہ عہدِ تنوپر یا Enlightenment، یہاں تک کہ 21 ویں صدی کے دوران۔ سائنس کے مؤرخ ڈیوڈ کنگ نے صاف کہا ہے کہ جدید تحقیق بتاتی ہے کہ فلکیات کے شعبے میں یورپ کو 1550ء تک جتنے فلکیاتی آلات مہیا ہوئے وہ سب کے سب بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر ’’اسلامی‘‘ تھے۔
اس کے بعد مائیکل ہملٹن نے مسلمانوں کے اثرات اور احسانات کو ’’عالمگیر‘‘ بنا دیا ہے۔ وہ لکھتا ہے:
“Muslims will develop large observatories carrying out big-budget projects. The influence of the Islamic observatories on China, India, and Europe has been extensively documented. In 1576 Tycho Brahe’s observatory in Denmark will contain instruments very similar to those found in Taqi al-Din’s observatory in Istanbul of a few years earlier. China’s royal Beijing observatory will resonate with the Maragheh observatory. India’s five jantar mantar observatories, built by Maharajah Jai Singh in the 18th century, will in part re-create the magnificence of Timurid ruler Ulugh Beg’s observatories of the 15th century in Smarkand. Over several centuries, information flow from Muslim countries to Europe and China and India will shape the nature of these observatories up to the early modern, pre-telescopic period.
For centuries, Arabic astronomy will be at the epicenter of global knowledge. Astronomy advanced by Muslim scientists is not only a crucial element of Islamic culture, but plays a central role in how today we measure the Earth, map the continents and their territories, navigate the oceans, calculate time, measure the year, develop architecture, position places of prayer, and locate cities, Islamic astronomy charts new avenues, poses new questions, develops new techniques, sets new standard, and creates new discipline.
And from these twinned starting points, God in the numeral and the patterns of the stars, all the other Muslim sciences will ripple outward. Muslim engineering. chemistry, archiecture, and medicine will all find some foundations in the enumbers and the stars. If nothing else, the love of empirical science espoused by the likes of ibn al-Haytam will enable them all.
مائیکل کہہ رہا ہے کہ مسلمانوں نے بہت بڑے سرمائے یا بجٹ سے بڑی بڑی رصدگاہیں قائم کیں۔ مسلمانوں کے پیدا کیے ہوئے علم فلکیات نے صرف یورپ کو نہیں بلکہ چین اور بھارت کو بھی متاثر کیا۔ اس سلسلے میں بہت تفصیل کے ساتھ تحقیق سامنے آچکی ہے۔ 1526ء میں ڈنمارک کی ایک تجربہ گاہ میں وہی آلات پائے گئے جو مسلم ترکی میں موجود تھے۔ چین کا بھی یہی معاملہ تھا۔ بھارت میں جنتر منتر کہلانے والی رصدگاہیں 18 ویں صدی میں مہاراجا جے سنگھ نے قائم کی تھیں۔ یہ آلِ تیمور کی قائم کی گئی رصدگاہوں کی نقل تھیں۔ مسلمانوں کے علمِ فلکیات نے زمین کی پیمائش، براعظموں کی نقشہ سازی، جہازرانی، وقت اور سال کے تعین، اور کئی اور شعبوں کو متاثر کیا۔ یہاں تک کہ اس کا اثر الٰہیات پر بھی مرتب ہوا۔
اگرچہ جنگ کے کالم نگار بلال غوری نے یہ کہہ کر اسلامی تہذیب اور مسلمانوں کا مذاق اڑایا ہے کہ مسلمان کہتے ہیں کہ ابن فرناس نے رائٹ برادران سے بہت پہلے ’’اڑن کھٹولا‘‘ اڑایا تھا۔ لیکن مائیکل ہملٹن مورگن نے بتایا ہے کہ دنیاکا پہلا پیراشوٹر بھی مسلمان تھا، اس کا نام تھا ارمان فرمان (صفحہ 155)۔ اس کے ساتھ ہی اُس نے ابن فرناس کا واقعہ بہت تفصیل سے لکھا ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ 875 عیسوی میں ابن فرناس نے مصنوعی پَر لگاکر اور طیارہ بن کر اُڑنے کی کوشش کی اور وہ دس منٹ تک فضا میں اُڑتا رہا، مگر چونکہ اس نے پروں کے ساتھ دُم نہیں بنائی تھی اس لیے وہ دس منٹ کے بعد زمین پر گر کر بری طرح زخمی ہوگیا (صفحہ 157۔158)۔ رائٹ برادران نے طیارہ اڑانے کی کوشش 17 دسمبر 1903ء میں کی۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ابن فرناس طیارہ اڑانے کی دھن میں رائٹ برادران سے صرف’’1028سال‘‘ آگے تھا۔ یہ بات کوئی ’’احمق مسلمان‘‘ نہیں مغرب کا ایک دانش ور اپنی کتاب میں لکھ رہا ہے۔ یہ کتاب National Geographic Society نے منصورہ لاہور سے نہیں، بلکہ واشنگٹن ڈی سی سے شائع کی ہے۔ بلال غوری میں شرم و حیا ہو تو وہ اپنا منہ نوچ لیں۔
مائیکل ہملٹن نے جابر بن حیان کا ذکر بڑی عقیدت سے کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مائیکل کے بقول جابر دنیا کا پہلا کیمیا داں ہے (صفحہ 163)۔ مائیکل نے اس سے قبل جابر کے بارے میں اس سے بھی بڑی بات کہی ہے، جو ہمارے نزدیک گمراہی ہے مگر مغرب اسے بہت بڑی بات سمجھتا ہے۔ مائیکل کے بقول جابر تجربہ گاہ میں مصنوعی زندگی تخلیق کرنے کی کوشش کررہا تھا (162)۔ مائیکل کے بقول اس کا مغربی ادب بالخصوص سائنس فکشن پر گہرا اثر پڑا ہے۔ جابر نے صرف ’’200 ‘‘ کتابیں لکھیں۔ مائیکل نے الکندی سے 361 کتابیں منسوب کی ہیں اور کہا ہے کہ 1200 سال بعد بھی اس کے اثرات موجود ہیں (صفحہ 165)۔ مائیکل ہملٹن نے الکندی کے بارے میں سب سے اہم بات یہ کہی ہے کہ الکندی نے آئن اسٹائن سے ایک ہزار سال قبل اضافیت یا Relativity کا تصور پیش کیا۔ (صفحہ 166)
مائیکل ہملٹن نے ابن سینا کا ذکر بھی محبت اور عقیدت سے کیا ہے۔ مائیکل کے بقول ابن سینا نے مختلف علوم پر صرف ’’300‘‘ کتب تحریر کیں۔ ابن سینا نے دنیاکو صرف ’’700 دوائوں‘‘ کا تحفہ دیا۔ یہی وجہ ہے کہ اہلِ یورپ انہیں 400 سال تک دنیائے طب کا سب سے بڑا ماہر خیال کرتے رہے۔ مائیکل کے الفاظ میں یورپی طب کو رازی کے بعد ابن سینا نے سب سے زیادہ متاثر کیا۔ (صفحہ ۔190۔193۔194)
ابن سینا کی عظمت صرف اسی قدر نہیں ہے۔ انہوں نے پہلی بار کہا کہ تپ دق متعدی بیماری ہے۔ یورپ 400 سال سے اس بات سے انکار کرتا رہا تھا (صفحہ 195)۔ مائیکل کے مطابق ابن سینا کے بعض خیالات 900 سال بعد جدید نفسیات کے کام آئے، اور ان کی تصدیق فرائیڈ اور کارل ژنگ جیسے بڑے ماہرینِ نفسیات نے کی۔ اس اعتبار سے ابن سینا فرائیڈ اور ژنگ سے 900 سال آگے تھا (صفحہ 197)۔ اس سلسلے میں مائیکل ہملٹن نے ابن سینا کی زندگی اور طریقۂ علاج کا ایک دلچسپ واقعہ تحریر کیا ہے۔ انہی کے الفاظ میں پڑھیے:
“There is a story that ibn Sina is visited by a young man in the grips of a strange and undefined sickness. Sensing that it is mind-or soul-based, ibn sina begins reciting lists of places, addresses, events, and people. Through deducion and monitoring of the patient’s pulse, Ibine sina concludes that the young man is in love with a woman in a particular town. To heal him ibn Sina prescribes that the young man go find the woman and marry her. he does and cured.”
(Lost world-Page-197)
ترجمہ: قصے کے مطابق ابن سینا کے پاس ایک نوجوان آیا، وہ عجیب اور ناقابلِ تشخیص بیماری میں مبتلا تھا۔ ابن سینا کو خیال آیا کہ اُس کی بیماری اُس کے ذہن اور نفس میں ہے۔ چنانچہ ابن سینا نے مقامات، پتوں، واقعات اور افراد کا بیان شروع کردیا۔ ابن سینا نے مریض کی نبض کی رفتار اور قیاس سے اندازہ لگایا کہ نوجوان کو ایک عورت سے محبت ہے۔ چنانچہ ابن سینا نے نوجوان کو مشورہ دیا کہ وہ عورت کے پاس جائے اور اُس سے شادی کرلے۔ اس نے ایسا ہی کیا اور وہ شفایاب ہوگیا۔
مائیکل ہملٹن کی کتاب میں جدید سرجری کے بانی کا ذکر بھی آیا ہے۔ مائیکل کے بقول اس کا نام الزہراوی ہے۔ یہ صاحب صرف سرجن ہی نہ تھے، یہ بچوں کے امراض اور ادویہ سازی کے علم یعنی Pharmaceutical کے بھی ماہر تھے۔ انہوںنے 30 جلدوں میں ایک کتاب تحریر کی۔ یہ اتنی مشکل کتاب تھی کہ یورپ کو اس کے کچھ حصوں کا ترجمہ کرنے میں 300 سال لگے (صفحہ 199)۔ لیکن ابھی الزہراوی کے ایک اور بہت ہی بڑے کارنامے کا ذکر باقی ہے۔ مائیکل ہملٹن کے مطابق الزہراوی نے آج سے 950 سال پہلے ’’پلاسٹک سرجری‘‘ انجام دی تھی (صفحہ 200)۔ نہ صرف یہ بلکہ اس نے سرجری کی ایک خاص تکنیک کے ذریعے گردے سے پتھری نکالنے کا کارنامہ بھی انجام دیا تھا۔ یہاں تک کہ اس نے ایک شخص کو جبڑا یا Denture بھی بناکر دیا تھا۔ (صفحہ 200)
حسن نثار نے دعویٰ کیا ہے کہ 17 ویں یا 18ویں صدی کے ترکی میں پہلا میڈیکل کالج قائم کیا گیا تو ’’مولانا‘‘ نے کہا کہ یہ غیراسلامی ہے۔ اب حسن نثار اور ان جیسے لوگ یہ کہانی سنیں۔ ہملٹن لکھتا ہے:
’’مسلمانوں نے پہلا اسپتال دمشق میں ایک Clinic کی صورت میں قائم کیا۔ یہ اسپتال بنوامیہ کے عہد میں 705ء سے 715ء کے دوران قائم کیا گیا۔ لیکن اس اسپتال تک عام لوگوں کی رسائی نہیں تھی۔ تاہم ایک دہائی بعد خلیفہ ہارون الرشید نے بغداد میں ’’بیمارستان‘‘ کے نام سے ایک اسپتال قائم کیا۔ اس کے لیے ایران سے ایک ڈاکٹر یا طبیب بلایا گیا۔ نویں صدی میں الرازی نے بغداد میں Audidi کے نام سے ایک اور اسپتال قائم کیا۔ اس اسپتال میں دو درجن ڈاکٹر موجود تھے۔ ان میں سرجن بھی تھے، آنکھوں کے ڈاکٹر بھی، اور Physiologist بھی۔ 12 ویں صدی تک یہ اسپتال اتنا شاندار ہوگیا تھا کہ اسے لوگ ’’عظیم محل‘‘ کہتے تھے۔ عباسیوں کے بغداد میں پانچ اسپتال تھے۔ ان اسپتالوں میں سرجری کے مراکز بھی تھے، OPD بھی تھی، نفسیاتی مریضوں کا وارڈ بھی تھا، ’’نرسنگ ہوم‘‘ بھی تھا۔ اس اسپتال میں اکثر مفت علاج کی سہولت مہیا رہتی تھی۔ 13 ویں صدی میں مصر میں ’’المنصوری‘‘ کے نام سے ایک اسپتال قائم کیا گیا۔ یہ ’’8000 بستروں‘‘ پر مشتمل اسپتال تھا۔ اس کی سالانہ آمدنی دس لاکھ درہم تھی۔ اس اسپتال میں امیروں اور غریبوں دونوںکا علاج ہوتا تھا۔ اسپتال میں مردوں اور عورتوں کے وارڈ الگ تھے۔ یہاں مسلمانوں اور عیسائیوں کا یکساں علاج ہوتا تھا۔ اس اسپتال میں لیکچر ہال بھی تھے۔ اسپتال ہی میں دوائوں کی دکان یا ’’فارمیسی‘‘ بھی موجود تھی۔ اسپتال میں بخار میں مبتلا افراد اور آنکھوں کے مریضوں کے وارڈ الگ تھے۔ اسپتال میں جراحی یا سرجری بھی ہوتی تھی۔ اسپتال کی پالیسی تھی کہ اسپتال میں امیروں، غریبوں، مقامی افراد اور غیر ملکیوں سب کا علاج ہوگا۔ اسپتال اہلِ علم اور جاہلوں کی یکساں خدمت کرے گا۔ اسپتال میں جسمانی اور نفسیاتی معذوروں کا بھی علاج ہوگا۔ اسپتال کے لیے علاج معالجے کے اخراجات کوئی مسئلہ نہیں۔ اسپتال کی تمام خدمات اللہ رب العالمین کے وسیلے سے مہیا کی جاتی ہیں۔‘‘
(Lost World- By Michel hamilton Morgan- page-212)
حسن نثار اور ان جیسے لاعلموں کے لیے اطلاعاً عرض ہے کہ بعدازاں قاہرہ میں مزید دو اسپتال قائم ہوئے۔ مکہ اور مدینہ میں طبی مراکز وجود میں آگئے۔ 14 ویں صدی میں غرناطہ کے اندر اسپتال قائم ہوا۔ عثمانیوں کے ترکی اور مغلوں کے انڈیا میں بھی مسلمانوں نے بعد کے برسوں میں اسپتال قائم کیے۔
(Lost History- page 213)
یہ کہانی یہاں ختم نہیں ہوئی۔ حسن نثار کے اندر اگر کوئی روح، کوئی دل اور کوئی ذہن ہے تو وہ یہ قصہ بھی پڑھ لیں۔ مائیکل ہملٹن لکھتا ہے:
’’مراکش کے شہر فیض میں 8 ویں صدی ہی میں ذہنی مریضوں کی پناہ گاہ قائم کردی گئی تھی۔ بغداد میں 705ء، قاہرہ میں 800ء اور دمشق اور Aleppo میں 1270ء میں نفسیاتی اسپتال قائم ہوگئے تھے۔ ذہنی مریضوں کا علاج صرف دوائوں سے نہیں بلکہ Music Therapy اور Occupational Therapy کے ذریعے بھی کیا جاتا تھا۔ یہ Therapies بہت ترقی یافتہ تھیں۔ مسلمانوں نے ادویہ سازی میں بڑا کام کیا۔ بادشاہوں یا ملوک کی سرپرستی میں کام کرنے والے اسپتالوں میں مریضوں کو مفت سیرپ، مرہم، پائوڈر اور دیگر دوائیں فراہم کی جاتی تھیں۔ حکومت کی جانب سے مقرر کردہ انسپکٹر تمام دوائوں کی جانچ کرتے تھے۔ دوائوں کے خالص ہونے پر خصوصی توجہ دی جاتی تھی، اور دوائوں کی مقدار کی نگرانی کی جاتی تھی۔ مسلمانوںکے طبی مراکز عیسائی یورپ کے مراکز سے بہت زیادہ ترقی یافتہ تھے۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ مسلمانوں کا ذہن توہمات سے پاک تھا اور وہ ایسی دوائیں تیار کرتے تھے جو مشاہدے اور تجربے سے مؤثر ثابت ہوچکی ہوتی تھیں۔ مسلمانوں کی برتری کا ایک سبب ان کی برتر ٹیکنالوجی اور ان کے علمِ طب کا ’’حقیقی سائنس‘‘ میں جڑیں رکھنے کا عمل تھا۔ یورپ کے مذہبی مراکز میں شفاخانے موجود تھے، مگر ان کے پاس نہ وسائل تھے اور نہ ٹیکنالوجی۔‘‘
(Lost History. Page 213)
مائیکل ہملٹن نے اپنی کتاب میں مسلم ماہر طب النفیس کا ذکر بھی کیا ہے۔ النفیس قاہرہ کے المنصوری اسپتال کا Deanتھا۔ اس نے 1284ء میں یہ بات دریافت کی کہ دل کیسے کام کرتا ہے اور خون دل سے گزر کر کس طرح پھیپھڑوں میں جا کر ہوا کے ساتھ آمیز ہوتا ہے۔ مائیکل ہملٹن کے بقول النفیس کی دریافت اتنی ہی اہم ہے جتنی کہ الخوارزمی کی جانب سے کی گئی صفر یا Zero کی دریافت۔ یہ النفیس ہی تھا جس نے دل کو خون فراہم کرنے والی شریانوں کا نقشہ بنایا۔ (صفحہ 214)
مسلمانوں نے یورپ کی صرف علمی اور تحقیقی زندگی کے زمین اور آسمان ہی نہیں بدلے، انہوں نے یورپ کی تہذیبی، ثقافتی اور تجارتی زندگی کو بھی گہرے طور پر متاثرکیا۔ اس سلسلے میں رابرٹ بریفالٹ لکھتا ہے:
’’مشرق، مُوروں یعنی مسلمانوں کے ہسپانیہ اور سِسلی کی صنعتی اور تجارتی سرگرمیوں نے یورپ کی تجارت و صنعت کو جنم دیا۔ انہوں نے تاجر طبقوں اور تجارتی شہروں کو دولت مند اور قوی بنایا۔ شہری برادریاں اتنی طاقتور ہوگئیں کہ انہوں نے جاگیرداری اقتدارکا کھلم کھلا مقابلہ کیا، اور آزاد جمہوریتوں اور پنچایتوں نے نوابوں کے ظلم اور لاقانونیت کو شکست دے دی۔ اسی طرح لیوانت (بحیرۂ روم کے مشرق) سے ثقافت کی طرح سیاسی آزادی اور تنظیم بھی آئی اور مال کی گٹھڑیاں بھی آنے لگیں۔ جب تک تجارت اور صنعت ترقی پذیر نہ ہوئی تھی۔ اور جب تک شہری لوگ مشرقی درآمد و برآمد سے اثرونفوذ کے مالک نہ بنے تھے نہ کوئی پنچایتیں قائم ہوئی تھی اور نہ شہر وجود میں آئے تھے۔ قطلونیا اور پراونس کے ساحلی قصبے سب سے پہلے عربوں کے ساتھ تجارت کرکے زندگی اور اہمیت کے حامل بنے۔ مارسیلز، آرلس اور نِیس میں آزاد و خودمختار جمہوریتیں قائم ہوگئیں۔ اس دولت نے اوائلِ ایام سے جس سرچشمے سے نشوونما حاصل کی تھی، اس کا حال آدلی انز کے بشپ تھیوڈلف کے اس بیان سے فراہم ہوسکتا ہے جو اُس نے جنوبی فرانس کے ایک سفر کے متعلق دیا ہے۔ یہ سفر بشپ مذکور نے شارلمین کے ایلچی کی حیثیت سے اختیار کیا تھا۔ اس نے لکھا ہے کہ جب ہم مارسیلز پہنچے تو مرد، عورتیں، بچے، بوڑھے جوق درجوق تحائف و ہدایا سے لدے ہوئے ہمارے پاس آئے اور کہنے لگے کہ یہ تحفے صرف آپ کی دعائیں حاصل کرنے کے لیے پیش کیے جارہے ہیں۔ ایک شخص نے بلّور پارے اور مشرقی موتی پیش کیے۔ ایک اور شخص طلائی سکوں کا ایک انبار لے کر آیا جن پر عربی کے فقرات و حروف درخشاں تھے۔ ایک شخص نے کہا: میرے پاس ایسے پارچات ہیں جو عربوں کے ہاں سے آئے ہیں اور ان کی بوقلمونی اور ان کے نقش و نگار کی نزاکت کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا۔ ایک شخص نے مجھے قرطبہ کی کھالوں کے ٹکڑے دکھائے جن میں سے بعض برف کی طرح سفید اور بعض سرخ تھے۔ ایک اور شخص نے قالین پیش کیے۔ اس کے بعد جنوبی اٹلی کے شہروں کی باری آئی۔ آمفلی، سلرنو، نیپلز اور گیٹا اپنے سسلی کے ہمسایہ مسلمانوں کے ساتھ تجارت کرکے رفتہ رفتہ دولت اور آزادی حاصل کرگئے، اور انہوں نے عرب تاجروں کی معیت میں اپنے تعلقات کو افریقہ اور شام تک وسیع کردیا۔ شہنشاہ لڈوِگ ثانی نے کہا کہ نیپلز تو بالکل پلرمو کی طرح مسلمانوں ہی کا شہر ہے۔ آمفلی اور جنوبی اٹلی کے پہلے آزاد شہروں نے مسلمانانِ سسلی کے ساتھ معاہدۂ اتحاد کرلیا (785)۔ اور جب وہ روما کے دروازوں کی طرف بڑھے تو اٹلی والوں نے ان کی عملی امداد کی۔ پوپ جان ہشتم انہیں ’’ذات باہر‘‘ کردینے کے فتوے صادر کرتا ہی رہا، لیکن انہوں نے فتووں کی کوئی پروا نہ کی، اور جب اسلام کے خلاف حربِ صلیبی کا اعلان ہوا تو انہوں نے اُن لوگوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے سے قطعاً انکار کردیا جنہوں نے ان کو دولت و عظمت حاصل کرنے میں امداد دی تھی۔ بیسا، جنووا اور وینس اس موقع سے استفادہ کرنے میں آملفی اور نیپلز سے بھی سبقت لے گئے۔ پِیسا کے متعلق ڈونیزو نے اپنی تاریخ (1114) میں لکھا ہے کہ یہ شہر عربوں، ترکوں، لیبیائیوں اور کلدانیوں کے ہجوم سے ناپاک ہورہا ہے‘‘ جو شہر کے ایک پورے محلے کِنسِیکا پر قبضہ کیے ہوئے تھے، لیکن اس شرط کو بھی جنووا کی طرح سارڈینیا کے عربوں سے تجارت کرنے کے باعث اہمیت حاصل ہوئی تھی۔‘‘
(تشکیلِ انسانیت۔ از رابرٹ بریفالٹ۔ مترجم عبدالمجید سالک۔ صفحہ 275تا277)
عربوں کے ’’تجارتی احسانات‘‘ سے پہلے یورپ کی غربت کا کیا عالم تھا، ملاحظہ کیجیے:
’’اس تجارت کی نشوونما سے پہلے یورپ کے افلاس کی یہ حالت تھی کہ جب اٹلی کے پہلے طالع آزما تاجروں نے محسوس کیا کہ عربوں کے مال کے عوض میں دینے کو نہ ان کے پاس کوئی ملکی پیداواریں ہیں نہ روپیہ ہی میسر ہے، تو انہوں نے آس پاس کے دیہات سے بچوںکو اغوا کرنا شروع کردیا اور عربوں کے مال کی قیمت انسانی گوشت پوست کی شکل میں ادا کرنے لگے۔‘‘ (صفحہ 277)
مسلمانوں نے یورپ کو اور کیا کچھ دیا، رابرٹ بریفالٹ کی زبانی سنیے۔ لکھتا ہے:
’’عربوں نے ہندوستان، چین، ملاکا اور ٹمبکٹو تک خشکی کے راستے کھول دیے۔ آخرالذکر مقام وسط افریقہ کی تجارت کا مرکز قرار پایا۔ وہ اپنے کاروانوں کو صحرائے اعظم کے پار زرخیز علاقوں میں اُس زمانے سے بھیج رہے تھے جب ابھی پرتگیزیوں نے راس Verde کے گرد چکر نہ لگایا تھا۔ ہندوستان کے بحری راستوں کا اجارہ بھی انہی کے قبضے میں تھا اور Emosaids نے ساحل سووان اور سقوطرہ سے لے کر ممباسہ، موزنبیق، زنجبار اور مڈغاسکر تک تجارتی نوآبادیوں کا ایک سلسلہ قائم کردیا تھا۔
انہوں نے جہاز سازی کے فن کو ترقی دی۔ بحیرۂ روم کے بحر پیمائوں کو سکھایا کہ ہلکے بادبانی جہاز (غارف) کیونکر بنائے جاتے ہیں۔ کولتار سے کشتیوں کی درزبندی کیونکر کی جاتی ہے۔ (یہ رومانی زبانوں میں اب تک عربی لفظ ’’غطران‘‘ سے موسوم ہے) (فرانسیسی Goudron اطالوی Caltrame) بادبانوں اور رسّوں سے کیونکر کام لیا جاتا ہے (رسّا: عربی حبل)۔ مُور تاجروں نے اپنے فندق مسیحی بندرگاہوں میں قائم کیے۔ وہ اندلسہ، بلنسیہ، المیریا اور ملاغہ جیسی عظیم بندرگاہوں اور پراونس اور جنوبی فرانس کے درمیان آمدورفت میں مصروف رہتے تھے اور اپنی مصنوعات کو مونٹ پیلیئر اور ناربون کی منڈیوں تک پہنچاتے تھے۔ عربوں کے دینار آج بھی بحرشمالی اور بالٹک کے ساحلوں تک رومی سکّوں اور یونانی پیسوں کے مقابلے میں بہت زیادہ افراط سے ملتے ہیں۔ انہوںنے ہُنڈیوں کا طریقہ رائج کیا۔ بحیرۂ روم کی تجارت کا نظام بحری قونسلوں کے ادارے کے ہاتھ میں تھا جو سب سے پہلے بارسلونا میں قائم کیا گیا تھا۔
عربی دنیا کے نفیس اور شاندار کتانی، سُوتی اور ریشمی پارچات، ساٹن اور نرم ریشم کے کپڑے، ایرانی تافتے، دمشقی مشجّر، بغداد کے حریر، پرنیاں، موصل کی ململ، غزہ کی جالی، غرناطہ کا جالی دار ریشمی اونی کپڑا بازار کے لیے تیار کیے جانے لگے۔ ہسپانیہ اور مجارکا کے مال کو دیکھ کر اٹلی میں کارخانے قائم کیے گئے، جن میں مجولیکا (نقشیں ظروف) تیار کیے جاتے تھے۔ قندسازی کے کارخانے سسلی سے اٹلی اور ہسپانیہ سے جنوبی فرانس میں منتقل ہونے لگے۔‘‘
(تشکیل انسانیت۔ رابرٹ بریلفالٹ۔ صفحہ 277تا280)
حسن نثار اور ان جیسے لوگ روتے ہیں کہ ترکی کے ’’مولانا‘‘ نے پرنٹنگ پریس قائم نہ ہونے دیا۔ ذرا دیکھیے تو رابرٹ بریفالٹ کیا کہہ رہا ہے:
’’عربوں نے یورپ میں اپنی تین ایسی ایجادیں رائج کیں جن میں سے ہر ایک نے دنیا میں عجیب انقلاب پیدا کردیا۔ اوّل: ناخدائوں کی قطب نما، جس کی برکت سے یورپ دنیا کے کناروں تک پھیل گیا۔ دوم: بارود، جس نے زرہ بکتر پہننے والے نائٹوں کے اقتدار کا خاتمہ کردیا۔ سوم: کاغذ، جس سے اشاعت و طباعت کا رستہ صاف ہوا۔ کاغذ کے رواج نے جو انقلاب پیدا کیا وہ اہمیت میں طباعت کی ترویج سے کم نہ تھا۔ کتابوں کی انتہائی نایابی کی بہت بڑی وجہ یہ تھی کہ چرمی جھلی بہت کمیاب تھی۔ ہمیںمعلوم ہے کہ قدیم مسودات کے متن بار بار مٹا دیے جاتے تھے تاکہ اولیائے مسیحی کی عبادتی کتابیں اور روایتیں لکھنے کے لیے کاغذ مہیا کیا جا سکے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج گیارہویں صدی سے زیادہ پرانا کوئی مسودہ مشکل ہی سے دستیاب ہوسکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں کتابیں بے انتہا مہنگی ہوتی تھیں۔ اَینجو کی ایک کائونٹس (نواب بیگم) نے پندونصائح کی ایک کتاب کے لیے دو سو بھیڑیں اور گندم، رائی اور باجرے کے پانچ پانچ پیمانے بطور قیمت ادا کیے۔ یہاں تک کہ لوئی یازدہم کے عہد میں بھی یہ حال تھا کہ جب شہنشاہ نے الرازی کی طبی تصانیف پیرس یونیورسٹی کے کتب خانے سے عاریتہً حاصل کیں تو بطور ضمانت نقرئی وطلائی مہروں کی خاصی تعداد بھی دینی پڑی اور اپنے ساتھ ایک امیر کے دستخط بھی ضمانت نامے پر کرنے پڑے، تاکہ کتابوں کی واپسی یقینی ہوجائے۔ عربوں نے پہلے پہل چین کی طرح ریشم سے کاغذ تیار کرنا شروع کیا۔ یہ ریشمی کاغذ سمرقند اور بخارا میں بنایا جاتا تھا۔ پھر انہوں نے ریشم کی جگہ روئی، دمشقی قرطاس اور بعد میں کتان اختیار کرلی۔ کتان کے کاغذ کی صنعت مدت تک زاتیوا (متصل بلنسیہ) کا اجارہ بنی رہی، جہاں سے پہلے قطلونیا اور پراونس میں، اور پھر ٹریویسو اور پڈوا میں رواج پا گئی۔‘‘
(تشکیل انسانیت۔ رابرٹ بریفالٹ۔ صفحہ 280۔281)
آج مسلم دنیا مغرب کے فیشن اور اس کے لباس کی نقّال بنی ہوئی ہے۔ مغرب کا طرزِ زندگی ہمیں ہر چیز سے زیادہ عزیز ہے۔ اس سلسلے میں ہمارے مردوں اور خواتین میں کوئی فرق نہیں، سوائے اس کے کہ خواتین میں مغرب کا فیشن اختیار کرنے کا مرض بہت بڑھا ہوا ہے۔ لیکن ایک وقت تھا کہ یورپ ’’اجڈ اور گنوار‘‘ کہلاتا تھا، اور یورپ کے مرد اور عورتیں مسلمانوں کے طرزِ زندگی اور فیشن کے دیوانے تھے۔ اُس زمانے کے یورپ میں کیا ہورہا تھا، بریفالٹ کی زبانی سنیے:
’’شام اور ہسپانیہ میں بے شمار کرگھے تھے، جن میں سے صرف اشبیلیہ میں سولہ ہزار تھے۔ قرطبہ میں ایک لاکھ تیس ہزار ریشم باف کاریگر کام کرتے تھے اور امرائے سلطنت کے ملبوسات اور مسیحی پادریوں کی مقدس عبائوں کے لیے کپڑا تیار کرتے تھے۔ اس قسم کے منظر اکثر نظر آتے تھے کہ ایک بشپ گرجا میں نماز پڑھا رہا ہے، جس کے جُبّۂ عبادت پر قرآن مجید کی آیات نہایت نفاست سے کڑھی ہوئی ہیں۔ یورپ کی خواتین نے بھی عربی قمیص اور جُبّہ پہننا شروع کردیا تھا۔ مسیحیت کے مجاہد دمشق، المیریا یا طلیطلہ کی تلواریں باندھنے اور قرطبہ کے سازویراق والے گھوڑوں پر سوار ہونے کے شوقین تھے۔ اجڈ، ناخواندہ اور غلیظ ڈاکو سرداروں کی جگہ اب وہ لوگ سامنے آئے جو شعروموسیقی سے لطف اندوز ہوتے تھے اور راگ رنگ کے مقابلوں میں شغف رکھتے تھے۔ ڈھیلے ڈھالے اونی فرغلوںاور چرمی پوستینوں کی جگہ اب تنگ و چست روئی دار چغے نظر آنے لگے۔ (ان کو اول اول Gipon کہتے تھے۔ عربی: جُبّہ) اور چمکیلے ریشم کی عبائیں جن کا رواج رفتہ رفتہ شمالی یورپ میں بھی ہوگیا۔ مُوروں کے ہسپانیہ کی طرح یورپ میں بھی عورتیں ذہنی مشاغل اور فنی ذوق میں مساوی حصہ لینے لگیں۔ انہوں نے راہبات کی سی سادہ عادات ترک کرکے پُرتکلف ملبوسات و زیورات اختیار کرلیے۔ انہوں نے شلوکے پہننے شروع کیے جن کے ساتھ ریشمی سایوں کے دامن سرسراتے تھے۔ بالوں کی لمبی چوٹیاں گوندھنے کے بجائے انہوں نے ان کو نہایت نفاست سے اوپر لپیٹنا شروع کیا۔ اس فیشن کو شمال میں ’’پراونسی فیشن‘‘ کہتے تھے۔ وہ زردوزی اور جواہرات کے کام والے ایرانی تاج پہنتی تھیں، جنہوں نے چودھویں صدی میں قندپارے اور سینگوں والی ٹوپیوں کی شکل اختیار کرلی، اور جو ’’کلاہ شامی‘‘ کے نام سے مشہور ہوئیں۔ ایک عرب مصنف ابن جبیر نے اس زمانے کی عورتوں کا ذکرکرتے ہوئے لکھا ہے ’’وہ سنہرے رنگ کی ریشمی خلعتیں پہنتی تھیں۔ نہایت نفیس عبائوں میں ملفوف، بوقلموں نقابوں سے مزین۔ پائوں میں طلائی پاپوش پہنے۔ رنگا رنگ گریبانوں اور پیٹیوں سے آراستہ، آنکھوں میں کاجل (کُحل) لگاکر اور خوشبوئوں سے معطر ہوکر باہر نکلتی تھیں۔ غرض ان کا لباس بالکل ہماری مسلم خواتین کی مانند تھا۔ راہب لوگ اس قسم کے بنائو سنگار کے خلاف سخت شوروغوغا برپا کرتے تھے، لیکن ان کو مذہبی دوائر میں خواہ کتنا ہی اقتدار حاصل ہو، جب دوسرے معاملات میں لوگ ان کی پروا نہ کرتے، اور شعرا ان کی ہجویں لکھتے، تو وہ بے بس ہوکر دبک جاتے۔ اندلسیہ کے گلزار راگ رنگ سے لبریز تھے۔ ہر دربار میں عاشقانہ داستانوں اور رُباعیات کی آوازیں گونجتی تھیں۔ شاعر اور گویّے ہر عرب حکمران اور ہر امیر کے عملے فعلے میں شامل تھے۔ اور مہارتِ شعر گوئی ہر معزز مرد اور عورت کے لیے ناگزیر اور لازمی خوبی سمجھی جاتی تھی۔ یہ تمام سرگرمیاں آس پاس کے علاقوں یعنی قسطیلیہ، قطلونیا اور پراونس میں عام ہوگئیں۔ تانت والے ساز سب سے پہلے ازمنۂ متوسطہ میں یورپ کے اندر یہیں سے رائج ہوئے۔ مثلاً ’’لُوٹ‘‘ (عربی: العود) ’’وایولین‘‘ جس کو پہلے ’’رُوبب‘‘ (عربی: رباب) کہتے تھے۔ ’’سالٹری‘‘ (عربی: سنطیر) جو پیانو کا مورثِ اعلیٰ تھا، ’’زِیتھر‘‘ (ستار)، ’’طنبورہ‘‘ (عربی:تابور) اور ’’گٹار‘‘ (عربی: قِطرہ) اسی زمانے میں نمودار ہوئے۔
(تشکیل انسانیت۔ رابرٹ بریفالٹ۔ صفحہ 284تا286)
موسیقی کا ذکر آیا ہے تو اس سلسلے میں یہ بھی سن لیجیے کہ مسلمانوں کا ’’سارے گاما‘‘ بھی اہلِ یورپ نے جوں کا توں قبول کرلیا۔ مغربی مؤرخ جی ایچ فارمر نے لکھا ہے کہ اٹلی کے لوگ 10 ویں اور 11 ویں صدی سے مسلمانوں کے Musical Notions استعمال کررہے تھے۔ اس سلسلے میں مائیکل ہملٹن نے اپنی کتاب میں عربی اور اطالوی Notions کی مثال دی ہے جو یہ ہے:
Arabic alphabet: Mi Fa Sad La Sin Dal Ra
Italian Notes: Mi Fa Sol La Si Do Re
جیسا کہ ظاہر ہے کہ ان دونوں Notions میں کوئی فرق نہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کبھی اطالوی موسیقی عربوں کی موسیقی کے تابع تھی۔ مائیکل ہملٹن نے کہا ہے کہ 13 ویں صدی میں عیسائی بادشاہ الفانسو نے عیسائیوں کے لیے 400 مقدس گیت تخلیق کروائے، ان میں سے 300 گیتوں پر مسلمانوں کا اثر تھا۔ (Lost History -page 240-241)
مغرب پر مسلمانوں کے احسانات کی یہ بے مثال کہانی بہت دور تک جا سکتی ہے، مگر اس کہانی کی مزید تفصیلات کو ہم کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔ یہاں کہنے کی ایک بات یہ ہے کہ پاکستان اور مسلم دنیا کے دوسرے ممالک میں موجود مغرب کے ذہنی اور نفسیاتی غلاموں کا ٹولہ مغرب کے بارے میں اس طرح بات کرتا ہے جیسے مغرب کی ترقی اور غلبہ دنیا کی تقدیر تھا۔ ایسا نہیں ہے۔ پہلے اس سلسلے میں مائیکل ہملٹن مورگن کی رائے ملاحظہ کیجیے۔ لکھتا ہے:
“The Muslims could have led the Age of Discovery and Imperialism that the Christian Europeans undertook instead. This author does not believe there was any inevitabillity to the rise of the West. (Lost History. page. 290)
مائیکل ہملٹن مورگن کہہ رہا ہے کہ عیسائی یورپ نے دریافت اور توسیع پسندی کے جس عہد کی داغ بیل ڈالی اس کی قیادت مسلمان بھی کرسکتے تھے، کیونکہ مائیکل کے بقول جدید مغرب کا عروج ’’ناگزیر‘‘ یا Inevitable نہیں تھا۔ مائیکل نے مزید لکھا ہے کہ جس مسلم تہذیب نے جدید مغرب کی بنیاد رکھی اور کئی صدیوں تک دنیاکی قیادت کی اُس کا زوال المناک ہے۔ مگر مائیکل یہ بات کہنے والا واحد دانش ور نہیں ہے کہ مغرب کا عروج اور غلبہ دنیاکا مقدر نہیں تھا۔ اس عروج کی قیادت ایک بار پھر مسلمانوں کے ہاتھ میں ہوسکتی تھی۔ رابرٹ بریفالٹ نے بھی اپنی کتاب ’’تشکیل انسانیت‘‘ میں ایک جگہ اس مسئلے پر گفتگو کی ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ عیسائی بادشاہ فریڈرک اسلامی تہذیب سے بہت زیادہ متاثر تھا۔ فریڈرک کے حوالے سے رابرٹ بریفالٹ لکھتا ہے:
’’اگر کسی یورپی بادشاہ کے سر اس بات کا سہرا ہوسکتا ہے کہ اُس نے مسیحیت کو بربریت اور جہالت سے نجات دلائی تو وہ شارلمین ہرگز نہیں (جس کو تہذیب ومذہب کا حامی قرار دینا محض ایک افسانہ ہے)، بلکہ وہ روشن خیال و سرگرم فرماں روا ہے جس نے عربی تہذیب کو خود بھی اختیار کیا اور اس کو مقبول بنانے میں بھی دوسروں سے سبقت لے گیا۔
شہنشاہ فریڈرک کا دربار نہایت شاندار تھا۔ مُوروں (یعنی مسلمانوں) کے بنائے ہوئے نقشین چھتوں والے ہال تھے۔ مشرقی انداز کے باغات میں فوارے اچھل رہے تھے۔ چڑیا گھر نایاب پرندوں اور عجیب و غریب جانوروں سے معمور تھے۔ جو حلیف خلفا کی طرف سے بطور ہدیہ دستیاب ہوئے تھے، اس دربار میں علوم عربی کے فضلا مہمانانِ محترم کی حیثیت سے جمع رہتے اور ریاضی اور تاریخِ فطرت کے امورومسائل پر بحث کرتے۔ پراونسی ٹروبیڈو اور موری مُطرب عود و طنبورہ کے ساتھ اپنے گیت گاتے تھے، اور اطالوی شاعری کے اثمارِ اولین کے پھولنے پھلنے میں معاون ہورہے تھے۔ اِدھر تو یہ دربار حیرت انگیز مناظر اور علم و فضل اور حسن و نفاست کا مرکز تھا اور اُدھر یورپ کے دوسرے بادشاہوں کے تنگ وتاریک اور سرکنڈوں سے بھرے ہوئے دربار تھے جن میں راہبوں، کیڑوں مکوڑوں، جہالت اور اوہام پرستی کا دور دورہ تھا۔ اور اس فرق اور تفاوت کو دیکھ دیکھ کر وہ لوگ متعجب بھی ہوتے تھے اور حسد کی آگ میں بھی جلتے تھے۔ فریڈرک کے خلاف جو الزام اور اتہام عائد کیے گئے ان میں ایک یہ بھی تھا کہ ’’یہ شخص روزانہ غسل کرتا ہے۔ یہاں تک کہ اتوار کے دن بھی ناغہ نہیں کرتا‘‘۔ اس شہنشاہ نے نیپلز، مسنیا اور پڈوا میں یونیورسٹیاں قائم کیں۔ سلرنو کے پرانے طبی مدرسے کو طبِ عربی کی ترقیات کے ساتھ ازسرنو مفید و فعال بنایا۔ اس کی سرپرستی سے حوصلہ پاکر ٹیوولی کے پلاٹو اورلورَینزو فیبوناچی نے جو یورپی ریاضی کے بانی تھے، یہودی اور عرب علما کو جمع کیا تاکہ ہر ممکن الحصول عربی کتاب کا ترجمہ کردیں۔ اس بادشاہ نے اپنے دوست مائیکل اسکوٹس کو ابن رشد کی تازہ تصانیف حاصل کرنے کے لیے قرطبہ بھیجا اور ہر مدرسے کو ان کتابوں کے نسخے مہیا کیے۔
اگر یہ شہنشاہ اپنے تخیل کے مطابق یورپ کو نئی سلطنت کے ماتحت متحد کردیتا، جس کا صدر مقام اٹلی میں ہوتا، تو نہ صرف سیاسی تاریخ بلکہ یورپ کے نشووارتقا اور ثقافت کی تاریخ بھی بالکل مختلف راستہ اختیار کرلیتی۔ لیکن ابھی پادریوں کی مخالفت نہایت طاقتور تھی۔ پوپ اس شہنشاہ کی مخالفت میں زمین آسمان ایک کررہے تھے۔ گریگوری نہم نے لومبارڈ کے شہروں میں بغاوت پھیلا دی۔ اور ان شہروں کی وفاداری حاصل کرنے اور ان کو انعام دینے کا یہ طریقہ اختیار کیا کہ ان کے درمیان ایک مذہبی عدالتِ احتساب (انکویزیشن) بھی قائم کردی اور چند سو شہریوں کو زندہ جلا دیا۔ بھکاری راہب شہنشاہ کے ہر محل میں نفوذ کرگئے۔ اس کے جگری دوستوں کو دھمکیوں اور رشوتوں سے متاثر کیا اور انہیں خنجر اور زہر سے مسلح کرنے لگے۔
(تشکیل انسانیت۔ رابرٹ بریفالٹ۔ صفحہ 289۔290)
تجزیہ کیا جائے تو رابرٹ بریفالٹ کا کہنا بھی یہی ہے کہ مغرب کا عروج اور غلبہ دنیا کی تقدیر نہیں تھا، اور اگر مغرب بادشاہ فریڈرک کی قیادت میں عروج اور غلبے کی طرف جاتا بھی تو اسلامی تہذیب کے اثرات اس کی قیادت کررہے ہوتے۔ یہاں ایک بار پھر آپ اُن باتوں کو ذہن میں لائیے جو حسن نثار، جاوید چودھری، بلال غوری اور ان جیسے لوگ کرتے ہیں۔ ان باتوں کو وسیع علمی سیاق و سباق میں رکھ کر دیکھنے سے ایسے لوگوں کے بارے میں ایک ہی خیال آتا ہے ؎
جعفر از بنگال صادق از دکن
ننگِ ملت، ننگِ دیں، ننگِ وطن
مگر یہاں کہنے کی ایک بات اور بھی ہے۔ مسلمانوں نے سائنس اور ٹیکنالوجی میں غیر معمولی کارنامے انجام دیے، مگر وہ آج بھی اپنے مذہب سے چمٹے ہوئے ہیں۔ یورپ نے سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کی تو اس نے اپنے مذہب پر تھوک دیا۔ اس سے یہ نتیجہ نکالنا غلط نہیں ہے کہ جس مذہب نے مسلمانوں کو پہلے عروج پر پہنچایا تھا وہ ایک بار پھر مسلمانوں کو عروج پر پہنچا سکتا ہے، مگر مغرب زوال پذیر ہوا تو اُس کے احیاء کی کوئی صورت نہ ہوگی۔سوائے اس کے کہ وہ اسلام قبول کر لیں۔