مغربی جمہوریت اگرچہ صرف ایک ’’سیاسی تصور‘‘ اور صرف ایک ’’سیاسی نظام‘‘ ہے مگر ہمارے زمانے تک آتے آتے اسے ایک ’’مذہب‘‘ اور ایک ’’عقیدے‘‘ کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے۔ چنانچہ اس سے وہی تقدیس وابستہ کرلی گئی ہے جو مذہب اور مذہبی عقیدے کے ساتھ وابستہ کی جاتی ہے۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ مغربی جمہوریت ہمارے زمانے میں مذہب سے بھی زیادہ مقدس ہوگئی ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ آپ دنیا کے جس کونے میں چاہیں خدا اور مذہب اور مذہبی تصورات کا مذاق اڑا سکتے ہیں، مگر مغرب کیا مشرق میں بھی جمہوریت پر طنز نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے انکار پر لوگ اس طرح چونکتے ہیں جیسے کبھی کفر یا شرک پر چونکا کرتے تھے۔ چنانچہ مغربی جمہوریت پر تنقیدی گفتگو آسان نہیں۔ بدقسمتی سے مسلم معاشروں میں یہ تک دیکھنے کی کوشش نہیں کی گئی ہے کہ مغربی جمہوریت کے بارے میں خود مغرب کی فکری تاریخ کیا کہتی ہے اور مغرب کے ممتاز مفکروں اور دانش وروں نے مغربی جمہوریت کے بارے میں کیا کہا ہوا ہے؟ مغربی جمہوریت کی ’’اصلیت‘‘ کیا ہے اس کو بیان کرنے کے لیے برطانیہ کے سیاسی رہنما اور لندن کے سابق میئر کین لِونگ اسٹون (Ken Living Stone) کا ایک فقرہ کافی ہے۔ کین لونگ اسٹون نے ایک بار کہا تھا: ’’اگر ووٹ دینے کے عمل سے کوئی تبدیلی آسکتی تو رائے دہندگی پر کب کی پابندی لگ چکی ہوتی‘‘۔ یہ مغربی جمہوریت کے بارے میں اتنی بنیادی بات ہے کہ اس ایک فقرے کی تشریح و تعبیر میں دو سو صفحات پر مشتمل ایک کتاب لکھی جاسکتی ہے۔ غور کیا جائے تو کین لونگ اسٹون نے کہا ہے کہ دنیا جن طاقتوں کے ہاتھ میں ہے اُن کا جمہوریت سے کچھ نہیں بگڑتا۔ اگر بگڑتا تو وہ جمہوریت کو کب کا دفن کرچکی ہوتیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ مغربی جمہوریت انقلاب یا تبدیلی کا آلہ نہیں، بلکہ اس کے ذریعے عالمی اور مقامی حالات کو جوں کا توں رکھا جارہا ہے۔ یعنی جمہوریت تبدیلی کا نہیں status quo کو برقرار رکھنے کا کام انجام دے رہی ہے۔ یہ کام کیوں اور کیسے ہورہا ہے اس پر کالم کے آخر میں گفتگو ہوگی۔ فی الحال ہم یہ دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ مغرب کے مفکرین اور دانش ور مغربی جمہوریت کے بارے میں کیا کچھ فرما چکے ہیں۔
افلاطون مغربی فلسفے کی سوا دو ہزار سالہ تاریخ کی عظیم ترین شخصیتوں میں سے ایک ہے۔ اس کی عظمت اس امر سے ظاہر ہے کہ مغرب کے ممتاز فلسفی وائٹ ہیڈ نے افلاطون کے بارے میں کہا ہے کہ مغرب کا سارا فلسفہ افلاطون کی فکر کے حاشیے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس بیان میں مبالغہ موجود ہے مگر ایسا مبالغہ جس کے بغیر افلاطون کی حقیقی عظمت آشکار نہیں ہوسکتی۔ افلاطون کی ایک اہمیت یہ ہے کہ وہ نہ ہوتا تو سقراط کی فکر دنیا تک منتقل نہیں ہوسکتی تھی، اس لیے کہ سقراط تحریر کا آدمی نہیں تھا، وہ صرف خطابت اور زبانی مکالمے سے کام لیتا تھا۔ افلاطون کی ایک اور اہمیت یہ ہے کہ افلاطون نہ ہوتا تو ارسطو بھی نہ ہوتا۔ وہ ارسطو جسے مغربی فکر ’’معلم اوّل‘‘ کہہ کر پکارتی ہے۔ خیر یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ افلاطون نے جمہوریت کو تمام سیاسی نظاموں میں سب سے بدترین اور کم ترین قرار دیا ہے… بادشاہت اور طبقہ امراء کی حکومت سے بھی بدتر۔ افلاطون کا مثالی حکمران جمہوری حکمران نہیں ہے۔ اُس نے اس سلسلے میں صاف کہا ہے کہ ریاست و سیاست کے مسئلے کا ایک ہی حل ہے، اور وہ یہ کہ حکمران یا تو فلسفی ہو یا فلسفی کو حکمران بنادیا جائے۔ واضح رہے کہ افلاطون کے زمانے میں فلسفے کا لفظ تقریباً حکمت یا Love of wisdom کے معنی میں استعمال ہوتا تھا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ افلاطون کی مثالی ریاست کا سربراہ صرف ’’حکیم‘‘ ہی ہوسکتا تھا۔ اس نے ایتھنز کی جمہوریت پر شدید تنقید کی اور کہا کہ اس کے ذریعے انارکی سے لبریز اور داخلی اتحاد سے محروم معاشرے وجود میں آتے ہیں۔ اس نے صاف کہا کہ جمہوریت ایسے افراد کو حکمران بناتی ہے جو صرف لوگوں کی خواہشات سے کھیلتے ہیں، چنانچہ جمہوریت ہجوم کی حکومت یا Mobe rule بن کر رہ جاتی ہے۔ افلاطون کا زمانہ 300 سال قبلِ مسیح کا زمانہ ہے، مگر سوا دو ہزار سال بعد بھی افلاطون کی جمہوریت کے حوالے سے یہ رائے درست ہے کہ جمہوریت ایسے لوگوں کو حکمران بناتی ہے جن کی سب سے بڑی اہلیت عوام کی خواہشات سے کھیلنا ہوتا ہے۔ وہ عوام کی خواہشات کے مطابق حلال و حرام بدلتے رہتے ہیں۔ عوام کو تعصبات کا زہر عزیز ہوتا ہے تو وہ عوام کو تعصبات کا زہر پلانے لگتے ہیں۔ عوام کو دوسری اقوام سے نفرت ہوتی ہے تو حکمران نفرت فروخت کرنے لگتے ہیں۔
روسو مغربی فکر کا ایک سنگِ میل ہے۔ اس کے معاہدۂ عمرانی کو مغربی فکر میں اساسی اہمیت حاصل ہے۔ مغرب میں رومانویت کی تحریک کی پشت پر روسو کی فکر کو کارفرما دیکھا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انقلابِ فرانس کے سلسلے میں بھی روسو کی اہمیت بنیادی ہے۔ روسو نے اپنی مشہورِ زمانہ تصنیف معاہدۂ
عمرانی میں صاف کہا ہے کہ حکومت کی نوعیت کا تعین جغرافیے سے ہوتا ہے۔ اس نے کہا ہے کہ اگر ریاست بالکل چھوٹی سی ہو مثلاً جنیوا کے حجم کے برابر ہو تو براہِ راست جمہوریت یا Direct Democracy بھی کام آسکتی ہے۔ مگر ریاست بڑی ہو تو منتخب طبقہ امراء ہی اس کے تقاضے پورے کرسکے گا۔ ریاست اگر بہت ہی بڑی ہو تو پھر بادشاہت ناگزیر ہے، البتہ بادشاہت کو قانون کی بالادستی کو تسلیم کرنا ہوگا۔ روسو نے جس وقت ان خیالات کا اظہار کیا اُس وقت جنیوا کی آبادی ہزاروں میں ہوگی۔ چنانچہ روسو کے مطابق چند ہزار کی آبادی رکھنے والی ریاست کے لیے جمہوریت مناسب ہے۔ اس سے آگے جمہوریت کارآمد نہیں ہے۔ روسو نے تو پھر بھی جمہوریت کی کچھ نہ کچھ عزت افزائی کی ہے لیکن نٹشے نے جمہوریت پر غیر معمولی حملہ کیا ہے۔
جدید مغربی فلسفے میں نٹشے کی اہمیت یہ ہے کہ وہ خدا اور مذہب کا پہلا بڑا باغی ہے۔ اُس کے فلسفے اور تحریر میں ایسی اثرانگیزی ہے کہ اُس کے بعد آنے والے اکثر فلسفی اُس سے کسی نہ کسی انداز میں متاثر ہوئے۔ نٹشے کے اسلوب میں ایک سحر کی کیفیت ہے اور اس کی تحریر کے اثر سے بچنا آسان نہیں ہوتا۔ نٹشے کا خیال تھا کہ جمہوریت عیسائیت سے منسلک ہے۔ لیکن اس نے جمہوریت کے بارے میں کیا کہا ہے اسی کے الفاظ میں سنیے:
democratic movement is Christianity’s heir” and denounced the democraticman for being inherently unable to “feel any shame for being unable to rise above” his desire “to satisfy a host of petty wants through the calculation of long-term self-interest” (THE INEVITABILITY OF DEMOCRACY.)
ترجمہ: ’’جمہوری تحریک عیسائیت کی وارث ہے۔ اور ’’جمہوری انسان‘‘ اس بات میں ذرا بھی شرم محسوس نہیں کرتا کہ وہ کبھی اپنی خواہشات سے بلند نہیں ہوپاتا۔ اس کی خواہشات طویل المیعاد مفادات کے حوالے سے چھوٹی چھوٹی ضروریات سے متعلق ہوتی ہیں‘‘۔
افلاطون خدا کے وجود کا قائل تھا اور نٹشے خدا کا منکر تھا، مگر اس بات پر دونوں کے درمیان اتفاق ہے کہ جمہوری حکمران اور جمہوریت انسان کو چھوٹی چھوٹی خواہشات سے بلند نہیں ہونے دیتے اور انسان کبھی بڑے مقاصد سے ہم کنار نہیں ہوپاتا۔ نٹشے کا فوق البشر یا Super man طاقت مرکز ہے، کیونکہ نٹشے کے فلسفے میں will to power ہی سب کچھ ہے۔ مگر نٹشے کا فوق البشر جمہوری انسان کی طرح بالشتیہ نہیں ہے بلکہ وہ بلند عزائم کا حامل ہے۔
اوسوالڈ اسپینگلر بیسویں صدی کے دو بڑے مغربی مؤرخین میں سے ایک ہے۔ اس کی تصنیف ’زوالِ مغرب‘ یا The Decline of the west کو مغرب کی فکری تاریخ میں کلاسک کا درجہ حاصل ہے۔ اسپینگلر نے اپنی اس کتاب میں جمہوریت کے حوالے سے رونگٹے کھڑے کردینے والا فقرہ کہا ہے، اس نے کہا ہے:
“Through money, democracy becomes its own destroyer, after money has destroyed intellect (THE DECLINE OF THE WEST.)
ترجمہ: ’’دولت کے ذریعے جمہوریت خود کو تباہ کرلیتی ہے۔ اس سے قبل سرمایہ عقل کو برباد کرچکا ہوتا ہے۔‘‘
اسپینگلر کے اس خیال کا مطلب یہ ہے کہ جمہوری نظام یا جمہوری معاشرہ اپنی اصل میں ’’دولت مرکز‘‘ یا Money Centric معاشرہ ہے، اور سرمائے کی قوت یہ ہے کہ وہ عقل کو کھا جاتا ہے، اور جب دولت عقل کو کھا جاتی ہے تو جمہوریت دولت کا زہر کھا کر خودکشی کرلیتی ہے۔ اسپینگلر کی مذکورہ بالا کتاب 20 ویں صدی کے اوائل میں شائع ہوئی تھی۔ اُس وقت جمہوریت اتنی دولت مرکز نہیں ہوتی تھی جتنی اب ہوگئی ہے، مگر اس کے باوجود اسپینگلر کی بصیرت دیکھ رہی تھی کہ جمہوریت کا حال اور مستقبل کیا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے زمانے تک آتے آتے امریکہ اور یورپ کیا، خود پاکستان اور ہندوستان جیسے ممالک میں بھی جمہوریت سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور کارپوریشنز کی ’’باندی‘‘ بن چکی ہے۔ ذرا یاد کیجیے لندن کے سابق میئر کین لونگ اسٹون نے کیا کہا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ اگر ووٹ دینے کے عمل سے کوئی تبدیلی آسکتی ہوتی تو ووٹ دینے کے عمل پر کب کی پابندی لگ چکی ہوتی۔ کیا کوئی جمہوری حکمران سوچ سکتا ہے کہ وہ امریکہ اور یورپ کی بڑی بڑی کثیرالقومی کمپنیوں یا ملٹی نیشنلز کے مفادات کو چیلنج کرے گا؟ کیا امریکہ کا کوئی سیاست دان پینٹاگون اور سی آئی اے کو پھلانگ کر سیاست کرسکتا ہے؟ کیا دنیا میں پھیلی ہوئی معاشی عدم مساوات کو انتخابی نعرے میں ڈھالا جاسکتا ہے؟ بارک اوباما نے اپنی انتخابی مہم میں اعلان کیا تھا کہ وہ گوانتاناموبے کے مرکز کو بند کردیں گے۔ وہ آٹھ سال امریکہ کے صدر رہے مگر انہیں گوانتاناموبے کو بند کرنے کی جرأت نہ ہوئی، اس لیے کہ گوانتاناموبے سی آئی اے کا تماشا ہے۔ عمران خان کہا کرتے تھے کہ وہ کبھی سرمائے اور Electables کی سیاست نہیں کریں گے، مگر انہوں نے گزشتہ انتخابات سے چند روز قبل روزنامہ ڈان کو انٹرویو دیتے ہوئے صاف کہا کہ سرمائے اور Electables کے بغیر انتخابات نہیں جیتے جاسکتے۔ بدقسمتی سے عمران خان کا تجزیہ غلط نہیں ہے۔ پاکستان جیسے ’’اسلامی ملک‘‘ میں بھی سرمائے اور Electables کے بغیر جمہوریت کی ’’ج‘‘ کے تقاضے بھی پورے نہیں کیے جاسکتے، خواہ آپ کی پشت پر اسٹیبلشمنٹ بھی کیوں نہ کھڑی ہو۔
جدید مغرب نے20 ویں صدی میں جو عبقری یا Genius پیدا کیے ہیں، ڈی ایچ لارنس ان میں سے ایک ہے۔ لارنس ناول نگار ہے، افسانہ نویس ہے، نقاد ہے، شاعر ہے۔ وہ صرف 44 سال میں مرگیا لیکن اس کے باوجود اُس کے اثرات عالمگیر ہیں۔ لارنس نے جمہوریت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے:
“But a democracy is bound in the end to be obscene, for it is composed of myriad disunited fragments, each fragment assuming to itself a false wholeness, a false individuality. Modern democracy is made up of millions of frictional parts all asserting their own wholeness” (APOCALYPSE.)
ترجمہ: ’’جمہوریت کا مقدر بالآخر فحش ثابت ہونا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جمہوریت غیر متحد اکائیوں کا مجموعہ ہوتی ہے۔ ان میں سے ہر اکائی خود کو جھوٹی کاملیت کا حامل سمجھتی ہے، جھوٹی انفرادیت کا حامل سمجھتی ہے۔ جدید جمہوریت ایسی کروڑوں باہم متصادم اکائیوں کا نام ہے جو اپنی کاملیت یا Wholness پر اصرار کرتی (رہتی) ہیں‘‘۔
ڈی ایچ لارنس کی ان باتوں کو وہی شخص سمجھ سکتا ہے جو مغرب میں فرد پرستی اور انفرادیت پسندی کے مرض سے آگاہ ہو۔
اس سلسلے میں جرمنی کے ماہر سیاسیات رابرٹ مشل کے تجزیے سے آگاہ ہونا بھی مفید ہے۔ انہوں نے لکھا ہے:
“oligarchy is inevitable as an “iron law” within any organization as part of the “tactical and technical necessities” of organization: “It is organization which gives birth to the dominion of the elected over the electors, of the mandataries over the mandators, of the delegates over the delegators, Who says organization, says oligarchy” “Historical evolution mocks all the prophylactic measures that have been adopted for the prevention of oligarchy.” Michels stated that the official goal of democracy of eliminating elite rule was impossible, that democracy is a facade legitimizing the rule of a particular elite, and that elite rule, that he refers to as oligarchy, is inevitable.” (DEMOCRATIC THEORY: THE PHILOSOPHICAL FOUNDATIONS)
ترجمہ: ’’کسی بھی تنظیم میں ایک بالائی طبقے کا پیدا ہونا تقریباً ایک قانون کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایسا ہونا تنظیم کے داخلی اور تکنیکی تقاضوں کا نتیجہ ہوتا ہے۔ یہ تنظیم ہے جو ’’منتخب ہونے والوں‘‘ کو ’’منتخب کرنے والوں‘‘ پر، مینڈیٹ حاصل کرنے والوں کو مینڈیٹ دینے والوں پر، اور اختیارات حاصل کرنے والوں کو اختیارات دینے والوں پر فوقیت دیتی ہے۔ جو شخص کہتا ہے تنظیم، وہ کہتا ہے بالائی طبقہ۔ تاریخی ارتقا ان تمام اقدامات کو بے معنی بنادیتا ہے جو بالائی طبقے کی راہ روکنے کے لیے کیے جاتے ہیں۔ شل کے بقول جمہوریت کبھی بالائی طبقے کی حکمرانی کی راہ نہیں روک سکتی۔ دراصل جمہوریت کے پردے کے پیچھے بالائی طبقے کی حکمرانی کی راہ ہموار ہوتی ہے، اور یہ حکمرانی جمہوریت کا مقدر ہے‘‘۔
چارلس مراس فرانس کا ایک اہم سیاست دان بھی ہے، شاعر، ادیب اور نقاد بھی۔ اس نے جمہوریت کو شیطنت اور موت تک قرار دے دیا ہے۔ اس نے جمہوریت کو Government of numbers قرار دیا اور کہا کہ جمہوریت میں اصل اہمیت ’’معیار‘‘ کی نہیں بلکہ ’’مقدار‘‘ یا ’’تعداد‘‘ کی ہے۔ چنانچہ مراس کے بقول جمہوریت میں بدترین کو بہترین پر فوقیت حاصل ہوتی ہے۔ اس کے مطابق جمہوریت بالخصوص پارلیمانی جمہوریت میں انفرادی یا جماعتی مفاد قومی مفاد پر غالب ہوجاتا ہے۔ اس سلسلے میں برنارڈشا اور اسپینڈر کے تبصروں پر نظر ڈال لینا بھی ضروری ہے۔ برنارڈ شا مغرب میں 20 ویں صدی کے عظیم ادیبوں میں سے ایک ہے، اس نے کہا ہے کہ جمہوریت کا مطلب جاہلوں کی حکومت ہے۔ اسپینڈر نے کہا کہ جمہوریت کی بڑی بات یہ ہے کہ وہ ہر ووٹر کو کوئی نہ کوئی حماقت کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ بظاہر یہ فقرے مزاحیہ محسوس ہوتے ہیں، مگر دنیا بھر میں جمہوریت کا جو حال رہا ہے اُس کے تناظر میں ان فقروں کی پشت پر گہری معنویت موجود نظر آتی ہے۔ مگر یہاں ہم لندن کے سابق میئر کے بے مثال فقرے کی جانب لوٹتے ہیں۔
لندن کے سابق میئر کین لونگ اسٹون نے کہا تھا کہ اگر ووٹ دینے سے کوئی تبدیلی آسکتی تو ووٹ دینے کے عمل پر پابندی لگ چکی ہوتی۔ اس کی مثال مسلم دنیا اور اس دنیا میں اسلامی تحریکوں کی جمہوری جدوجہد ہے۔ ایران کے انقلاب کے بعد مغرب کے دانش وروں نے کہا کہ بلاشبہ ایران میں اسلام کے نام پر انقلاب آیا ہے، مگر یہ انقلاب ملاّئوں کے ڈنڈے کا حاصل ہے، تاہم مسلم دنیا میں جمہوری طریقے سے کوئی تبدیلی نہیں آسکتی۔ مگر الجزائر کے انتخابات کے پہلے مرحلے میں اسلامی فرنٹ نے دو تہائی سے زیادہ ووٹ حاصل کیے تو مغرب نے انتخابات کے دوسرے مرحلے کی نوبت ہی نہ آنے دی۔ اس نے الجزائر کی فوج کے ذریعے اسلامی فرنٹ کے خلاف جنگ چھیڑ دی اور الجزائر میں ہونے والی خانہ جنگی سے 10 سال میں 10 لاکھ لوگ مارے گئے۔ ترکی میں نجم الدین اربکان نے انتخابی کامیابی حاصل کرکے حکومت بنانے میں کامیابی حاصل کی تو اُن کی حکومت کو ایک سال سے زیادہ نہ چلنے دیا گیا۔ حماس نے مقبوضہ فلسطین میں جمہوری طریقے سے اقتدار حاصل کیا تو کسی مغربی ملک نے حماس کی کامیابی پر مہرِ تصدیق ثبت نہ کی، اور ایک سال میں حماس کی حکومت بھی گھر چلی گئی۔ مصر میں صدر مرسی کی جمہوری کامیابی کو بھی مغرب نے قبول نہ کیا اور مصر کی فوج کے ذریعے صدر مرسی کو برطرف کردیا گیا۔ اس سلسلے میں مغرب کی خستہ اخلاقی و جمہوری حالت کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ امریکہ نے جنرل سیسی کی فوجی بغاوت کو فوجی بغاوت کا نام بھی نہ دیا۔ امریکہ ایسا کرتا تو اسے جنرل سیسی کے مصر کی امداد بند کرنی پڑتی۔ مغرب کے اسلامی تحریکوں سے خوف زدہ ہونے کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اسلامی تحریکوں کی جمہوری کامیابی واقعتاً معاشرے میں ’’تبدیلی‘‘ کا موجب ہوسکتی ہے، اور مغرب تبدیلی تبدیلی بہت کرتا ہے مگر وہ ایسی تبدیلی سے ڈرتا ہے جو اسلام کے مطابق ہو۔ اسلامی تحریکوں سے مغرب کے خوف زدہ ہونے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ اسلامی تحریکیں مغرب کے ساتھ پُرامن بقائے باہمی کے اصول کے تحت تعلقات تو استوار کرسکتی ہیں مگر وہ مغرب کی آلہ کار نہیں بن سکتیں۔ وہ مسلم معاشروں میں مغرب کے ایجنٹ کا کردار ادا نہیں کرسکتیں۔ اس دائرے میں بھی چونکہ جمہوریت ’’تبدیلی‘‘ کا باعث بن سکتی ہے، اس لیے مغرب کو مسلم ممالک میں اسلامی تحریکوں کی جمہوری فتوحات درکار نہیں۔ مغرب مسلم معاشروں میں مارشل لا گوارا کرسکتا ہے، بدعنوان سیکولر اور لبرل رہنمائوں اور سیاسی جماعتوں کو گوارا کرسکتا ہے، بادشاہوں کو گوارا کرسکتا ہے مگر جمہوریت کے ذریعے اسلامی قوتوں کی تبدیلی کو گوارا نہیں کرسکتا۔ مگر مسئلہ صرف اتنا سا نہیں ہے۔ دنیا کے مختلف معاشروں میں اگر ووٹ ڈالنے کا عمل ایسے لوگوں کو بھی برسراقتدار لے آتا ہے جو خواہ اسلامی نہ ہوں مگر مغرب کے لیے خطرہ ہوں، تو مغرب کو ایسے لوگوں کی آمد بھی قبول نہ ہوگی اور وہ ان معاشروں میں بھی ووٹ پر پابندی لگوادے گا۔
مغرب جمہوریت کو ہمیشہ آمریت کے مقابل پیش کرتا رہا ہے، مگر اب برطانیہ میں جمہوریت بمقابلہ جمہوریت کی صورتِ حال پیدا ہوچکی ہے۔ برطانیہ کے عوام کی عظیم اکثریت نے ایک جمہوری ریفرنڈم کے ذریعے یورپی اتحاد سے نکلنے کا فیصلہ کیا تھا۔ برطانیہ کی سیاسی قیادت اور جمہوری اداروں کو اصولی اعتبار سے یہ فیصلہ قبول کرتے ہوئے یورپی یونین سے باہر آجانا چاہیے تھا، مگر وہاں دارالامرا اور دارالعوام نے بھاری اکثریت سے برطانیہ کی یورپی اتحاد سے علیحدگی مسترد کردی ہے۔ جمہوریت میں بنیادی چیز عوام کا ووٹ ہے، مگر جمہوریت کی ماں کہلانے والے برطانیہ میں برطانیہ کے قانون ساز ادارے عوام کے ووٹ کی حرمت کو پامال کررہے ہیں۔ یہی ’’منتخب کرنے والوں‘‘ پر ’’منتخب ہونے والوں‘‘ کی فوقیت اور بالادستی ہے، اور یہی جمہوریت کی روح کی توہین ہے۔ اس توہین سے ثابت ہوچکا ہے کہ مغرب کا اصل مسئلہ جمہوریت نہیں اُس کا مفاد ہے۔ اگر جمہوریت کے مرکز میں ’’ثانوی جمہوریت‘‘ کے ذریعے ’’بنیادی جمہوریت‘‘ کو کچل کر ’’مفادات‘‘ کا تحفظ کیا جاسکتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ کہا جارہا ہے کہ اب برطانیہ میں برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے سوال پر دوسرا ریفرنڈم کرایا جائے گا۔ اگر دوسرے ریفرنڈم میں لوگوں کی اکثریت نے یورپی یونین سے علیحدگی کے امکان کو مسترد کردیا تو پہلا ریفرنڈم بے معنی ہوجائے گا۔ سوال یہ ہے کہ یہ جمہوریت ہے یا تماشا؟
مغرب نے جمہوریت کے حوالے سے اس خیال کو بھی عام کرنے کی کوشش کی کہ معاشی اور سائنسی ترقی صرف ’’آزاد‘‘ اور ’’جمہوری‘‘ معاشروں میں ہوتی ہے، مگر کمیونسٹ چین نے آمرانہ اور یک جماعتی نظام کے تحت بے مثال معاشی اور سائنسی ترقی کرکے مغربی جمہوریت کی بے معنویت میں اضافہ کردیا ہے۔ اگر کوئی شخص ہمیں اس بات کی گارنٹی دے دے کہ چین آئندہ 25 سال تک اسی طرح معاشی اور سائنسی ترقی کرتا رہے گا جس طرح وہ گزشتہ چالیس سال سے کررہا ہے تو ہم پیشگوئی کرتے ہیں کہ 25 سال بعد مغرب خود اپنی جمہوریت پر تھوک کر چین کا یک جماعتی نظام اختیار کرلے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جمہوریت ایک ’’انسانی ساختہ نظام‘‘ بھی ہے اور مغرب کا ایک ’’تاریخی تجربہ‘‘ بھی۔ نظام اور تجربہ اگر کسی دوسرے نظام اور تجربے سے پٹ جاتا ہے تو انسان اپنا نظام بھی بدل لیتا ہے اور تاریخی تجربہ بھی بدل کر رہ جاتا ہے۔ مگر بدقسمتی سے مسلم دنیا میں مغربی جمہوریت کو ’’انسانی ساختہ نظام‘‘ کے بجائے ’’الوہی نظام‘‘ اور ’’عارضی تاریخی تجربے‘‘ کے بجائے ’’دائمی تاریخی تجربہ‘‘ سمجھا جاتا ہے۔ یہ مسلم شعور کی پستی کی ایک مثال ہے۔ دیکھا جائے تو اس بحث کا علامہ اقبال سے بھی ایک تعلق ہے۔
اقبال نے اپنی شاعری میں جمہوریت کی بڑی شدت اور راسخ العقیدگی کے ساتھ مذمت کی ہے۔ انہوں نے فرمایا ہے:
جمہوریت اک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
٭٭٭
تُو نے کیا دیکھا نہیں یورپ کا جمہوری نظام
چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر
٭٭٭
دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب
تُو سمجھتا ہے کہ آزادی کی ہے نیلم پری
٭٭٭
گریز از طرزِ جمہوری غلام پختہ کارِ شُو
کہ از مغز دو صد خر فکر انسان نمی آید
ترجمہ: جمہوری طرز سے گریز کر، اور کسی پختہ کار کا غلام ہوجا۔ یاد رکھ دو سو گدھوں کے دماغوں کو ملانےسے بھی فکرِ انسانی پیدا نہیں ہوسکتی۔
اقبال کے آخری شعر تک آتے آتے مغربی جمہوریت کا جنازہ اُٹھ جاتا ہے۔ مگر اقبال نے اپنے خطبات میں ’’روحانی جمہوریت‘‘ کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ لیکن ’’روحانی جمہوریت‘‘ کی اصطلاح اتنی ہی بے معنی ہے جتنی بے معنی ’’اسلامی سوشلزم‘‘ کی اصطلاح تھی۔ اس لیے کہ جس طرح اسلام میں سوشلزم نہیں تھا اور سوشلزم میں اسلام نہیں تھا، اسی طرح روحانیت میں کوئی جمہوریت نہیں ہے، اور جمہوریت میں کوئی روحانیت نہیں ہے۔