استاد

نپولین نے کہا تھا: تم مجھے اچھی مائیں دو، میں تمہیں بہترین قوم دوں گا۔
ماں کی یہ اہمیت اس لیے ہے کہ انسانوں کا بچپن ماں کی گود میں بسر ہوتا ہے، اور انسان کا بچپن جیسا ہوتا ہے اس کی باقی زندگی بھی ویسی ہی ہوتی ہے۔ لیکن بچپن صرف ایک ’’اجمال‘‘ ہے۔ صرف ایک ’’امکان‘‘ ہے۔ استاد کی اہمیت یہ ہے کہ وہ اس اجمال کو ’’تفصیل‘‘ فراہم کرتا ہے، اور امکان کو ’’حقیقت‘‘ بناتا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ماں بچپن کی ’’استاد‘‘ ہے، اور استاد ایسی ’’ماں‘‘ ہے جس کا اثر پوری زندگی پر پھیلا ہوا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ استاد کی اہمیت زندگی میں ماں سے بھی بڑھ جاتی ہے۔
غور کیا جائے تو نظام تعلیم کے چار ستون ہوتے ہیں:
(1) استاد (2) نصاب (3) زبان یا ذریعۂ تعلیم
(4) طالب علم
اس بندوبست میں استاد کی اہمیت بنیادی ہے۔ استاد اچھا ہو تو وہ برے نصاب کو بھی اس طرح پڑھا سکتا ہے کہ اس سے تعلیم کا بلند معیار برآمد ہو۔ اور اگر استاد اچھا نہ ہو تو وہ اعلیٰ درجے کے نصاب کو بھی معمولی بناسکتا ہے۔ ایک زمانے میں ایسے اساتذہ موجود تھے جو کہنے کو ایک مضمون پڑھاتے تھے، مگر ان کی معلومات اتنی وسیع اور ان کا علم اتنا ہمہ جہت ہوتا تھا کہ وہ ایک مضمون کی آڑ میں طلبہ کو کئی مضامین پڑھا ڈالتے تھے۔ لیکن اب یہ صورت حال ہوگئی ہے کہ اکثر اساتذہ ایک مضمون کی تدریس کے تقاضے بھی پورے نہیں کرپاتے۔ کہنے کو ذریعہ تعلیم کا مسئلہ بہت اہم ہے لیکن تعلیمی نظام میں ہر زبان بنیادی طور پر استاد کی زبان بن جاتی ہے۔ یعنی استاد کی زبان کا سانچہ اچھا ہو تو تدریس کا عمل مؤثر ہوجاتا ہے اور طالب علموں کو بھی زبان کا ایسا پیرایہ میسر آتا ہے جس کی بنیاد پر علم و دانش کی بڑی عمارت تعمیر کی جاسکتی ہے۔ لیکن اگر استاد کی زبان کا سانچہ ہی اچھا نہ ہو تو نہ تدریس کا عمل مؤثر ہوتا ہے اور نہ طالب علموں میں زبان کی وہ استعداد پیدا ہوپاتی ہے جو تخلیقی عمل کے لیے ناگزیر ہوتی ہے۔ بلاشبہ طالب علموں کے تمام اچھے برے کی ذمے داری استاد پر نہیں ہوتی، لیکن کلاس میں طلبہ کی توجہ‘ دلچسپی‘ رغبت اور تدریس کے عمل میں شرکت کا بہت کچھ انحصار استاد پر ہوتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ استاد دراصل تعلیمی نظام کا مرکز ہے، مگر ہمارے معاشرے کا مسئلہ یہ ہے کہ اس نے نظام تعلیم کا ایسا تصور پیدا کرلیا ہے جس میں استاد کی اہمیت تمام چیزوں سے کم ہے۔ ہمارے معاشرے کے لیے اب سب سے اہم سوال انگریزی میڈیم یا اردو میڈیم کا ہے۔ کیمبرج سسٹم اور غیر کیمبرج سسٹم کا ہے۔ اس کے بعد لوگ اسکولوں‘ کالجوں اور یونیورسٹیوں کے ’’نام‘‘ دیکھتے ہیں۔ اس سلسلے میں عام خیال یہ ہے کہ جو تعلیمی ادارہ جتنا ’’مہنگا‘‘ ہے وہ اتنا ہی ’’اچھا‘‘ ہے۔
تعلیمی اداروں کے نام کے بعد لوگ تعلیمی اداروں کی عمارت اور وہاں فراہم کی گئی سہولتوں کو دیکھتے ہیں۔ اس کے بعد لوگوں کی نظر نصاب پر جاتی ہے۔ ان چیزوں پر توانائی صرف کرنے کے بعد اگر تھوڑی بہت توانائی بچ جاتی ہے تو لوگ ’’استاد‘‘ کو دیکھنے کی زحمت کرتے ہیں۔ اس صورت حال کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارا نظام تعلیم منہ کے بل گرا پڑا ہے اور اس سے ایسے طالب علم برآمد ہورہے ہیں جن کی زندگی اور ترجیحات کی فہرست میں یا تو علم کہیں موجود ہی نہیں، اور موجود ہے تو بہت نیچے۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ ایک اچھے استاد سے مراد کیا ہے؟
اس سوال کا جواب ایک فقرے میں دینا ہو تو کہا جائے گا کہ ایک اچھا استاد وہ ہے جو اپنی معلومات کو علم بنادے، اور علم کو عمل میں ڈھال کر طلبہ کے لیے نمونۂ عمل بن جائے۔ لیکن اس تعریف کا مفہوم کیا ہے؟
بلاشبہ صرف معلومات بھی طلبہ کو متاثر کرتی ہیں، مگر معلومات کی فراہمی اور ان پر اصرار اور انحصار سے صرف ’’رٹّو طوطے‘‘ پیدا ہوتے ہیں۔ صرف علم طلبہ کی تخلیقی صلاحیتوں کو بیدار اور متحرک کرتا ہے۔ چنانچہ ایک استاد کا فرض ہے کہ وہ معلومات کو علم میں ڈھالے۔ معلومات کو علم میں ڈھالنے کے دو معنی ہیں۔ ایک یہ کہ استاد طلبہ کی معلومات کو مربوط کرے اور ان کو ایک تناظر یا World View پیدا کرنا سکھائے۔ دوسرے یہ کہ وہ علم کو زندگی کی تعبیر کے لیے بروئے کار لائے۔ علم کو اللہ تعالیٰ نے یہ صلاحیت دی ہے کہ وہ دماغوں کو مسخر کرتا ہے۔ چنانچہ جس استاد کے پاس علم ہوتا ہے وہ طلبہ پر گہرے اثرات ڈالتا ہے۔ آج کل لوگ شکایت کرتے ہیں کہ طالب علم اساتذہ کی عزت نہیں کرتے۔ بلاشبہ اس کی ذمے داری طالب علموں اور ان کے والدین پر عائد ہوتی ہے، لیکن خود اساتذہ بھی اس صورت حال کے ذمے دار ہیں۔ اس مسئلے کی بنیادی بات یہ ہے کہ جیسے ہی طالب علم کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کے استاد اور خود اس کی علمی سطح میں زیادہ فرق نہیں ہے تو وہ استاد کی عزت کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ یہ خیال ہمیشہ شعور کی سطح پر نہیں ہوتا، لیکن اس کا اثر طالب علم پر مرتب ہوکر رہتا ہے۔ البتہ وہ استاد جس کی علمی سطح بلند ہوتی ہے، برے سے برا طالب علم بھی خود کو اس کی عزت پر ’’مجبور‘‘ پاتا ہے۔ لیکن طالب علموں کی قلب ماہیت کے لیے صرف علم کافی نہیں۔ طالب علم جب دیکھتے ہیں کہ استاد کے قول اور فعل میں تضاد ہے تو وہ اس کا ’’علمی اثر‘‘ ضرور قبول کرلیتے ہیں مگر ’’اخلاقی اثر‘‘ قبول نہیں کرتے، اور اخلاقی اثر کے بغیر شخصیتوں کی قلبِ ماہیت ممکن نہیں ہوتی۔ چنانچہ اساتذہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ خود کو طلبہ کے لیے ’’نمونۂ عمل‘‘ بنائیں۔ جب کوئی استاد علم اور عمل کا جامع بن جاتا ہے تو پھر وہ بجائے خود ایک چھوٹی سی تہذیب بن جاتا ہے۔ جیتی جاگتی تہذیب۔ پھر اس کے اثرات نسل در نسل منتقل ہوتے ہیں۔

Leave a Reply