احتساب کا عمل محدود ہے، اور احتساب کے عمل کا محدود ہونا بجائے خود کرپشن کی ایک شکل ہے
بدقسمتی سے فی زمانہ بدعنوانی یاکرپشن مال و دولت سے متعلق ہوکر رہ گئی ہے۔ لیکن اپنی اصل میں کرپشن روحانی، اخلاقی، نظریاتی، علمی، آئینی، تہذیبی، تاریخی، سیاسی، سماجی، ابلاغی، معاشی اور مالیاتی اصولوں سے انحراف یا ان کی پامالی کا دوسرا نام ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو پاکستان کے حکمرانوں کی تاریخ کرپشن کے دائمی موسمِ بہار کے سوا کچھ نہیں۔
پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا اور پاکستان کی تخلیق کی کسی اور توجیہ کے سلسلے میں کوئی ٹھوس دلیل دستیاب نہیں، لیکن پاکستان کے سیکولر اور لبرل حکمرانوں اور پاکستان کے سیکولر اور لبرل دانش وروں اور صحافیوں نے اس خیال کو عام کرنے کی ہر ممکن کوشش کی کہ پاکستان اسلام کے نام پر وجود پر نہیں آیا تھا۔ تحریکِ پاکستان کے تناظر میں یہ ایک مصنوعی بحث تھی اور اس کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا، مگر پروپیگنڈے کی طاقت کے زور پر سفید کو سیاہ بنانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی، اور پاکستان میں ہزاروں لوگ پروپیگنڈے کے زیراثر یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان واقعتاً اسلام کے نام پر وجود میں نہیں آیا تھا۔ پروپیگنڈے کا بنیادی اصول یہ ہے کہ جھوٹ کو اتنی مرتبہ دہرائو کہ وہ سچ نظر آنے لگے۔ غور کیا جائے تو یہ پاکستان میں نظریاتی، علمی اور تاریخی کرپشن کی سب سے بڑی واردات ہے۔ اس واردات کے ذریعے پاکستان کا ’’نسب‘‘ بدلنے کی ہولناک سازش کی گئی، اور یہ سازش ابھی تک جاری ہے۔ بدقسمتی سے یہ کرپشن نہ جرنیلوں کو نظر آتی ہے، نہ عدلیہ کو دکھائی دیتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خود جرنیلوں اور عدلیہ میں نظریاتی اعتبار سے کرپٹ لوگوں کی بڑی تعداد موجود رہی ہے۔ اس کا ایک ثبوت جنرل ایوب اور جنرل پرویزمشرف ہیں جنہوں نے پاکستان کو سیکولر، لبرل اور روشن خیال بنانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ اس کی دوسری مثال جسٹس منیر ہیں جنہوں نے اپنی کتاب میں یہ جھوٹ بولا کہ قائداعظم پاکستان کو سیکولر ریاست بنانا چاہتے تھے۔ انہوں نے اس سلسلے میں قائداعظم سے جو بیان منسوب کیا وہ کبھی قائداعظم نے دیا ہی نہیں تھا۔ اس نظریاتی اور علمی کرپشن کو سلینا کریم نے اپنی کتاب SECULAR JINNAH & Pakistan What The Nation Doesn’t know میں پوری طرح آشکار کردیا ہے۔ لیکن سیکولر اور لبرل عناصر ابھی تک نظریاتی اور علمی جھوٹ کو دہرائے چلے جارہے ہیں۔ یہ پروپیگنڈے کے زور پر سفید جھوٹ کو سچ کا باپ باور کرانے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں۔
جدید ریاستیں آئین کے حوالے سے پہچانی جاتی ہیں۔ آئین کسی قوم کی اجتماعی آرزوئوں، تمنائوں اور Ideals کا بیان ہوتا ہے۔ آئین سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی قوم کی ترجیحات اور اہداف کیا ہیں۔ بھارت پاکستان کے ساتھ آزاد ہوا تھا اور اُس نے دیکھتے ہی دیکھتے ایک آئین مرتب کرکے اپنی سمتِ سفر متعین کرنے میںکامیابی حاصل کرلی۔ مگر پاکستان کے حکمران طبقے نے 1947ء سے 1956ء تک ملک کو آئین ہی فراہم نہیں ہونے دیا۔ 1956ء میں ملک کو آئین فراہم ہوا تو 1958ء میں جنرل ایوب نے مارشل لا لگا کر 1956ء کے آئین کو معطل کردیا۔ 1962ء میں ملک کو نیا آئین فراہم ہوا مگر جنرل ایوب کی آمریت نے اس آئین کو بھی مؤثر نہ ہونے دیا۔ 1973ء میں ملک کو نیا آئین مہیا ہوا، مگر اس آئین کی روح بھی سلب ہی رہی۔ اس پر نہ جنرل ضیاء الحق اور نہ جنرل پرویزمشرف نے عمل کیا، نہ بھٹو، بے نظیر بھٹو اور میاں نوازشریف نے عمل کیا۔ جنرل ضیاء الحق صاف کہتے تھے کہ آئین کاغذ کے ٹکڑے کے سوا کیا ہے! جنرل پرویزمشرف نے ملک میں دو بار ایمرجنسی لگائی اور آئین کو رسوا کیا۔ جنرل پرویز کے لیے ان کے بوٹ اور سوٹ یا ان کی وردی ہی آئین تھی جسے وہ اپنی کھال کہا کرتے تھے۔ 1973ء کا آئین کہتا ہے کہ ملک میں قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بن سکتا۔ مگر ہماری پوری ریاستی اور معاشرتی زندگی اسلام کے دائرے سے باہر ہوئی جارہی ہے اور یہ قرآن و سنت کے منافی صورت ِ حال ہے۔ مگر یہ سنگین صورت ِ حال نہ اسٹیبلشمنٹ کا مسئلہ ہے، نہ عدلیہ کا۔ اس نظریاتی اور آئینی کرپشن کا نوٹس نہ عدلیہ لیتی ہے نہ ذرائع ابلاغ۔ یہاں تک کہ علماء بھی اس صورت حال سے بے نیاز کھڑے ہیں اور زبانِ حال سے کہہ رہے ہیں کہ ہم اس ملک میں اجنبی ہیں۔ ہمیں کیا معلوم کہ اس ملک میں کیا ہونا چاہیے اور کیا نہیں ہونا چاہیے؟ ملک کا آئین آزادیٔ اظہار کی اجازت دیتا ہے، مگر آزادیٔ اظہار نہ اسٹیبلشمنٹ کو مطلوب ہے، نہ سیاسی حکمرانوں کو۔ یہاں تک کہ میڈیا ٹائی کونز اور صحافیوں کو بھی ’’Selected آزادی‘‘ درکار ہے۔ یہ نظریاتی کرپشن بھی ہے اور علمی و ابلاغی کرپشن بھی۔
پاکستان عوامی جدوجہد کا حاصل تھا اور پاکستان کی تخلیق یا اس کی تحریک کے سلسلے میں جرنیلوں یا فوج کا کوئی بھی کردار نہیں تھا۔ مگر جرنیل پاکستان کے خالق و مالک بن کر بیٹھ گئے ہیں۔ جنرل ایوب نے مارشل لا 1958ء میں لگایا مگر امریکہ کی چند سال پہلے سامنے آنے والی خفیہ دستاویزات سے یہ حقیقت آشکار ہوئی ہے کہ جنرل ایوب 1954ء سے امریکیوں کے ساتھ رابطے میں تھے۔ وہ امریکیوں کو بتا رہے تھے کہ سیاست دان پاکستان کو تباہ کررہے ہیں اور فوج انہیں ہرگز ایسا نہیں کرنے دے گی۔ سوال یہ ہے کہ جنرل ایوب کو اگر واقعتاً ملک عزیز ہوگیا تھا تو وہ امریکیوں کے ساتھ سازباز کیوں کررہے تھے؟ جنرل ایوب کو مارشل لا لگانا تھا تو مارشل لا لگا دیتے، اور اس بات کی پروا نہ کرتے کہ امریکہ کو مارشل لا پسند آئے گا یا نہیں۔ مگر وہ امریکیوں کے ساتھ سازباز کرتے رہے۔ اس سے ثابت ہوگیا کہ اُن کا مسئلہ ملک نہیں تھا، ذاتی یا طبقاتی اقتدار کی خواہش تھی۔ جنرل ایوب نے سیاسی عدم استحکام کا الزام لگاکر مارشل لا مسلط کیا تھا، مگر جب وہ رخصت ہوئے تو ملک میں پہلے سے زیادہ عدم استحکام تھا۔ اس سے بھی اہم بات یہ کہ سیاست دان تو ملک کو عدم استحکام ہی سے دوچار کررہے ہوں گے، مگر جرنیلوں کے طبقے کے ایک فرد جنرل یحییٰ نے تو 1971ء میں ملک ہی توڑ دیا۔ یہ سیاسی کرپشن کی انتہا تھی۔ 1971ء میں جرنیلوں نے نہ صرف یہ کہ آدھا ملک گنوا دیا بلکہ بھارت جیسے دشمن کے سامنے ہتھیار بھی ڈال دیے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہمارے جرنیلوں کو نہ ملک چلانا آتا ہے، نہ جنگ لڑنی آتی ہے۔ اصولاً 1971ء کے بعد ملک میں کوئی مارشل لا نہیں آنا چاہیے تھا، مگر 1977ء میں جنرل ضیاء الحق اور 1999ء میں جنرل پرویزمشرف آدھمکے۔ بدقسمتی سے یہ دونوں تجربے بھی کامیاب نہ ہوئے۔ فوجی حکمران کامیاب ہوجاتے تو کوئی عقل مند پاکستانی سیاسی رہنمائوں اور سیاسی جماعتوں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھتا۔ تجزیہ کیا جائے تو ہر مارشل لا سیاسی اور جمہوری کرپشن کی ایک مثال ہے۔
جرنیلوں کو سیاسی جماعتوں سے چڑ ہے۔ جنرل ایوب نے سیاسی جماعتوں پر پابندی لگائی مگر پھر خود کنونشن لیگ بناکر بیٹھ گئے۔ جنرل یحییٰ آخری وقت تک شخصی اقتدار کے لیے شیخ مجیب اور بھٹو کے ساتھ سازباز کرتے رہے۔ جنرل ضیاء الحق نے سیاسی جماعتوں کو کالعدم قرار دیا اور غیر جماعتی انتخابات کرائے، مگر پھر انہوں نے جونیجو لیگ قائم کردی۔ اسی کے تسلسل میں نواز لیگ وجود میں آئی۔ جنرل پرویز کو بھی سیاسی جماعتوں سے چڑ تھی، مگر انہوں نے مسلم لیگ ق کا تجربہ کیا۔ ایم کیو ایم بھی اسٹیبلشمنٹ کی پارٹی رہی ہے، اور اِن دنوں ملک میں ’’عمران لیگ‘‘ کا تجربہ ہورہا ہے۔ یہ سب کچھ بھی سیاسی اور جمہوری کرپشن کی مثال ہے۔ اس پر طرہ یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے نمائندے ملک کی ہر جماعت میں تشریف فرما نظر آتے ہیں۔ اس صورتِ حال میں نہ کوئی اصول ہے، نہ ضابطہ… نہ کوئی سیاست ہے، نہ کوئی جمہوریت… نہ کوئی تہذیب ہے، نہ وقار۔
دنیا بھر میں سیاسی رہنما سیاسی عمل اور سیاسی ارتقاء کا حاصل ہوتے ہیں، مگر پاکستان میں متعدد اہم رہنما اسٹیبلشمنٹ کے ٹیسٹ ٹیوب بے بی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو، میاں نوازشریف، محمد خان جونیجو، الطاف حسین اور عمران خان اس کی بہت بڑی بڑی مثالیں ہیں۔ چھوٹی چھوٹی مثالیں سینکڑوں ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر فوجی آمر نے ایک نئی جماعت اور ایک نئی سیاسی کلاس پیدا کرنے کی کوشش کی۔ علمی تناظر میں دیکھا جائے تو یہ عمل کسی قوم کے سیاسی ارتقاء کو سبوتاژ کرنے کی ایک کوشش ہے۔ انسانوں کا فطری سیاسی ارتقا کیا ہوتا ہے اس کی ایک مثال خود قائداعظم ہیں۔ وہ ایک زمانے میں کانگریس میں تھے اور مسلم لیگ میں ان کے لیے کوئی کشش نہ تھی۔ مگر مذہبی، تہذیبی اور تاریخی تقاضوں نے ان کی سیاسی فکر کو بدل ڈالا۔ اس عمل نے محمد علی جناح کو قائداعظم بنادیا۔ مگر ہمارے یہاں ذرا سی صلاحیت رکھنے والا بالآخر جرنیل مرکز یا Establishment Centric ہو جاتا ہے۔ یہ ایک اعتبار سے قومی شعور کا اغوا ہے۔ یہ قومی شعور کو ’’طاقت پرست‘‘ بنانے کی شعوری کوشش ہے۔
پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتیں سیاسی اور جمہوری بدعنوانی کی چلتی پھرتی دکانیں ہیں۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اصولی اعتبار سے سیاسی جماعت ایک اصول، ایک تناظر اور ایک وژن کا نام ہے۔ مثلاً کانگریس ایک قوم پرست جماعت تھی۔ اس کے برعکس مسلم لیگ اپنی اصل میں مسلم مرکز تھی۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا سوشلزم کو ایک اصول اور ایک تناظر خیال کرتی تھی۔ امریکہ میں ری پبلکن پارٹی پر دائیں بازو کے خیالات کا غلبہ ہے۔ اس کے برعکس ڈیموکریٹک پارٹی بائیں بازو کے خیالات کی حامل ہے۔ مگر پاکستان میں سیاسی جماعتوں کی اکثریت خاندانوں اور شخصیات کے گرد طواف کرتی ہے۔ پیپلزپارٹی پہلے دن سے بھٹو خاندان کی جاگیر ہے۔ نواز لیگ شریف خاندان کی ملکیت ہے۔ اے این پی ولی خان کے خاندان کا اثاثہ ہے۔ ایم کیو ایم الطاف حسین کی لمیٹڈ کمپنی ہے۔ جے یو آئی کا بھی ایک شخصی اور خاندانی دائرہ ہے۔ اسلام کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ ساری جماعتیں ملوکیت کی ترجمان ہیں۔ جمہوری اور سیاسی اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ جماعتیں سیاسی اور جمہوری اصولوں کی تخریب پر کھڑی ہیں۔ غور کیا جائے تو یہ بھی ایک طرح کی سیاسی اور جمہوری کرپشن ہے۔ پاکستان میں صرف جماعت اسلامی ایک ایسی جماعت ہے جو خیال یا Idea پر کھڑی ہے۔ جو سیاسی بھی ہے اور جمہوری بھی۔ جو غیر شخصی بھی ہے اور غیر خاندانی بھی۔ جو فرقے سے بھی بلند ہے اور مسلک سے بھی۔ جو صوبائی تعصب سے بھی بالا ہے اور لسانی تعصب سے بھی پاک ہے۔ تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں ’’عوامی جماعت‘‘ ہونے کے لیے کسی نہ کسی طرح کی کرپشن میں ملوث ہونا ضروری ہے؟ یہ سوال بلا سبب نہیں اٹھایا گیا۔ سلیم احمد کا شعر ہے ؎
مجھ کو قدروں کے بدلنے سے یہ ہو گا فائدہ
میرے جتنے عیب ہیں سارے ہنر ہو جائیں گے
اصول ہے جب معاشرے کی قدریں بدل جاتی ہیں تو عیب ہنر بن جاتا ہے، اور ہنر عیب۔ صحت بیماری کہلانے لگتی ہے اور بیماری صحت کے طور پر مشہور ہوجاتی ہے۔ حلال مگر تھوڑا لوگوں کو شرمندہ کرنے لگتا ہے، اور حرام مگر زیادہ لوگوں کی تکریم کا سبب ہوجاتا ہے۔
معاشرے میں بہت کم لوگوں کو اس بات کا شعور ہے کہ مالی کرپشن خلا سے نمودار نہیں ہوئی۔ ہماری روحانی، اخلاقی، نظریاتی اور علمی زندگی کی تباہی نے ہی مالی کرپشن کی راہ ہموار کی ہے۔ خواجہ ناظم الدین قائداعظم کے ساتھی، تحریک پاکستان کے رہنما، شریف النفس اور بے حد ایمان دار وزیراعظم تھے، مگر اُن کی وزارتِ عظمیٰ میں خدا جانے واقعتاً کچھ اشیائے ضرورت کی قلت ہوگئی تھی یا قلت پیدا کردی گئی تھی، مگر ہوا یہ کہ اتنی چھوٹی سی بات پر طوفان کھڑا کردیا گیا۔ یہاں تک کہ روزنامہ نوائے وقت جیسے اخبار نے اپنے اداریے میں خواجہ ناظم الدین کو ’’قائدِ قلّت‘‘ کا خطاب دیتے ہوئے اُن کی برطرفی کا مطالبہ کیا۔ ہماری گناہ گار آنکھوں نے نوائے وقت کا یہ اداریہ خود پڑھا ہے۔ اتفاق سے نوائے وقت کا یہ اداریہ نوائے وقت کے منتخب اداریوں کے مجموعے میں موجود ہے۔ نوائے وقت کے اداریہ نویس کی اخلاقیات مضبوط ہوتی تو وہ چند اشیائے صرف کی قلت پر احتجاج اور تنقید کرتا مگر اس کی بنیاد پر ایک فرشتہ صفت وزیراعظم کو ’’قائدِقلّت‘‘ نہ کہتا، اور نہ ہی اس کی برطرفی کا مطالبہ کرتا۔ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جب نوائے وقت کے نزدیک شرافت اور دیانت ’’عیب‘‘ تھی تو ہمارے اجتماعی ذہن میں کیسی کیسی خواہشیں مچل رہی ہوں گی۔ اصول ہے کہ شرافت اور دیانت قوموں کو انعام کے طور پر دی جاتی ہیں۔ معاشرہ ان کی قدر نہیں کرتا تو انعام واپس لے لیا جاتا ہے۔ ذرا اندازہ تو کیجیے ہماری تاریخ میں کیا ہوا۔ شہیدِ ملّت لیاقت علی خان قائداعظم کے بعد سب سے اہل، سب سے ایمان دار اور سب سے شریف انسان اور رہنما تھے۔ وہ قتل کردیے گئے اور آج تک معلوم ہی نہیں ہوسکا کہ انہیں کس نے قتل کرایا؟ خواجہ ناظم الدین جیسا شریف النفس اور ایمان دار شخص ’’قائدِ قلّت‘‘ قرار پایا، اس کی برطرفی کا مطالبہ ہوا اور بدقسمتی سے وہ برطرف بھی ہوگئے۔ قائداعظم کی بہن اور مادرِ ملّت فاطمہ جناح نے جنرل ایوب کے مقابلے پر صدارتی انتخاب لڑا اور انہیں ہرا دیا گیا۔ جس ذہنی، نفسیاتی اور اخلاقی سانچے نے لیاقت علی خان کو قتل کیا، جس ذہنی، نفسیاتی اور اخلاقی سانچے نے خواجہ ناظم الدین جیسے شریف النفس اور ایمان دار شخص کو قائدِ قلّت قرار دیا اور انہیں برطرف کیا، جس ذہنی، نفسیاتی اور اخلاقی سانچے نے مادرِ ملّت فاطمہ جناح کو انتخابات میں ہرایا وہ ذہنی، نفسیاتی اور اخلاقی سانچہ قائداعظم کو بھی انتخابات میں ہروا سکتا تھا۔
جب اسلام کے نام پر وجود میں آنے والے پاکستان کے ریاستی ڈھانچے یا Power Structure میں موجود عناصر نے اخلاقی فضیلت، دیانت اور امانت کی طرف پیٹھ کرلی تو دیکھتے ہی دیکھتے ایسے لوگ ہر طرف چھا گئے جن کی کوئی روحانی، اخلاقی، تہذیبی، علمی اور قومی بنیاد ہی نہ تھی۔ حمودالرحمن کمیشن کی رپورٹ کا جو حصہ شائع ہوگیا ہے اُس میں صاف لکھا ہوا ہے کہ جنرل ایوب اور جنرل یحییٰ کے مارشل لا نے فوجی اہلکاروں میں مال و زر اور زمین جائداد کی ہوس پیدا کردی تھی۔ اعلیٰ فوجی اہلکاروں میں شراب اور خواتین سے ناجائز جنسی تعلقات کا مرض پھیل گیا تھا۔ جنرل نیازی ان چیزوں کے علاوہ پان کی اسمگلنگ میں بھی ملوث تھا۔ سقوطِ ڈھاکہ کے وقت آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل بریگیڈئیر ایس آر صدیقی تھے۔ انہوں نے چند سال قبل جیو کے پروگرام ’جواب دہ‘ میں انٹرویو دیتے ہوئے انکشاف کیا تھا کہ جنرل یحییٰ نے 1970ء کے انتخابات سے قبل مشرقی پاکستان کے اہم سیاسی رہنما مولانا بھاشانی کو دو کروڑ روپے بطور رشوت دینے کا فیصلہ کیا تھا اور اس سلسلے میں مولانا بھاشانی سے بات چیت ہوچکی تھی۔ خیال یہ تھا کہ مولانا بھاشانی مشرقی پاکستان کے دیہی علاقوں میں مقبول تھے۔ چنانچہ اگر وہ شیخ مجیب کی عوامی لیگ کے مقابلے پر اپنے امیدوار کھڑے کریں گے تو شیخ مجیب کو اکثریت حاصل نہیں ہوسکے گی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے جرنیلوں نے سیاست دانوں کو 1970ء ہی میں مالی کرپشن کی چاٹ لگا دی تھی۔ جنرل ضیاء الحق کے زمانے تک آتے آتے صورتِ حال یہ ہوگئی تھی کہ جنرل ضیاء الحق نے سیاسی بنیادوں پر تقریباً دو سو ارب روپے کے قرضے معاف کیے تھے۔ جنرل پرویزمشرف کے زمانے میں بھی اربوں روپے کے قرضے معاف کیے گئے۔ شریف خاندان جنرل ضیاء الحق کے دور میں سیاست میں آیا اور جنرل جیلانی اور جنرل ضیاء کی مہربانی سے پھلا پھولا۔ بعدازاں شریف خاندان اتنا طاقت ور ہوا کہ وہ خود جرنیلوں، سیاست دانوں اور صحافیوں کو خریدنے کے قابل ہوگیا۔ نتیجہ یہ کہ کرپشن پورے قومی جسم میں پھیل گئی۔ میاں نوازشریف نے اس حوالے سے صحافت کو تو کوٹھے سے بھی بدتر بنادیا۔ طوائفوں میں بہت سی ایسی ہوتی ہیں جو جسم بیچتی ہیں، روح نہیں بیچتیں۔ مگر جو شخص لفظ فروخت کرتا ہے، ضمیر فروخت کرتا ہے، رائے فروخت کرتا ہے، علم فروخت کرتا ہے وہ اپنی روح بھی فروخت کردیتا ہے۔ ایسا شخص طوائف سے بدترہے۔ بدقسمتی سے دائیں اور بائیں بازو کے بہت سے صحافی، بہت سے لکھنے والے ایسے ہی لوگ ہیں۔ جنرل حمیدگل شکوہ کیا کرتے تھے کہ ہم نے جن صحافیوں کو نظریاتی جنگ لڑنے کے لیے تیار کیا تھا انہیں نوازشریف لے اڑا۔ خیر یہاں کہنے کی اصل بات یہ تھی کہ سیاست دانوں کو مالی کرپشن کی چاٹ بھی اسٹیبلشمنٹ نے لگائی، صحافیوں کو بھی یہ مرض ابتداً اسٹیبلشمنٹ نے لگایا۔ نوازشریف نے چونکہ خود کو اسٹیبلشمنٹ سے بہتر خریدار ثابت کیا اس لیے وہ جنرل حمیدگل کی محنت کو بھی اغوا کرنے میں کامیاب رہے۔
ایک زمانہ تھا کہ بے نظیر بھٹو میاں نوازشریف کی ’’چمک‘‘ کا تذکرہ کیا کرتی تھیں، مگر اُن کے شوہر آصف علی زرداری نے چمک میں ’’دمک‘‘ شامل کرکے اسے ’’چمک دمک‘‘ بنادیا۔ وہ عرصے تک اس حوالے سے جیل میں رہے مگر ان کے خلاف کچھ ثابت نہ کیا جاسکا۔ چنانچہ ملک کے کرپٹ ترین شخص نے مجید نظامی سے ’’مردِ حُر‘‘ کا خطاب حاصل کیا۔ اب ایک بار پھر زرداری اور اُن کا خاندان کرپشن کے الزامات کی زد میں ہے۔ اِس بار مالی کرپشن کے الزامات کا دائرہ ماضی کے مقابلے میں زیادہ وسیع ہے۔ آصف علی زرداری ’’مردِ حُر‘‘ ہیں تو میاں نوازشریف ’’مردِ پُھر‘‘ ہیں۔ اس لیے کہ وہ آسانی کے ساتھ ملک سے ’’ اُڑا ‘‘کر سعودی عرب چلے جاتے ہیں۔ دیکھنا ہے کہ اِس بار مردِ حُر اور مردِ پُھر کا کیا بنتا ہے۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ احتساب کا عمل محدود ہے، اور احتساب کے عمل کا محدود ہونا بجائے خود کرپشن کی ایک شکل ہے۔
بلاشبہ شریفوں اور زرداریوں کا احتساب ہونا چاہیے، مگر سب سے طاقت ور جرنیل ہیں، اُن کا بھی احتساب ہونا چاہیے۔ ہماری عدلیہ طاقت کا ایک اہم مرکز ہے، چنانچہ ججوں کا بھی احتساب ہونا چاہیے۔ عمران خان اور اُن کی جماعت آسمان سے آئے ہوئے لوگوں پر مشتمل نہیں، چنانچہ تحریک انصاف کے لوگوں کا بھی احتساب ہونا چاہیے۔ ہمارے میڈیا ٹائی کونز اور ملک کے دو سو اہم ترین صحافیوں کا احتساب ہونا چاہیے۔ اس احتساب کا اصول وہی ہونا چاہیے جس کا اطلاق شریفوں پر کیا گیا۔ یعنی یہ کہ کون شخص اپنے مالی وسائل سے زیادہ خرچ کرنے کا مرتکب ہورہا ہے۔ معاشرے کے ان تمام طبقات کا احتساب ہوگا تبھی مالی کرپشن کی روک تھام حقیقی معنوں میں ممکن ہوسکے گی۔
وطنِ عزیز میں احتساب کا قصہ عجیب ہے۔ جنرل پرویزمشرف نے اقتدار پر قبضے کے بعد پہلی پریس کانفرنس کی تو ایک سوال کے جواب میں انہوں نے فرمایا کہ احتساب سب کا ہوگا، جرنیلوں کا بھی، سیاست دانوں کا بھی، ججوں کا بھی اور صحافیوں کا بھی۔ یہ سن کر ہم حیران ہوئے اور خیال آیا کہ جنرل پرویزمشرف کیا مریخ سے آئے ہیں یا مریخ پر جانے والے ہیں؟ لیکن ہماری پریشانی تین ماہ ہی میں ختم ہوگئی۔ جنرل صاحب نے اعلان کردیا کہ جرنیلوں کے احتساب کی ضرورت ہی نہیں، کیونکہ فوج میں احتساب کا اپنا نظام موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم عدلیہ کا احتساب کریں گے تو لوگ کہیں گے کہ ہم عدلیہ کو دبائو میں لا رہے ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ ہم صحافیوں کا احتساب بھی نہیں کرسکتے، کیونکہ ہم ایسا کریں گے تو دنیا کہے گی کہ یہ آزادیٔ اظہار کا گلا گھونٹ رہے ہیں۔ باقی بچے سیاست دان، صنعت کار… تو اُن کے قرضے معاف کرکے جنرل صاحب نے انہیںخود کرپٹ بنایا۔ انہوں نے میاں نوازشریف کے ساتھ سمجھوتا کرکے انہیں اہلِ خانہ سمیت ملک سے فرار ہونے دیا۔ انہوں نے کرپٹ لوگوں سے معاملے کے لیے Plea Bargain کا اصول متعارف کرایا۔ اس اصول کے تحت کرپٹ شخص لوٹی ہوئی رقم کا ایک حصہ حکومت کو دینے پر آمادہ ہوجاتا ہے تو اُسے باعزت طریقے سے رہا کردیا جاتا ہے۔ اس اصول کے دو معنی ہیں، ایک یہ کہ ایک ارب کی بدعنوانی کرو اور 20 کروڑ دے کر چھوٹ جائو۔ اس اصول کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ کسی کو بھی چھوٹی بے ایمانی نہیں کرنی چاہیے۔ آپ کو بدعنوانی کرنی ہے تو بڑی کریں تاکہ Plea Bargain کرسکیں۔ چھوٹی لوٹ مار کریں گے تو ذلیل بھی ہوں گے اور برسوں جیل میں پڑے سڑتے رہیں گے۔ بدقسمتی سے یہ اصول اس وقت بھی موجود ہے۔ سنا ہے کہ میاں نوازشریف بھی اس اصول سے استفادے پر غور کررہے ہیں، مگر ان کے فرزند نہیں مان رہے۔
یہ حقیقت عیاں ہے کہ جو معاشرہ مالی کرپشن کو کرپشن سمجھتا ہو، لیکن اخلاقی کرپشن اور نظریاتی کرپشن کو کرپشن نہ سمجھتا ہو وہ مالی کرپشن سے بھی احسن طریقے سے عہدہ برآ نہیں ہوسکتا۔ اس لیے کہ مالی کرپشن کی جڑیں بھی اخلاقی کمزوریوں میں پیوست ہوتی ہیں۔ ہمارے معاشرے کی نظریاتی اور اخلاقی کرپشن کا یہ عالم ہے کہ قومی اسمبلی میں شراب پر پابندی کا بل آتا ہے تو تحریکِ انصاف، پیپلزپارٹی اور نواز لیگ تینوں اس بل کی مخالفت کرتی ہیں۔ توہینِ رسالتؐ کی مرتکب آسیہ ملعونہ کو رہا کیا جاتا ہے تو تحریک انصاف، نواز لیگ، پیپلزپارٹی، اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ ایک صفحے پر آجاتی ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پورا ریاستی اور سیاسی ڈھانچہ مذہب کو ’’طلاق‘‘ دینے اور غیر ضروری اور اضافی عنصر قرار دینے پر تلا ہوا ہے۔ بدقسمتی سے معاشرے کی خاموشی بتا رہی ہے کہ معاشرے کو بھی مذہب کے ساتھ ظلم پر کوئی پریشانی نہیں۔ یہ ہماری کھوکھلی روحانیت اور کھوکھلی مذہبیت کا ایک ثبوت ہے، اور کھوکھلی روحانیت اور کھوکھلی مذہبیت روحانی کرپشن کی ایک صورت ہے۔