انسان کے سامنے کبھی کبھی ایسی عظمت آکر کھڑی ہوجاتی ہے جس کو بیان کرنے کے لیے مبالغہ ضروری ہوجاتا ہے۔ مثال کے طور پر اردو کی شعری روایت میں میر کی عظمت کو بیان کرنے کے لیے انہیں ’’خدائے سخن‘‘ کہا گیا ہے۔ یہ مبالغہ ہے مگر ایسا مبالغہ جس کے بغیر میر کی عظمت کو بیان کرنا مشکل ہے۔ عبدالرحمن بجنوری نے کہا ہے کہ ہندوستان کی الہامی کتابیں دو ہیں۔ ایک ویہ اور دوسرا دیوان غالب۔ یہ بھی مبالغہ ہے مگر ایسا مبالغہ جس کے بغیر غالب کی شاعرانہ عظمت کو بیان کرنا دشوار ہے۔ اب آپ قائد اعظم کے بارے میں ان کے سوانح نگار اسٹینلے والپرٹ کی رائے ملاحظہ کیجئے۔ والیسرٹ نے کہا ہے
’’ایسے چند ہی لوگ ہیں جنہوں نے تاریخ کے دھارے کا رخ بدلا ہے۔ ایسے لوگ اور بھی کم ہیں جنہوں نے دنیا کے نقشے کو تبدیل کیا ہے۔ ایسا شاید ہی کوئی ہو جس نے قومی ریاست تخلیق کی ہو۔ محمد علی جناح نے یہ تینوں کام کیے ہیں۔‘‘
اسٹینلے والیسرٹ امریکی تھا اور امریکی اپنے سوا شاید ہی کسی کے بارے میں مبالغے سے کام لیتے ہوں مگر مسئلہ یہ ہے کہ والسیرٹ کے ان فقروں میں مبالغے کا ’’تاثر‘‘ تو موجود ہے مگر ان جملوں میں مبالغہ خود موجود نہیں۔ ان فقروں میں جو کچھ ہے ’’حقیقت‘‘ ہے لیکن قائد اعظم کی عظمت کو دیکھنے اور بیان کرنے کا محض ایک زاویہ ہے۔
تاریخ کا تجربہ بتاتا ہے کہ 99.99فیصد لوگ اپنی تعلیم و تربیت اور ماحول کے زیر اثر ہوتے ہیں۔ مذہبی لوگ ہمیشہ مذہبی رہتے ہیں۔ سیکولر لوگ ہمیشہ سیکولر شخصیت کو اپنی مادری زبان اور اس لسانی سانچے سے محبت ہوتی ہے جس کے توسط سے اس نے تعلیم حاصل کی ہوتی ہے۔ ہر شخصیت کو اپنی اولاد سے محبت ہوتی ہے اور اولاد کیسا ہی جرم کرلے انسان اسے معاف کردیتا ہے۔ عظیم انسان وہ ہوتا ہے جو حق کو پہچان لیتا ہے۔ اس کی آواز پر لبیک کہتا ہے اور اپنی تعلیم و تربیت، اپنے ماحول اور اپنی محبت سے بلند ہوجاتا ہے۔ قائد اعظم ایک ایسے ہی انسان تھے مگر یہ بھی ان کی عظمت کا صرف ایک پہلو ہے۔
بیسویں صدی کے سب سے بڑے مورخ ٹوائن … نے کہیں لکھا ہے کہ چیلنج کے ساتھ انسان کے تعلق کی دو ہی صورتیں ہیں۔ کچھ لوگ چیلنج کو اپنے لیے بوجھ بنالیتے ہیں اور اس کے نیچے دب کر رہ جاتے ہیں، اس کے برعکس کچھ لوگ چیلنج کو اپنے لیے قوت محرکہ یا Motivational force بنالیتے ہیں۔ قائد اعظم کا قصہ یہ ہے کہ ان کے سامنے اتنا بڑا چیلنج آیا کہ ابو الکلام آزاد جیسی شخصیت کو بھی پچک کر رہ گئی مگر قائد اعظم نے اس چیلنج سے آنکھیں چار کیں۔ اسے قبول کیا اور اسے اپنی قوت محرکہ میں ڈھالا اور اس کے ذریعے عہد حاضر میں دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست تخلیق کی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو نہرو اور گاندھی قائد اعظم کے سامنے بونوں کی طرح نظر آتے ہیں۔ مگر قائد اعظم کی عظمت کا بیان تفصیل چاہتا ہے۔
ساری دنیا جانتی ہے کہ قائد اعظم کی تعلیم و تربیت میں مذہب بہت بڑے اور بنیادی عنصر کی حیثیت نہیں رکھتا تھا۔ وہ نہ کسی مدرسے کے فارغ التحصیل تھے نہ ان کے والدین اور اساتذہ میں کوئی ایسا تھا جو ان کے شعور کی سرزمین کو مذہب کے حیات بخش پانی سے سیراب کررہا ہو۔ قائد اعظم نہ عربی سے آگاہ تھے نہ فارسی سے اور نہ ہی انہوں نے اردو پڑھی ہوئی تھی کہ وہ مذہبی لٹریچر سے استفادہ کرتے۔ قائد اعظم کے زمانہ تک اسلامی تعلیمی کا بہت کم حصہ انگریزی میں ترجمہ ہوا تھا چنانچہ انگریز کے توسط سے بھی کوئی شخصیت اسلام کے حوالے سے وسیع المطالعہ نہیں ہوسکتا تھا۔ اس کے باوجود قائد اعظم اسلام اور مسلمانوں پر کلام کرتے تھے تو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اس شخص نے اسلام، اسلامی تہذیب اور اسلامی تاریخ کی پوری روح کو اپنے اندر جذب کیا ہوا ہے۔ مثلاً قائد اعظم کی تقریر کا یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیے۔
“What is in that keeps the Muslims united as one man, and what is the bedrock and sheet-anchor of the community. It is Islam. It is the Great Book, Quran, that is the sheet-anchor of Muslim Indian. I am sure that as we go on and on there will be more and more of oneness–one God, one Book, one Prophet and one Nation”
(Councluding Speech at the session of the All-Indian Muslim League. Karachi, 26 December, 1943)
ترجمہ: مسلمانوں کو کیا چیز متحد رکھتی ہے اور مسلم کمیونٹی کا اصل اصول کیا ہے؟ یہ اسلام ہے، یہ عظیم کتاب قرآن ہے۔ یہی برصغیر کے مسلمانوں کی اصل ہے اور یہی ان کی حفاظت کی ضامنت ہے۔ میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ جیسے جیسے ہم آگے بڑھتے جاتے ہیں مسلمانوں کی یکجائی اور یکتائی نمایاں ہوتی چلی جاتی ہے۔ (یعنی) ایک خدا، ایک کتاب، ایک رسولؐ اور ایک قوم‘‘
ایک خدا، ایک کتاب، ایک رسول اور قوم کا تصور عہد حاضر کے بنانیے کے مطابق ’’اسلامسٹوں‘‘ کا نعرہ ہے۔ اقبال 20ویں صدی کے دومیں سے ایک بڑے ’’اسلامسٹ‘‘ تھے۔ ذرا ان کے دو شعر ملاحظہ کیجئے۔ فرماتے ہیں ؎
منفعت ایک ہے اسی قوم کی نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی دین بھی ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
اقبال ایک مفکر تھے۔ وہ عربی، فارسی اور اردو کے ماہر تھے۔ ان تینوں زبانوں کا مذہبی علم انہوں نے گھول کر پیا ہوا تھا مگر مسلمانوں کا اصل اصول اقبال اور قائد اعظم دونوں کے یہاں ایک ہی طرح بیان ہوا ہے۔ فرق یہ ہے کہ قائد اعظم کا بیان انگریزی میں جاری ہوا ہے اور اقبال کا بیان اردو کا پیرہن زیب تن کیے ہوئے ہے۔
یہاں ہمیں قائد اعظم کا وہ ’’پیغام عہد’’ یاد آرہا ہے جو انہوں نے ستمبر 1945میں جاری کیا۔ قائد اعظم نے اسی پیغام میں فرمایا۔
” Every Mussalman knows thaht the injunctions of the Quran are not confined to religious moral duties. “Frome the Atlantic to the Ganges”, says Gibbon, “the Quran is acknowledged as the fundamental code, not only of thelogy, but of civil and criminal jurishprudence, and the laws wich regulate the actions and the property of mankind are governed by the immutable sanctions of the will of God” Everyone, expect those who are ignorant, knows the Quran is the general code of the Muslims. A religious, social, civil, commercial, military, judicial, criminal, penal code, it regulates everything from the salvation of the soul to the health of the body; from the rights of all to those of each individual; from morality to crime, fromt punishment here to that in the life to come, and our Prophet has enjoined on us that every Musalman should possess a copy of the Quran and be his own priest. Therefore, Islam is not merely confined to the spiritual tenets and doctrines or rituals and ceremonies. It is a complete code regulating the whole Muslim society, every department of life, collectively and individually.”
لیجئے اس پیغام میں تو قائد اعظم نے اسلام کو ایک ’’ضابطۂ حیات‘‘ ہی قرار دے دیا ہے، اور فرمایا ہے کہ اسلام صرف عقاید، عبادات اور رسومات تک محدود نہیں بلکہ قانون ہو یا دائرہ انصاف ہو، تجارت ہو، سماجی زندگی ہو، عسکری معاملات، انفرادی زندگی ہو یا اجتماعی زندگی ہر جگہ اسلام کی بالادستی ہوگی۔ اس لیے کہ اسلام ایک ضابطۂ حیات ہے۔ یہ وہی اصطلاح ہے جس کے حوالے سے مفکر اسلام سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ معروف ہیں۔ آخر مولانا کی تمام کتب بالخصوص ان کی تصنیف قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں … کی آئینی حیثیت، دینیات اور تفہیم القران پڑھ کر کوئی اس کے سوا کیا کہے گا جو قائد اعظم کے مذکورہ بالا دونوں اقتباسات میں کہا گیا ہے۔ البتہ مولانا نے مسلمانوں سے یہ بھی فرمایا ہے کہ قرآن کی دعوت لے کر اٹھو اور پوری دنیا پر چھا جائو۔ قائد اعظم زندہ رہتے تو شاید یہ بھی کہہ دیتے۔
آپ یہ نہ سمجھئے گا کہ قائد اعظم اسلام کے ضابطۂ حیات ہونے کی بت صرف ایک بر کرکے رہ گئے۔ ایسا نہیں ہے، انہوں نے 12ربیع الاوّل کے موقع پر ایک تقریر میں بھی یہی بات مختلف پیرائے میں کہی۔
“The Prophet was a great teacher. He was a great Law-giver. He was a great statesman and he was a great soverign who ruled. No doubt, there are many people who do not quite appreciate shen we talk of Islam. Islam is not only a set of rituals, traditions and spiritual doctrines. Islam is also a code for every Muslim which regualtes his life and his conduct even in politics and economics and the like. It is based on the highest principles of honour, integrity, fair-play and justice for all. One God and the equality of manhood is one of the fundamental principles of Islam. In Islam there is no difference between man and man. The qualities of equality, Liberty and fraternity are the fundamental principels of Islam.
ترجمہ: رسول اکرمؐ ایک عظیم معلم تھے۔ ایک عظیم قانون دینے والے تھے۔ آپؐ ایک عظیم سیاست دان اور حاکم بھی تھے۔ بلا شبہ بعض لوگوں کو اسلام کے بارے میں گفتگو پسند نہیں آتی۔ اسلام صرف روایات وو رسوم یا روحانی عقاید کا مجموعہ نہیں۔ اسلام ایک ضابطۂ حیات ہے جو سیاست اور معاشیات میں بھی انسان کو ضوابط یا رہنمائی مہیا کرتا ہے۔ اسلام سب کے لیے عزت و وقات اور انصاف کو پسند کرتا ہے۔ توحید اور مساوات انسانی اسلام کی بنیادی اصول ہیں۔ اسلام میں انسان اور انسان کے درمیان کوئی فرق نہیں۔ مساوات، آزادی اور بھائی چارہ اسلام کی بنیادی خصوصیات ہیں۔
(قائد اعظم کاکراچی بار سے خطاب،25جنوری 1948)
اپنی زندگی کے ابتدائی حصے میں قائد اعظم کانگریس کے رہنما اور ہندو مسلم اتحاد کے سب سے بڑے سفیر تھے۔ گاندھی بیرسٹر بن کر جنوبی افریقہ سے بھارت لوٹے تو ممبئی میں ان کے اعزاز میں جو تقریب منعقد ہوئی قائد اعظم اس کی صدارت کررہے تھے۔ یہ زمانہ سیاسی نظریات اور سیاسی وفاداریوں کے بدلنے کا زمانہ نہیں تھا مگر قائد اعظم نے ایک بار پھر اپنی تعلیم و تربیتی اور ماحول سے بلند ہوکر سوچا۔ انہوں نے اپنے مذہب، اپنی تہذیب اور اپنی تاریخ کی بنیاد پر ’’ایک قومی نظریے۔‘‘ کو ترک کردیا اور ’’دو قومی نظریے‘‘ کو اختیار کیا۔ انہوں نے ملک کی سب سے بڑی، سب سے مقبول اور روشن مستقبل کی حامل کانگریس چھوڑ دی اور مسلم لیگ کو اختیر کرلیا۔ اس مسلم لیگ کو جو بھارت کی ایک اقلیت کی جماعت تھی۔ جو منظم تھی نہ مقبول اور بظاہر اس کا کوئی سیاسی مستقبل بھی نہیں تھا۔ یہ معمولی بات نہیں تھی۔ قائد اعظم کا مسئلہ اگر ’’دنیا‘‘ ہوتی تو وہ کبھی کانگریس کو ترک نہ کرتے۔ قائد اعظم کا مسئلہ ان کا جداگانہ مذہبی تشخص، جداگانہ تہذیبی تشخص اور جداگانہ تاریخی تشخص تھا۔ اس تشخص میں ایک معجزہ خلقی طور پر موجود ہے۔ قائد اعظم نے اس تشخص کو اختیار کیا تو وہ دیکھتے ہی دیکھتے محمد علی جناح سے ’’قائد اعظم‘‘ بن گئے۔ روحانی، اخلاقی اور ذہنی ارتقا ایسا ہی ہوتا ہے۔ قائد اعظم کے ارتقا کی یہ بات مذاق نہیں۔ کسی نے ایک بار قائد اعظم کو یاد دلایا تھا کہ آپ کبھی کانگریس میں تھے اس کے جواب میں قائد اعظم نے فرمایا کہ جی ہاں میں کبھی اسکول میں بھای تھا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو قائد اعظم نے ’’ایک قومی نظریے کو اسکول سے ’’دو قومی نظریے کو یونیورسٹی‘‘ تک کا سفر کہا تھا اور اس سفر میں ان کے عقاید اور ان کے ایقان یا
Conviction کے سوا کوئی ان کا مددگار نہیں تھا۔ مسلم لیگ تک نہیں۔ قائداعظم کے ایمان اور ایقان نے انہیں حقیقی معنوں میں ’’یک رکنی فوج‘‘ یا One Man Army بنا دیا تھا۔ اس فوج نے ہر مشکل، ہر پریشانی، ہر رکاوٹ اور ہر دشمن کو ختم کر کے دکھا دیا۔ وقت کے دشمن کو بھی۔
قائداعظم کے وقت کا جبر یہ تھا کہ ان کے زمانے میں قومیں ’’اوطان‘‘ سے اپنی تعریف متعین کر رہی تھیں یا وطن کے تصور سے Define ہو رہی تھیں۔ وطن کی تعریف کے سلسلے میں نسل، جغرافیہ اور زبان بنیادی اہمیت کے حامل تھے۔ یہ مسئلہ اتنا سنگین تھا کے ’’امام ہند‘‘ کہلانے والے مولانا حسین احمد مدنی تک نے فرما دیا تھا کہ قومیں اوطان سے بنتی ہیں۔ اس کا جواب اقبال نے بھی دیا اور مولانا مودودی نے بھی مگر جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں اقبال اور مولانا تو مفکر تھے مگر مفکر نہ ہونے کے باوجود قائداعظم نے بھی یہی کہا کے قومیں وطن یا اوطان سے نہیں مذہب یا نطریے سے بنتی ہیں۔ اس زمانے میں اتفاق سے قوم کو Define کرنے والا ایک ’’نظریہ‘‘ بھی موجود تھا۔ یہ نظریہ تھا سوشلزم اور اس نظریے کی رو سے ساری دنیا کے محنت کش یا سوشلسٹ ایک قوم ایک امت تھے۔ اہم بات یہ ہے کہ قائداعظم کے زمانے میں سوشلزم صرف نظریہ نہیں تھا۔ اس نظریے نے آدھی دنیا فتح کر لی تھی اور اس کی فتوحات کی کشش نے سوشلزم کو وقت کا ’’فیشن‘‘ بنا دیا تھا۔ ’’نظریاتی فیشن‘‘ مگر قائداعظم نے اس جدید ترین نظریاتی فیشن کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا۔ انہوں نے دیکھا تو 1300 سال ’’پرانے‘‘ اسلام کی طرف۔ انہوں نے دیکھا تو اپنی ’’قدیم تہذیب‘‘ کی جانب۔ انہوںنے دیکھا تو اپنی ’’روایات میں لپٹی تاریخ‘‘ کی طرف۔ یہ ہوتا ہے وقت کو پھلانگنا۔ یہ ہوتا ہے وقت اور اس کے جبرکو شکست دینا۔ یہ کام برصغیر کی تاریخ میں یا تو اقبال نے کیا یا مولانا مودودی نے قائداعظم نے۔
ہر تہذیب میں کچھ ذیلی ثقافتیں بھی ہوتی ہیں اور انسانی شخصیت کی تعمیر میں ان ثقافتوں کا کردار بہت اہم ہوتاہے۔ بالخصوص ان ثقافتوں کے لسانی تشخص کا۔ اس حوالے سے بھی قائداعظم کی شخصیت غیر معمولی اور تاریخ ساز ہے۔ قائداعظم کی مادری زبان گجراتی تھی اور ان کا ذریعہ تعلیم ہمیشہ انگریزی رہی۔ قائداعظم کے لیے اردو ’’دور کی آواز‘‘ تھی۔ قائداعظم اردو کا اسکرپٹ نہیں پڑھ سکتے تھے۔ وہ اردو بولتے تھے تو رومن اسکرپٹ پڑھ کر بولتے تھے۔ مگر قائداعظم نے صاف کہا کہ پاکستان کی سرکاری زبان اگر کوئی ہو گی تو صرف اردو۔ قائداعظم کو معلوم تھا کہ ان کے اس اعلان کے خلاف مشرقی پاکستان میں ردعمل سامنے آسکتا ہے چنانچہ انہوںنے اردو کی حمایت مشرقی پاکستان میں کھڑے ہو کر کی۔ اس پر منفی ردعمل بھی آیا مگر قائداعظم اپنے اصول سے انحراف کے قائل نہ تھے۔ اہم بات یہ ہے کہ قائداعظم اردو کی حمایت خواہ مخواہ نہیں کر رہے تھے۔ قائداعظم کا مسئلہ مذہب تھا اور قائداعظم کو معلوم تھا کہ برصغیر میں اردو واحد مذہبی زبان ہے۔ مسلمانوں کا مذہبی لٹریچر یا تو عربی میں تھا یا فارسی میں یا اردو میں۔ چنانچہ ان زبانوں سے کٹ جانے کا مطلب مذہبی شعور سے کٹ جانا تھا۔ چونکہ عربی اور فارسی قائداعظم کے زمانے تک آتے آتے اپنی گرفت کھو چکی تھیں اور اردو پورے برصغیر کی زبان بن چکی تھی اس لیے قائداعظم نے اسلام کی ایک علامت کے طور پر اردو کی حمایت کی۔ قائداعظم کو معلوم تھا کہ جس چیز کو پورے برصغیر کا ’’مشترک تہذیبی تجربہ‘‘ کہتے ہیں وہ بھی صرف اردو اور صرف اردو میں موجود ہے چنانچہ اردو سے منسلک ہونے کا مطلب جہاں اسلام کی علمی روایت سے منسلک ہونا تھا وہیں اردو سے وابستہ ہونے کا مفہوم مشترک تہذیبی میراث یا مشترک تہذیبی تجربے سے وابستہ ہونا ہے۔ یہ قصہ برصغیر کے مسلمانوں کے مشترک تاریخی تجربے کا ہے۔ اس تجربے کا بیان بھی اردو ہی کے دامن میں موجود ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اردو کی حمایت اپنی مذہبی، تہذیبی اور تاریخی روایت کی حمایت ہے۔ اتفاق سے پاکستان اس روایت کی عطا بھی ہے اور یہی روایت اس کا سرمایہ بھی ہے۔
قائداعظم کی عطمت کا ایک پہلو یہ ہے کہ پوری انسانی تاریخ میں موئی ایک رہنما بھی ایس انہیں ہے جس نے کوئی ملک بنایا ہو یا آزاد کرایا ہو اور پھر یہ کہا ہو کہ وہ رضاکارانہ طور پر ملک کسی اور کے حوالے کر کے دشمن ملک میں جا کر آباد ہو سکتا ہے اور وہاں کسی کمیونٹی کی قیادت کر سکتا ہے۔ اتفاق سے قائداعظم یہ کہہ چکے ہیں۔ اس کا ثبوت آل انڈیا مسلم لیگ کے کراچی میں ہونے والے اجلاس سے قائداعظم کا خطاب ہے۔ یہ اجلاس 14 اور 15 دسمبر 1947ء کو ہوا۔ اس اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے کیا کہا ملاحظہ کیجیے۔
The Quaid-i-Azam recalled the chares that were being levelled against Pakistan and its leaders about the betrayal of the Muslim masses in the Indian Union. He said, he was full of feelings for the Muslim masses in the Indian Union who were, unfortunately, facing bad days. He advised the Indian Muslims to organize themselved so as to become powerful enough to safeguard their political rights. A well-organized minority should be powerful enough to protect its own rights political, Cultural, economic and social. On his part he assured them of his ful realizatin that the achievement of Pakistan waqs the outcome of the labour and toil of the Muslims in India as well as of those who ware now enjoying its fruits. Pakistan would help htem in every possible way.
A member interrupted and asked the Quaid-i-Azam if he would once again, be prepared to take over the leadership of the Muslims of India in the present hour of trial. The Quaid-i-Azam replied that he waw quite willing to do so if the Council gave its verdict in favour of such proposal. He recalled his statement at the time of the achivement of Pakistan, the cherished goal of the Muslim nation, he wanted to lead a retired life. But if called upon, he was quite ready to leave Pakistan and share the difficulties of the Muslims in the Indian Union and to lead them….
C The Nation’s Vice, VoL VII. Edited by Waheed Ahmad. page. 115-116 Published by Quid-i-Azam Academy-2003)
ترجمہ: قائداعظم نے اجلاس میں انڈین یونین میں رہ جانے والے مسلمانوں کے حوالے سے پاکستان اور اس کی قیادت پر بے وفائی کے الزامات کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ انہیں بھارت یا انڈین یونین میں آباد مسلمانوں کو درپیش مصائب کا احساس ہے۔ انہوں نے بھارت میں رہ جانے والے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے خود کو منظم کریں۔ انہوں نے کہا کہ ایک منظم اقلیت اتنی طاقت ور ہو سکتی ہے کہ وہ سیاسی، سماجی، اقتصادی اور ثقافتی مفادات کا تحفظ کر سکے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے اس بات کا شعور ہے کہ پاکستان کی تخلیق میں بھارت کے مسلمانوں کی محنت اور کوششوں کا بھی دخل ہے اور ان لوگوں کا بھی جو اب قیام پاکستان کے ثمرات سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ اجلاس میں شریک مسلم لیگ کے ایک رکن نے قائداعظم کے خطاب میں مداخلت کرتے ہوئے سوال کیا کہ کیا وہ ان مشکل حالات میں ایک بار پھر بھارت کے مسلمانوں کی قیادت کے لیے تیار ہیں؟ قائداعظم نے اس کے جواب میں کہاکہ اگر کونسل اس رائے کے حق میں فیصلہ کرے تو وہ بھارت جا کر بھارت کے مسلمانوں کی قیادت پر آمادہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قیام پاکستان کے وقت میری خواہش تھی کہ اب میں ایک ریٹائرڈ آدمی کی زندگی بسر کروں۔ لیکن اگر مجھ سے کہا جائے گا تو میں پاکستان چھوڑ کر بھارت جانے اور انڈین یونین کے مسلمانوں کی مشکلات میں حصے دار بننے اور ان کی قیادت کرنے کے لیے تیار ہوں۔‘‘
قائداعظم کے اس خطاب سے ان کی شخصیت اور عظمت کے کئی اہم پہلو نمایاں ہو کرسامنے آتے ہیں۔ ایک پہلو یہ ہے کہ جس طرح ہر خالق اپنی مخلوق سے بڑا ہوتا ہے اسی طرح قائداعظم بھی پاکستان سے بڑے تھے۔ زندگی کا عام تجربہ ہے کہ لوگ اپنے عہدے اور مناصب چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوتے مگر قائداعظم کو بھارت کے اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں سے ایسی محبت تھی کہ وہ ان کے لیے اپنا پاکستان چھوڑ کر دوبارہ بھارت جانے اور بھارت کے مسلمانوں کی قیادت کا بوجھ اٹھانے پر آمادہ تھے۔ لیکن بھارت کے مسلمانوں سے قائداعظم کی محبت بلا سبب نہ تھی اس کی وجہ یہ تھی کہ قائداعظم بخوبی جانتے تھے کہ قیام پاکستان کی جدوجہد میں بھارت کے اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں کا بنیادی کردار ہے۔ یہ کردار اس لیے حیرت انگیز ہے کہ بھارت کے مسلم اقلیتی صوبوں کے مسلمان اچھی طرح جانتے تھے کہ پاکستان مسلم اکثریتی علاقوں میں بنے گا اور انہیں پاکستان کے بننے سے کوئی سیاسی، سماجی یا معاشی فائدہ نہیں ہو گا۔ لیکن اس کے باوجود انہوں نے تن، من دھن سے قیام پاکستان کے لیے جدوجہد کی۔ یہ ایسا نظریاتی کردار ہے کہ پوری انسانی تاریخ میں اس کی کوئی دوسری مثال موجود نہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ پھر اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں نے قیام پاکستان کے لیے جدوجہد کیوں کی؟ اس سوال کا جواب اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں کا Idealism ہے۔ ان کی مثالیت پسندی ہے۔ اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں کا اصل خواب مثالی اسلامی ریاست کا قیام تھا۔ چونکہ پاکستان اسلام کے نام پر بن رہا تھا اس لیے اقلیتی صوبوں کے مسلمان سمجھتے تھے کہ پاکستان ایک مثالی اسلامی ریاست ہو گا۔ قائداعظم نے اپنے اس خطاب میں پاکستان، مسلم لیگ اور اقلیتی صوبوں کے حوالے سے کچھ اور اہم باتیں بھی کہی تھیں۔ قائد اعظم نے کہا تھا: ترجمہ
’’ ہم آج کے اجلاس میں یہ طے کرنے کے یے جمع ہوئے ہیں کہ مستقبل میں آل انڈیا مسلم لیگ کا ڈھانچہ کیا ہو گا؟ جیسا کہ آپ جانتے ہیں مسلم لیگ نے پاکستان حاصل کر لیا ہے۔ تاریخ میں اس کی کوئی دوسری مثال موجود نہیں۔ (مطالبہ پاکستان سے قبل) مسلمان ایک ہجوم تھے۔ ان میں بے حوصلگی عام تھی۔ ان کے اقتصادی حالت خستہ تھی۔ ہم نے پاکستان مسلم لیگ یا اپنے ساتھیوں کے لیے نہیں بلکہ مسلم عوام کے لیے حاصل کیا ہے۔ اگر پاکستان نہ بنتا تو برصغیر میں مسلمان فنا ہو جاتے۔ ہم نے ایک ایسے علاقے میں پاکستان حاصل کیا ہے جہاں 6 کروڑ مسلمان موجود ہیں۔ ان کے پاس وسیع جغرافیہ بھی ہے اور مکمل خودمختاری بھی۔ پاکستان کے قیام کا کریڈٹ اقلیتی صوبوں کو بھی جاتا ہے۔‘‘
قائداعظم کے اس خطاب سے ظاہر ہے کہ پاکستان کو صرف پاکستان کے مسلمانوں کا نہیں بھارت کے مسلمانوں کے مفادات کا بھی تحفظ کرنا تھا۔ مگر بدقسمتی سے پاکستان کو ایسی فوجی اور سیاسی قیادت فراہم ہوئی جو خود پاکستان کوبھی نہ سنبھال سکی اور 16 دسمبر 1971ء کو قائداعظم کا پاکستان دو ٹکڑے ہو گیا اور دو قومی نظریے کی ایسی تذلیل ہوئی کہ اندراگاندھی کو یہ کہنے کی جرأت ہوئی کہ ہم نے دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں غرق کر دیا ہے۔ لوگ کہتے ہیں قائداعظم کا انتقال 11 ستمبر 1948ء کو ہوا مگر لوگ غلط کہکتے ہیں قائداعظم کا انتقال 16 دسمبر 1971ء کو ہوا اور قائداعظم کی موت کے ذمے دار خود پاکستان کے فوجی اور سول حکمران تھے۔
قائداعظم کی ایک ہی اولاد تھی۔ ان کے بیتی دینا۔ مگر دینا نے ایک پارسی سے شادی کی تو قائداعظم دینا سے لاتعلق ہو گئے اور مرتے دم تک اس سے ملاقات توکیا ملاقات کی خواہش بھی نہ کی۔ حالانکہ ایک بات کی حیثیت سے وہ ایسا کرتے تو اس میں کوئی قابلِ اعتراض بات نہ ہوتی۔ مگر قائداعظم کو احساس تھا کہ وہ مسلمانوں کے رہنما ہیں اور مسلمان اس بات کو مذہبی اعتبار سے پسند نہیں کر سکتے کہ ان کی اولاد غیر مسلم سے شادی کر لے۔ چنانچہ قائداعظم نے واحد اولاد کی جدائی برداشت کر لی مگر اپنی قوم کو کسی جذباتی، نفسیاتی یا ذہنی صدمے سے دوچار کرنا پسند نہ کیا۔ قائداعظم کی یہی عظمت تھی جس نے علامہ شبیر عثمانی جیسی شخصیت سے یہ کہلوایا کے قائداعظم برصغیر میں اورنگ زیب عالمگیر کے بعد سے بڑے مسلم رہنما ہیں اتفاق سے علامہ شبیر عثمانی کے اس بیان میں بھی قائداعظم کے حوالے سے کوئی مبالغہ محسوس نہیں ہوتا۔ ان حقائق کے تناظر میں دیکھا جائے تو کہا جائے گا کہ قائداعظم تاریخ ساز بھی تھے اور تاریخ سے بنے ہوئے بھی۔