اسلام پاکستان کانظریہ بھی ہے، روح بھی ہے، تہذیب بھی ہے، تاریخ بھی ہے، معاشرت بھی ہے، اخلاق بھی ہے، کردار بھی ہے، سیاست بھی ہے، معیشت بھی ہے، قانون بھی ہے، ماضی بھی ہے، حال بھی ہے اور مستقبل بھی۔ اس کے باوجود پاکستان کے فوجی اور سول حکمرانوں اور پاکستان کے سیکولر اور لبرل دانش وروں اور صحافیوں نے پاکستان کی تاریخ کو اسلام دشمنی کے مناظر سے بھر دیا ہے۔
پاکستان دو قومی نظریے کی بنیاد پر وجود میں آیا، اور دو قومی نظریے کی بنیاد اسلام تھا۔ چنانچہ پاکستان میں یہ سوال اٹھنا ہی نہیں چاہیے تھا کہ پاکستان کس لیے قائم کیا گیا ہے۔ مگر بدقسمتی سے یہ سوال اٹھا اور آج تک اٹھا ہوا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے فوجی اور سول حکمرانوں کی اکثریت اور پاکستان کے ذرائع ابلاغ پر قابض اہلِ قلم کی اکثریت سیکولر، لبرل یا سوشلسٹ رہی ہے، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسلام کے نام پر وجود میں آنے والے پاکستان میں علماء اور مذہبی جماعتوں کو قراردادِ مقاصد منظور کرانے اور ملک و قوم کو ایک اسلامی آئین دینے کے لیے طویل اور صبر آزما جدوجہد کرنی پڑی۔ یہ ایسا ہی تھا جیسے مسجد میں نماز کی ادائیگی کے لیے جدوجہد کی جائے، جیسے مندر میں بھگوان کی مورتی رکھنے کے لیے کوشش کی جائے، جیسے گرجا گھر میں صلیب کی تنصیب کے لیے معرکہ آرائی کی جائے۔ عبادت گاہ عبادت کے لیے بنی ہے اور اس میں عبادت کی جاتی ہے۔ اس میں شراب خانہ، جوئے کا اڈا یا پرچون کی دکان نہیں کھولی جاتی، مگر پاکستان کے حکمرانوں اور سیکولر دانش وروں نے پاکستان کو سیکولر بھی بنانے کی کوشش کی، سوشلسٹ بھی۔ اسے شراب خانے میں ڈھالنے کی جرأت بھی کی اور اس میں عریانی و فحاشی کی دکانیں بھی کھولیں۔
علماء اور مذہبی جماعتوں کی جدوجہد سے 1973ء میں ملک کو ایک اسلامی آئین تو مل گیا، مگر یہاں سے حکمرانوں کی اسلام دشمنی کی ایک نئی تاریخ شروع ہوئی۔ ملک کو اسلامی آئین فراہم ہوئے اب 45 سال ہوچکے ہیں، مگر ان 45 برسوں میں پاکستان کے فوجی اور سول حکمرانوں نے اسلام کو آئین سے نکلنے نہیں دیا۔ انہوں نے 1973ء کے آئین کو اسلام کا قید خانہ بنادیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آئین میں ہر طرف اسلام ہی اسلام ہے مگر ریاست میں کہیں بھی اسلام نہیں۔ ہماری سیاست کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، ہماری سیاست کا محور طاقت ہے، پیسہ ہے، جرنیلوں کی مرکزیت ہے، وڈیروں کا غلبہ ہے، صوبائی، لسانی، فرقہ وارانہ اور مسلکی تعصبات ہیں۔ یہ ساری چیزیں اسلام کی ضد ہیں۔ ہماری معیشت سود پر کھڑی ہوئی ہے، اور سود کو قرآن اللہ اور رسولؐ کے ساتھ جنگ قرار دیتا ہے۔ ہمارا نظام تعلیم سیکولر اور لبرل ہے، اور اس میں اسلام صرف اسلامیات کے ایک مضمون کے سوا کہیں موجود نہیں۔ ہمارا عدالتی نظام الف سے یے تک مغربی تصورات پر کھڑا ہے، ملک کا قانون نوآبادیاتی ہے اور اس کا اسلام سے کوئی رشتہ ہی نہیں۔ ذرائع ابلاغ میں عریانی و فحاشی کی گنگا بھی بہہ رہی ہے اور جمنا بھی، دریائے سندھ بھی بہہ رہا ہے اور دریائے راوی بھی۔ پنجاب ’’پنج ند‘‘ سے پہچانا جاتا ہے اور ہمارے ذرائع ابلاغ عریانی و فحاشی اور انحرافات کے ’’سو، نَد‘‘ سے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ہماری پوری قومی زندگی اسلام سے بغاوت پر کھڑی ہوئی ہے۔ بدقسمتی سے اس بغاوت کا شعور بھی عام نہیں۔ عام لوگ کیا، علماء اور مذہبی جماعتیں تک یہ سمجھتی ہیں کہ ملک کے آئین کا اسلامی ہونا ملک و قوم کے اسلامی ہونے کے لیے کافی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ملک کا اسلامی آئین بہت سے لوگوں میں ایک جھوٹی خود اطمینانی تخلیق کررہا ہے اور اس نے ملک کے اسلامی کردار کے حوالے سے ایک نظری دھوکے یا ایک Optic Illusion کی صورت بھی اختیار کرلی ہے۔ دراصل ملک کے سیکولر اور لبرل حکمران طبقے نے ’’اسلامی آئین‘‘ بننے ہی اس لیے دیا کہ وہ ایک ’’نظری دھوکا‘‘ بن جائے اور لوگوں میں جھوٹی خود اطمینانی تخلیق کرے۔ ایسا نہ ہوتا تو مذہبی طبقات ریاست اور معاشرے میں اسلام کے غلبے کے لیے جدوجہد کرتے ہی رہتے، اور معاشرے میں ایک آویزش برپا رہتی، اور اس آویزش سے کوئی ’’انقلاب‘‘ بھی برآمد ہوسکتا تھا۔ مگر ملک کو اسلامی آئین دے کر قومی زندگی کے پریشر ککر سے بھاپ نکال دی گئی، اور اب 45 سال سے ’’اسلامی آئین‘‘ کہیں اسلام کے قید خانے کا منظر پیش کررہا ہے اور کہیں اس کی نوعیت ایک ایسے درخت کی ہے جو نہ سیکولرازم اور لبرل ازم کی دھوپ میں قوم کو اسلام کا سایہ فراہم کرسکتا ہے، نہ ہی اس پر کوئی ’’اسلامی پھل‘‘ لگتا ہے۔ البتہ اس درخت پر برسات کے موسم میں جھولے ڈال کر اسلام کے لیے یہ گیت گایا جاسکتا ہے:
باغوں میں جھولے پڑے
تم چلے آئو، تم چلے آئو
پاکستان کا حکمران طبقہ اور پاکستان کی اکثر سیاسی جماعتیں اسلام کی کتنی پرستار ہیں اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ میاں نوازشریف نے دن دہاڑے ختمِ نبوتؐ کے تصور پر حملہ کیا، اور توہینِ رسالت کی مجرمہ آسیہ ملعونہ کی رہائی کے حوالے سے جنرل باجوہ، چیف جسٹس ثاقب نثار، عمران خان، میاں نوازشریف، آصف علی زرداری، تحریک انصاف، نواز لیگ اور پیپلزپارٹی ایک ہی صفحے پر نظر آئیں۔ آسیہ کی رہائی کے بارے میں شواہد سے ثابت ہوچکا ہے کہ اس کی پشت پر امریکہ بھی کھڑا ہوا ہے اور یورپ بھی۔ اس کی تازہ ترین شہادت یہ ہے کہ امریکہ نے پاکستان کو مذہبی آزادیوں سے انحراف کے حوالے سے بلیک لسٹ کیا تو روزنامہ ڈان نے اپنی تفصیلی خبر میں واشنگٹن کے ’’سفارتی ذرائع‘‘ کی بنیاد پر خبر دی کہ پاکستان کو بلیک لسٹ کرنے سے آسیہ بی بی کو محفوظ مقام پر منتقل کرنے میں پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔
(روزنامہ ڈان کراچی۔ 12دسمبر 2018ء)
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلام دشمنی کی ایک بڑی واردات چند روز پہلے ہی تفصیل سے رپورٹ ہوئی ہے۔ روزنامہ ایکسپریس کراچی کی ایک خبر کے مطابق قومی اسمبلی میں شراب پر مکمل پابندی کا بل حکومت اور حزب اختلاف کے اتحاد کی وجہ سے مسترد کردیا گیا۔ یہ بل تحریک انصاف کے اقلیتی رکن رمیش کمار نے پیش کیا تھا۔ انہوں نے بل میں کہا تھا کہ دنیا کے تمام مذاہب میں شراب پینا ممنوع اور حرام ہے لہٰذا پاکستان میں اس کی فروخت بند کی جائے۔ تحریک انصاف، نواز لیگ اور پیپلزپارٹی کے اراکین نے بل کی مخالفت کی، چنانچہ بل مسترد ہوگیا۔ مجلس عمل نے بل کی حمایت کی۔ (روزنامہ ایکسپریس کراچی۔ 12 دسمبر 2018ء)
پاکستان کے آئین کے اعتبار سے ملک میں قرآن و سنت کے خلاف قانون سازی نہیں ہوسکتی، مگر مذکورہ خبر سے ثابت ہے کہ ملک کی تینوں بڑی جماعتوں نے شراب جیسے سنگین مسئلے پر قرآن و سنت کے مطابق قانون سازی نہیں ہونے دی۔ یہ اعلان کے بغیر اسلام سے کھلی بغاوت ہے، اور یہ اتنی بڑی بات ہے کہ اس پر عمران خان کی حکومت اور قومی اسمبلی کو تحلیل کردیا جانا چاہیے تھا۔ اس بات کی دلیل یہ ہے کہ ملک کے آئین میں 58(2)B کے نام سے ایک شق موجود رہی ہے، اور اس شق کے تحت کئی حکومتیں بدعنوانی کے الزام کے تحت برطرف کی گئی ہیں۔ بدعنوانی ایک بہت بڑا جرم ہے، مگر قرآن و سنت کے حکم سے انحراف کے مقابلے میں اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ چنانچہ اگر صرف بدعنوانی کے الزام میں حکومتیں برطرف ہوسکتی ہیں تو قرآن و سنت کے حکم سے انحراف کے جرم میں حکومت کیوں برطرف اور اسمبلی کیوں تحلیل نہیں ہوسکتی؟ بظاہر دیکھا جائے تو تحریک انصاف، نواز لیگ اور پیپلزپارٹی ایک دوسرے کی دشمن ہیں، مگر ملعونہ آسیہ کی رہائی کا معاملہ ہو یا شراب پر پابندی کی مخالفت… یہ تینوں جماعتیں ایک ہیں۔ عمران خان فرماتے ہیں کہ وہ پاکستان کو ریاست مدینہ بنائیں گے، تو کیا عمران خان کی ریاست مدینہ میں شراب پر پابندی کے لیے قانون سازی نہیں ہوسکتی؟ یہاں یہ سوال اٹھانے کی بھی ضرورت ہے کہ جو لوگ عمران خان، نوازشریف، آصف علی زرداری اور ان کی جماعتوں کے حامی اور ان کے ووٹر ہیں وہ اسلام کے وفادار ہیں یا عمران خان، نوازشریف اور آصف زرداری کے وفادار ہیں؟ کیا ایک مسلمان کی سیاسی وفاداری اسلام کے ساتھ وفاداری سے بھی بڑی چیز ہے؟
اس سلسلے میں شراب پر پابندی کا بل تیار کرنے والے تحریک انصاف کے اقلیتی رکن ڈاکٹر رمیش کمار کا انٹرویو بھی اہم ہے۔ انہوں نے روزنامہ جسارت سے گفتگو کرتے ہوئے کہا:
’’میں تحریک انصاف میں اس لیے شامل ہوا تھا کہ ان کے منشور میں ملک کو ریاست مدینہ بنانے کا اعلان شامل تھا، اور میری خواہش ہے کہ پاکستان مدینے کی طرز کی ریاست بنے۔ انہوں نے کہا کہ شراب کے بل کی مخالفت کے بعد اب عمران خان کو ریاست مدینہ کی بات کرنا چھوڑ دینا چاہیے۔ انہوں نے وزیر اطلاعات و نشریات فواد چودھری کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جہاں فواد چودھری جیسے لوگ ہوں جو دن میں بھی شراب پیتے ہیں، وہاں تبدیلی کیسے آسکتی ہے؟ انہوں نے بتایا کہ میں نے بل دوبارہ اسمبلی کے سیکریٹریٹ میں جمع کرا دیا ہے، امید ہے کہ یہ بل آئندہ اجلاس میں منظور کرلیا جائے گا۔‘‘ (روزنامہ جسارت۔ 13 دسمبر 2018ء)
ڈاکٹر رمیش کمار کے اس انٹرویو سے ظاہر ہے کہ تحریک انصاف میں کیسے کیسے ’’مہارتھی‘‘ موجود ہیں، مگر سوال یہ بھی ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت عمران خان چلا رہے ہیں یا فواد چودھری؟ عمران خان حکومت چلا رہے ہیں تو شراب پر پابندی کے بل کے مسترد ہونے کی ذمے داری عمران خان پر عائد ہوتی ہے، اور اگر فواد چودھری پارٹی میں عمران خان سے بھی زیادہ طاقتور ہوگئے ہیں تو پھر عمران خان کو وزارتِ عظمیٰ سے مستعفی ہوجانا چاہیے۔ بہرحال شراب سے متعلق بل کے مسترد ہونے سے ایک بار پھر ثابت ہوگیا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں تحریک انصاف، پیپلزپارٹی اور نواز لیگ اسلام سے کھیل رہی ہیں اور ان کی نظر میں اسلام کی رتی برابر بھی وقعت نہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جب پاکستان کے حکمران طبقے کو اسلام دشمن کہا جاتا ہے تو اس طبقے کے اراکین فرماتے ہیں کہ ’’اسلام کے ٹھیکے دار‘‘ اسلام سے وفاداری اور اسلام سے غداری کی سندیں بانٹتے پھرتے ہیں۔ بدقسمتی سے وہ اس سلسلے میں اپنے گریبان میں جھانکنے اور پاکستان میں حکمران طبقے کی طویل اسلام دشمن تاریخ کے مطالعے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلام دشمنی کا المناک قصہ صرف فوجی اور سیاسی اسٹیبلشمنٹ سے متعلق نہیں۔
پاکستان کے سیکولر اور لبرل دانش ور اور کالم نویس بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلام پر بے دھڑک حملے کرتے رہتے ہیں۔ اس کی ایک تازہ ترین مثال جنگ کے معروف کالم نگار اور ترقی پسند دانش ور ڈاکٹر منظور اعجاز کا کالم ہے۔ کالم کا عنوان ہے ’’میں ہوں چڑیلوں کا زخم خوردہ‘‘۔ اس کالم میں ڈاکٹر منظور اعجاز لکھتے ہیں:
’’کیا جن، پریوں، چڑیلوں اور چھلاووں کا کوئی وجود ہے؟ میں کسی مذہبی بحث میں الجھے بغیر یہ کہہ سکتا ہوں کہ ان غیر مرئی طاقتوں کے وجود کے بارے میں یقین وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوا ہے۔ جب معاشرے میں زیادہ تر پیداوار کھیتی باڑی کے ذریعے ہوتی تھی، عوام دیہات میں رہتے تھے، سائنس اور بالخصوص جدید علاج معالجے کی سہولتیں میسر نہیں تھیں اور انسان قدرتی طاقتوں کے مقابلے میں بے بس تھا تو مابعد الطبعیاتی ہستیوں پر اعتقاد ہر مذہب کے لوگوں کو حقیقی نظریاتی بنیادیں فراہم کرتا تھا۔ لوگ ہندوازم کو چھوڑ کر مسلمان یا سکھ ہونے کے بعد بھی بنیادی اعتقادات میں کوئی تبدیلی نہیں لاتے تھے۔ یعنی ایک طرح کے لوگوں میں بلا تفریق مذہب اعتقادات کا نظام ایک ہی تھا۔‘‘
(روزنامہ جنگ۔ 12 دسمبر 2018ء)
آپ غور فرمائیں گے تو آپ پر آشکار ہو گا کہ ڈاکٹر منظور اعجاز صاحب نے جنوں، پریوں، چڑیلوں اور چھلاووں کی آڑ میں پورے اسلام کا ’’کام تمام‘‘ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اسلام میں پریوں، چڑیلوں اور چھلاووں کا کوئی تصور موجود نہیں، البتہ اسلام میں جنوں کا تصور موجود ہے، اور جنوں کا تصور مسلمانوں کی ’’ایجاد‘‘ نہیں، بلکہ ان کا وجود قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔ مگر مسئلہ صرف جنوں کا نہیں۔ ڈاکٹر منظور کے اپنے بیان کے مطابق وہ ’’مابعد الطبعیاتی حقائق‘‘ اور ’’غیر مرئی طاقتوں‘‘ کے ہی قائل نہیں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ اسلام کے تمام بنیادی حقائق ہی ’’مابعدالطبعیاتی،، یعنی Metaphisical اور ’’غیر مرئی‘‘ یعنی نظر نہ آنے والے یا حواسِ خمسہ سے ماوراہے، مثلاً خدا ایک مابعدالطبعیاتی حقیقت اور غیر مرئی وجود ہے، اسے کسی نے نہیں دیکھا، اسی لیے اسلام خدا پر ایمان کو ایمان بالغیب کہتا ہے۔
جنت اور دوزخ کا وجود بھی مابعدالطبعیاتی یا غیر مرئی ہے۔ جنوں کا قصہ بھی یہی ہے۔ لیکن ڈاکٹر منظور اعجاز نے پریوں، چڑیلوں اور چھلاووں کے ذکر اور خدا، فرشتوں اور جنت و دوزخ پر ایمان کو ہم معنی بنا دیا۔ وہ اگر یہ لکھتے کہ جس طرح جنوں، پریوں اور چڑیلوں کو ماننا حماقت ہے اسی طرح اَن دیکھے خدا، اَن دیکھے فرشتوں اور اَن دیکھے جنت و دوزخ کو ماننا بھی حماقت ہے تو ہنگامہ برپا ہوجاتا۔ مگر انہوں نے جو کچھ فرمایا ہے اس کا مطلب بہرحال یہی ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو وہ یہ نہ کہتے کہ میں کسی مذہبی بحث میں نہیں پڑنا چاہتا۔
دنیا کے کسی معاشرے، کسی ریاست اور کسی تہذیب میں اس کے بنیادی تصورات پر حملہ نہیں کیا جاسکتا، بلکہ دنیا کا کوئی معاشرہ کسی تصور کی متفق علیہ تعبیر کو چیلنج کرنے کی بھی اجازت نہیں دیتا۔ ٹرائے ٹسکی روس کے کمیونسٹ انقلاب کا مرکزی کردار تھا۔ وہ کمیٹڈ مارکسسٹ تھا مگر اسے مارکسزم کی تشریح و تعبیر کے حوالے سے کمیونسٹ حکمرانوں کے ساتھ اختلاف تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسے ملک چھوڑ کر فرار ہونا پڑا اور کے جی بی نے بالآخر اسے دیارِ غیر میں ہلاک کردیا۔ گورکی روس کا عظیم ادیب تھا اور وہ مارکسزم کا ’’راسخ العقیدہ‘‘ ماننے والا تھا، مگر اسے لینن سے اختلاف تھا، چنانچہ لینن نے اس کے بارے میں کہا کہ انسانیت روس میں جب انقلاب کا جشن منائے گی تو معلوم نہیں وہ گورکی کا ذکر کن الفاظ میں کرے گی۔ گورکی نے کہا کہ اگر انقلاب لانے والے انسان ہوں گے تو مجھے معلوم ہے کہ وہ میرا ذکر احترام سے کریں گے، اور اگر وہ انسان ہی نہیں ہوں گے تو مجھے اس سے فرق نہیں پڑتا کہ وہ میرا ذکر کن الفاظ میں کریں گے۔ سولیزے متسن بھی روس کا ایک اور عظیم ادیب تھا، اسے بھی مارکسزم کی محض تشریح و تعبیر پر اختلاف کی وجہ سے زیر زمین جانا پڑا۔ ڈینگ زیائو پنگ جدید چین کا بانی ہے اور وہ عظیم مارکسسٹوں اور مائو کے پرستاروں میں سے ایک تھا، مگر اسے ثقافتی انقلاب کے دوران مائو سے مختلف خیالات کی وجہ سے جیل جانا پڑا۔ ایزرا پائونڈ انگریزی اور امریکہ کا شاعرِ اعظم تھا مگر اس نے مسولینی کے زمانے میں اٹلی جاکر ریڈیو پر امریکہ کے خلاف ایک تقریر کر ڈالی۔ سی آئی اے اس کی دشمن ہوگئی اور اس کے شاگردوں کو ماہرینِ نفسیات سے اسے پاگل قرار دلوانا پڑا، اور اس نے اپنی زندگی کے دس بارہ قیمتی سال نفسیاتی اسپتال میں گزارے۔ دس بارہ سال پہلے کی بات ہے امریکہ کی ممتاز ادیب سوسن سونٹیگ نے ایک مضمون میں لکھ دیا کہ امریکہ کی بنیاد نسل کُشی پر رکھی ہے۔ ہر طرف سے غدار، غدار کی آوازیں اٹھنے لگیں، حالانکہ سوسن سونٹیگ نے تاریخی اعتبار سے کوئی غلط بات نہیں کہی تھی۔ بھارت میں مسلمانوں کا یہ حال کردیا گیا کہ گائے کے گوشت کی جھوٹی اطلاع پر بھی مسلمان قتل ہوسکتا ہے، اس لیے کہ گائے ہندوئوں کی ماتا ہے، حالانکہ ہندوازم کی تاریخ بتاتی ہے کہ ہندوئوں کے بزرگ گوشت خور تھے اور وہ گائے کی قربانی کرتے تھے۔ پاکستان میں بھی کوئی ذرا جرنیلوں اور فوج کے بارے میں کچھ کہہ کر دیکھے۔ مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلام ’’بے چارہ‘‘ بھی ہے اور ’’بے یارومددگار‘‘ بھی۔ چنانچہ کوئی چاہے تو اٹھ کر خدا کے وجود کو ’’وہم‘‘ یا ’’جہالت‘‘ کہہ دے، جس کا دل چاہے قرآن کے حکم پر سوال اٹھا دے۔ منظور اعجاز صاحب نے بھی اپنے کالم میں یہی کیا ہے۔ انہوں نے جنات اور پریوں کی آڑ میں خدا اور جنت و دوزخ کو بھی ’’غیر مرئی‘‘ یا ’’غیر طبعیاتی‘‘ قرار دے کر انہیں دیہی یا غیر سائنسی معاشرے کے ’’امراض‘‘ قرار دے دیا ہے۔ بدقسمتی سے ان کی دلیل بھی بچکانہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر غیر مرئی چیز ناقابلِ اعتبار نہیں ہوتی، مثلاً ’’عقل‘‘ ایک تصور اور ایک ’’غیر مرئی شے‘‘ ہے، اسے کبھی کسی نے نہیں دیکھا، مگر ساری دنیا اسے مانتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عقل اپنے مظاہر یا خارجی شہادتوں سے پہچانی جاتی ہے۔ انسان سوچتا ہے، اچھے اور برے اور غلط اور صحیح میں تمیز کرتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس چیز کو عقل کہا جاتا ہے وہ کہیں موجود ہے۔ شعور اور لاشعور جدید نفسیات کی دو معروف اصطلاحیں ہیں، انہیں کسی نے نہیں دیکھا مگر دنیا میں اربوں لوگ شعور اور لاشعور کی موجودگی پر ایمان رکھتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ شعور اور لاشعور کو بھی ان کے مظاہر سے پہچانا جاتا ہے۔ ’’وجدان‘‘ کو بھی آج تک کسی نے نہیں دیکھا مگر لاکھوں شاعر سمجھتے ہیں کہ ان کی شاعری ’’وجدان‘‘ کی ’’عطا‘‘ ہے۔ خدا بھی نظر نہیں آتا مگر وہ اپنی قدرتِ کاملہ، اپنی خلّاقی اور رزاقی کے مظاہر سے پہچانا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں خود سائنس کا یہ حال ہے کہ وہ اَن دیکھے حقائق کو مان کر چل رہی ہوتی ہے۔ سائنس کا ایک بڑا نظریہ Big Bang Theory ہے۔ یہ نظریہ فرض کرتا ہے کہ کائنات نے ایک بے حد کثیف ذرّے سے جنم لیا۔ یہ کثیف ذرہ کہیں موجود تھا اور پھر ایک وقت آیاکہ اس میں دھماکا ہوگیا اور کائنات وجود میں آنا شروع ہوگئی۔ یہ ذرہ خود کہاں سے آگیا؟ ایک وقت تک اس میں دھماکا کیوں نہیں ہوا؟ پھر اچانک کیوں دھماکا ہوگیا؟ کسی کو معلوم نہیں۔ مگر جدید سائنس اس ذرے اور اس کے پھٹنے اور پھیلنے کے عمل کو دیکھے بغیر ہر چیز پر ’’ایمان‘‘ لائی ہوئی ہے۔ مزید اہم بات یہ ہے کہ وہ ’’نظریے‘‘ کو ’’عقیدے‘‘ کے طور پر اپنائے ہوئے ہے۔ دنیا میں ایک آدمی بھی ایسا نہیں جس نے قائداعظم کو یہ کہتے ہوئے ’’دیکھا‘‘ یا ’’سنا‘‘ ہو کہ وہ پاکستان سیکولرازم کے لیے بنا رہے ہیں، مگر سینکڑوں سیکولر اور لبرل دانش ور اور صحافی پچاس ساٹھ سال سے یہی راگ الاپے چلے جارہے ہیں، وہ اس سلسلے میں 11 اگست 1947ء کی تقریر کا حوالہ دیتے ہیں۔ یہ حوالہ بھی غلط ہے، مگر چلیے مان لیتے ہیں کہ ایک حوالہ موجود ہے، مگر مسئلہ یہ ہے کہ قائداعظم کے ایسے سو سے زائد بیانات ہیں جن میں قائداعظم نے پاکستان کو اسلام، سیرتِ طیبہؐ، اسلامی تہذیب اور اسلامی تاریخ کے تناظر میں دیکھا اور بیان کیا ہے۔ مگر سیکولر اور لبرل لوگوں کو قائداعظم کے بیانات کی اکثریت یا ’’جمہوریت‘‘ نظر ہی نہیں آتی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سیکولر لوگوں کو دکھائی بھی وہی دیتا ہے جو وہ دیکھنا چاہیں، اور سنائی بھی وہی دیتا ہے جو وہ سننا چاہیں۔ اس کا کسی بھی قسم کی شہادت سے کوئی تعلق نہیں۔ بہرحال آیئے اب اسلام دشمنی کی ایک اور مثال کو دیکھتے ہیں۔
ایاز امیر ماشاء اللہ ’’سابق فوجی‘‘ بھی ہیں اور سیکولر بھی۔ یعنی کریلا اور نیم چڑھا۔ اپنے ایک حالیہ کالم میں انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ لاہور میں تھیٹر کا وقت رات گیارہ بجے رکھا گیا ہے، اس کی ذمے داری انہوں نے پنجاب کے وزیر اطلاعات و نشریات فیاض الحسن چوہان پر ڈالی ہے، اور فیاض الحسن چوہان کے فعل کا بوجھ انہوں نے جماعت اسلامی پر ڈالا ہے اور کہا ہے کہ لوگ جماعت اسلامی سے نکل جاتے ہیں مگر جماعت اسلامی ان میں سے نہیں نکلی۔ مگر یہ زیادہ پریشان کن باتیں نہیں ہیں۔ ایاز امیر کی اصل بات ان کے الفاظ میں یہ ہے، لکھتے ہیں:
’’ہمارے ہاں دیرینہ مسئلہ ہی عورت کا ہے۔ تھیٹروں میں صرف مرد فن کار ہوں تو فیاض الحسن چوہان جیسوں کو کبھی فکر لاحق نہ ہو۔ ہمارے مخصوص اسلام پسندوں کا بس چلے تو خواتین کہیں نظر ہی نہ آئیں۔ اُن سے منسلک خواتین ایک خاص قسم کا برقع پہنتی ہیں جس میں صرف آنکھیں نظر آتی ہیں۔ اس پہ اعتراض نہیں کیا جاسکتا۔ انسان جو چاہے لباس پہنے، وزیراعظم کی اہلیہ بھی ایسا ہی برقع پہنتی ہیں۔ اس پہ بھی کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا اگر وہ چادر اور چار دیواری میں رہیں، لیکن اس مخصوص پردے کا اہتمام کریں اور پھر پبلک میں بھی آئیں تو شاید پاکستان جیسے رجعت پسند معاشرے کے لیے کوئی پروگریسیو پیغام نہیں۔ اگر تمام پاکستانی خواتین ایسا ہی پردہ کرنے لگیں تو اس ملک کا کیا بنے گا؟ آج پاکستانی خواتین لڑاکا طیارے اُڑا رہی ہیں، برقع پہن کے وہ ایسا کرسکتی ہیں؟‘‘ (روزنامہ دنیا۔ 12 دسمبر 2018ء)
ویسے تو ایازامیر کو خواتین کا چادر اور چار دیواری میں رہنا پسند نہیں، مگر عمران خان کی بیوی کے لیے انہوں نے فرمایا کہ وہ برقع ضرور اوڑھیں مگر برقع اوڑھ کر گھر میں بیٹھی رہیں، کیوں کہ برقعے میں گھر سے نکل کر وہ معاشرے کو کوئی Progressive پیغام نہیں دیتیں۔ سوال یہ ہے کہ انسان جس روشن خیالی پر ایمان نہ رکھتا ہو اس کا پیغام وہ کیسے اور کیوں دے۔ مگر ایازامیر کے کالم کی اصل بات یہ نہیں ہے، اصل بات یہ ہے کہ پردہ جماعت اسلامی یا کسی بھی مذہبی جماعت کی ایجاد نہیں ہے۔ پردہ قرآن اور رسولؐ کا حکم ہے، چنانچہ ایاز امیر پردے پر اعتراض کرکے اصل میں خدا اور اس کے رسولؐ پر اعتراض کررہے ہیں کہ انہوں نے عورتوں کو پردے کا پابند کرکے ان پر ظلم کر ڈالا ہے۔ اتفاق سے معاشرے میں رائج برقع بھی جماعت اسلامی کی ایجاد نہیں۔ جماعت اسلامی کے وجود میں آنے سے بہت پہلے یہ برقع موجود تھا بلکہ اُس وقت کا برقع تو آج ’’شٹل کاک‘‘ کہلاتا ہے۔ جس زمانے میں شٹل کاک برقع عام تھا اُس وقت آج کل کے برقع کو ’’فیشن‘‘ کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ چنانچہ ایازامیر کو فیشن کے تناظر میں آج کل کے برقعے کی تعریف کرنی چاہیے۔ ہمیں یقین ہے کہ ایازامیر کا اصل مسئلہ برقع بھی نہیں ہے، ان کا اصل مسئلہ اسلام ہے۔ انہیں برقعے کی طرح اسلام بھی ’’پرانا‘‘ اور ’’پسماندہ‘‘ نظر آتا ہے، مگر ابھی انہیں اور ان جیسوں کو یہ کہنے کی جرأت نہیں ہوئی۔ حالات یہی رہی تو اگلا مرحلہ اسلام پر براہِ راست حملوں کا ہوگا۔ یہ مرحلہ آیا تو اس کے ذمے دار صرف سیکولر اور لبرل لوگ نہیں ہوں گے، اس کے ذمے دار علماء، تمام مذہبی طبقات اور تمام مذہبی لوگ بھی ہوں گے۔ اس کی دلیل یہ ہے:
بڑے بڑے علماء، بڑے بڑے مذہبی طبقات اور بڑے بڑے مذہبی لوگ اسلام کے دفاع کے حوالے سے مداہنت یا Compromise کا رویہ اختیار کرچکے ہیں۔ ان تمام کا ایک بنیادی نقص یہ ہے کہ وہ اسلام کو محض عقیدے، عبادات کے نظام اور اخلاقیات کے ایک مجموعے کے طور پر تو پیش کررہے ہیں، مگر وہ اسلام کو ایک مکمل ضابطۂ حیات کے طور پر بیان نہیں کررہے۔ اسلام میں مذہب اور سیاست الگ لگ نہیں، مگر بعض مذہبی طبقات ابھی تک اسلام اور سیاست کو ایک دوسرے سے الگ رکھے ہوئے ہیں۔ ان طبقات میں دوسرا نقص یہ ہے کہ وہ یہ تو بتا رہے ہیں کہ اسلام حق ہے، مگر یہ نہیں بتا رہے کہ ہمارے دور کا نمرود، ہمارے دور کا فرعون، ہمارے دور کا ابوجہل اور ہمارے دور کا باطل کون ہے؟ اس کی وجہ راز نہیں۔ یہ لوگ امریکہ، یورپ اور مغرب کو باطل کہیں گے تو وہ ان سے ناراض ہوجائیں گے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ لوگ مغرب کو باطل نہیں کہیں گے اور اس کی مزاحمت نہیں کریں گے تو خدا لازماً ناراض ہوگا۔ بدقسمتی سے علماء، مذہبی طبقات اور مذہبی لوگ خدا کی ناراضی سے نہیں ڈرتے مگر مغرب کی ناراضی سے ڈرتے ہیں… اللہ اکبر۔ ان لوگوں کا تیسرا بڑا نقص یہ ہے کہ یہ امر بالمعروف کا حق تو کچھ نہ کچھ اد ا کررہے ہیں مگر نہی عن المنکر کا کام یعنی معاشرے کو برائیوں سے بچانے کا کام انہوں نے تقریباً ترک ہی کردیاہے۔ معاشرے میں کفر پھیل رہا ہے، معاشرے میں لامذہبیت پھیل رہی ہے، معاشرے میں مغرب کے تصورات اور کلچر عام ہورہا ہے، معاشرے میں رزقِ حرام کمانے کی آرزو عام ہورہی ہے، معاشرے میں عریانی، فحاشی پھیل رہی ہے مگر کسی کو کوئی فکر ہی نہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیثِ پاک کا مفہوم یہ ہے کہ تم معاشرے میں برائی کو پھیلتے ہوئے دیکھو تو اسے طاقت سے روک دو، یہ ممکن نہ ہو تو اس کے خلاف زبان سے جہاد کرو، یہ بھی ممکن نہ ہو تو اسے دل میں برا خیال کرو۔ مگر یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔ بدقسمتی سے علماء، مذہبی طبقات اور مذہبی لوگوں کی عظیم اکثریت ایمان کے کمزور ترین درجے میں رینگتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ معاشرے کے ’’عام افراد‘‘ ایمان کے کمزور ترین درجے سے بھی نیچے جا گرے ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ عام لوگوں کی بڑی تعداد اب برائی کو برائی بھی خیال نہیں کرتی، بلکہ اب ہمارے سامنے ایک ایسی نسل آکھڑی ہوئی ہے جو برائی کے لیے جواز جوئی کرتی ہے، یعنی برائی کو Justify کرتی ہے۔ اس صورت حال کے ذمے دار حکمران بھی ہیں، ذرائع ابلاغ بھی، امریکہ بھی ہے، یورپ بھی۔ مگر اس کے ذمے دار علماء بھی ہیں، مذہبی طبقات بھی اور مذہبی افراد بھی۔ یہ ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلام دشمنی کا منظرنامہ۔ تو کوئی ہے جو سوچے، سمجھے اور عمل کرے؟ سلیم احمد کا شعر ہے: