شاہنواز فاروقی
اسلام ایک ازلی و ابدی اور دائمی انقلاب ہے۔ اسلام کا اجمال کلمۂ طیبہ ہے۔ لا الٰہ الااللہ محمدرسول اللہ۔ اس کلمے سے بڑا انقلابی کلمہ نہ کوئی تھا، نہ ہے، نہ ہوسکتا ہے۔ اس کلمے کا ترجمہ یہ ہے:
’’نہیں ہے کوئی الٰہ سوائے اللہ کے، اور محمدؐ اللہ کے رسول ہیں۔‘‘
یہاں سوال یہ ہے کہ اس کلمے کی انقلابیت کیا ہے؟
یہ کلمہ اس طرح بھی ہوسکتا تھا:
’’اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور محمدؐ اللہ کے رسول ہیں۔‘‘
کلمے کے اس طرح ہونے سے کلمے کے مفہوم میں بظاہر کوئی تغیر رونما ہوتا نظر نہیں آتا، مگر یہ ایک ہولناک غلط فہمی ہے۔ کلمہ طیبہ کا آغاز ’’نہیں ہے کوئی الٰہ‘‘ سے ہورہا ہے۔ اپنی اصل میں یہ ایک سیاسی فقرہ ہے۔ اس فقرے کے ذریعے پوری کائنات میں موجود ہر جھوٹے اور خودساختہ خدا کو مسمار کردیا گیا ہے۔ ایسا کرنا اس لیے ضروری ہے کہ جب تک پوری کائنات تمام جھوٹے خدائوں سے پاک نہیں ہوجائے گی اُس وقت تک حقیقی خدا کے اثبات کا حق ادا نہیں ہوسکے گا۔ اصول ہے کہ ایک کرسی پر ایک ہی شخص بیٹھنے کی طرح بیٹھ سکتا ہے۔ چنانچہ جب تک کرسی سے مصنوعی یا خیالی حکمرانوں کو اٹھا نہیں دیا جائے گا، حقیقی حکمران کا کرسی پر متمکن ہونا ممکن نہیں ہوسکے گا۔ چنانچہ لا الٰہ کے ذریعے پوری کائنات کے جھوٹے، خودساختہ اور خیالی خدائوں کو ملیامیٹ کردیا گیا۔ یہاں سوال یہ ہے کہ جھوٹے، مصنوعی، خودساختہ خدا کہاں موجود ہیں؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ کہیں ایک خدا کو تین خدائوں میں ڈھال لیا گیا ہے۔ کہیں ایک خدا 33 کروڑ خدائوں کی شکل اختیار کرگیا ہے۔ کہیں خدا کا بیٹا ایجاد کرکے بیٹے کو بھی خدا کے منصب پر بٹھا دیا گیا ہے۔ کہیں کوئی زمینی طاقت سیاسی خدا بن بیٹھی ہے۔ کہیں معاشیات اور دولت کو خدا کی طرح پوجا جارہا ہے۔ کہیں قوم اور ریاست خدائی کا دعویٰ کرتی نظر آرہی ہے۔ کہیں نفس کی خواہش الٰہ بنی ہوئی ہیں۔ کہیں اَنا کا بت بنا کر اسے وہی مرکزیت دے دی گئی ہے جو صرف خدا کا حق ہے۔ لا الٰہ کے ذریعے ان تمام جھوٹے خدائوں کی گردن کاٹ دی گئی ہے۔ اس کے بعد ایجابی یا اثباتی کلمہ کہا گیا، یعنی الا اللہ۔ ایک سطح پر یہ کائناتی اصول ہے۔ دوسری سطح پر اس اصول کا مفہوم یہ ہے کہ جو مسلمان فرد، گروہ، تنظیم، قوم، ملّت لا الٰہ کے تقاضے پورے نہیں کرتی اُس کا ایمان ناقص ہے اور وہ الا اللہ کہنے کا حق ادا نہیں کرتی۔ یہی معاملہ کلمۂ طیبہ کے دوسرے جزو یعنی محمد رسول اللہ کا ہے۔
جس طرح انسان جھوٹے خدا ایجاد کرتا ہے، اسی طرح انسان جھوٹے نبی اور جھوٹے رسول بھی وضع کرتا ہے۔ ہر رسول حق کی موجودگی کی سند ہے۔ حق کی بالادستی کی سند ہے۔ اب دنیا کا قصہ یہ ہے کہ بڑے بڑے مفکرین، فلسفی، دانش ور، شاعر، ادیب اور سائنس دان مستند علم کی سند، مستند علم کی علامت اور مستند علم کی اتھارٹی کا درجہ رکھتے ہیں۔ کارل مارکس کو ہمارے علامہ اقبال نے ’’کلیمِ بے تجلی‘‘ اور ’’مسیح بے صلیب‘‘ کہا ہے۔ یعنی تجلی کے بغیر موسیٰ اور صلیب کے بغیر عیسیٰ۔ سوشلسٹ عناصر اگرچہ خود کو مذہب کا دشمن کہتے تھے، مگر انہوں نے مارکسزم کو ایک مذہب اور کارل مارکس کو ایک پیغمبر کا درجہ دیا، اور وہ مارکس کی باتوں پر اسی طرح ایمان لائے جس طرح مسلمان پیغمبروں کی باتوں پر ایمان لاتے رہے ہیں۔ ڈارون عہدِ حاضر کا ایک اور جھوٹا پیغمبر ہے۔ اس کے تصورِ ارتقا کا اثر بیشتر علوم و فنون پر مرتب ہوا ہے۔ سگمنڈ فرائیڈ کے تصورات اور طریقۂ علاج یعنی نفسیاتی تحلیل و تجزیے یا Psychoanalysis نے فرائیڈ کو جدیدیت کے پیغمبر کے درجے پر فائز کیا ہوا ہے۔ کلمۂ طیبہ کے دوسرے جزو یعنی محمد رسول اللہ کا تقاضا یہ ہے کہ زمانے نے جتنے جھوٹے خدا ایجاد کیے ہیں ان کے جھوٹ، مکر، فریب، دجل کا پردہ چاک کرکے ان کی ’’سند‘‘ پر خطِ تنسیخ پھیر دیا جائے اور صرف محمد رسول اللہ کی سند کو ’’واحد سند‘‘ بنانے کی جدوجہد کی جائے۔ جب ایسا ہوگا تب ہم حقیقی معنوں میں کلمہ طیبہ کا حق ادا کریں گے۔ یہ ہے اسلام کے اجمال یعنی کلمۂ طیبہ کی معنویت اور اس کی انقلابیت۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اسلام کے ’’اجمال‘‘ کی انقلابیت کا یہ عالم ہے تو اسلام کی ’’تفصیل‘‘ کی انقلابیت کا عالم کیا ہوگا؟
غور کیا جائے تو انبیاء و مرسلین کی پوری تاریخ کلمۂ طیبہ کی مذکورہ بالا تشریح و تعبیر پر گواہ ہے۔ ہر نبی نے جہاں یہ بتایا کہ حق کیا ہے، وہیں یہ بھی بتایا کہ اُس کے عہد کا باطل کیا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ انبیا و مرسلین صرف یہ بتاکر نہیں رہ گئے بلکہ انہوں نے اپنے عصر کے باطل یا جھوٹے خدا کو چیلنج کیا، اس کی تکذیب کی، اس کا انکار کیا اور اس کے خلاف صف آرا ہوئے۔ حضرت ابراہیمؑ صرف ایک فرد تھے مگر انہوں نے تن تنہا نمرود کو چیلنج کیا۔ حضرت موسیٰؑ اور حضرت ہارونؑ نے کسی پارٹی، کسی حکومت اور کسی ریاست کے بغیر فرعون کو چیلنج کیا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تن تنہا حق کی گواہی دی اور کافروں اور مشرکوں کے جھوٹے خدائوں کا انکار کیا۔ آپؐ کو کفار نے پیشکش کی کہ آپؐ ہمارے خدائوں کو برا نہ کہیں، ہم آپؐ کے خدا کو برا نہیں کہیں گے۔ مگر آپؐ نے ’’پُرامن بقائے باہمی‘‘ کے اس لایعنی اصول کو ماننے سے صاف انکار کردیا۔ اس لیے کہ اسلام کا اصول کفر، شرک، ضلالت، گمراہی، سوشلزم، سرمایہ داری یا کسی بھی خودساختہ ازم کے ساتھ مساوی الحیثیت بن کر کھڑا ہونا نہیں، بلکہ اسلام کا اصول ہر باطل تصور، ہر باطل نظام کو فکری و عملی طور پر چیلنج کرنا اور اسے شکست سے دوچار کرنا ہے۔ یہی خدا اور اس کے انبیاء کی سنت ہے، یہی انبیاء اور رسولوں کی تاریخ ہے۔ اس تاریخ کے کچھ بنیادی تصورات ہیں۔ اس تاریخ کا ایک بنیادی تصور خدا کو راضی کرنا ہے۔ خدا کو راضی کرنے سے نمرود، فرعون، ابوجہل، ابولہب، سوویت یونین، امریکہ، یورپ یا کوئی اسٹیبلشمنٹ ناراض ہوتی ہے تو ہوا کرے۔ اسلام یا حق اتنی بڑی چیز ہے کہ اسے بسر اور زندگی کے ہر دائرے میں غالب کرنا ہی حق کا حق ادا کرنا ہے۔ جو شخص حق کو مغلوب دیکھتا ہے اور اسے حق کی مغلوبیت سے کوئی پریشانی لاحق نہیں، بلکہ وہ حق کو باطل کے غلبے سے نجات دلانے کے لیے فکری اور عملی سطح پر کچھ نہیں کررہا تو وہ اعلان کے بغیر خدا اور اس کے رسول کی توہین کا ارتکاب کررہا ہے، خواہ یہ ارتکاب شعوری ہو یا لاشعوری۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام کا اجمال کلمۂ طیبہ ہے، اور کلمۂ طیبہ کا ایک جزو توحید اور دوسرا جزو آپؐ کی رسالت کا اظہار ہے۔ انبیاء کی تاریخ کا ایک اہم تصور یہ ہے کہ حق ہمارے مال کیا، جان سے بھی زیادہ اہم ہے، کیونکہ حق کو قبول کرنے کی وجہ سے ہم انسان کہلانے کے مستحق ہیں، مال اور جان کی قربانی دینی پڑے تو یہ غیر معمولی بات نہیں، ’’معمول کی بات‘‘ ہے۔
اس تاریخ کا ایک تصور یہ ہے کہ ’’کامیابی‘‘ مومن کا ہدف تو ہے، ’’پیمانہ‘‘ نہیں۔ اس لیے کہ انسانوں کو ہدایت دینا اور کسی کو کامیاب کرنا اللہ کا کام ہے۔ ہم اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرسکتے ہیں، اپنے اخلاص اور کوششوں میں اضافہ کرسکتے ہیں، مگر ہماری یہ بساط نہیں کہ ہم معاذ اللہ خدا کو مجبور کردیں کہ وہ ہمیں ضرور کامیاب کرے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پیمانے کی حیثیت سے کامیابی ایک بت ہے اور اس بت کا انبیاء و مرسلین کی روایت سے کوئی تعلق نہیں۔ مکہ کی 13سالہ زندگی میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس بات سے پریشان رہتے تھے کہ بہت کم لوگ مشرف بہ اسلام ہورہے تھے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ سے فرمایا کہ آپؐ پریشان کیوں رہتے ہیں، انسانوں کو ہدایت دینا یا نہ دینا ہمارا کام ہے، آپؐ کا کام تو حق کو بہ تمام و کمال لوگوں تک پہنچا دینا ہے۔
ان باتوں کا مولانا مودودیؒ کی شخصیت اور فکر سے گہرا تعلق ہے۔ اس لیے کہ اسلام کی انقلابیت مولانا کی فکر کا نمایاں ترین پہلو ہے۔ مولانا کی یہ انقلابیت ان کی بے مثال تصنیف ’’قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں‘‘ میں پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ افروز ہے۔ کہنے کو یہ کتاب صرف 106 صفحات پر مشتمل ہے، مگر یہ کتاب اسلام سے متعلق قاموس یا Encyclopaedia پر بھاری ہے۔ یہ کتاب اتنی اہم ہے کہ پروفیسر خورشید احمدصاحب نے مولانا سے کہا تھا کہ آپ اسے اپنی تفسیر ’’ تفہیم القرآن‘‘ میں شامل کرکے شائع کریں۔ مولانا نے اس تجویز سے اتفاق کیا تھا مگر کسی وجہ سے یہ کتاب تفہیم القرآن کا حصہ نہ بن سکی۔ مولانا نے اس کتاب میں قرآن کی چار بنیادی اصطلاحوں یعنی الٰہ، رب، عبادت اور دین پر محققانہ گفتگو کی ہے۔ بظاہر دیکھا جائے تو کون سا پڑھا لکھا مسلمان ہوگا جو ان اصطلاحوں کے مفہوم سے آگاہ نہ ہو، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان اصطلاحوں کا جو انقلابی پہلو مولانا نے دریافت اور پیش کیا ہے، بیسویں صدی کے اسلامی لٹریچر میں وہ انقلابیت کہیں موجود نظر نہیں آتی۔
مولانا نے اپنی تصنیف کا آغاز قرآنی اصطلاح الٰہ کی تحقیق سے کیا ہے۔ پہلے بتایا ہے کہ الٰہ کے لغوی معنی کیا کیا ہیں۔ مولانا نے اس کے ساتھ یہ بھی بتایا ہے کہ اہلِ جاہلیت تصورِ الٰہ سے نابلد نہ تھے بلکہ وہ اس سے بخوبی آگاہ تھے۔ البتہ انہوں نے الٰہ کے حقیقی تصور کو بدل ڈالا تھا۔ اس کے بعد مولانا نے جو گفتگو کی ہے وہ ان کے الفاظ میں یہ ہے:
’’الٰہ کے یہ جتنے مفہومات اوپر بیان ہوئے ہیں ان سب کے درمیان ایک منطقی ربط ہے۔ جو شخص فوق الطبعی معنی میں کسی کو اپنا حامی و مددگار، مشکل کشا اور حاجت روا، دعائوں کا سننے والا اور نفع یا نقصان پہنچانے والا سمجھتا ہے، اس کے ایسا سمجھنے کی وجہ یہ ہے کہ اس کے نزدیک وہ ہستی نظامِ کائنات میں کسی نہ کسی نوعیت کا اقتدار رکھتی ہے۔ اس طرح جو شخص کسی سے تقویٰ اور خوف کرتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ اس کی ناراضی میرے لیے نقصان، اور رضامندی میرے لیے فائدے کا موجب ہے اُس کے اس اعتقاد اور اس عمل کی وجہ بھی اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ اپنے ذہن میں اس ہستی کے متعلق ایک طرح کے اقتدار کا تصور رکھتا ہے۔ پھر جو شخص خداوندِ اعلیٰ کے ماننے کے باوجود اس کے سوا دوسروں کی طرف اپنی حاجات کے لیے رجوع کرتا ہے اُس کے اس فعل کی علت بھی صرف یہی ہے کہ خداوندی کے اقتدار میں وہ انہیں کسی نہ کسی طرح کا حصہ دار سمجھ رہا ہے۔ اور علیٰ ہذا القیاس وہ شخص جو کسی کے حکم کو قانون اور کسی کے امرونہی کو اپنی لیے واجب الاطاعت قرار دیتا ہے وہ بھی اسے مقتدرِ اعلیٰ تسلیم کرتا ہے۔ پس الوہیّت کی اصل روح اقتدار ہے، خواہ وہ اقتدار اس معنی میں سمجھا جائے کہ نظامِ کائنات پر اس کی فرماں روائی فوق الطبعی نوعیت کی ہے، یا وہ اس معنی میں تسلیم کیا جائے کہ دنیوی زندگی میں انسان اس کے تحتِ امر ہے اور اس کا حکم بذاتِ خود واجب الاطاعت ہے۔
قرآن کا استدلال:
یہی اقتدار کا تصور ہے جس کی بنیاد پر قرآن اپنا سارا زور غیر اللہ کی الٰہیت کے انکار اور صرف اللہ کی الٰہیت کے اثبات پر صرف کرتا ہے۔ اس کا استدلال یہ ہے کہ زمین اور آسمان میں ایک ہی ہستی تمام اختیارات و اقتدارات کی مالک ہے۔ خلق اسی کی ہے، نعمت اسی کی ہے، امر اسی کا ہے، قوت اور زور بالکل اسی کے ہاتھ میں ہے۔ ہر چیز چار و ناچار اسی کی اطاعت کررہی ہے، اس کے سوا نہ کسی کے پاس کوئی اقتدار ہے، نہ کسی کا حکم چلتا ہے، نہ کوئی خلق اور تدبیر اور انتظام کے رازوں سے واقف ہے، اور نہ کوئی اختیاراتِ حکومت میں ذرّہ برابر شریک و حصہ دار ہے۔ لہٰذا اس کے سوا حقیقت میں کوئی الٰہ نہیں ہے، اور جب حقیقت میں کوئی دوسرا الٰہ نہیں ہے تو تمہارا ہر وہ فعل جو تم دوسروں کو الٰہ سمجھتے ہوئے کرتے ہو، اصلاً غلط ہے، خواہ وہ دعا مانگنے یا پناہ ڈھونڈنے کا فعل ہو، یا سفارشی بنانے کا فعل ہو، یا حکم ماننے اور اطاعت کرنے کا فعل ہو۔ یہ تمام تعلقات جو تم نے دوسروں سے قائم کر رکھے ہیں صرف اللہ کے لیے مخصوص ہونے چاہئیں، کیوں کہ وہی اکیلا صاحبِ اقتدار ہے۔
اس باب میں قرآن جس طریقے سے استدلال کرتا ہے وہ اسی کی زبان سے سنیے:
(ترجمہ)’’وہی ہے جو آسمان میں بھی الٰہ ہے اور زمین میں بھی الٰہ ہے، اور وہی حکیم اور علیم ہے۔‘‘ (یعنی آسمان و زمین میں حکومت کرنے کے لیے جس علم اور حکمت کی ضرورت ہے وہ اسی کے پاس ہے) (الزخرف: 84)
(ترجمہ)’’تو کیا وہ جو پیدا کرتا ہے اور جو پیدا نہیں کرتا، دونوں یکساں ہوسکتے ہیں؟ کیا تمہاری سمجھ میں اتنی بات نہیں آتی؟ خدا کو چھوڑ کر یہ جن دوسروں کو پکارتے ہیں وہ تو کسی چیز کو بھی پیدا نہیں کرتے، بلکہ خود پیدا کیے جاتے ہیں… تمہارا الٰہ تو ایک ہی الٰہ ہے۔‘‘ (النحل17: 22-20)
(ترجمہ)’’لوگو! تم پر اللہ کا جو احسان ہے اس کا دھیان کرو۔ کیا اللہ کے سوا کوئی دوسرا خالق ہے جو تمہیں آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہو؟ اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے۔ پھر تم کدھر بھٹکائے جارہے ہو۔‘‘ (فاطر: 3)
(ترجمہ)’’کہو تم نے کبھی سوچا کہ اللہ تمہاری سننے اور دیکھنے کی قوتیں سلب کرلے اور تمہارے دلوں پر مہر کردے (یعنی عقل چھین لے) تو اللہ کے سوا کون سا الٰہ ہے جو یہ چیزیں تمہیں لا دے گا؟‘‘ (الانعام: 46)
(’’قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں‘‘… صفحہ 18،19،20)
عہدِ جدید کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ مغرب تصورِ خدا ہی کو نہیں پورے مذہب کو مسترد کرچکا ہے، اور مغرب کی تاریخ میں مذہب اور سیاست کو جدا ہوئے عرصہ ہوچکا ہے۔ چنانچہ مغرب میں اگر کوئی خدا اور مذہب کو مانتا بھی ہے تو وہ ایک ایسے خدا کا قائل ہے جو لائقِ عبادت تو ہے لیکن اس کی خدائی انفرادی زندگی تک محدود ہے۔ اس کا ریاست و سیاست، معیشت و معاشرت سے کوئی تعلق نہیں۔ اس خیال کا دبائو مسلم معاشروں پر بھی پڑ اور بڑھ رہا ہے۔ مسلم معاشروں میں موجود مغرب کے آلۂ کار، سیکولر اور لبرل عناصر کہہ رہے ہیں کہ ریاست کو مذہب کی گرفت سے آزاد کرنے کی ضرورت ہے۔ بھلا جدید ریاست کا مذہب سے کیا تعلق؟ مولانا نے الٰہ کے تصور کی تشریح و تعبیر کے ذریعے اس باطل خیال کے پرخچے اڑا دیے ہیں اور ثابت کردیا ہے کہ اسلام کا الٰہ ایسا الٰہ نہیں ہے جو کائنات کی تخلیق کے بعد اس سے الگ ہوگیا ہو، اور جو انفرادی زندگی کو تو اپنی ہدایت کے تابع رکھنے کا حکم دے اور اجتماعی اور ریاستی زندگی کو انسانوں کی مرضی پر چھوڑ دے۔
ہمارے روحانی، علمی، اخلاقی اور تہذیبی زوال نے مسلم معاشروں میں کیا، اسلامی تحریکوں میں بھی ایک ایسا ذہن پیدا کردیا ہے جو خدا کا انکار تو نہیں کرتا مگر اس کا خیال ہے کہ اقتدار کا سرچشمہ امریکہ، یورپ یا اسٹیبلشمنٹ کے قبضے میں ہے۔ یہ ایک باطل اور دین و ایمان کو کھا جانے والا خیال ہے، اور قرآن و سنت میں اس کی کوئی سند موجود نہیں۔ مولانا نے اپنی تصنیف ’’قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں‘‘ میں اس خیال کو بھی قرآنی استدلال کے ذریعے رد کرکے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا ہے۔ قرآن صاف کہتا ہے: ’’وہ کون ہے جو اضطرار کی حالت میں آدمی کی دعا سنتا ہے اور تکلیف دور کرتا ہے؟ اور وہ کون ہے جو تم کو زمین میں خلیفہ بناتا ہے؟ (تصرف کے اختیارات دیتا ہے) کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور الٰہ ان کاموں میں بھی شریک ہے۔‘‘ (سورہ النمل) (قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں: صفحہ 23)
مولانا نے قرآن کی اصطلاح رب کی لغوی تحقیق سے معنی کی پانچ جہتیں دریافت کی ہیں جو یہ ہیں:
(1) پرورش کرنے والا، ضروریات بہم پہنچانے والا، تربیت اور نشوونما دینے والا۔
(2) کفیل، خبر گیراں، دیکھ بھال اور اصلاحِ حال کا ذمے دار۔
(3) وہ جو مرکزی حیثیت رکھتا ہو، جس میں متفرق اشخاص مجتمع ہوتے ہوں۔
(4) سید، مطاع، سردار، ذی اقتدار، جس کا حکم چلے، جس کی فوقیت و بالادستی تسلیم کی جائے، جسے تصرف کے اختیارات ہوں۔
(5)مالک، آقا۔
اس کے بعد مولانا نے قرآنی آیات سے ان معنی کی اسناد مہیا کی ہیں۔
مولانا نے رب کے تصور سے متعلق گفتگو میں اس اہم امر کی نشاندہی کی ہے کہ گمراہ قومیں اپنے حکمرانوں کو رب سمجھتی رہی ہیں۔ یعنی حکمران اور رب کا مفہوم باہم منسلک ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے سورۂ یوسف کے ایک حصے کا ترجمہ پیش کیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’جب پیغام لانے والا یوسف کے پاس آیا تو یوسف نے اس سے کہا کہ اپنے رب کے پاس واپس جائو اور اس سے پوچھو کہ ان عورتوں کا کیا معاملہ ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے۔ میرا رب تو ان کی چال سے باخبر ہے ہی۔‘‘
مولانا نے اس آیتِ مبارکہ کی تشریح کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان آیات میں حضرت یوسفؑ نے مصریوں سے خطاب کرتے ہوئے بار بار فرعونِ مصر کو ان کا رب قرار دیا ہے۔ اس لیے کہ جب وہ اس کی مرکزیت اور اس کا اقتدارِ اعلیٰ اور اسے امرونہی کا مالک تسلیم کرتے تھے تو وہی ان کا رب تھا۔ اس کے برعکس خود حضرت یوسفؑ اپنا رب اللہ کو قرار دیتے ہیں، کیونکہ وہ فرعون کو نہیں صرف اللہ کو مقتدرِ اعلیٰ اور صاحبِ امر و نہی مانتے تھے۔ (صفحہ 33۔34)
رب کی بحث کے حوالے سے مولانا نے بجا طور پر اس امر کی نشاندہی کی ہے کہ بہت سی گمراہ قومیں خدا کو خالق اور مالک تو مانتی ہیں مگر وہ اس بات کی قائل نہیں تھیں کہ رب اخلاق و معاشرت، تمدن اور سیاست سمیت تمام معاملات میں اقتدار و حاکمیت کا حق دار ہے، اور وہی قانون ساز اور وہی صاحبِ امر ونہی بھی ہے، چنانچہ ہر دائرۂ حیات میں اس کی اطاعت ہونی چاہیے۔ اسلام کا اصول ہے: اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسولوں کی اطاعت کرو۔ مگر گمراہ قوموں نے خدا کی اطاعت سے بھی انکار کیا اور رسولوں کی اطاعت سے بھی۔
قرآن کہتا ہے: ’’اور یہ عاد ہیں جنہوں نے اپنے رب کے احکامات کو ماننے سے انکار کیا اور اس کے رسولوں کی اطاعت قبول نہ کی، اور ہر جبار و دشمنِ حق کی پیروی اختیار کی۔‘‘
’’اے محمدؐ! اگر یہ لوگ تمہاری پیروی سے منہ موڑتے ہیں تو ان سے کہہ دو کہ عاد و ثمود کو جو سزا ملی تھی ویسی ہی ایک ہولناک سزا سے میں تمہیں ڈراتا ہوں۔‘‘
ہمارے زمانے سے ان تمام باتوں کا یہ تعلق ہے کہ ہمارے زمانے کا ایک فرعون اور ایک رب سوویت یونین تھا۔ ایک فرعون اور ایک رب امریکہ ہے۔ ایک فرعون اور ایک رب یورپ ہے۔ مسلمانوں میں کروڑوں لوگ ایسے ہیں جو امریکہ اور یورپ کی اس طرح اطاعت کرتے جیسے الٰہ اور رب کی اطاعت کی جاتی ہے۔ وہ ڈرتے ہیں کہ امریکہ اور یورپ ہماری امداد بند نہ کردیں، ہم پر پابندیاں نہ لگا دیں، ہم سے تجارت ختم نہ کردیں، ہم پر حملہ نہ کردیں۔ قرآن و سنت میں ان باتوں کی کوئی سند موجود نہیں۔ ان باتوں کا ایک عصری حوالہ یہ ہے کہ ہمارا عہد انکارِ حدیث کا عہد ہے۔ برصغیر میں اس گناہِ عظیم کے ’’موجد‘‘ سرسید تھے۔ مگر اب سرسید کے بہت سے انڈے بچے پیدا ہوگئے ہیں، اور یہ انڈے بچے جب انکارِ حدیث کے مرتکب ہوتے ہیں تو وہ دراصل رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ہی کا انکار کرتے ہیں، اس لیے کہ احادیثِ مبارکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم ہی کا حصہ ہیں۔ قرآن اجمال ہے اور احادیثِ مبارکہ اس کی تفصیل۔ چنانچہ منکرِ حدیث کے خلاف جہاد بھی اسلام کی انقلابیت کا حصہ ہے۔
مولانا مودودیؒ نے عبادت کی اصطلاح پر بھی سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ عبادت کے لفظ کو عموماً پرستش کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے، مگر مولانا نے ثابت کیا ہے کہ عبادت کے مفہوم میں بندگی، غلامی اور اطاعت کا مفہوم بھی شامل ہے، چنانچہ عبادت مغرب کے تصورِ آزادی، تصورِ انسان اور تصورِ زندگی کی ضد ہے۔ عبادت کرنے والے کو عابد کہا جاتا ہے لیکن مولانا نے فرمایا ہے کہ جو کسی بادشاہ کا فرماں بردار یا تابع ہے وہ اُس کا عابد ہے۔ مولانا نے سورہ مومنون کی مثال دی ہے جس میں فرعون نے ایک قوم کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ قوم ہماری ’’عابد‘‘ ہے۔ مولانا نے سورہ الشعراء کا حوالہ دیا ہے جس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون سے کہا کہ تُو نے بنی اسرائیل کو اپنا ’’عبد‘‘ بنا لیا۔
مولانا نے سورہ المائدہ اور سورہ النحل سے مثالیں دیں جن میں ’’طاغوت‘‘ کی عبادت اور طاغوت کی عبادت سے باز رہنے کا حکم ہے۔ مولانا نے اس مرحلے پر وضاحت کرتے ہوئے صاف کہا ہے کہ طاغوت کی عبادت کا مفہوم اس کی اطاعت اور غلامی ہے۔ مولانا کے بقول طاغوت سے مراد ہر وہ ریاست و اقتدار اور ہر وہ رہنمائی اور پیشوائی ہے جو خدا سے باغی ہوکر خدا کی راہ میں اپنا حکم چلائے اور خدا کے بندوںکو زور و جبر یا تحریص و اطماع سے یا گمران کن تعلیمات سے اپنا تابع بنائے۔ ایسے ہر اقتدار، ایسی ہر پیشوائی کے آگے سرِ تسلیم خم کرنا اور اس کا حکم بجا لانا طاغوت کی عبادت ہے۔ (صفحہ 76تا80)
اس تناظر میں دیکھا جائے تو عہدِ حاضر کا امریکہ بھی طاغوت ہے، یورپ بھی طاغوت ہے، بھارت بھی طاغوت ہے، اسرائیل بھی طاغوت ہے، یہاں تک کہ مسلم دنیا پر مسلط بعض حکمران بھی طاغوت ہیں۔
مولانا نے دین کے معنی کے چار سلاسل کو تحقیق سے ثابت کرکے دکھایا ہے:
(1) کلامِ عرب میں دین غلبہ و اقتدار، حکمرانی، فرماں روائی، دوسرے کو اطاعت پر مجبور کرنے، اس پر اپنی قوتِ قاہرہ (Sovereignty) استعمال کرنے، کسی کو اپنا غلام اور تابع امر بنانے کا نام ہے۔
(2) دین اطاعت و بندگی، کسی کے لیے مسخر ہوجانے، کسی کے تحت ہونے اور کسی کے غلبہ و قہر سے دب کر اُس کے مقابلے پر ذلت اختیار کرنے کو کہتے ہیں۔
(3) دین کا مفہوم ہے شریعت، قانون، طریقہ، کیش و ملت، رسم و عادت۔
(4) دین کا مطلب ہے اجرِ عمل، بدلہ، فیصلہ، محاسبہ۔
مولانا کے بقول قرآن میں دین چار بنیادی تصورات کی ترجمانی کرتا ہے:
(1) غلبہ و تسلط، کسی ذی اقتدار کی طرف سے۔
(2) اطاعت، تعبد اور بندگی، صاحبِ اقتدار کے آگے جھک جانے کے حوالے سے۔
(3) قاعدہ و ضابطہ اور ایسا طریقہ جس کی پابندی کی جائے۔
(4) محاسبہ، فیصلہ اور جزا و سزا۔
مولانا کے نزدیک قرآنی زبان میں دین کی اصطلاح ایک پورے نظام کی نمائندگی کرتی ہے جس کی ترکیب چار اجزاء سے ہوئی ہے:
(1) حاکیت و اقتدارِ اعلیٰ۔
(2) حاکمیت کے مقابلے میں تسلیم و اطاعت۔
(3) وہ نظام فکر و عمل جو اس حاکمیت کے زیر اثر بنے۔
(4) مکافات جو اقتدارِ اعلیٰ کی طرف سے اس نظام کی وفاداری و اطاعت کے صلے میں یا سرکشی و بغاوت کی پاداش میں دی جائے۔
مولانا نے لکھا ہے کہ قرآن دین کے لفظ کو کہیں پہلے معنی میں، کہیں دوسرے، تیسرے اور چوتھے معنی میں، اور کہیں ’’الدین‘‘ کہہ کر یہ پورا نظام چاروں اجزا سمیت مراد لیتا ہے۔ اس اعتبار سے دین ایک جامع اصطلاح ہے۔ مولانا کے بقول عہدِ جدید میں ریاست یا State کی اصطلاح دین کے مفہوم کے قریب آئی ہے مگر اسے دین کے پورے معنوی حدود پر حاوی ہونے کے لیے مزید وسعت درکار ہے۔
مولانا مودودی کے ان خیالات کو 104 صفحات پر پھیلی ہوئی کتاب کی ’’ہلکی پھلکی تلخیص‘‘ سمجھیے۔ اس تلخیص سے چند باتیں صاف عیاں ہیں۔ ایک بات تو یہی عیاں ہے کہ کلمۂ طیبہ کی تعبیر بھی وہی ہے جو قرآن کی چار بنیادی اصطلاحوں کی تعبیر ہے۔ دوسری بات یہ واضح ہے کہ اسلام ایک دائمی اور ہمہ گیر انقلاب ہے، اور وہ اس سے کم پر کہیں نہ کہیں زیادہ یا کم مسخ ہوجاتا ہے۔
ان باتوں سے یہ حقیقت بھی عیاں ہوچکی ہے کہ طاغوت مقامی ہو یا قومی یا بین الاقوامی، اس کو چیلنج اور منہدم کیے بغیر اسلام اللہ اور اس کے رسولؐ کا اسلام نہ ہوگا، بلکہ وہ کچھ حکمرانوں اور نام نہاد علماء اور دانش وروں کا گھڑا ہوا یتیم و یسیر بلکہ پالتو قسم کا اسلام ہوگا۔ یہ ایسا اسلام ہے یا ہوگا جو نہ خدا اور اس کے رسولؐکا مطلوب ہے اور نہ اس سے مسلمانوں کو دنیا اور آخرت کی فلاح حاصل ہوسکتی ہے۔ غور کیا جائے تو اسلام کی حقیقی انقلابیت ہر مسلمان، ہر جماعت اور ہر مسلم معاشرے سے سوال کررہی ہے کہ تم اس حوالے سے کہاں کھڑے ہو؟ لیکن ابھی اسلام کی ایک انقلابیت کا ذکر رہ گیا۔
مولانا نے اپنی معرکہ آراء تصنیف میں سورۂ توبہ کی آیت نمبر 29 اور اس کا ترجمہ لفظ دین کی وضاحت کے حوالے سے پیش کیا ہے۔ مگر اسلام کی انقلابیت کا ایک بہت ہی بڑا حوالہ بھی ہے۔ مولانا نے سورۂ توبہ کی آیت نمبر 29 کا یہ ترجمہ کیا ہے:
’’اہلِ کتاب میں سے جو لوگ نہ اللہ کو مانتے ہیں (یعنی اسے واحد مقتدرِ اعلیٰ تسلیم نہیں کرتے)، نہ یوم آخرت (یعنی یوم الحساب اور یوم الجزاء) کو مانتے ہیں، نہ اُن چیزوں کو حرام مانتے ہیں جنہیں اللہ اور اس کے رسولؐ نے حرام قرار دیا ہے، اور دین کو اپنا دین نہیں بناتے اُن سے جنگ کرو یہاں تک کہ وہ جزیہ ادا کریں اور چھوٹے بن کر رہیں۔‘‘
(قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں۔ صفحہ 101)
جدید دنیا کا منظرنامہ یہ ہے کہ جن کے پاس ’’الدین‘‘ ہے وہ دنیا کے چھوٹے بلکہ چمار بنے ہوئے ہیں، اور مذکورہ بالا اہلِ کتاب ہی نہیں، صریح کفر اور شرک میں مبتلا لوگ دنیا کے ’’بڑے‘‘ بنے ہوئے ہیں۔ یہاں تک کہ کروڑوں مسلمان ان بڑوں کو حیرت و ہیبت سے دیکھ رہے ہیں اور ان کا غلام بننا اور بنے رہنا انہیں پسند ہے۔ افسوس کہ اب مسلمانوں کی آنکھوں میں دنیا کا بڑا بننے کا نہ کوئی خواب ہے نہ اس خواب کے مطابق کوئی ’’عمل‘‘ اور جدوجہد کرتا نظر آتا ہے۔
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒکی زندگی تاریخ کے آئینے میں!
25 ستمبر 1903 ء کو حیدر آباد دکن کے شہر اورنگ آباد میں پیدا ہوئے۔
1906 تا 1913 ء بتدائی تعلیم کے مراحل سے گزرے۔
1918 ء میں صرف پندرہ سال کی عمر میں صحافت کا آغاز ’’ اخبار مدینہ ‘‘ سے کیا۔
1920 ء میں مولانا مودودی کے سر سے والد کا سایہ اٹھ گیا۔
1925 ء میں ’’ الجمعیۃ ‘‘ دہلی کی ادارت سنبھال لی جو چار سال تک جاری رہی۔
1932 ء میں حیدر آباد دکن سے ماہنامہ ’’ ترجمان القرآن ‘‘ کا اجرا کیا۔
26 اگست 1941 ء کو لاہور میں جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی۔
11 مئی 1953 ء کو فوجی عدالت نے مولانا مودودی ؒکو سزائے موت سنا دی۔
1957 ء میں ماچھی گوٹھ میں جماعت اسلامی کا چوتھا کل پاکستان اجتماع ہوا۔
1963 ء میں لاہور میں مولانا سید مودودی پر قاتلانہ حملہ ہوا۔
1967 ء میں بحالی جمہوریت کے لیے دوسری جماعتوں سے مل کر تحریک جمہوریت پاکستان ( پی ڈی ایم) کی تشکیل کی۔
1970 ء میں مولانا مودودی? کے اعلان پر بے مثال یوم شوکت اسلام منایا گیا۔
1973 ء میں 31 سال تک تحریک کی رہنمائی کرنے کے بعد مسلسل علالت کی وجہ سے جماعت اسلامی کی امارت سے معذرت کر لی۔
1979 ء میں علاج کی غرض سے مولانا مودودی ? امریکہ گئے۔ 22 ستمبر 1979 ء کو بفیلو ہسپتال امریکہ میںانتقال فرما گئے۔
یہ ہیں مولانا مودودی۔۔۔
مولانا مودودیؒ کے خلاف آپ جو چاہے کیجیے، لیکن۔۔۔ یہ حقیقت سمجھ لیجیے کہ مولانا مودودیؒ ہے کون؟
یہ وہ شخص ہے جس نے اِس دورِ الحاد میں خالص عقلی اسلوب سے اسلام کے عقیدوں، اس کے اصولوں، اس کے فلسفے، اس کے قوانین و ضوابط، اس کی اخلاقی قدروں، اس کی تہذیبی روایات اور اس کے آداب و شعائر کو نکھار کر پیش کیا ہے۔ اس نے اسلام کو جامد مذہب کی سطح سے اٹھاکر اجتماعی دین اور انقلابی تحریک کی صورت میں اُجاگر کردیا ہے، اس نے متزلزل ایمانوں کو ازسرِنو مستحکم کردیا ہے، اس نے اکھڑے ہوئے دلوں کو دوبارہ جما دیا ہے، اس نے الجھے ہوئے دماغوں کی ساری گرہیں کھول دی ہیں۔ اس نے نئی امنگیں اور نئے جذبات دیے ہیں۔ اس نے زندگی کے یخ بستہ سمندر میں حرکت پیدا کی ہے۔
… ہاں! یہ وہ شخص ہے جس کا پیغام ہزاروں دلوں میں اس طرح اُتر گیا ہے کہ اس نے زندگیوں میں انقلاب پیدا کردیا ہے، لوگوں کے دل و دماغ بدل گئے ہیں، لوگوں کے اخلاق کی کایاپلٹ گئی ہے، لوگوں کی دوستیوں اور دشمنیوں کی سمتیں تبدیل ہوگئی ہیں، گھروں کے گھر ہیں کہ جن کی تہذیب اور جن کا کلچر نئے سانچوں میں ڈھل گیا ہے۔ نوجوان ہیں جو کل تک خدا اور مذہب کا مذاق اُڑاتے تھے، لیکن آج اسی خدا کے جاں نثار بندے اور اس کے مذہب کے اصولوں کے لیے دن رات جانفشانیاں کرنے والے ہیں… خواتین ہیں کہ جن کی جنتِ نظر اگر کل تک مغربی طرز کی زندگی تھی تو آج ان شمع ہائے خانہ کی کرنوں سے کتنے ہی خاندانوں میں اسلامی ماحول پیدا ہورہا ہے۔ طلبہ ہیں کہ جنھیں آپس کی دھڑے بندیوں اور سیاسی لیڈروں کے اشارے پر ہنگامہ آرائیوں سے فرصت نہ ملتی تھی، آج اپنے آپ کو ایک اسلامی نظام کے کل پرزے بنانے کے لیے ذہنی و اخلاقی تیاری میں مصروف ہیں۔ ادیب ہیں کہ جو کل تک دولت اور شہرت کی طلب میں اخلاق سوز تفریحی نگارشات کی تخلیق میں دماغی قویٰ کو برباد کررہے تھے، آج ان کے قلم خدا و رسولؐ کی امانت بن گئے ہیں۔ تاجر اور وکیل بدلے ہیں، سرمایہ دار اور مزدور بدلے ہیں، زمیندار اور کسان بدلے ہیں، عالم اور اَن پڑھ بدلے ہیں، شہری اور دیہاتی بدلے ہیں… اور آئے دن اس شخص کی دعوت یہ انقلابی عمل دکھا رہی ہے۔
ہاں! یہ وہ شخص ہے جو ایک کتابی اور خطابتی پیغام دے کر ہی نہیں رہ گیا۔ اُس نے دین کے لیے ایک تحریک بپا کردی ہے۔
(’اشارات‘ ، نعیم صدیقی، ترجمان القرآن، جلد42، عدد5، ذیقعدہ 1373ھ، اگست 1954ء ، ص10۔12)