اسلام کا تصورِ انسان بے مثال ہے، اسلام کا انسان اشرف المخلوقات ہے، زمین پر اللہ تعالیٰ کا نائب ہے، اس کی جان کی حرمت کعبے سے بڑھ کر ہے، وہ کائناتِ اکبر ہے، وہ اللہ کا ہاتھ ہے، وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے، اس کی نظر میں خدا اور اس کی رضا کے سوا ہر چیز ہیچ ہے۔ ان تصورات کا اثر ہماری شاعری پر بھی پڑا ہے۔ میرؔ نے کہا ہے:
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
ذوقؔ نے فرمایا ہے:
بشر جو اس تیرہ خاک داں میں پڑا یہ اس کی فروتنی ہے
وگرنہ قندیلِ عرش پر بھی اس کے ذرّے کی روشنی ہے
غالبؔ نے ارشاد کیا ہے:
کیا پوچھو ہو وجود و عدم اہلِ شوق کا
آپ اپنی آگ کے خس و خاشاک ہو گئے
اقبال نے گواہی ہے:
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن
جس سے جگرِ لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم
دریائوں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان
قائداعظم نہ مفکر تھے، نہ میر تھے، نہ غالب تھے، نہ اقبال تھے، مگر اس کے باوجود انہوں نے سیاست کو شاعری بنادیا۔ انہوں نے ہندوئوں سے صاف کہا کہ مسلمانوں کو اقلیت نہ کہو۔ مسلمان اقلیت نہیں ہیں، ایک قوم ہیں۔ ہمارا مذہب، ہماری تہذیب، ہماری تاریخ اور ہمارے ہیروز ہندوئوں سے مختلف ہیں۔ مسلم لیگ کے ایک اجلاس میں مولانا حسرت موہانی نے قائداعظم پر تنقید شروع کردی۔ اجلاس کے شرکا حیرانی سے مولانا کو دیکھنے لگے اور مولانا کو خاموش کرانے کے لیے کئی آوازیں فضا میں بلند ہوئیں، مگر قائداعظم نے کہا آپ خاموش ہوجائیں، مولانا کو کلام کرنے دیں۔ قائداعظم نے قیام پاکستان کے بعد کہا کہ پاکستان بن گیا ہے اور اب انسانی روح تخلیقی میدان میں اپنے جوہر کے اظہار کے لیے آزاد ہوگئی ہے۔ یہ قائداعظم کا تصورِ انسان تھا، تصورِ قوم تھا، تصورِ معاشرہ تھا، تصورِ ریاست تھا۔ ان تمام تصورات پر ہمارے مذہب، ہماری تہذیب اور ہماری تاریخ کا گہرا سایہ تھا۔ اصول ہے: جس کا جیسا تصورِ انسانی ہوتا ہے ویسا ہی اُس کا تصورِ قوم بھی ہوتا ہے۔ اس تناظر میں سوال یہ ہے کہ پاکستان کے حکمران طبقے کا تصورِ انسان کیا ہے؟ پاکستان کے حکمران طبقے کا تصورِ قوم کیا ہے؟
اس سے قبل کہ ہم اس موضوع پر گفتگو کریں، اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ حکمرانوں میں صرف جرنیل اور سیاست دان شامل نہیں ہوتے۔ حکومت اور حکمران طاقت کے ڈھانچے یا Power Structure کا نام ہے، اور طاقت کے ڈھانچے میں سارے بالائی طبقات شامل ہیں۔ یعنی علما، دانش ور، صحافی، ذرائع ابلاغ کے مالکان، اساتذہ، یہاں تک کہ ایک عام سپاہی بھی۔ اب سوال یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں کا تصورِ قوم کیا ہے؟
اس سوال کے جواب کی تفصیل مہیا کرنے کے لیے ایک کتاب لکھنے کی ضرورت ہے، مگر ہم کتاب نہیںکالم لکھ رہے ہیں، اس لیے تفصیل کو ترک کرنا پڑے گا اور اجمال پر انحصار کرنا ہوگا۔ ہمارے حکمران طبقے کا تصورِ انسان اور تصورِ قوم یہ ہے کہ عام لوگ ہاری ہیں، بونے ہیں، بالشتیے ہیں، غلام ہیں، محکوم ہیں، ایسے بچے ہیں جن کے ذہن غذائی قلت کی وجہ سے پوری طرح فروغ نہیں پاسکے۔ یعنی عوام حکمرانوں کے نزدیک Stunted Children کے سوا کچھ نہیں۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ انہیں ہاریوں، غلاموں، محکوموں، بونوں، بالشتیوں اور Stunted Children کے سوا کچھ ہونا بھی نہیں چاہیے۔
چند سال پیشتر شائع ہونے والی امریکہ کی خفیہ دستاویزات سے انکشاف ہوا کہ اگرچہ جنرل ایوب نے مارشل لا 1958ء میں لگایا، مگر وہ 1954ء سے ہی امریکیوں کے رابطے میں تھے۔ ظاہر ہے یہ رابطے خفیہ تھے اور جنرل ایوب ان رابطوں کے ذریعے امریکیوں کو بتا رہے تھے کہ پاکستان کے سیاست دان ملک کو تباہ کررہے ہیں اور فوج انہیں ہرگز ایسا نہیں کرنے دے گی۔ جنرل ایوب کے اس بیان میں اُن کا ایک تصورِ ذات، ایک تصورِ طبقہ، ایک تصورِ سیاست دان اور ایک تصورِ قوم موجود ہے۔ اس تصور کا لبِ لباب یہ ہے کہ جرنیل برتر انسان، برتر پاکستانی اور برتر علم رکھنے والے لوگ ہیں اور انہی کو یہ حق ہے کہ وہ قوم کو بتائیں کہ انہیں کیسے حکمران اور کیسی حکمرانی درکار ہے۔ اسی تصور کے تحت جنرل ایوب نے 1958ء میں مارشل لا لگا دیا۔ اصولی اعتبار سے جنرل ایوب کو شکایت سیاست دانوں سے تھی مگر انہوں نے اقتدار پر قبضہ کرتے ہی آئین معطل کردیا، سیاست دانوں ہی پر نہیں سیاست پر بھی پابندی لگا دی، اور انہوں نے کالے قوانین کے ذریعے صحافت کا گلا گھونٹ دیا۔ اس کے معنی یہ تھے کہ صرف سیاست دان نہیں بلکہ پوری قوم جنرل ایوب کی ہاری بن جائے، ان کی محکوم قرار پائے۔ قوم اگر کچھ سوچے تو جنرل ایوب کے ذہن سے، قوم اگر کچھ دیکھے تو جنرل ایوب کی نظروں سے، قوم کے پاس اگر کوئی دلیل ہو تو جنرل ایوب کی۔ یہ قوم کو ذہنی، نفسیاتی اور سیاسی اعتبار سے Stunted Children یا بالیدگی اور نمو سے محروم بچوں میں تبدیل کرنے کی ایک کوشش یا سازش کے سوا کیا تھا؟ بدقسمتی سے جنرل یحییٰ، جنرل ضیا اور جنرل پرویز مشرف نے بھی تقریباً وہی کیا جو جنرل ایوب نے کیا تھا۔ اس اعتبار سے اسٹیبلشمنٹ کا تصورِ قوم یہ ہے کہ قوم کے افراد بونوں، بالشتیوں، ہاریوں، غلاموں، محکوموں، ذہنی، نفسیاتی، سیاسی اور سماجی نمو سے محروم بچوں یا Stunted Children میں تبدیل ہو جائیں۔
بدقسمتی سے پاکستان کو سیاسی یا سول حکمران بھی فوجی آمروں سے مختلف فراہم نہ ہوئے۔ بھٹو صاحب قائداعظم کے بعد سب سے مقبول سیاسی رہنما تھے، مگر اُن کے زمانے میں پیپلزپارٹی کے رہنما اور کارکن بھٹو صاحب کے ہاری ہی نظر آئے۔ پوری پارٹی میں کوئی نہ تھا جو بھٹو صاحب سے اختلاف کرسکتا، اور جن لوگوں نے بھٹو صاحب سے اختلاف کی جرأت کی، انہیں ’’نشانِ عبرت‘‘ بنادیا گیا۔ بھٹو صاحب مقبول تھے اور انہیں پریس کا گلا گھونٹنے کی ضرورت نہ تھی، مگر انہوں نے ’’جسارت‘‘ جیسے اخبار کو بھی چلنے نہ دیا۔ بھٹو صاحب چاہتے تھے کہ پوری قوم صرف وہی سوچے جو وہ سوچتے ہیں، وہی دیکھے جو وہ دیکھتے ہیں، وہی کہے جو وہ کہتے ہیں۔ بھٹو صاحب کو 1977ء کے انتخابات میں دھاندلی کی ضرورت بھی نہ تھی۔ وہ اس کے بغیر بھاری اکثریت سے جیت رہے تھے، مگر انہوں نے انتخابات میں دھاندلی کرائی۔ اس کا اعتراف انہوں نے پی این اے کے رہنمائوں کے ساتھ مذاکرات میں کیا اور کہا کہ وہ 35 نشستوں میں ازسرنو انتخابات کرانے کے لیے تیار ہیں۔ بھٹو صاحب نے دھاندلی نہ کرائی ہوتی تو وہ 35 نشستوںپر دوبارہ انتخابات کے لیے کبھی آمادہ نہ ہوتے۔ بہرحال اس بات سے ثابت ہوتا ہے کہ بھٹو صاحب رائے کی آزادی اور آزادانہ انتخاب کے اصول کو دل سے تسلیم نہیں کرتے تھے اور وہ چاہتے تھے کہ پوری قوم صرف ان کی اندھی تقلید کرے اور فہم و شعور کو بالائے طاق رکھ دے۔ یعنی بھٹو صاحب بھی قوم کو ذہنی، نفسیاتی اور سیاسی اعتبار سے بالیدگی سے محروم یا Stunted Children کی قوم دیکھنا چاہتے تھے۔ ہم نے ایک بار پروفیسر غفور صاحب سے پوچھا کہ آپ نے بھٹو صاحب کو بھی قریب سے دیکھا ہے اور ان کی بیٹی بے نظیر کو بھی، آپ کو ان دونوں میں کیا فرق نظر آیا؟ غفور صاحب نے کہا کہ بے نظیر، بھٹو صاحب سے کم ذہین تھیں مگر ان سے کہیں زیادہ متکبر۔ بھٹو صاحب تو ہماری بات سن بھی لیتے تھے مگر بے نظیر بھٹو کسی کی بات مشکل ہی سے سنتی تھیں۔ یعنی بے نظیر بھٹو کا مزاج اور رویہ زیادہ آمرانہ اور اُن کا تصورِ انسان، تصورِ قوم اور تصورِ جماعت زیادہ پست تھا۔ ممکن ہے انہیں قوم اور اپنے کارکن بالشتیے اور بونے بھی نظر نہ آتے ہوں، یہاں تک کہ وہ قوم کو Stunted Children کی قوم بھی نہ سمجھتی ہوں، ممکن ہے عام لوگ انہیں کیڑے مکوڑے دکھائی دیتے ہوں۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ بھٹو اور بے نظیر بھٹو کا یہ حال ہے تو آصف علی زرداری اور بلاول کا کیا عالم ہوگا؟ انہیں قوم کیا نظر آتی ہوگی؟
میاں نوازشریف کا تصورِِ قوم یہ ہے کہ جرنیل ہوں یا جج صاحبان… صحافی ہوں یا دانش ور… علما ہوں یا دوسری جماعتوں کے رہنما… سب بکائو مال ہیں، سب بے ضمیر ہیں، سب کو خریدا جاسکتا ہے، بس ہر ایک کی قیمت مختلف ہے۔ بدقسمتی سے میاں صاحب صرف اسی طرح سوچ کر نہیں رہ گئے، بلکہ انہوں نے جرنیل بھی خریدے ہیں اور جج بھی۔ انہوں نے خریدے ہوئے میڈیا ٹائی کونز اور صحافیوں کے انبار لگا دیے۔
مختلف سیاسی جماعتوں میں ایسے بہت سے سیاست دان ہیں جو میاں صاحب کی ’’سیاسی بھیک‘‘ پر خود کو مستقبل کا ایم این اے، ایم پی اے اور سینیٹر بنتا ہوا دیکھتے ہیں۔ نواز لیگ کے رہنمائوں کی حیثیت میاں صاحب کے سامنے بونوں، بالشتیوں، Stunted Child، بلکہ حشرات الارض سے زیادہ نہیں۔ میاں صاحب خود ایک بونے، ایک بالشتیے اور ایک Stunted Children ہیں اور وہ قوم کو بھی بونوں، بالشتیوں اور ذہنی و سیاسی اعتبار سے قوتِ نمو سے محروم یا Stunted Children پر مشتمل دیکھنا چاہتے ہیں۔
الطاف حسین نے اس دائرے میں تمام ریکارڈ توڑ ڈالے۔ انہوں نے اپنی پارٹی اور اپنے متاثرین کی ذہنی، نفسیاتی، اخلاقی اور سیاسی نمو کو اتنا روکا، انہیں اتنا Stunted بنایا کہ وہ قاتل، بھتہ خور، رہزن، دہشت گرد، بدمعاش، اٹھائی گیر اور درندے بن گئے اور انہوں نے نعرہ لگایا ’’ہمیں منزل نہیں رہنما چاہیے‘‘۔
اگرچہ پیپلزپارٹی اور نواز لیگ بھی عملاً یہی کررہی ہیں مگر انہیں یہ کہنے کی جرأت نہیں ہوتی کہ ہمیں منزل نہیں رہنما چاہیے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو پیپلزپارٹی اور نواز لیگ ایم کیو ایم سے قدرے بہتر ہیں۔ ہمارے جرنیلوں اور سیاست دانوں کو بونے، بالشتیے، شاہ دولہ کے چوہے اور Stunted Children کتنے پسند ہیں اس کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ طلبہ تنظیموں پر پابندی لگے ہوئے 30 سال سے زیادہ ہوگئے ہیں مگر کوئی حکمران اس پابندی کو ختم کرنے پر آمادہ نہیں۔ پابندی جنرل ضیا الحق نے لگائی تھی، جنرل ضیا الحق کو گالیاں دینے والی پیپلزپارٹی تین بار اقتدار میں آئی مگر اس نے طلبہ تنظیمیں اور طلبہ یونینز بحال نہ کیں۔ لبرل ازم اور سیکولرازم کے پرستار میاں نوازشریف بھی تین بار وزیراعظم بنے مگر انہیں بھی طلبہ کو وہ سیاسی اور جمہوری آزادی دینے کا خیال نہ آیا جسے وہ چیخ چیخ کر اپنے لیے طلب کرتے رہے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ جنرل پرویزمشرف کے دور میں متحدہ مجلس عمل کو کے پی کے میں حکومت کا موقع ملا، مگر صوبے میں طلبہ یونینز کی بحالی کے حوالے سے متحدہ مجلس عمل ’’متحدہ مجلسِ بے عمل‘‘ ہی ثابت ہوئی۔ کہتے سب یہی ہیں کہ وہ طلبہ کو باشعور دیکھنا چاہتے ہیں، مگر جرنیل ہوں یا سیاست دان، کسی کو یہ گوارا نہیں کہ طلبہ فکری، سیاسی اور ذہنی اعتبار سے ’’ترقی یافتہ‘‘ ہوں۔ اس لیے کہ نوجوان باشعور ہوں گے تو وہ سوال کریں گے، حالات کے جمود کو توڑیں گے اور آمریت کی ہر شکل کو آج نہیں تو کل چیلنج کریں گے۔
عمران خان نے حال ہی میں قوم سے خطاب کرتے ہوئے دو بچوں کے دماغ کی دو تصاویر قوم کو دکھائیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان میں سے ایک تصویر اُس بچے کی ہے جسے پوری غذا ملی اور اس کا دماغ یا Brain طبعی طور پر پورا بالیدہ ہوا، یعنی اس کی مکمل نشوونما ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ دوسری تصویر اُس بچے کی ہے جسے مناسب غذا فراہم نہ ہوسکی، چنانچہ اس کا دماغ 60 سے 65 فیصد تک ہی بڑھ سکا۔ غذا کی قلت کا اثر دماغ پر ہی نہیں، جسم پر بھی پڑتا ہے۔ چنانچہ دماغ کی طرح جسم بھی اپنے تمام امکانات ظاہر نہیں کرپاتا۔ نتیجہ یہ کہ ایسے بچے زندگی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔ یہاں کہنے کی دو باتیں ہیں، ایک یہ کہ دوسری جماعتوں کی طرح پی ٹی آئی بھی بونوں، بالشتیوں اور Stunted Children کی پارٹی بن چکی ہے۔ جب پی ٹی آئی کے معروف رہنما یہ کہتے ہیں کہ عمران خان انتخابات میں کھمبا بھی کھڑا کردیتے تو وہ جیت جاتا تو وہ دراصل یہ بتا رہے ہوتے ہیں کہ پی ٹی آئی میں انسان صرف ایک ہی ہے اور وہ ہیں عمران خان، باقی جو بھی ہے وہ یا تو بونا ہے یا بالشتیا، وہ یا تو کھمبا ہے یا Stunted Child۔ لیکن یہ ایک سرسری بات تھی۔ عمران خان کی اس کاوش سے اس مسئلے کا ایک اور پہلو نمایاں ہوا۔
عمران خان نے بالکل ٹھیک ٹھیک یہ بتایا کہ اگر انسان غذائی قلت کا شکار ہوجائے تو وہ طبیعی بالیدگی حاصل نہیں کرپاتا، اور غیر بالیدہ یا Stunted ہوجاتا ہے۔ عمران خان اور پوری قوم کو سمجھنا چاہیے کہ جس طرح انسان کی کامل جسمانی نشوونما کے لیے غذا کی ایک خاص مقدار ضروری ہے، ٹھیک اسی طرح انسان کی روحانی، اخلاقی، علمی، ذہنی اور تخلیقی نشوونما کے لیے بھی روحانی، اخلاقی اور علمی غذا کی ضرورت ہے۔ جس طرح کم غذا سے انسان کا دماغ چھوٹا رہ جاتا ہے اسی طرح کم یا غیر مناسب روحانی، اخلاقی اور علمی غذا سے انسان کی روح، اس کا اخلاقی وجود اور اس کا ذہن (Mind) اور اس کی تخلیقی اہلیت چھوٹی رہ جاتی ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ انسان صرف جسمانی معنوں میں بونا، بالشتیا، یاStunted نہیں ہوتا، بلکہ روحانی، اخلاقی، علمی، تہذیبی، ذہنی اور تخلیقی معنوں میں بھی بونا، بالشتیا، یا مکمل بالیدگی سے محروم یعنی Stunted ہوتا ہے۔ خوش قسمتی سے جسمانی بونوں، بالشتیوں اور Stunted بچوں یا لوگوں کا ذکر تو پھر بھی کچھ نہ کچھ ہونے لگا ہے، لیکن روحانی، اخلاقی، علمی اور تہذیبی غذا اور اس کی قلت سے پیدا ہونے والے بونوں، بالشتیوں اور Stunted بچوں یا بڑوں کا تو پاکستان سمیت پوری دنیا میں کہیں ذکر ہی نہیں ہورہا، حالانکہ ہمارا معاشرہ کیا پوری دنیا روحانی، اخلاقی، علمی، ذہنی، نفسیاتی، جذباتی اور تہذیبی اعتبار سے بونوں، بالشتیوں اور Stunted انسانوں سے بھر گئی ہے۔
ہمارے اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلز قوم کے بڑے خادم بنے ہوئے ہیں، ان کا اصرار ہے کہ وہ قوم کو باشعور بنا رہے ہیں۔ یہ اکیسویں صدی کا ایک سفید جھوٹ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ذرائع ابلاغ روحانی، اخلاقی، علمی، تہذیبی اور تخلیقی طور پر بونے، بالشتیے، ذہنی غلام، شاہ دولہ کے چوہے اور بالیدگی سے عاری یا Stunted قارئین اور ناظرین پیدا کیے چلے جارہے ہیں۔ آپ ملک کے دس بڑے اخبارات اور دس بڑے ٹی وی چینلز کے ایک ماہ کے مواد یعنی Content کا تجزیہ کرلیجیے… اس مواد میں نہ کوئی روحانیت ہے، نہ مذہبیت ہے، نہ اخلاقیات ہے، نہ فکر ہے، نہ فلسفہ ہے، نہ ادب ہے، نہ شاعری ہے اور نہ کوئی تہذیبی روح یا تہذیبی حس ہے۔ ان ذرائع ابلاغ کے مواد کا 90 فیصد سیاست پر مشتمل ہے، اور وہ بھی ہنگامی سیاست پر۔ سیاست کا بھی ایک فکری اور علمی حوالہ ہے، اس کی بھی ایک تاریخ ہے۔ مگر ہمارے ذرائع ابلاغ میں یہ چیزیں بھی موجود نہیں۔ آپ ملک کے پچاس اہم یا مشہور کالم نگاروں کے ایک سال کے کالموں کا تجزیہ کرا لیجیے، اس تجزیے میں آپ کو کہیں مذہب، روحانیت، اخلاقیات، علم، فلسفہ، ادب، تاریخ، تہذیب، شاعری، افسانہ، ناول، تنقید کچھ بھی نظر نہیں آئے گا۔ بدقسمتی سے اخبارات و رسائل کے قارئین اور ٹیلی ویژن کے ناظرین کو معلوم ہی نہیں کہ وہ جو ’’ابلاغی مواد‘‘ کھا پی رہے ہیں اور ہضم کررہے ہیں وہ مواد رفتہ رفتہ انہیں روحانی، اخلاقی، ذہنی، تخلیقی، تہذیبی، ذہنی، نفسیاتی اور جذباتی حوالوں سے غیر بالیدہ شخصیت یا Stunted Children میں تبدیل کررہا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ کے ذرائع ابلاغ مذہب، تہذیب، تاریخ، فکر، علم، فلسفہ، ادب اور خود پاکستان کے شہریوں کی عظیم اکثریت کے خلاف ایک سازش بنے ہوئے ہیں۔
ایک وقت تھا کہ ہماری تہذیب میں طالب علم کا تصور استاد کے بغیر کیا ہی نہیں جا سکتا تھا، مگر اب صورتِ حال یہ ہے کہ ہمارے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں خال خال ہی ایسے اساتذہ نظر آتے ہیں جو طلبہ کی شخصیت پر فیصلہ کن اثرات مرتب کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ درس و تدریس اب خدمت نہیں ’’پیشہ‘‘ ہے۔ اس سے بھی بڑی مشکل یہ ہے کہ اساتذہ کی شخصیت میں کوئی گہری روحانی، اخلاقی اور علمی جہت ہی نہیں ہوتی۔ اسکول، کالج اور یونیورسٹی میں ہم نے درجنوں اساتذہ دیکھے مگر ہمیں حسرت ہی رہی کہ ہم کبھی اساتذہ کو کوئی علمی بات کرتے دیکھیں۔ جب دیکھا اساتذہ کو تنخواہ، مراعات، ترقی اور اساتذہ کی سیاست پر بات کرتے دیکھا۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں اوسط درجے سے زیادہ صلاحیت کا طالب علم ہونا عذاب بن گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اوسط درجے سے زیادہ صلاحیت کا حامل طالب علم سوال کرتا ہے، بحث کرتا ہے، استاد کے علم یا لاعلمی کو چیلنج کرتا ہے، اور یہ بات اکثر اساتذہ کو پسند نہیں آتی۔ نتیجہ یہ کہ ہمارے تعلیمی ادارے ایک جیسے طالب علم پیدا کرنے و الے کارخانے بن گئے ہیں۔ ان کارخانوں میں نہ کوئی اچھی تحقیق ہورہی ہے، نہ ہی ان کارخانوں میں تخلیقی رویوں کے لیے کوئی گنجائش ہے۔
ہم نے ایم اے میں مشفق خواجہ کی شخصیت اور سیاسی کالم نویسی پر مقالہ لکھا تو خواجہ صاحب سے تواتر کے ساتھ ملاقاتوں کا موقع ملا۔ خواجہ صاحب نے ایک دن ہمیں ایک دو نہیں ایم فل اور پی ایچ ڈی کے کئی مقالے دکھائے۔ یہ مقالے ملک کی مختلف جامعات کے طلبہ نے تحریر کیے تھے۔ ان مقالوں میں قدرِ مشترک یہ تھی کہ ان سب پر ان کے نگرانوں نے لکھا ہوا تھا کہ یہ مقالے لائقِ اشاعت نہیں۔ یعنی ان مقالوں پر ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں تو طوعاًوکرہاً، مجبوراً یا ضرورتاً دے دی گئی تھیں مگر یہ مقالے اس لائق نہیں تھے کہ انہیں کتابی صورت میں شائع کرکے قارئین تک پہنچایا جاسکتا۔ بلاشبہ ہر ایم فل اور ہر پی ایچ ڈی جاہل نہیں ہوتا، مگر حقیقت یہ ہے کہ ہماری جامعات نے گزشتہ تیس برسوں میں ایم فل اور پی ایچ ڈی جاہلوں کی ایک فوج تخلیق کرڈالی ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جن لوگوں نے یہ کام کیا ہے وہ خود بھی بونے، بالشتیے اور علمی و تخلیقی طور پر Stunted ہیں اور ان کے طالب علم بھی ان کی فوٹو اسٹیٹ ہیں۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بیس ہزار سے زیادہ مدارس ہیں، ان میں 22 لاکھ سے زیادہ طالب علم زیر تعلیم ہیں۔ ان مدارس میں دیوبندی کہلانے والے مدارس بھی ہیں، بریلوی مکتب فکر کے مدارس بھی ہیں اور جماعت اسلامی کے زیر انتظام مدارس بھی۔ گزشتہ بیس سال سے ہمارا وتیرہ یہ ہے کہ جب بھی کسی دینی مدرسے کے مہتمم یا استاد سے ہماری ملاقات ہوتی ہے ہم اُن سے یہ ضرور پوچھتے ہیں کہ آپ کے مدرسے میں کوئی ایسا طالب علم ہے جس نے قرآن و حدیث، فقہ، معقولات یا سیرت طیبہؐ پر کوئی قابلِ ذکر کتاب تحریر کی ہو، یا اس کے کچھ فکر انگیز علمی مضامین کہیں شائع ہوئے ہوں؟ بدقسمتی سے ہم نے جب بھی ایک امید، ایک توقع کے ساتھ یہ سوال کیا ہمیں ہمیشہ مایوسی کا منہ دیکھنا پڑا۔ ہماری پوری صحافتی زندگی علما اور دینی مدارس کے دفاع میں بسر ہوگئی مگر اس کے باوجود یہ کہے بغیر چارہ نہیں رہا کہ ہمارے مدارس کے اساتذہ بھی بونے، بالشتیے اور علمی و تخلیقی اعتبار سے غیر بالیدہ یا Stunted Children پیدا کررہے ہیں۔ آخر ہمارے مدارس مولانا اشرف علی تھانویؒ، اعلیٰ حضرت امام رضا خان بریلویؒ اور مولانا مودودیؒ کے علم کا ایک فیصد بھی پیدا کرنے میں کیوں ناکام ہیں؟ اور یہ ناکامی مدارس اور اُن کے اساتذہ کے لیے صدمہ انگیز کیوں نہیں؟ کیا ہمارا مذہبی شعور بھی اپنے احتساب اور اصلاح سے اتنا ہی بے نیاز ہے جتنا ہمارے جرنیلوں، سیاست دانوں، دانش وروں، شاعروں، ادیبوں اور صحافیوں کا شعور؟ اگر ایسا ہی ہے تو ہمارے علما اور مذہبی شعور کی دیگر علامتیں میدانِ حشر میں خدا کے روبرو بڑے سخت امتحان سے گزرنے والی ہیں۔ ہم جیسے کم علم اور ہر طرح کی ذمے داری سے عاری لوگ تو شاید بچ بھی جائیں، مگر جو لوگ بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہیں اور جو رہنما اور عالم کہلاتے ہیں انہیں تو بہت سخت بازپرس سے گزرنا پڑے گا۔ ساری دنیا کو خدا کی پکڑ سے ڈرانے والے خود خدا کی پکڑ سے کب ڈرنا شروع کریں گے؟ یہاں کہنے کی بات یہ بھی ہے کہ ہمارے مذہب، ہماری تہذیب، ہماری تاریخ اور ہماری شاعری کا تصورِ انسان عرش ہے تو ہمارے حکمرانوں کا تصورِ انسان پاتال۔ ایسی بلندی اور ایسی پستی؟