سلیم احمد نے کہا تھا؎
دیوتا بننے کی حسرت میں معلق ہو گئے
اب ذرا نیچے اترئیے آدمی بن جائیے
اسی شعر کا عمران خان کی سیاست سے ایک گہرا تعلق ہے۔ ایک وقت تھا کہ عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی سیاست کے خلاف تھے مگر پھر انہوں نے “نظریہ ضرورت” کے تحت اسٹیبلشمنٹ کی سیاست کی۔ وہ Electables اور سرمائے کی سیاست کے خلاف تھے مگر انہوں نے حالیہ انٹرویو دیتے ہوئے صاف کہا کہ Electables اور سرمائے کے بغیر انتخابات میں کامیابی حاصل نہیں کی جا سکی۔ اور بلاشبہ ان کی انتخابی کامیابی میں ان دونوں عناصر کا بنیادی کردار ہے۔ عمران خان “زرداری مافیا” کے سخت خلاف تھے مگر انتخابات کے بعد انہوں نے قومی اسمبلی میں آصف زرداری اور بلاول سے مصافحہ کے لیے “خصوصی محنت” اور “خصوصی انتظار” کیا۔ عمران خان بجا طور پر ایم کیو ایم کے حریف تھے مگر انہوں نے حکومت سازی کے لیے ایم کیو ایم کو گلے لگایا۔ جو شخص ایم کیو ایم کو گلے لگا سکتا ہے وہ اقتدار کے لیے “شیاطین” کو بھی سینے سے لگا سکتا ہے۔ یہاں پہنچ کر سیاست کے معنی ہی بدل کر رہ جاتے ہیں۔ اسی لیے کہ اگر سیاست اور اقتدار کے لیے کچھ بھی کیا جا سکتا ہے تو پھر “تبدیلی کی سیاست” کا کوئی مفہوم ہی نہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ تبدیلی کے دعویدار رہنما حالات کو بدلتے ہیں۔ وہ حالات سے خود تبدیل نہیں ہوتے۔ عمران خان بار بار کہتے ہیں کہ ان کے آئیڈیل قائداعظم ہیں۔ بلاشبہ ایک زمانہ تھا کے قائداعظم کانگریس میں تھے مگر جب ایک بار انہوں نے کانگریس کو خیر باد کہا تو پھر پلٹ کر اس کی طرف نہیں دیکھا۔ انہوں نے جب قیام پاکستان کا مطالبہ کر دیا تو انگریزوں اور ہندوئوں سے کوئی “سمجھوتہ” نہیں کیا۔ انہوں نے کبھی “سرحدی گاندھی” غفار خان اینڈ کمپنی کے سلسلے میں اپنے رویے پر نظرثانی نہیں کیا۔ انہوں نے جی ایم سید کو پارٹی سے نکالا تو کبھی ان کو پارٹی میں واپس نہیں لیا۔عمران خان کے مزاج اور ان کی سیاست کے ؟؟؟ کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے 26 جولائی 2018ء کو جو “وکٹری اسپیچ” کی وہ “فاختہ کی تقریر” تھی۔ انہوں نے 17 جولائی 2018ء کو قومی اسمبلی میں جو خطاب فرمایا وہ “شاہین کا خطاب” تھا۔ یہ ایک سچے اور کھرے رہنما کا “احوال” نہیں ہے۔ بلاشبہ انسان کی “قلب ماہیت” بھی ہوتی ہے۔ مگر وہ پندرہ بیس دن میں فاختہ سے شاہین یا بکری سے شیر نہیں بنتا اور جو رہنما اتنی تیزی سے بدلتے ہیں وہ یہ بتاتے ہیں کہ وہ یا تو کسی کے اشاروں پر کام کر رہے ہیں یا پھر ان کا تجزیہ اتنا سرسری اور سطحی ہے کہ وہ پندرہ بیس دن سے زیادہ نہیں چل پاتا۔
بدقسمتی سے عمران خان کے اقتدار کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ انہیں اسٹیبلشمنٹ نے اقتدار دلانے میں اہم کردار تو ادا کر دیا ہے مگر عمران کو اقتدار کا گاڑی “تعمیر کی خرابیوں” Manufacturing Falts کے ساتھ مہیا کی گئی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ عمران غالب کے مصرع
مری تعمیر میں مضمر ہے ایک صورت خرابی کی
پہ کس طرح قابو پاتے ہیں؟
عمران خان جب تک اقتدار میں نہیں آئے تھے ان کا مقابلہ نواز شریف کے ساتھ تھا مگر اب عمران خان کا مقابلہ بنیادی طور پر خود اپنے ساتھ ہے۔ ایک طرف وہ عمران ہے جو وعدے کیے ہوئے ہے۔ دعوے کیے ہوئے ہے اور دوسری طرف وہ عمران ہے جو اقتدار میں آنے کے بعد وعدوں اور دعووں پر عمل کا اختیار رکھتا ہے۔ یہ دونوں عمران ایک اکائی بن کر نہ ابھرے تو وعدے اور دعوے کرنے والا عمران ناقص العمل عمران کو چار چھ مار میں ہی ہڑپ کرنا شروع کر دے گا۔ عمران کو یاد رکھنا چاہیے کہ ان کی ساری شہرت اور سیاسی کامیابی کا انحصار ان کی مزاحمتی سیاست پر ہے۔ وہ شیر کے بجائے بکری کا کردار ادا کرنا شروع کریں گے تو “تشخص کے بحران” میں مبتلا ہو کر رہیں گے اور ان کی سیاسی پیشقدمی رک جائے گی۔ چنانچہ انہیں آگے بڑھ کر اپنے حریفوں بالخصوص نواز لیگ کے بچے کچھے سیاسی مراکز پر حملہ کرنا چاہیے۔ وہ مزاحمتی سیاست ترک کریں گے تو ان کے نواز لیگ اور پیپلزپارٹی کے متبادل کا تاثر تیزی کے ساتھ تحلیل ہو گا۔ یہ تاثران کی سیاسی موت کا آغاز ہو گا۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو قوم سے ایک گھنٹے نو منٹ پر مشتمل عمران خان کے خطاب کو افسوس ناک ہی کہا جا سکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کے اس خطاب میں عمران خان نے روایتی سیاست دانوں کی طرح خواب اور خواہشات کو فروخت کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان میں ایک خواب معیشت کی بہتری ہے۔ ایک خواب تعلیم کی بہتری ہے۔ ایک خواب صحت کے شعبے کی بہتری ہے۔ ایک خواب غربت کا خاتمہ ہے۔ ایک خواب زیادہ سے زیادہ روزگار کی فراہمی ہے۔ ان خوابوں پر بات بھی ضروری ہے مگر مسئلہ خوابوں کا نہیں خوابوں کی تعبیر کا ہے۔ ان میں سے صرف ایک خواب ایسا ہے جس کو عمران خان نے حقیقت بنانے کے عمل کا آغاز کر دیا ہے۔ انہوں نے قوم کو بتایا کہ وہ وزیراعظم ہائوس میں نہیں رہیں گے بلکہ تین بیڈ روم کے گھر میں رہیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم ہائوس میں 524 ملازمین ہیں مگر عمران صرف 2 ملازمین رکھیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم ہائوس کے پاس 33 بلٹ پروف گاڑیوں سمیت 80 گاڑیاں ہیں جن میں سے ایک گاڑی کی قیمت پانچ کروڑ سے بھی زیادہ ہے۔ عمران ان میں سے صرف چند گاڑیاں استعمال کریں گے۔ انہوں نے قوم سے خطاب میں کہا کہ وہ وزیراعظم ہائوس کو یونیورسٹی کے طور پر استعمال کریں گے۔ یہ وہ باتیں ہیں جو عوام کو پسند آئیں گی اور وہ عمران کے ساتھ خود کو متعلق کر سکے گا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ عمران سے قبل اتنی معمولی سی انقلابیت بھی کسی حکمران سے منسوب نہیں ہو سکی تھی۔ مگر اس ایک “عملی اقدام” کے سوا عمران خان کسی اور شعبے میں عمل کی مثال پیش نہیں کر سکے ہیں۔ لیکن یہ آغاز ہے۔ انہیں اس سلسلے میں چار پانچ ماہ کا وقت دیا جانا چاہیے۔ بدقسمتی سے عمران کی ٹیم میں اہل لوگوں کا فقدان ہے۔ اس دائرے میں وہ نواز لیگ اور پیپلزپارٹی سے مختلف نظر نہیں آتے۔ چنانچہ دیکھنا یہ ہے کہ وہ ماہرین کی کوئی بہتر ٹیم مہیا کر پاتے ہیں یا نہیں؟ ٹیم مہیا ہو گئی اور اس نے چند شعبوں میں بھی بیس پچیس فیصد نتائج پیدا کر کے دکھا دیے تو عمران کی عوامی مقبولیت بڑھے گی۔ قوم کے لیے یہ امر اطمینان بخش ہے کہ عمران نے اپنی تقریر میں چوروں اور ڈاکوئوں کا احتساب جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے اور عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ اس سلسلے میں عمران کا ساتھ دیں۔ عمران کو معلوم ہونا چاہیے کہ وہ ملک کو بدعنوانی سے پاک کرنے کے لیے احتساب کے عمل کو آگے بڑھائیں گے تو انہیں ہر شعبہ حیات سے حمایت فراہم ہو گی مگر احتساب کے عمل کو ہمہ گیر اور ہمہ جہت بنانے کی ضرورت ہے۔ دنیا میں کہیں بھی انقلاب آئس کریم کھانے اور کیک کاٹنے کی طرح سہل اور مزیدار نہیں ہوتا۔ روس میں انقلاب آیا تو 80لاکھ لوگ مارے گئے۔ چین کے انقلاب میں ساڑھے چار کروڑ لوگ ہلاک ہوئے۔ عمران خان نے کوئی انقلابی ہی ں نہ وہ کسی خونی انقلاب کی بات کر رہے ہیں۔ وہ صرف “اصلاح” کا نعرہ لگا رہے ہیں مگر اصلاح بھی تکلیف کے بغیر نہیں ہوتی۔ عمران خان کو اس بات کا اندازہ ہے، اس لیے انہوں نے اپنے خطاب میں کہا ہے کہ احتساب ہوا تو کچھ لوگ شور مچائیں گے۔ وہ سڑکوں پر آئیں گے اور جمہوریت کے خطرے میں ہونے کی بات بھی کی جائے گی۔ لیکن ہمیں یقین ہے کہ اگر احتساب کی “ساکھ” ہو گی تو کسی بھی شور شرابے سے کچھ نہ ہو گا۔ عمران خان نے اب تک جو سیاست کی ہے وہ طوفانی رہی ہے۔ وہ احتساب کریں گے اور معاشرے کی اصلاح پر مائل ہوں گے تو آئندہ بھی ان کی سیاست طوفانی ہی ہو گی۔ عمران اقتدار میں آکر طوفانوں سے ڈر گئے تو ان کا کوئی مستقبل نہیں۔ عمران اقبال کا ذکر کرتے رہتے ہیں۔ انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ اقبال نے ایک اور تناظر میں میں فرمایا ہے۔ ؎