ہر زمانے کے انسان کے سامنے ایک ہی سوال ہوتا ہے: زندگی اور دنیا کیسی ہے اور اسے کیسا ہونا چاہیے؟ جو لوگ حق و باطل، صحیح و غلط اور خیر و شر کا کوئی تصور ہی نہیں رکھتے وہ ہر زمانے میں زندگی اور دنیا کو اسی طرح قبول کرلیتے ہیں جیسی کہ کسی زمانے میں زندگی یا دنیا ہوتی ہے۔ اگر دنیا میں کفر غالب ہوتا ہے تو وہ خود کو کفر سے ہم آہنگ کرلیتے ہیں، اگر دنیا میں شرک غالب اور رائج ہوتا ہے تو وہ اس کے آگے سرِِ تسلیم خم کردیتے ہیں۔ البتہ جو لوگ حق و باطل کا کوئی تصور رکھتے ہیں، صحیح اور غلط کی تمیز کے حامل ہوتے ہیں، خیر و شر کے کسی امتیاز کے قائل ہوتے ہیں وہ زندگی اور دنیا کو من وعن قبول کرنے کے بجائے زندگی اور دنیا کو بدلنے کی جدوجہد کرتے ہیں۔
دنیا میں ایک لاکھ 24 ہزار انبیاء آئے، ہر نبی نے دنیا کو حق و باطل کے تناظر میں دیکھا اور بیان کیا، اور دنیا کو حق کی بنیاد پر استوار کرنے کی کوشش کی۔ کوئی ایک نبی بھی ایسا نہیں گزرا جس نے کہا ہو کہ حق و باطل دو متوازی حقیقتیں ہیں اور وہ بیک وقت زندگی اور دنیا کا حصہ ہوسکتے ہیں۔ ہر نبی نے یہی کہا کہ اصل زندگی وہی ہے جو حق کی بنیاد پر بسر ہو۔ دنیا اور آخرت کی زندگی کی کامیابی بھی حق سے وابستگی پر منحصر ہے۔ چنانچہ ہر نبی نے حق کی بنیاد پر باطل کو چیلنج کیا۔ اس نے کفر، شرک، نفاق، نسل پرستی، لسانیت، قبائلیت، طاقت پرستی، دولت پرستی اور دنیا کی محبت کی بیخ کنی کی، اور انفرادی و اجتماعی زندگی کو خدا مرکز، رسول مرکز، کتاب مرکز، وحی مرکز، علم مرکز، اخلاق مرکز اور کردار مرکز بنایا۔ انبیا نے جو کچھ کہا اُسے بسر کرکے دکھایا، اور وہ خود اپنے خیال کی عملی مثال بن کر سامنے آئے۔
ہر نبی نے ایک جانب یہ بتایا کہ حق کیا ہے اور اس کی تفصیل کیا ہے۔ دوسری جانب یہ بتایا کہ حق مغلوب ہونے کے لیے نہیں ہوتا بلکہ غالب ہونے کے لیے ہوتا ہے، اس لیے کہ وہی ’’و احد سچائی‘‘ ہے، وہی ’’مطلق آگہی‘‘ ہے، وہی ’’اطاعت کے لائق‘‘ ہے۔ تیسری جانب ہر نبی نے اپنے زمانے کے باطل کا نام لے کر نشاندہی کی اور اسے قول اور عمل دونوں کی سطح پر چیلنج کیا۔ انبیا و مرسلین کی دعوت کا ایک پہلو یہ ہے کہ انبیا نے حق و باطل کے درمیان کبھی مصالحت کی کوشش نہیں کی، اس لیے کہ انھیں اس کا حکم ہی نہیں کیا گیا۔ حق و باطل کی کشمکش میں جہاد بھی ہوا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اگر حق و باطل کی کشمکش میں جان کی بازی لگانی پڑے تو بلاتکلف ایسا کرگزرنا چاہیے، اس لیے کہ زندگی حق کی وجہ ہی سے زندگی ہے۔ حق نہیں تو زندگی شرمندگی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ انبیاء و مرسلین کی روایت کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ حق و باطل کی کشمکش میں کبھی’’کامیابی‘‘ اصول بن کر نہیں ابھری۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کامیابی کا تعلق ہدایت کے ساتھ ہے اور ہدایت خدا کے ہاتھ میں ہے۔ وہ جس کو ہدایت کے لائق سمجھتا ہے اسے ہدایت دے دیتا ہے، ورنہ وہ گروہوں کو کیا قوموں اور تہذیبوں کو فنا کردیتا ہے۔ چنانچہ حق و باطل کے لیے جدوجہد کرنے والے کامیابی کی آرزو تو کرسکتے ہیں، اس کے لیے جان مار سکتے ہیں، اس کے لیے دعا کرسکتے ہیں، مگر کامیابی کو معیار اور پیمانہ نہیں بنا سکتے۔
مسلمانوں کی پوری تاریخ پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے وارثوں کی روایت کا سایہ ہے۔ چنانچہ جب کبھی کوئی مجدد پیدا ہوا ہے اُس نے اس بات کو اہمیت نہیں دی کہ زندگی اور دنیا کیا ہوگئی ہے، بلکہ اُس کی ساری توجہ اس بات پر مرکوز ہوئی کہ زندگی اور دنیا کو کیا ہونا چاہیے۔ تجدید کے مفہوم پر غور کیا جائے تو اس کا مطلب ہے: اصل اصول کی طرف لوٹ جانا۔ ہماری تاریخ میں حرکت کی دو ہی صورتیں ہیں۔ ایک تاریخی حرکت وہ ہے جو انسانوں اور معاشرے کو مرکز سے دور لے جاتی ہے، اسے مرکز گریز حرکت کہتے ہیں۔ دوسری تاریخی حرکت وہ ہے جو زندگی، انسانوں اور معاشروں کو مرکز کے قریب لاتی ہے، انہیں مرکز سے جوڑتی ہے، اسے مرکز جُو حرکت کہتے ہیں۔ جس طرح ہر نبی نے انسانوں کو مرکز جُو بنایا اسی طرح ہر مجدد مسلمانوں کو مرکز جُو بناتا ہے۔ امام غزالیؒ نے یہی کیا، ابن تیمیہؒ نے یہی کیا، حضرت مجدد الف ثانیؒ نے یہی کیا، شاہ ولی اللہؒ نے یہی کیا، مولانا مودودیؒ نے یہی کیا۔
برصغیر میں روایتی علما نے اسلام کی بے مثال خدمت کی مگر غلامی کا تجربہ اُن کی تعبیرِ دین پر اثرانداز ہوا۔ چنانچہ انھوں نے یہ تو بتایا کہ حق کیا ہے، مگر یہ نہ بتایا کہ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے، وہ صرف عقائد، عبادات اور اخلاقیات سے متعلق نہیں بلکہ ریاست و سیاست، معیشت و معاشرت اور آرٹ اور کلچر پر بھی اسی کی حکمرانی ہوگی۔ ایک مسئلہ یہ تھا کہ روایتی علما دین کے غلبے کو دین کے ایک ناگزیر تقاضے کے طور پر نہ ابھار سکے، چنانچہ روایتی علما کی تحریروں میں اسلام انقلابی قوت بن کر سامنے نہ آسکا۔ بدقسمتی سے روایتی علما نے انبیا کی روایت کی پاسداری کرتے ہوئے یہ بھی نہ بتایا کہ ہمارے دور کے باطل نظام اور باطل طاقتیں کون کون سی ہیں اور ان کے نظام ہائے فکر اور نظام ہائے حیات کی تنقید کیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سرمایہ داری اور سوشلزم پر روایتی علما وہ اساسی تنقید مہیا نہ کرسکے جو ہمارے عہد کی ایک بہت ہی بڑی روحانی، علمی، تہذیبی اور تاریخی ضرورت تھی۔ اس صورتِ حال کے نتیجے میں ایک ایسا مذہبی شعور پیدا ہوا جس نے کسی اعلان کے بغیر یہ تسلیم کرلیا کہ عہدِ حاضر کی دنیا اسلام اور مسلمانوں کی دنیا نہیں ہے، بلکہ یہ سرمایہ داروں اور سوشلسٹوں کی دنیا ہے، یہ امریکہ کی دنیا ہے، یورپ کی دنیا ہے، روس کی دنیا ہے، مغرب کی دنیا ہے، ہم اس دنیا کو بدلنے کی سکت نہیں رکھتے اور نہ ہمیں اسے بدلنے کا خیال دل میں لانا چاہیے، بلکہ ہماری ساری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہم مغرب اور بالادست باطل قوتوں کی تخلیق کی ہوئی دنیا میں اپنے لیے کوئی ’’گوشۂ عافیت‘‘، کوئی ’’یتیم خانہ‘‘ یا باطل کے سمندر میں حق کا کوئی ’’جزیرہ‘‘ تعمیر کرسکیں۔ یہ طرزِفکر مسلمانوں ہی کی نہیں خود اسلام کی توہین ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کی توہین ہے، اسلامی تہذیب اور اسلامی تاریخ کی توہین ہے۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ باطل پرست تو دنیا کے امام بنے ہوئے ہیں، اور جن کے پاس حق ہے وہ باطل قوتوں کی تخلیق کی ہوئی دنیا میں گوشۂ عافیت، یتیم خانہ اور جزیرہ بنانے کے لیے کوشاں نظر آئیں، وہ باطل پرستوں سے یہ درخواست کرتے دکھائی دیں کہ ہمیں اپنا چپراسی رکھ لو، اپنے جوتے پالش کرنے کے کام پر رکھ لو۔ مسلمانوں کی نفسیات اپنی اصل میں پہل کاری یا Intiative کی نفسیات ہے۔ معذرت خواہی اور مدافعت کی نفسیات نہیں۔ مسلمان خارج میں غلام بھی ہو تو باطن میں آزاد ہوتا ہے۔ اکبر الٰہ آبادی زمانے کے جبر کے تحت انگریزوں کے غلام تھے۔ انھوں نے جدید تعلیم بھی حاصل کی اور انگریزوں کی حکومت میں جج بھی ہوئے، مگر ان کا ذہن، ان کی روح اور ان کا قلب آزاد تھا۔ چنانچہ انھوں نے ایک آدمی ہونے کے باوجود انقلابی شاعری تخلیق کی۔ اس شاعری کا کمال یہ ہے کہ مسلمانوں نے جو جنگ میدان میں ہار دی تھی اکبرؔ نے وہی جنگ اپنی شاعری میں جیت کر دکھا دی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اکبر One Man Army کے تصور کی ٹھوس مثال تھے۔ یہی معاملہ اقبال کا ہے۔ اقبال کا خارج غلام تھا مگر اقبال کا باطن پوری طرح آزاد تھا۔ انھوں نے انگریزوں سے ’سر‘ کا خطاب بھی حاصل کیا، لیکن انھوں نے وہ شاعری تخلیق کی جسے پڑھ کر مُردہ لوگ بھی زندہ ہوسکتے ہیں۔ اقبال بھی One Man Army کی تجسیم تھے۔ مگر آج بڑے بڑے علما اور بڑی بڑی مذہبی تحریکیں کتمانِ حق کی مرتکب ہورہی ہیں، وہ نہ اسلام کو مکمل ضابطۂ حیات کہہ رہی ہیں، نہ اسلام کو غالب کرنے کا کوئی تصور اُن کے سامنے ہے۔ ہمارے بڑے بڑے علما قرآن کی بات کرتے ہیں مگر وہ مسلمانوں کو قرآن کی روشنی میں یہ نہیں بتاتے کہ عہدِ حاضر کا نمرود، فرعون اور ابوجہل کون ہے۔ وہ قرآن کی آیاتِ جہاد پر بات ہی نہیں کرتے، وہ منکرات کے سیلاب کی راہ روکنے کے لیے تیار نہیں، وہ سیرتِ طیبہؐ پر کلام کرتے ہیں اور یہ نہیں بتاتے کہ آپؐ نے ریاست مدینہ قائم کی، چنانچہ اسلام میں سیاسی جدوجہد اپنی اصل میں روحانی جدوجہد ہے۔ وہ مسلمانوں کو آگاہ ہی نہیں کرتے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدنی زندگی کے دس سال جہاد اور قتال میں بسر ہوئے، اور دس سال کی قلیل مدت میں 30 سے زائد غزوات اور سرایہ وقوع پذیر ہوئے۔ یہ کتمانِ حق ہے۔
اس تناظر میں مولانا مودودیؒ کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے دین کے مکمل ضابطۂ حیات ہونے کے اس تصور کو زندہ کیا جس کو امت بھول گئی تھی۔ لیکن مولاناؒ صرف دین کو مکمل ضابطۂ حیات کہہ کر نہیں رہ گئے، انھوں نے صاف کہا کہ اسلام مغلوب ہونے کے لیے آیا ہی نہیں، اسلام غالب آنے کے لیے ہے۔ اس کے ساتھ ہی مولانا نے انبیا اور مجددین کی روایت کے عین مطابق اپنے عصر کے باطل نظاموں کی نشاندہی کی، اپنی بساط کے مطابق ان کی تنقید لکھی، اور ان نظاموں کے علَم برداروں کی عملی مزاحمت کے لیے جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ قائم کیں۔
یہاں اس امر کی نشاندہی ضروری ہے کہ معاشرے میں نظریاتی کشمکش خودبخود برپا نہیں ہوتی۔ ہر دور میں ’’عام لوگ‘‘ حاضر و موجود کو پوجتے ہیں۔ وہ ’’متبادل‘‘ کے تصور سے آگاہ نہیں ہوتے۔ ان کی روحانی، علمی، دانش ورانہ اور اخلاقی اہلیت اتنی کم ہوتی ہے کہ وہ ’’حاضر و موجود‘‘ کو پھلانگ کر کھڑے ہونے کی سکت کے حامل نہیں ہوتے۔ چنانچہ ختمِ نبوت سے پہلے تک انبیا آکر معاشرے میں ’’نظریاتی کشمکش‘‘ برپا کرتے تھے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت ختم ہوگئی، چنانچہ اب انبیا کے وارثوں کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ زندگی، معاشرے اور دنیا کو جوں کا توں قبول نہ کریں بلکہ معاشرے کو نظریاتی خطوط پر استوار کریں۔ برصغیر میں اکبر الٰہ آبادی اور علامہ اقبال سے قبل فکری محاذ پر، اور مولانا مودودیؒ سے قبل فکری اور علمی محاذ پر یہ کشمکش کہیں برپا نہ تھی۔ ان معنوں میں مولانا مودودی اکبر الٰہ آبادی اور اقبال سے بڑھ کو One Man Army بن کر ابھرے۔ مولانا نے اپنے کام کا آغاز کیا تو مولانا کے خارج میں غلامی تھی۔ مگر اکبر اور اقبال کی طرح مولانا کی روح، ذہن، قلب اور نفسیات آزاد تھی، چنانچہ مولانا نے پوری امت کو نظریاتی کشمکش سے آراستہ تناظر مہیا کیا۔ اس تناظر کے حوالے سے علمی مواد موجود نہ تھا۔ مولانا نے علمی مواد مہیا کیا۔ اس تناظر اور اس علمی مواد کی بنیاد پر کوئی جماعت پہلے سے کام نہیں کررہی تھی۔ مولانا نے معاشرتی دائرے میں جماعت اسلامی بنائی۔ نوجوانوں کے لیے اسلامی جمعیت طلبہ وضع کی۔ محنت کشوں کے لیے محنت کش تنظیمیں قائم کیں۔ چنانچہ برصغیر کے اس معاشرے میں ایک نظریاتی کشمکش برپا ہوگئی جو کسی نظریاتی کشمکش سے آگاہ نہ تھا۔
نظریاتی کشمکش کبھی بھی خود پیدا نہیں ہوتی، اسے شعوری طور پر پیدا کیا جاتا ہے۔ اس کشمکش سے پہلے معاشرہ کہیں کفر میں مبتلا ہوتا ہے، کہیں شرک میں پڑا سڑ رہا ہوتا ہے، کہیں فرقہ وارانہ اور مسلکی تعصبات اسے گھیرے ہوئے ہوتے ہیں، کہیں ذات پات، برادری ازم کا غلبہ ہوتا ہے، کہیں لسانیت اور صوبائیت اپنا کھیل کھیل رہی ہوتی ہیں۔ یہ تمام صورتیں اس بات کا اظہار ہوتی ہیں کہ معاشرہ پستی میں پڑا ہوا ہے اور حقیر خواہشات نے اسے اپنا غلام بنایا ہوا ہے۔ اس فضا میں نظریاتی کشمکش برپا ہوتی ہے، نظریاتی شعور پروان چڑھتا ہے اور معاشرے کے صالح یا بہتر عناصر اس میں کشش محسوس کرتے ہیں اور وہ اپنے معاشرے کی عمومی پستی سے بلند ہونے لگتے ہیں۔ اس طرح نظریاتی لوگوں کی ایک جماعت وجود میں آجاتی ہے۔ ہر معاشرے کی تطہیر اور تشکیلِ نو اسی طرح ہوتی ہے۔ اسلام ہی نے نہیں، باطل نظریات نے بھی اسی طرح معاشروں کو بدلا ہے۔ روس میں انقلاب آیا تو اس کی پشت پر کارل مارکس کے نظریات اور لینن کی جدوجہد موجود تھی۔ چین میں مائو نے یہی کام کیا۔
مولانا مودودیؒ نے جب اپنی نظریاتی جدوجہد شروع کی تو معاشرے کی نظریاتی حیثیت تقریباً صفر تھی۔ علما موجود تھے مگر وہ اسلام کو ایک مکمل ضابطۂ حیات کے طور پر پیش نہیں کررہے تھے۔ انہوں نے اسلام کو عقائد، عبادات اور اخلاقیات تک محدود کرلیا تھا۔ انہیں یہ خیال بھی نہیں آتا تھا کہ اسلام اب کبھی ریاست اور سیاست پر بھی غالب ہوسکتا ہے، بلکہ پوری امت کیا پوری دنیا کی تقدیر بدل سکتا ہے۔ ان کی آنکھوں میں مستقبل کے حوالے سے کوئی خواب نہ تھا، وہ سمجھتے تھے کہ مغرب کے نظریات اور مغرب کی طاقتوں سے دینی علوم کو بچا لیا جائے تو بہت ہے۔ عہدِ حاضر کے باطل نظریات اور نظام ان کے یہاں کہیں زیرِ بحث نہیں تھے۔ مولانا مودودیؒ نے اس پورے منظرنامے کو تبدیل کردیا۔ مولاناؒ نے جب کام شروع کیا تو بڑے بڑے علما موجود تھے مگر سوشلسٹ دانش ور صرف مولانا کو ہدفِ تنقید بناتے تھے، اس کی وجہ یہ تھی کہ مولانا کی فکر اُن کے لیے نظریاتی سطح پر چیلنج تخلیق کررہی تھی۔ جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ کے علاوہ کئی مذہبی اور طلبہ تنظیمیں موجود تھیں، مگر وہ سوشلسٹ اور سیکولر عناصر کی ’’عنایات‘‘ کی زد میں نہیں آتی تھیں۔ برق یہاں بھی بے چارے ’’مسلمانوں‘‘ پر ہی گرتی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ دشمن کو معلوم تھا کہ اصل خطرہ کہاں سے ہے؟ بہرحال کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ مولانا مودودیؒ، جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ نے نعرے کے مقابلے پر بہتر نعرہ رکھا، تنظیم کے مقابلے پر بہتر تنظیم پیش کی، لٹریچر کے مقابلے پر بہتر لٹریچر خلق کیا، جدوجہد کے مقابلے پر بہتر جدوجہد کا نمونہ رکھا، کردار و عمل کے دائرے میں بہتر کردار اور عمل پیش کیا۔ یہ سامنے کی بات ہے کہ مولانا کے پاس نہ حکومت تھی اور نہ ریاست، فوج تھی نہ سرمائے کی طاقت، ذرائع ابلاغ کی قوت تھی نہ کسی بھی قسم کے تعصبات کی کمک… مولانا اور ان کی جماعت کبھی اقتدار میں نہیں آئے مگر اس کے باوجود مولانا نے پوری امت کا بیانیہ یا Narrative تبدیل کردیا۔ جمعیت تعلیمی اداروں کی سب سے بڑی قوت بن کر ابھری۔ جماعت اسلامی سے وابستہ محنت کشوں کی تنظیموں نے ملک کے بڑے بڑے اداروں میں بائیں بازو کی تنظیموں کے برج الٹ دیے، اور جماعت اسلامی پاکستان کی سیاست کا مرکزی حوالہ بن کر ابھری۔ اس کی پشت پر تین چیزیں موجود تھیں: مولانا کا تقویٰ، اور ان کا برتر علم۔ اس تقوے اور علم کا کچھ نہ کچھ حصہ جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ کو بھی فراہم ہوا۔ تیسری چیز تھی نظریاتی کشمکش اور نظریاتی جدوجہد۔ 1970ء کے انتخابات میں جماعت اسلامی کو نظریاتی کشمکش اور نظریاتی جدوجہد کا ’’ثمر‘‘ ووٹوں کی صورت میں بھی مہیا ہوا۔ اُس وقت جماعت اسلامی کی عمر اتنی ہی تھی جتنی پاکستان کی عمر، یعنی صرف 24 سال۔ مگر 1970ء کے انتخابات میں جماعت اسلامی نے متحدہ پاکستان میں 24 لاکھ ووٹ حاصل کیے۔ اس سے معلوم ہوا کہ معاشرے میں نظریاتی کشمکش برپا ہو اور نظریاتی جدوجہد ہورہی ہو تو اس کا ’’سیاسی فائدہ‘‘ بھی ہوتا ہے۔ نظریاتی جماعتوں کے لیے ’’سیاسی فائدہ‘‘ بھی اہم ہوتا ہے، مگر نظریاتی جماعتوں کی اصل قوت یہ ہے کہ وہ اقتدار میں آئے بغیر معاشرے کو بیانیہ مہیا کرتی ہیں، معاشرہ ان کی آنکھوں سے دنیا کو دیکھتا ہے، ان کے کانوں سے دنیا کی آوازیں سنتا ہے، ان کے ذہن سے سوچتا ہے، ان کے دلائل و براہین کو استعمال کرتا ہے۔ اس اعتبار سے نظریاتی مفکرین اور نظریاتی جماعتوں کی اصل طاقت معاشرے کو بیانیہ فراہم کرنے کی صلاحیت ہے۔ یہ صلاحیت اخلاقی اور علمی فضیلت کے بغیر نہ کبھی مہیا ہوئی ہے اور نہ کبھی مہیا ہوگی۔
انسانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کے ساتھ نسیان لگا ہوا ہے، چنانچہ کوئی بھی معاشرہ اپنی نظریاتی حالت کو برقرار نہیں رکھ پاتا۔ یہی سبب ہے کہ اللہ تعالیٰ کو حق کی یاددہانی اور اسے غلبہ مہیا کرنے کے لیے تواتر کے ساتھ انبیا بھیجنے پڑے ہیں۔ مجددین کی تواتر کے ساتھ آمد کی وجہ بھی یہی ہے کہ انسان اپنی اصل سے دور ہوجاتا ہے۔ پاکستانی معاشرے میں جنرل ضیا الحق کی آمد تک نظریاتی کشمکش برپا تھی۔ بھٹو صاحب جو کچھ بھی تھے اُن کا ایک نظریاتی حوالہ موجود تھا، یہ حوالہ اپنے خلاف ایک ’’نظریاتی ردعمل‘‘ پیدا کررہا تھا۔ اس ردعمل کی علامتوں میں مولانا کی فکر اور جماعت اسلامی کا حوالہ نمایاں ترین علامت کی حیثیت رکھتا ہے۔ مگر جنرل ضیا الحق کی آمد کے ساتھ ہی معاشرہ تیزی کے ساتھ غیر نظریاتی اور غیر سیاسی ہونے لگا، صوبائی اور لسانی تعصبات سر ابھارنے لگے، نظریات کی جگہ شخصیات نے لے لی۔ جنرل ضیا الحق کی موجودگی سے معاشرے میں مذہبی رجحانات کو تقویت ملی، مگر ان رجحانات کا کوئی نظریاتی حوالہ نہ تھا۔ جنرل ضیا الحق کے بعد کے منظرنامے میں سیاسی کشمکش میاں نوازشریف اور بے نظیر، یا مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی کی شخصی اور جماعتی کشمکش بن گئی۔ رہی سہی کسر1991ء میں سوشلزم کے خاتمے اور سوویت یونین کی تحلیل نے پوری کردی۔
سوشلزم کے خاتمے اور سوویت یونین کی تحلیل کے بعد سرمایہ دارانہ نظام اور مغربی دنیا ایک زیادہ بڑے نظریاتی حریف کے طور پر ہمارے سامنے آ کھڑے ہوئے، مگر اسلامی تحریکوں نے سوشلزم اور سوویت یونین کے خلاف جس جوش و جذبے اور فہم کا مظاہرہ کیا تھا، ویسا جوش و جذبہ اور فہم نئے اور زیادہ بڑے حریف کے خلاف مہیا نہ ہوسکا… ہوجاتا تو معاشرے میں ایک بار پھر نظریاتی کشمکش برپا ہوجاتی، اور ایک بار پھر اکبر الٰہ آبادی، اقبال، مولانا مودودی اور ان کی جماعت اس کا مرکزی حوالہ ہوتے۔
ہم نے جسارت اور فرائیڈے اسپیشل میں تہذیبوں کے تصادم کا جو شعور برپا کیا تھا وہ اسی لیے تھا کہ کشمکش کا عالمی تناظر تبدیل ہو گیا ہے اور مولانا کی فکر کے مطابق ہمیں سرمایہ دارانہ نظام کے جبر و استبداد اور اس کی علامتوں کے خلاف بھی پورے شعور اور تیاری کے ساتھ صف آرا ہوجانا چاہیے۔ مگر ہماری آواز صدا بہ صحرا ثابت ہوئی۔ بہرحال اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ پاکستانی معاشرے میں کوئی نظریاتی کشمکش موجود نہیں۔ یہ معمولی بات نہیں۔ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی کہے کہ معاشرے یا ملک سے آکسیجن غائب ہوگئی ہے۔ جس طرح انسان آکسیجن کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے اسی طرح معاشرے نظریات کے بغیر زندہ نہیں رہتے۔ رہتے ہیں تو وہ ایک بہت بڑا ہجوم اور ایک بہت بڑی بھیڑ بن جاتے ہیں۔ ذرا ملک کے سیاسی منظرنامے پر ایک نظر ڈالیے، اس منظرنامے میں فرقے اہم ہیں، مسلک اہم ہیں، مکاتبِ فکر اہم ہیں۔ دین ایک نظریے کی حیثیت سے اہم نہیں ہے۔ اس منظرنامے میں ذاتوں کو ووٹ دیے جارہے ہیں، برادریوں کو ووٹ دیے جارہے ہیں۔ اس منظرنامے میں صوبائی تشخص اہم ہے، لسانی تشخص اہم ہے، شخصیات اہم ہیں، خاندان اہم ہیں، موروثیت اہم ہے۔ اس منظرنامے میں Electables کو ووٹ مل رہے ہیں، سرمائے کو ووٹ دیے جارہے ہیں، جماعتی عصبیتوں کو ووٹ پڑ رہے ہیں، اسٹیبلشمنٹ کی حمایت اور مخالفت کے جذبات پر مہر لگائی جارہی ہے۔ اس منظرنامے میں کہیں کوئی نظریہ موجود نہیں، کہیں کوئی نظریاتی کشمکش مہیا نہیں، کہیں تہذیبوں کا تصادم نہیں ہورہا، کہیں مغرب مخالف جذبات موجود نہیں، کہیں اسلام اور سیکولرازم کی کشمکش کا سراغ نہیں ملتا۔ بلاشبہ متحدہ مجلس عمل کے رہنمائوں نے انتخابی مہم کے دوران اسلام اور سیکولرازم کی بات کی، تہذیبوں کے تصادم کا ذکر کیا، امریکہ اور مغرب کے خلاف بات کی۔ مگر نظریاتی کشمکش دو چار بیانات سے پیدا نہیں ہوتی، اس کے لیے طویل جدوجہد درکار ہوتی ہے۔ جماعت اسلامی کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ فرقے اور مسلک کی بنیاد پر ووٹ حاصل نہیں کرسکتی۔ جماعت اسلامی صوبائی یا لسانی تعصبات کی بنیاد پر ووٹ حاصل نہیں کرسکتی۔ جماعت اسلامی Electables اور سرمائے کی سیاست نہیں کرسکتی۔ جماعت اسلامی ذات اور برادری کی بنیاد پر بروئے کار نہیں آسکتی۔ جماعت اسلامی کسی اسٹیبلشمنٹ یا کسی سیاسی جماعت کا بغل بچہ بن کر ووٹ حاصل نہیں کرسکتی۔ جماعت اسلامی کے پاس زندہ رہنے، آگے بڑھنے، معاشرے کو بیانیہ مہیا کرنے اور ووٹ حاصل کرنے کی ایک ہی بنیاد ہے: نظریاتی سیاست، نظریاتی جدوجہد۔ جب کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ معاشرے میں کوئی نظریاتی کشمکش موجود نہیں، کوئی نظریاتی سیاست موجود نہیں تو ہمیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ یہ کہہ رہا ہے کہ جماعت اسلامی کا کوئی مستقبل نہیں۔ اس لیے کہ نظریے اور جماعت اسلامی میں وہی تعلق ہے جو مچھلی اور پانی کے درمیان ہوتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو معاشرے میں نظریاتی کشمکش کا برپا ہونا جماعت اسلامی کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ لیکن یہ صرف جماعت اسلامی کا مسئلہ نہیں… نظریات باقی نہیں رہیں گے تو پاکستانی معاشرہ، معاشرہ نہیں رہے گا۔ اور پاکستانی معاشرہ کہاں سے ایک معاشرہ لگتا ہے؟ معاشرہ ایک ہم آہنگ اکائی ہوتا ہے جبکہ پاکستانی معاشرے میں اتنے تضادات ہیں کہ وحدت و ہم آہنگی کی تلاش مشکل سے مشکل تر ہوتی جارہی ہے۔ اس معاشرے میں کون سا بحران موجود نہیں! اخلاقی بحران، فکری بحران، سیاسی بحران، معاشی بحران، لسانی بحران… غرضیکہ کون سا بحران ہے جو یہاں موجو دنہیں؟ اور بحران صحت مند معاشروں میں موجود نہیں ہوتے۔ کہنے والے کہتے ہیں، اور غلط نہیں کہتے کہ پاکستان کی وحدت اور سلامتی کا انحصار فوج پر ہے۔ تجزیہ کیا جائے تو یہ پاکستانی معاشرے پر ہونے والی ایک بہت ہی بڑی تنقید ہے، کیونکہ مذکورہ بیان کا مفہوم ہے کہ معاشرہ اپنے عقائد، نظریات، باہمی تعلق، باہمی محبت اور باہمی اخوت کی وجہ سے زندہ وسلامت نہیں بلکہ ایک ادارہ معاشرے کو جوڑے ہوئے ہے۔ معاشرے میں نظریاتی جدوجہد باقی ہوتی تو معاشرے کا سب سے مضبوط دفاع اس کے اندر سے مہیا ہوتا، باہر سے نہیں۔ بہرحال نظریاتی جدوجہد صرف جماعت اسلامی کی نہیں بلکہ پورے معاشرے اور خود ریاست کی ضرورت ہے۔ معاشرہ مضبوط ہوگا تو ریاست کی قوت کئی ہزار گنا بڑھ جائے گی۔ اتفاق سے پاکستان میں نظریاتی جدوجہد کا کام جماعت اسلامی کے سوا کوئی نہیں کرسکتا۔