انسانی تاریخ میں حکومت کا تجربہ بحیثیت مجموعی طاقت کا تجربہ ہے۔ یعنی انسانوں نے انسانوں پر طاقت کے ذریعے حکومت کی ہے۔ یہ اور بات کہ تاریخ کے مختلف ادوار میں طاقت کے ذریعے حکومت کے تجربے کو ایسے نام دیے گئے جو طاقت کے غلبے پر پردہ ڈال سکیں۔ لیکن طاقت کی نفسیات یہ ہے کہ وہ پردے میں رہنا پسند نہیں کرتی، چنانچہ تاریخ میں طاقت کے تماشے ہمیشہ ظاہر ہوکر رہے ہیں۔
ہندوازم میں ذات پات کا نظام اپنی اصل میں روحانی یا نفسیاتی تھا۔ ہندوازم میں برہمنیت کسی نسلی سلسلے کا نام نہیں تھا۔ مہا بھارت میں صاف لکھا ہے کہ برہمن وہ ہے جو اسلامی اصطلاح میں متقی ہے، اور اس بنیاد پر مقدس کتابوں کی تشریح و تعبیر کے قابل ہے۔
اسی طرح اکشتریہ بھی کوئی نسلی حقیقت نہیں تھی، بلکہ اکشتری وہ لوگ تھے جو جسمانی طور پر قوی ہونے کی وجہ سے ریاست کے محافظ بننے کی اہلیت رکھتے تھے۔ ہندوازم میں ویش وہ لوگ تھے جن کی ’’عقلِ معاش‘‘ باقی لوگوں سے زیادہ تھی اور اس بنیاد پر وہ تجارت اور کاروبار کے لیے زیادہ موزوں تھے۔ شودروں کی حقیقت کا لب لباب یہ تھا کہ شودر وہ لوگ ہیں جو صرف جسمانی محنت کرسکتے ہیں۔ اس طرح شودر بھی کوئی نسلی سلسلہ نہیں تھے بلکہ وہ روحانی اعتبار سے انسانوں کی ایک قسم یا ایک Spritual Type تھے۔ مہا بھارت میں ایک مقام پر صاف لکھا ہوا ہے کہ برہمن کے گھر میں شودر اور شودر کے گھر میں برہمن پیدا ہوسکتا ہے۔ لیکن طاقت کی نفسیات نے ہندوازم کی روحانیت کو بھی طاقت کے مظہر میں تبدیل کردیا۔ چنانچہ ہندوازم میں انسانوں کی روحانی اقسام نسلی اقسام بن گئیں اور ان کی بنیاد پر حاکم اور محکوم کا ایک ایسا سلسلہ ایجاد ہوا جس میں ہزاروں سال سے کروڑوں شودر اور اچھوت حیوانوں سے بدتر زندگی بسر کررہے ہیں۔ مہاتما گاندھی جدید ہندوستان کے سب سے بڑے رہنما ہیں اور انہوں نے شودروں کو ہری جن یعنی خدا کا بندہ قرار دے کر ان کا سماجی اور معاشی مقام بلند کرنے کی کوشش کی، لیکن یہ بتانے کی جرأت انہیں بھی نہ ہوسکی کہ ہندوازم میں ذات پات کے نظام کی کوئی نسلی بنیاد سرے سے موجود ہی نہیں۔ معاشرے جب صرف طاقت کی بنیاد پر چلائے جانے لگتے ہیں تو ان میں یہی ہوتا ہے۔ ان میں حق اجنبی ہوجاتا ہے اور طاقت جھوٹ کا تاج پہن کر گلی کوچوں میں رقص کرتی ہے۔
انسانی تاریخ میں حکومت کا تجربہ بحیثیت مجموعی طاقت کا تجربہ ہے۔ یعنی انسانوں نے انسانوں پر طاقت کے ذریعے حکومت کی ہے۔ یہ اور بات کہ تاریخ کے مختلف ادوار میں طاقت کے ذریعے حکومت کے تجربے کو ایسے نام دیے گئے جو طاقت کے غلبے پر پردہ ڈال سکیں۔ لیکن طاقت کی نفسیات یہ ہے کہ وہ پردے میں رہنا پسند نہیں کرتی، چنانچہ تاریخ میں طاقت کے تماشے ہمیشہ ظاہر ہوکر رہے ہیں۔
ہندوازم میں ذات پات کا نظام اپنی اصل میں روحانی یا نفسیاتی تھا۔ ہندوازم میں برہمنیت کسی نسلی سلسلے کا نام نہیں تھا۔ مہا بھارت میں صاف لکھا ہے کہ برہمن وہ ہے جو اسلامی اصطلاح میں متقی ہے، اور اس بنیاد پر مقدس کتابوں کی تشریح و تعبیر کے قابل ہے۔
اسی طرح اکشتریہ بھی کوئی نسلی حقیقت نہیں تھی، بلکہ اکشتری وہ لوگ تھے جو جسمانی طور پر قوی ہونے کی وجہ سے ریاست کے محافظ بننے کی اہلیت رکھتے تھے۔ ہندوازم میں ویش وہ لوگ تھے جن کی ’’عقلِ معاش‘‘ باقی لوگوں سے زیادہ تھی اور اس بنیاد پر وہ تجارت اور کاروبار کے لیے زیادہ موزوں تھے۔ شودروں کی حقیقت کا لب لباب یہ تھا کہ شودر وہ لوگ ہیں جو صرف جسمانی محنت کرسکتے ہیں۔ اس طرح شودر بھی کوئی نسلی سلسلہ نہیں تھے بلکہ وہ روحانی اعتبار سے انسانوں کی ایک قسم یا ایک Spritual Type تھے۔ مہا بھارت میں ایک مقام پر صاف لکھا ہوا ہے کہ برہمن کے گھر میں شودر اور شودر کے گھر میں برہمن پیدا ہوسکتا ہے۔ لیکن طاقت کی نفسیات نے ہندوازم کی روحانیت کو بھی طاقت کے مظہر میں تبدیل کردیا۔ چنانچہ ہندوازم میں انسانوں کی روحانی اقسام نسلی اقسام بن گئیں اور ان کی بنیاد پر حاکم اور محکوم کا ایک ایسا سلسلہ ایجاد ہوا جس میں ہزاروں سال سے کروڑوں شودر اور اچھوت حیوانوں سے بدتر زندگی بسر کررہے ہیں۔ مہاتما گاندھی جدید ہندوستان کے سب سے بڑے رہنما ہیں اور انہوں نے شودروں کو ہری جن یعنی خدا کا بندہ قرار دے کر ان کا سماجی اور معاشی مقام بلند کرنے کی کوشش کی، لیکن یہ بتانے کی جرأت انہیں بھی نہ ہوسکی کہ ہندوازم میں ذات پات کے نظام کی کوئی نسلی بنیاد سرے سے موجود ہی نہیں۔ معاشرے جب صرف طاقت کی بنیاد پر چلائے جانے لگتے ہیں تو ان میں یہی ہوتا ہے۔ ان میں حق اجنبی ہوجاتا ہے اور طاقت جھوٹ کا تاج پہن کر گلی کوچوں میں رقص کرتی ہے۔
عیسائیت کا بنیادی اخلاقی اصول یہ تھا کہ اگر کوئی شخص تمہارے ایک گال پر طمانچہ مارے تو تم دوسرا گال بھی طمانچے کے لیے پیش کردو۔ لیکن عیسائیت کو سیاسی قوت فراہم ہوئی تو عیسائی معاشرے طاقت کے جبر سے بھرگئے۔ چرچ سیاسی طاقت کا آلۂ کار بن گیا اور عیسائیت کی تعبیر و تشریح حکمران طبقات کے مفادات کے مطابق ہونے لگی۔ عیسائی معاشروں میں طاقت کا جبر اتنا بڑھا کہ وہ علم کی راہ روک کر کھڑا ہوگیا۔ عیسائیت سائنسی انکشافات و اکتشافات کی دشمن بن گئی۔ چنانچہ سائنس دانوں کو ان کے نظریات کی بنیاد پر زندہ جلایا گیا۔ انہیں اپنے نظریات تبدیل کرنے پر مجبور کیا گیا۔ طاقت کے اس جبر نے یورپ میں مذہب کے خلاف بغاوت کی راہ ہموار کی۔
کارل مارکس تاریخ میں عوام کے استحصال کے خلاف مزاحمت کی عالمگیر علامت بن کر ابھرا اور اس کے نظریات کی بنیاد پر روس میں انقلاب برپا ہوا جسے عوامی یا پرولتاری انقلاب کا نام دیا گیا۔ لیکن اس انقلاب نے خواص کے جبر کو توڑ کر معاشرے پر ’’عوام کا جبر‘‘ مسلط کردیا۔ اس سے فرق یہ ہوا کہ پہلے ترازو کا پلڑا ہولناک حد تک خواص کے حق میں جھکا ہوا تھا، اور انقلاب کے بعد یہ پلڑا ہولناک حد تک عوام کے حق میں جھک گیا۔ لیکن اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہوا کہ پرولتاریوں کی حکومت بھی صرف نعرے کی حد تک پرولتاریوں کی حکومت رہی، عملاً روس پر ’’کمیونسٹ خواص‘‘ کا غلبہ ہوگیا۔ زار کی جگہ لینن اور اسٹالن کی کمیونسٹ بادشاہت نے لے لی۔ زار کے وزیروں کی جگہ پولٹ بیورو آگیا۔ زار کے مصاحبین کی جگہ سپریم سوویٹ ابھرآئی اور زار کی فوج کی جگہ کمیونسٹ پارٹی نے لے لی۔ اس نئے جبر نے بلاشبہ عوام کو کھانے، پینے، علاج معالجے اور تعلیم کی سہولتیں فراہم کیں، مگر نئی طاقت نے روس کی تخلیقی صلاحیتوں کو زنگ لگادیا۔ انقلاب سے پہلے روس دنیا کا سب سے بڑا فکشن پیدا کرنے والا ملک تھا اور دوستووسکی اور ٹالسٹائی جیسے عظیم ناول نگاروں، چیخوف جیسے افسانہ نگاروں اور پشکن جیسے شاعروں کی سرزمین تھا، لیکن انقلاب کے بعد روس ان تمام میدانوں میں بنجر سرزمین بن گیا۔
جمہوریت کا دعویٰ ہے کہ وہ عوام کی حکومت وجود میں لاتی ہے اور عوام کے ذریعے لاتی ہے۔ لیکن دنیا کی سب سے طاقت ور جمہوریت پر یہودی لابی، نوقدامت پسند لابی اور لبرل لابی کا قبضہ ہے، اور انہیں نظرانداز کرکے وہاں کوئی سیاست نہیں کرسکتا۔ بھارت آبادی کے اعتبار سے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے لیکن وہاں کی سیاست پر چالیس سال تک نہرو خاندان چھایا رہا۔ اس کے مقابلے پر بی جے پی ابھری تو وہ بھی اعلیٰ ذات کے ہندوئوں کی ترجمان بن کر سامنے آئی۔ پاکستان میں سیاست پر بھٹو خاندان، شریف خاندان، باچا خان خاندان اور الطاف حسین کا غلبہ ہے۔ بین الاقوامی سطح پر جمہوریت کا یہ حال ہے کہ اقوام متحدہ 20 ویں اور 21 ویں صدی میں بھی پانچ بڑی طاقتوں کی مٹھی میں ہے۔
اسلام کے بارے میں پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا۔ اسلام کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کی سزائیں انتہائی سخت ہیں۔ لیکن اسلامی تاریخ ان تمام الزامات کی تکذیب اور تردید کرتی ہے۔ اسلامی تاریخ بتاتی ہے کہ اسلام اولین صورت میں معاشرے کو اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے چلاتا یا “Govern” کرتا ہے۔ اسلام چاہتا ہے کہ انسان کا خدا سے ایسا تعلق استوار ہو کہ وہ خدا کی محبت کے بغیر اپنی زندگی کو عدم موجود، بے معنی اور بدصورت محسوس کرے اور اس کی ساری تگ و دو اس بات کے لیے ہو کہ اس کی ذات اللہ تعالیٰ کی موجودگی کا مظہر بن جائے اور اس کا انفرادی تشخص پس منظر میں چلا جائے۔ یعنی ؎
صرف ظاہر ہو وہی
اتنا ہوجائیں نہاں
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ صحابہ کرامؓ میں سے ایسے بہت سے تھے جن پر اسلام سے پھر جانے کے لیے بدترین تشدد کیا گیا لیکن انہوں نے اسلام کو چھوڑنا گوارا نہ کیا۔ حضرت بلالؓ تو حبشی اور غلام تھے مگر خدا کے ساتھ ان کا تعلق یہ تھا کہ جب انہیں تپتی ہوئی ریت پر لٹایا جاتا تھا تو ان کی زبان سے صرف احد احد کی صدائیں بلند ہوتی تھیں۔ اور یہ صرف ایک حضرت بلالؓ کا معاملہ نہیں تھا۔ ایمان لانے والے اکثر ایسے صحابہؓ کا یہی قصہ تھا جو سماجی، معاشی یا قبیلے کے اعتبار سے طاقت ور نہ تھے۔ غزوۂ بدر اسلامی تاریخ کا فیصلہ کن معرکہ ہے۔ اس معرکے پر حق و باطل کے مستقبل کا انحصار تھا اور اس معرکے میں ظاہری طاقت کے اعتبار سے مسلمان انتہائی کمزور تھے۔ صحابہ کرامؓ میں طاقت کی نفسیات کی رمق بھی موجود ہوتی تو وہ اس معرکے میں شریک ہی نہیں ہوسکتے تھے، اس لیے کہ ظاہری اسباب کے اعتبار سے مسلمانوں کی شکست اور کافروں کی فتح یقینی تھی۔ لیکن مسلمان طاقت کی نفسیات سے Govern نہیں ہورہے تھے، وہ اللہ تعالیٰ کی محبت سے Govern ہورہے تھے۔ اس تعلق میں جان کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ اہمیت تھی تو اس بات کی کہ محبت کے تقاضے نبھائے جاسکے یا نہیں۔ اور صحابہ کرامؓ نے بلاشبہ محبت کے تقاضے نبھائے۔ اصول ہے کہ محبت کا بدلہ محبت کے سوا کچھ ہو ہی نہیں سکتا۔ صحابہ کرامؓ نے اللہ تعالیٰ سے محبت کی۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے ان سے محبت کی، ان کے قلوب پر سکینت نازل کی اور غیب سے ان کی مدد فرمائی۔ غزوۂ بدر جان کا سودا تھا تو غزوۂ تبوک مال کا سودا تھا۔ اس سودے میں حضرت ابوبکرؓ سارا اور حضرت عمرؓ آدھا مال اٹھا لائے۔ لیکن یہاں بھی اصل قصہ محبت ہی کا تھا۔ حضرت ابوبکرؓ سارا مال دے چکے تو اللہ تعالیٰ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ ابوبکرؓ سے پوچھو کہ وہ اب تو خوش ہیں؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات حضرت ابوبکرؓ کو بتائی۔ حضرت ابوبکرؓ کو اس بات سے اتنی خوشی ہوئی کہ فرط مسرت سے بے ہوش ہوگئے۔ بعض لوگ یہاں کہہ سکتے ہیں کہ خدا کی محبت شاید حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ اور ان جیسے لوگوں ہی کو Govern کررہی تھی۔ ایسا نہیں ہے۔ عام مسلمانوں تک بھی اس محبت کا اثر پہنچا ہوا تھا۔ چنانچہ اسلامی تاریخ میں اس عورت کا قصہ ملتا ہے جس نے چھپ کر گناہ کیا اور اس کے گناہ کو دیکھنے والا کوئی نہ تھا، چنانچہ وہ چاہتی تو اسے آسانی سے چھپا سکتی تھی، مگر اس کے ضمیر نے یہ گوارا نہ کیا اور اس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آکر اپنے گناہ کا اعتراف کرلیا، اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کے بارے میں فرمایا کہ اس عورت کی توبہ ایسی ہے کہ مدینہ کے تمام لوگوں کے گناہوں کے لیے کفایت کرسکتی ہے۔ اسی طرح حضرت عمرؓ کے دور میں ایک عام لڑکی نے اپنی ماں کی ہدایت پر دودھ میں پانی ملانے سے انکار کردیا اور کہا کہ اگر حضرت عمرؓ نہیں دیکھ رہے تو کیا ہوا، خدا تو دیکھ رہا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی محبت کے ساتھ ساتھ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت بھی مسلم معاشرے کو گہرائی میں “Govern” کررہی تھی۔ صحابہؓ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے دیکھتے تھے جیسے کوئی عاشق اپنے محبوب کو دیکھتا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ کرامؓ کی محبت کی شدت ایسی تھی کہ اس کے آگے لیلیٰ مجنوں کا قصہ بچوں کا کھیل محسوس ہوتا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوتے تو صحابہؓ خوش ہوتے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ملال کی کیفیت میں ہوتے تو پورا مدینہ ملال کی کیفیت میں مبتلا ہوجاتا۔ صحابہ کرامؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اتنے ادب سے بیٹھتے گویا ان کے سروں پر چڑیاں بیٹھی ہوں اور ذرا سی جنبش سے ان کے اڑ جانے کا اندیشہ ہو۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وضو کرتے تو صحابہ کرامؓ وضو کے پانی کو زمین پر گرنے سے پہلے اٹھا لیتے، اسے پی جاتے یا جسم پر مل لیتے۔ وہ جنگوں میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد حلقہ بناکر لڑتے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بڑھنے والے خطروں کو خود جھیلتے، اس پر شکر کرتے اور اسے اپنی سعادت جانتے۔ وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتے کہ ہم حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھیوں کی طرح نہیں ہیں جنہوں نے جنگ کے موقع پر کہہ دیا تھا کہ جائو تم اور تمہارا خدا جنگ کرے ہم تو یہیں بیٹھے ہیں۔ صحابہؓ کہتے: ہم تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے۔ آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے۔ یہ سب محبت کی حکومت کی مثالیں ہیں۔ یہ اسلامی تاریخ کا ’’باطن‘‘ ہے۔ اور جس کا جیسا باطن ہوتا ہے ویسا ہی اس کا ’’ظاہر‘‘ بھی ہوتا ہے۔ چنانچہ اسلام نے خارجی دنیا میں جتنی فتوحات حاصل کیں ان کا مرکزی نکتہ محبت ہی ہے۔
اللہ تعالیٰ انسان کے خالق ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ انسانوں کی ایک قسم ایسی ہے جو ترغیب اور انعام سے متاثر اور متحرک ہوتی ہے۔ چنانچہ قرآن مجید اور احادیث ِمبارکہ میں جنت کی جتنی اہمیت بیان ہوئی ہے وہ اسی لیے ہے کہ جو لوگ ترغیب و انعام کی بنیاد پر تعلق کو محسوس کرتے ہیں اور اس کی بنیاد پر عمل کرتے ہیں وہ جنت کے تصور سے Govern ہونے لگیں۔ اہم بات یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کے بیان کو اجمالاً بیان نہیں کیا بلکہ اس کی اتنی تفصیلات بیان کی ہیں کہ قرآن و حدیث میں جنت کا بیان حسّی یا Sensuous ہوگیا ہے۔ ایسا اس لیے کہ جنت کا بیان ’’تصوراتی‘‘ نہ نظر آئے بلکہ قرآن و حدیث میں جنت مجسم ہوکر سامنے آجائے۔ قرآن و حدیث میں جنت کا بیان اگر حسّی یا Sensuous نہ ہوتا تو انسانوں کی بہت بڑی تعداد اس سے متاثر نہ ہوتی، کیونکہ اکثر لوگوں کی تصوراتی سطح پست ہوتی ہے، البتہ محسوس کرنے کی اہلیت کم و بیش تمام لوگوں میں ہوتی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اسلام پہلے معاشرے کو خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے Govern کرتا ہے، پھر ترغیب اور انعام سے، اس کے بعد خوف کا مقام آتا ہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض انسانوں کی فطرت ایسی ہوتی ہے کہ وہ خوف کے بغیر عمل کی طرف مائل نہیں ہوپاتے۔ چنانچہ قرآن و حدیث میں دوزخ کا بیان خوف پیدا کرنے کے لیے ہے، اور اس بیان کو بھی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حسّی یا Sensuous بنادیا ہے۔ اسلام جب ان تینوں محاذوں پر اپنی توانائیاں صرف کرلیتا ہے اور وہ دیکھتا ہے کہ اس کے باوجود بھی کچھ لوگ صراط مستقیم پر نہیں چل پارہے، تب وہ سزا کے عنصر کو بروئے کار لاتا ہے۔ لیکن اسلام کے تصورِ سزا کو بھی دنیا میں کم ہی سمجھا گیا ہے۔ اسلام میں سزا کا تصور یہ ہے کہ بعض لوگوں کو صرف سزا کے خوف کے ذریعے برائی سے روکا جاسکتا ہے، اور اسلام ایک شخص کو سزا دے کر لاکھوں انسانوں کو جرم کے مضمرات سے محفوظ کرتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اسلام میں سزا کا عمل مجرم کو جرم کی ناپاکی سے پاک کردیتا ہے، اور سزا کاٹ کر انسان جرم سے پہلے کی حالت میں آجاتا ہے۔ یعنی اسلام کسی بھی انسان کو دائمی مجرم نہیں سمجھتا، بلکہ وہ جرم کو ایک حادثہ سمجھتا ہے اور اس کا خیال ہے کہ سزا کے ذریعے انسان اپنے جرم کا کفارہ ادا کردیتا ہے۔ لیکن سزا معاشرے کو Govern کرنے کے سلسلے میں آخری چارۂ کار ہے۔ سزا نہ کبھی اسلام کی ترجیحِ اوّل تھی، نہ ہے، نہ کبھی ہوگی۔