مولانا مود ودیؒ نے کہا تھا: بدترین جمہوریت بہترین آمریت سے بہتر ہے۔ مولانا نے جب یہ بات کہی تھی آمریت اور جمہوریت میں کچھ نہ کچھ فرق تھا، مگر ہمارے زمانے تک آتے آتے پاکستان کا یہ حال ہوگیا ہے کہ آمریت اور جمہوریت نعرے کی سطح پر مختلف نظر آتی ہیں مگر عملاً ان کے مابین کوئی فرق نہیں۔ آمریت وردی کا نام نہیں۔ آمریت ایک رویّے، ایک ذہنی سانچے اور ایک تناظر کا نام ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو پاکستان کے عوام کے سامنے آمریت اور جمہوریت میں سے کسی ایک کے انتخاب کا مسئلہ نہیں بلکہ ’’فوجی آمریت‘‘ اور ’’سول آمریت‘‘ میں سے کسی ایک کے انتخاب کا ہے۔
پاکستان کی سیاسی جماعتیں جمہوریت، جمہوریت تو بہت کرتی ہیں مگر پاکستان میں جماعت اسلامی کے سوا کسی سیاسی جماعت کو جمہوری کہنا جمہوریت کو گالی دینے کے مترادف ہے۔ یہ ایک بہت بڑا دعویٰ ہے، اس لیے اس دعوے کی تفصیل اور اس کے دلائل مہیا کرنا ضروری ہیں۔
جمہوریت کے عناصرِ ترکیبی پانچ ہیں: سیاسی جماعت، انتظامیہ، مقننہ، عدلیہ اور پریس۔ پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتیں چار ہیں: پیپلز پارٹی، نواز لیگ، پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم۔ پیپلزپارٹی کو قائم ہوئے 50 سال ہوگئے ہیں مگر اتنے طویل عرصے میں کبھی پیپلز پارٹی میں انتخابات نہیں ہوئے۔ موروثی اور خاندانی سیاست جمہوریت کی ضد ہے مگر پیپلزپارٹی میں موروثیت اور ایک خاندان کے غلبے کے سوا کچھ نہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو خود کو سیکولر بھی کہتے تھے، ڈیموکریٹ بھی اور سوشلسٹ بھی۔ اُن کی ساری تعلیم مغرب کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ہوئی تھی، مگر وہ جب تک زندہ رہے انھوں نے جمہوریت کو پیپلزپارٹی کی صفوں میں داخل نہ ہونے دیا۔ بھٹو صاحب کو پھانسی ہوگئی تو اُن کی بیٹی بے نظیر بھٹو نے اُن کی جگہ لے لی۔ بے نظیر نہ رہیں تو اُن کے شوہر نے ایک پالتو جانور کی طرح پیپلزپارٹی کو اپنے نام کے کھونٹے سے باندھ لیا۔ اب اُن کے فرزند بلاول، آصف زرداری کی جگہ لینے کے لیے تیاری کے مراحل طے کررہے ہیں۔ جمہوریت اپنی اصل میں ’’عقلی انتخاب‘‘ یا Rational Choice کا نام ہے، مگر پیپلزپارٹی میں کوئی نہیں جو عقل کی بات کرسکے۔ پیپلزپارٹی کا ایک ہی نعرہ ہے ’’کل بھی بھٹو زندہ تھا آج بھی بھٹو زندہ ہے‘‘۔ اس نعرے کا جمہوری تناظر میں ترجمہ کیا جائے تو وہ یہ ہوگا ’’پیپلزپارٹی میں کل بھی جمہوریت موجود نہیں تھی، آج بھی جمہوریت موجود نہیں ہے‘‘۔ بلاول آصف علی زرداری کے فرزند ہیں اور ساری دنیا میں نسل باپ سے چلتی ہے، مگر بلاول اپنے نام کے ساتھ زرداری لگائیں گے تو دو کوڑی کے ہوجائیں گے، چنانچہ انھوں نے اپنی نسل باپ سے نہیں ماں سے چلائی ہوئی ہے اور خود کو بلاول زرداری کے بجائے بلاول بھٹو کہتے ہیں۔ بھٹو صاحب کی طرح بے نظیر اور بلاول بھی مغرب کی جامعات کے فارغ التحصیل ہیں، مگر ان کی تعلیم ضرور 20 ویں اور 21 ویں صدی کی ہے مگر ان کی سیاست 14 ویں صدی کی بادشاہت، ملوکیت اور خاندان والی ہے۔ یہ اتنا بھیانک تضاد ہے کہ جدید تعلیم پانی ہے تو موروثیت آگ ہے، مگر بھٹو خاندان آگ اور پانی کو باہم ملا کر سیاست کیے چلا جارہا ہے، اور بھٹو خاندان کے اراکین طوطے کی طرح جمہوریت، جمہوریت، جمہوریت کیے چلے جارہے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس صورتِ حال پر عام لوگوں کو کیا، صحافیوں اور دانش وروں کو بھی کوئی اعتراض نہیں۔ ہمارے سیکولر اور لبرل دانش وروں کا قصہ تو یہ ہے کہ وہ پیپلزپارٹی کو جدیدیت، سیکولرازم اور لبرل ازم کی مثال کے طور پر پیش کرتے ہیں اور انہیں اپنے رویّے میں ذرا سی بھی ’’جمہوری بے حیائی‘‘ نظر نہیں آتی۔
میاں نوازشریف کو پارٹی کی سیاست کرتے ہوئے 30 سال ہوگئے ہیں۔ میاں صاحب کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ بھٹو خاندان کے مقابلے میں اُن کا خاندان تاجر خاندان ہے، اور تاجر جاگیرداروں سے زیادہ روشن خیال ہوتے ہیں۔ مگر 30 سال کے تجربے سے معلوم ہوا کہ بھٹو خاندان دیہی جاگیردار ہے اور شریف خاندان شہری جاگیردار۔ یعنی ان میں ذہنیت، رویّے اور مقاصدِ حیات کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ میاں نوازشریف نے کبھی اپنی جماعت میں جمہوریت کو داخل نہیں ہونے دیا۔ ایسا نہیں ہے کہ نواز لیگ میں انتخابات نہیں ہوتے، مگر یہ انتخابات جمہوریت کے تصور پر تھوک دینے کے مترادف ہوتے ہیں۔ جس طرح پیپلزپارٹی بھٹو خاندان کی باندی ہے اسی طرح نواز لیگ شریف خاندان کی باندی ہے۔ میاں نوازشریف کو خطرہ لاحق ہوا کہ وہ نواز لیگ پر غالب نہیں رہیں گے تو انھوں نے مریم نواز کو اسی طرح غالب کرنا شروع کیا جس طرح بے نظیربھٹو اپنے والد کے بعد پارٹی پر غالب آئی تھیں۔ مریم نواز بروئے کار نہ آئیں تو شہبازشریف نواز لیگ پر قبضے کے لیے موجود ہوں گے۔ وہ کام نہ آسکے تو اُن کے فرزند حمزہ شہباز نواز لیگ کے سربراہ ہوں گے، یہاں تک کہ مریم نواز کے بچوں میں سے کوئی آگے آسکتا ہے۔ قصۂ کوتاہ نواز لیگ شریف خاندان کی ’’سیاسی چاکری‘‘ پر مجبور ہے۔ شریف خاندان نہیں ہوگا تو نواز لیگ بھی نہیں ہوگی۔
الطاف حسین اور ایم کیو ایم کا ظہور ہوا تو کہا گیا کہ پاکستانی سیاست میں مڈل کلاس کا سورج طلوع ہوگیا ہے۔ مگر الطاف حسین اور اُن کی جماعت پاکستانی سیاست کا بلیک ہول بن کر سامنے آئی۔ یہ بلیک ہول جمہوریت کیا عقل، مذہب، تہذیب، تعلیم ہر چیز کو نگل گیا۔ ایم کیو ایم دنیا کی واحد جماعت ہے جس نے ’’منزل نہیں رہنما چاہیے‘‘ کا نعرہ دیا۔ مہاجروں نے اپنے تعصبات کی وجہ سے اس نعرے کی معنویت پر غور نہیں کیا ورنہ اس نعرے کے ذریعے ایم کیو ایم نے مہاجر کمیونٹی پر تھوک دیا تھا اور کہا تھا کہ اصل مسئلہ مہاجروں کے مفادات تھوڑی ہیں، اصل مسئلہ الطاف حسین اور ان کی بقا ہے۔
پیپلزپارٹی اور نواز لیگ کی جمہوریت دشمنی کا یہ عالم ہے کہ ان جماعتوں میں کوئی شخص آصف زرداری، بلاول اور نواز شریف سے اختلاف کی جرأت نہیں کرسکتا۔ لیکن ایم کیو ایم کا عالم یہ تھا کہ کوئی شخص الطاف حسین کے خلاف سوچنے کی بھی جرأت نہیں کرسکتا تھا۔ اس لیے کہ اسے ڈر ہوتا تھا کہ کہیں کوئی اس کے ذہن میں موجود خیال کو پڑھ نہ لے اور وہ بوری بند لاشوں کے کلچر کے فروغ کے لیے بروئے کار نہ آجائے۔
عمران خان پہلے دن سے ’’تبدیلی کی سیاست‘‘ کررہے ہیں۔ تبدیلی کی سیاست کا ایک بنیادی تقاضا یہ ہے کہ عمران خان کی جماعت کو پیپلزپارٹی، نواز لیگ اور ایم کیو ایم سے مختلف ہونا چاہیے، اور جمہوری جدوجہد کرنے والی پی ٹی آئی میں پوری طرح جمہوریت ہونی چاہیے۔ بلاشبہ عمران خان نے پی ٹی آئی میں انتخابات کرائے اور انتخابی عمل کو ساکھ مہیا کرنے کے لیے سندھ ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس ریٹائرڈ جسٹس وجیہ الدین کو انتخابی عمل کا نگراں مقرر کیا۔ انتخابات ہوئے مگر ان میں اتنی دھاندلی ہوئی کہ جسٹس(ر) وجیہ الدین نے انتخابات کو کالعدم قرار دے دیا۔ جسٹس(ر) وجیہ کو بجا طور پر عمران سے توقع تھی کہ وہ ان کی بات سنیں گے اور پی ٹی آئی میں شفاف انتخابات کرائیں گے، مگر ایسا نہ ہوسکا۔ عمران خان نے پی ٹی آئی میں جسٹس(ر) وجیہ کی سفارشات کے مطابق انتخابات کرانے کے بجائے جسٹس(ر) وجیہ الدین کو پارٹی سے نکال باہر کیا۔ عمران خان جمہوریت کی سیڑھی استعمال کرکے اقتدار میں تو آگئے ہیں مگر انھوں نے جمہوریت کو ایک بلا سمجھتے ہوئے اسے ابھی تک اپنی پارٹی میں گھسنے نہیں دیا۔ پیپلزپارٹی، نواز لیگ اور ایم کیو ایم کی طرح پی ٹی آئی میں بھی سارے بڑے فیصلے صرف ایک فرد کررہا ہے یعنی عمران خان۔ عمران خان اکثر کہتے ہیں کہ وہ اقتدار میں آکر اداروں کو مضبوط کریں گے۔ خدا کرے ایسا ہی ہو، مگر پہلے وہ جمہوریت کے بنیادی ادارے یعنی اپنی جماعت کو تو مشرف بہ جمہوریت کرکے مضبوط کرلیں۔ ہماری دعا ہے کہ عمران ملک و قوم کی خدمت کریں اور اللہ تعالیٰ انھیں طویل عمر عطا کرے، لیکن خاکم بدہن اگر کل کلاں کو عمران نہ رہے تو کیا ہوگا؟ ابھی اُن کی جماعت میں دو گروہ ہیں، پھر اس جماعت میں دس بارہ گروہ بن جائیں گے اور پی ٹی آئی ختم ہوجائے گی۔
بدقسمتی سے جمہوریت کے تناظر میں مذہبی جماعتوں کا حال بھی خستہ ہے۔ ان میں سے کوئی فرقے پر کھڑی ہے، کوئی مسلک پر۔ کہیں والد کی جگہ بیٹے نے لے لی ہے، کہیں بھائی کی جگہ بھائی لینے کے لیے تیار ہے۔ اس تناظر میں جماعت اسلامی ملک کی واحد جماعت ہے جو نظریے پر کھڑی ہے، فکر پر استوار ہے، جس پر نہ کسی خاندان کا قبضہ ہے نہ کسی فرقے اور مسلک کا غلبہ ہے۔
مولانا مودودیؒ عظیم مفکر تھے، مگر جماعت پر مولانا کے کسی بیٹے یا بیٹی کا قبضہ نہ ہوا۔ مولانا مودودیؒ جماعت کے بانی تھے، اس کا دل تھے، اس کا دماغ تھے، مگر ان کا طریقہ یہ تھا کہ جماعت کی مجلسِ عاملہ اور مجلسِ شوریٰ کے اجلاس میں وہ تمام شرکا کو کھل کر اپنی بات کہنے کا موقع دیتے تھے، اور جب سب کلام کرچکتے تھے تو مولانا اپنی بات رکھتے تھے۔ ایسا اس لیے تھا کہ مشورے یا شوریٰ کے تقاضے پورے ہوں۔ مولانا اجلاس کے آغاز میں خود کچھ کہنے کی روایت ڈال دیتے تو ان سے بھلا کون اختلاف کرتا! 1970ء کے انتخابات میں جماعت کو ناکامی ہوئی تو شوریٰ کے اجلاس میں مولانا پر زبردست تنقید ہوئی، اور مولانا نے تحریکِ اسلامی کے قائد کے ظرف اور کشادہ دلی کے مطابق خندہ پیشانی سے تنقید کو سنا۔ شوریٰ نہیں تو فیصلوں میں کوئی برکت نہیں، اور شوریٰ میں تنقید نہیں تو شوریٰ کا مقصد ہی فوت ہوگیا۔ تحریکیں اور جماعتیں کسی خاندان، کسی گروہ اور کسی فرد کی جاگیر نہیں ہوتیں، اور جو جماعتوں کو ذاتی میراث بناتا ہے وہ دنیا میں بھی خسارے میں رہے گا اور آخرت میں تو اسے منہ کے بل گھسیٹ لیا جائے گا۔ اس لیے کہ تحریکیں اور جماعتیں اجتماعی امانت ہوتی ہیں اور ان کو اصولوں کے مطابق نہ چلانا ایک بہت بڑی خیانت ہے۔ جماعت اسلامی پر کسی خاص زبان یا کسی صوبے کے لوگوں کا بھی قبضہ نہیں۔ افسوس ہمارے ذرائع ابلاغ جماعت اسلامی کی ان خصوصیات کے ذکر میں انتہائی درجے کے بخل سے کام لیتے ہیں ورنہ حقیقت یہ ہے کہ جمہوری اعتبار سے جماعت اسلامی کا نام کسی دوسری جماعت کے ساتھ لینا جماعت اسلامی کی توہین ہے۔ کہاں جماعت اسلامی اور کہاں پیپلزپارٹی؟ کہاں جماعت اسلامی اور کہاں نواز لیگ؟ کہاں جماعت اسلامی اور کہاں ایم کیو ایم؟ کہاں جماعت اسلامی اور کہاں پی ٹی آئی؟ کہاں جماعت اسلامی اور کہاں فرقوں اور مسلکوں کی سیاست کرنے والی جماعتیں؟
جمہوریت کا ایک ستون انتظامیہ یا حکومت ہے۔ حکومت یا انتظامیہ انتخابات سے وجود میں آتی ہے۔ جمہوریت کا تقاضا ہے کہ انتخابات میں لوگ زبان، نسل، جغرافیے، ذات، برادری، فرقے اور مسلک سے بلند ہوکر ووٹ دیں۔ بدقسمتی سے ملک میں کہیں زبان کی بنیاد پر سیاست ہورہی ہے، کہیں ذات اور برادری کو ووٹ ڈالے جارہے ہیں، اور کہیں فرقے اور مسلک کا پرچم بلند کیا جارہا ہے۔ رہی سہی کسر Electables اور سرمائے کی سیاست نے پوری کردی ہے۔ پیپلزپارٹی اور نواز لیگ عرصے سے Electables اور سرمائے کی سیاست کررہی تھیں۔ عمران خان اس سیاست کے خلاف تھے، مگر 2018ء کے انتخابات سے ذرا پہلے انھوں نے روزنامہ ڈان کراچی کو دیے گئے انٹرویو میں صاف کہا کہ پاکستان میں کوئی Electables اور سرمائے کے بغیر انتخاب نہیں جیت سکتا۔ عمران خان کی یہ بات غلط نہیں، مگر اصل سیاست حالات کو چیلنج کرنا اور انھیں تبدیل کرنا ہے، نہ کہ حالات کے آگے ہتھیار ڈالنا۔ انتخابات میں سرمائے کی قوت اور مداخلت کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ نواز لیگ اور پی ٹی آئی دونوں نے اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلز پر جو انتخابی اشتہارات چلائے اُن پر 16 سے 20 ارب روپے خرچ ہوئے ہیں۔ یعنی دونوں جماعتوں نے اشتہاری مہم پر 8 سے 10 ارب روپے خرچ کیے ہیں۔ جمہوری نقطۂ نظر سے یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ جن لوگوں یا جن رائے دہندگان کا حافظہ ٹی وی اسکرین سے تشکیل پاتا ہے اُن کے حافظے کو نواز لیگ اور پی ٹی آئی نے اپنی اشتہاری مہم کے ذریعے بلاک اور اغوا کرلیا اور انھیں اپنے سوا کسی اور جماعت کے بارے میں سوچنے کے قابل ہی نہیں رہنے دیا۔ کیا یہی آزادانہ انتخاب یا Free Choice ہے؟ اس تناظر میں آپ بتایئے کہ جو حکومت یا انتظامیہ Electables اور سرمائے کی قوت سے وجود میں آئی ہو اُسے کتنا جمہوری کہا جاسکتا ہے؟
آزاد عدلیہ کی بات سب کرتے ہیں، مگر آزاد عدلیہ نہ اسٹیبلشمنٹ کو ایک آنکھ بھاتی ہے، نہ آزاد عدلیہ نواز لیگ اور پیپلزپارٹی کو پسند ہے۔ فوجی آمروں نے ہمیشہ اعلیٰ عدالتوں سے اپنی آمریت اور اپنے اقدامات کو آئینی تحفظ فراہم کرایا ہے، اور میاں نوازشریف سپریم کورٹ پر حملہ کرا چکے ہیں، ججوں کو خرید چکے ہیں، اور اب انھوں نے پاناما کے مقدمے کے بعد سپریم کورٹ کے خلاف جو مہم چلائی ہے وہ عدلیہ کی توہین نہیں بلکہ اس کی عصمت پر حملہ ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ میاں نوازشریف اور اُن کی جماعت نے سپریم کورٹ کو منہدم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اس سلسلے میں پیپلزپارٹی کا ریکارڈ بھی اچھا نہیں۔ بے نظیر بھٹو عدالتوں کو ’’کنگارو کورٹس‘‘ کہتی تھیں، مگر بہرحال اس سلسلے میں پیپلزپارٹی کی پوزیشن نواز لیگ سے بہت بہتر ہے۔ عمران خان ابھی اقتدار میں آئے ہیں، انھیں ابھی تک عدالتوں سے کوئی نقصان نہیں ہوا۔ ہوگا تو شاید وہ بھی عدلیہ کی بالادستی کو ہضم نہیں کرسکیں گے۔ بہرحال اس سلسلے میں عمران اور پی ٹی آئی کو نواز لیگ اور پیپلزپارٹی کے ساتھ کھڑا نہیں کیا جاسکتا۔ ان کے رویّے کے حوالے سے ہمیں انتظار کرنا ہوگا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو جمہوریت کا ایک اور ستون یعنی عدلیہ بھی اچھی حالت میں نہیں، اور اس کی وجہ بھی ہماری فوجی اور سول آمریت ہے۔
پریس کو جمہوریت کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے۔ لیکن وطنِ عزیز میں فوجی آمریت اور سول آمریت نے پریس کی آزادی کو خواب و خیال بنادیا ہے۔ یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ پی ایس پی کے سربراہ مصطفی کمال کو کسی صحافی نے اسٹیبلشمنٹ سے منسلک کیا۔ اس کے جواب میں مصطفی کمال نے کہا کہ آپ میری کیا بات کرتے ہیں، ٹیلی ویژن کا کون سا اینکر ’’وہاں‘‘ سے ’’لائن‘‘ نہیں لیتا! افسوس ناک بات یہ ہے کہ ملک کے کسی اینکر کو یہ جرأت نہ ہوئی کہ وہ کہے کہ میں آزاد ہوں، میں کسی سے ’’لائن‘‘ نہیں لیتا۔ اتفاق سے یہ بات میڈیا ٹائی کونز، ممتاز کالم نگاروں اور رپورٹرز کے بارے میں کہی جاتی تو وہاں سے بھی کوئی اٹھ کر یہ نہ کہتا کہ میں اپنے مذہب، اپنی تہذیب، اپنی تاریخ کے مطابق اپنا ایقان یا اپنا Conviction لکھتا ہوں۔ میری معلومات، علم اور تفہیم غلط ہوسکتی ہے مگر میں اپنے الفاظ اور اپنی رائے کو فروخت نہیں کرتا۔ اتفاق سے یہ بات تو سب کو نظر آجاتی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کس طرح آزادیٔ رائے کا گلا گھونٹ رہی ہے، مگر ’’سول آمروں‘‘ کا ذکر کوئی نہیں کرتا۔ جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد مرحوم نے ایک بار ہمیں بتایا کہ میاں نوازشریف ایک ممتاز صحافی کو (جو اب ماشاء اللہ ایک چھوٹے سے میڈیا ٹائی کون بن چکے ہیں) برا بھلا کہہ رہے تھے۔ قاضی صاحب نے میاں صاحب سے کہا کہ جانے بھی دیجیے، وہ صاحب اتنے برے نہیں۔ قاضی صاحب کے بقول میاں صاحب نے یہ سن کر فرمایا کہ قاضی صاحب آپ ان صاحب کو نہیں جانتے، یہ صاحب اتنے گھٹیا ہیں کہ ان تک ’’لفافہ‘‘ پہنچانے میں دو چار دن کی تاخیر ہوجاتی ہے تو وہ فون کر کرکے ناک میں دَم کردیتے ہیں۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ کئی بڑے اخبارات اور چینلز میاں صاحب کی مٹھی میں تھے اور اب بھی ہیں۔ حامد میر اپنے ایک کالم میں بتا چکے ہیں کہ نواز لیگ کے کچھ رہنمائوں نے انہیں کوئی ’’آفر‘‘ کی۔ میاں صاحب کے دستر خوان سے استفادہ کرنے والوں میں بڑے بڑے کالم نگاروں کے نام آتے ہیں۔ بعض اخبارات، بعض چینلز اور بعض صحافی ایسے ہیں جن پر اسٹیبلشمنٹ کی مہر لگی ہوئی ہے، مگر بعض اخبارات، بعض چینلز اور بعض صحافیوں کے ماتھے پر نواز لیگ کی مہر کو صاف دیکھا جاسکتا ہے۔ پریس کے ساتھ یہی سلوک پیپلزپارٹی بھی کرتی رہی ہے اور اپنی بساط کے مطابق اب بھی کرتی ہے۔ عمران خان کا قصہ نوازشریف اور زرداری سے مختلف نہیں۔ اس سلسلے میں ہم ملک کے معروف کالم نگار رئوف کلاسرا کے کالم کا ایک طویل اقتباس پیش کیے دیتے ہیں۔ اس اقتباس میں نوازشریف، بے نظیر بھٹو، آصف زرداری اور عمران خان ذرائع ابلاغ کے حوالے سے ایک ہی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ رئوف کلاسرا نے کیا لکھا، ملاحظہ کیجیے:
’’اس کے بعد باری آئی صحافیوں کی۔ شریف خاندان اس معاملے میں سب کو مات دے گیا، انھوں نے لاہور کے ہر دوسرے صحافی کو پیکیج دیا۔ مالکان کے لیے علیحدہ پیکیجز تیار ہوئے، خزانوں کے منہ کھول دیے گئے۔ جو قریبی صحافی تھے انھیں ہر جگہ حکومتی اداروں میں پوزیشنیں دی گئیں۔ کوئی سفیر، کوئی وزیر، تو کوئی مشیر لگ گیا۔ جو جتنا اُن کے حق میں طبلہ بجا جاسکتا تھا اُسے اتنی ہی بڑی پوزیشن ملی۔ شریف خاندان کو صحافیوں کو کھلانا آتا ہے۔ اپوزیشن میں ہوں تو ہر وقت صحافیوں میں گھرے رہیں گے، اقتدار میں آجائیں تو ان کے قریب کوئی نہیں جاسکتا۔ اپوزیشن کے دنوں میں وہ چن چن کر صحافیوں کی پلیٹوں میں کھانا ڈالیں گے اور انقلاب کے دعوے ہوں گے، لیکن وزیراعظم یا وزیراعلیٰ بنتے ہی ان سے دور ہوجاتے ہیں کیونکہ وہ صحافی کوئی مشکل سوال پوچھ سکتے ہیں، جس کا جواب اُن کے پاس موجود پرچی پر شاید نہ ہو۔ اپوزیشن کے دنوں میں انھیں وہ صحافی اچھے لگتے ہیں جو آزاد ہوں، جو کسی دبائو میں نہ آتے ہوں۔ حکومت میں آتے ہی وہ سب برے لگنا شروع ہوجاتے ہیں، پھر انھیں وہی اچھے لگتے ہیں جو اُن کو دنیا کا عظیم لیڈر ثابت کریں۔ دن کو رات اور رات کو دن ثابت کرنے کے لیے ایسے صحافی بہت کام آتے ہیں۔ یہ آئیڈیا زرداری اور بے نظیر بھٹو نے بھی چرایا اور نواز شریف ماڈل سیاست میں متعارف کرانے کا فیصلہ کیا۔ زرداری کا وہی مشہورِ زمانہ جملہ کہ اگر نوازشریف کی سیاست کا مقابلہ کرنا ہے تو پھر نوازشریف ماڈل اپنانا ہوگا۔ ہر ایک کی قیمت لگائو اور خرید لو۔ پھر وہی مال پانی اور اپنے اپنے صحافیوں کی ایک لمبی فہرست۔ چند ہی صحافی نوازشریف اور زرداری کے جال سے بچ سکے۔ نوازشریف نے اگر ہیلی کاپٹر گروپ تشکیل دیا تو زرداری نے ناشتا گروپ تشکیل دے دیا، جہاں سب بیٹھ کر ملک کی تقدیر کے فیصلے کرتے تھے۔ عمران خان نے بھی یہی ماڈل اپنایا کہ اس کے بغیر سیاست نہیں ہوسکتی تھی۔ عمران خان کو ایک فائدہ تھا کہ وہ ابھی اقتدار میں نہیں آئے، لہٰذا ان کے ساتھ ابھی میڈیا اور لوگوں کا رومانس باقی تھا۔ عمران خان جو بھی دعویٰ کرنا چاہتے، کرسکتے تھے، لہٰذا عمران نے بھی خوب فائدہ اٹھایا اور دنیا بھر کے امیر ترین اپنی پارٹی میں اکٹھے کیے، چاہے کسی پر نیب اور ایف آئی اے میں دس دس کیسز ہی کیوں نہ ہوں۔ ہر وہ دعویٰ جو کیا جاسکتا تھا، وہ بھی کیا۔ اور وہ بھی دعوے کرڈالے جو نہیں کرنے چاہیے تھے۔ اپوزیشن کے دنوں میں یہ سب چل جاتا ہے، اور عمران نے اس سے خوب فائدہ اٹھایا ہے۔ عمران خان کی بھی میڈیا کے پسندیدہ لوگوں کی اپنی فہرست ہے، کچھ کو انھوں نے آج کل ہائر بھی کرلیا ہے جو انھیں بنی گالہ میں بیٹھ کر کنسلٹنسی کے نام پر بریفنگ دیتے ہیں کہ میڈیا کیسے مینج ہوگا اور کتنا خرچہ ہوگا۔ جو صحافی ان میڈیا کنسلٹنٹس کے دوستانہ فونوں پر ہاتھ ہولا نہیں رکھتے انھیں سوشل میڈیا پر بھرتی کی گئی ٹیموں کے ذریعے گالی گلوچ کراکے مینج کیا جاتا ہے۔ کوئی اینکر یا صحافی اگر عمران خان کے اردگرد موجود کرپٹ ٹولے کا کوئی اسکینڈل بریک کرتا ہے تو یہ سوشل میڈیا ٹیمیں اس پر چھوڑ دی جاتی ہیں، وہ بے چارا اگلے دن عمران خان کے ہاں بیٹھا نظر آئے گا۔‘‘
(کالم رئوف کلاسرا، روزنامہ دنیا، 20 جولائی 2018ء)
یہاں کہنے کی ایک اہم بات یہ ہے کہ رئوف کلاسرا میاں نوازشریف، بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے ناقد ہیں، مگر وہ عمران خان کو پسند کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود انھوں نے بتادیا ہے کہ جس طرح ’’دوسرے‘‘ میڈیا کو Manage کررہے ہیں اسی طرح عمران اور اُن کی جماعت بھی میڈیا کی گردن پر پائوں رکھے کھڑی ہے اور وہ بھی میڈیا کو “Manage” کرنے کا ’’فن‘‘ جانتی ہے۔ اب صورت یہ ہوئی کہ نہ ہماری جماعتیں جمہوری ہیں، نہ وہ حقیقی انتظامیہ کو وجود میں لا رہی ہیں، نہ انھیں آزاد عدلیہ پسند ہے، نہ آزاد پریس انھیں بھاتا ہے۔ اس طرح ہماری تمام بڑی جماعتیں جمہوریت کے پانچوں ستونوں پر کلہاڑا چلا رہی ہیں۔ اس تناظر میں ہماری بڑی جماعتیں کہاں کی جمہوریت پسند ہیں؟ اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ وہ ’’سول آمریت‘‘ کی علامت ہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ہمارا سیاسی نظام قوم کو انتخاب یا Choice کی دو ہی صورتیں مہیا کرتا ہے، ایک یہ کہ عوام ’’فوجی آمریت‘‘ کے ’’کنویں ‘‘ میں گر جائیں۔ دوسری یہ کہ وہ ’’سول آمریت‘‘ کی کھائی میں گر کر جان دے دیں۔ یہ ایک ہولناک اور شرمناک منظر ہے، اور اس منظر سے ملک و قوم کو ایک ہی جماعت نکال سکتی ہے یعنی جماعت اسلامی۔ اس لیے کہ جماعت اسلامی نظریے پر کھڑی ہے، فکر کو پکڑے ہوئے ہے، اخلاق و کردار کی حامل ہے، غیر خاندانی اور غیر موروثی ہے، اس میں جِمہوریت موجود ہے۔ مگر یہ کام اسی وقت ہوسکتا ہے جب جماعت مکمل نظریاتی جدوجہد کی طرف لوٹے۔ معاشرے میں نظریاتی کشمکش برپا ہو، جماعت فوجی آمریت اور سول آمریت کی حقیقت سے قوم کو آگاہ کرے۔