پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے ہر دور میں اپنے اتحادیوں کے حوالے سے ایک ہی نعرہ تخلیق کیا ہے ’’استعمال کرو اور پھینکو‘‘۔
سابق مشرقی پاکستان کا بحران قومی وحدت اور سلامتی کے حوالے سے ایک بدترین بحران تھا۔ اس بحران کے ایک اہم مرحلے پر اسٹیبلشمنٹ مشرقی پاکستان میں تنہا ہوگئی تھی۔ اس کی مدد کرنے والا کوئی نہ تھا۔ اس نازک دور میں اسلامی جمعیت طلبہ کے جانباز ’البدر‘ اور ’الشمس‘ جیسی تنظیموں کا حصہ بنے، اور انھوں نے پاکستان کی وحدت و سلامتی اور بقا کے لیے اپنی ہر چیز کو دائو پر لگا دیا۔ اپنے مال اور مستقبل ہی کو نہیں، اپنی اور اپنے اہلِ خانہ کی زندگیوں کو بھی۔ لیکن پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے اچانک ہتھیار ڈال دیے۔ اسٹیبلشمنٹ کے اہلکار تو جنگی قیدی بن کر بھارت چلے گئے مگر انھوں نے البدر اور الشمس کے کارکنوں کو عوامی لیگ اور مکتی باہنی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عوامی لیگ اور مکتی باہنی کے لوگوں نے البدر اور الشمس کے پندرہ بیس ہزار نوجوانوں کو چُن چُن کر شہید کردیا۔ اس سانحے کے برسوں بعد جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد نے ایک بیان میں شکوہ کیا کہ اگر پاکستانی جرنیلوں نے دشمن کے سامنے ہتھیار ڈالنے کا فیصلہ کر ہی لیا تھا تو وہ ہمیں چند روز قبل اپنے فیصلے سے مطلع کردیتے تاکہ ہم البدر اور الشمس کے نوجوانوں کو محفوظ کرنے کے لیے کچھ کرلیتے۔ قاضی صاحب کا شکوہ بجا تھا، مگر قاضی صاحب کو معلوم نہیں تھا کہ ان کے انتقال کے بعد بنگلہ دیش میں ایک نیا ہولناک منظر طلوع ہوگا اور جماعت اسلامی کے رہنمائوں کو پاکستان سے محبت اور ملک کی بقا کے لیے فوج کا ساتھ دینے کے ’’جرم‘‘ میں پھانسیوں پر لٹکایا جائے گا، مگر اس کے باوجود اسٹیبلشمنٹ ان مظلوموں کے حق میں ایک بیان دینے کی روادار نہ ہوگی بلکہ وہ بنگلہ دیش، پاکستان اور بھارت کے درمیان طے پانے والے اُس سہ فریقی معاہدے کے حوالے سے بھی کچھ نہ کرے گی جس کے تحت فریقین نے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ مستقبل میں کسی پر جنگی مقدمہ نہیں چلایا جائے گا۔ یادش بخیر اسٹیبلشمنٹ نے بنگلہ دیش میں پھنسے ہوئے اُن پاکستانیوں کے لیے بھی کچھ نہ کیا جنہیں عرفِ عام میں ’’بہاری‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ وہ پاکستانی ہیں جنھوں نے آخری وقت تک پاکستان سے محبت کا حق ادا کیا۔ بنگلہ دیش نے انھیں کئی بار شہریت دینے کی پیشکش کی، مگر انھوں نے اس پیشکش کو قبول نہ کیا، اور اب وہ عرصے سے بنگلہ دیش میں ایسی زندگی بسر کررہے ہیں جسے زندگی کہنا زندگی کی توہین ہے۔
یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ 1980ء کی دہائی میں مقبوضہ کشمیر کی تحریکِ آزادی نئی قوت سے ابھر کر سامنے آئی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے کشمیر کی قیادت کو باور کرایا تھا کہ اگر وہ تحریکِ آزادی کو ایک خاص سطح تک بدلنے میں کامیاب ہوگئے تو پاکستان ان کی ہر ممکن مدد کرے گا۔ کشمیر کی قیادت اور کشمیر کے عوام نے دیکھتے ہی دیکھتے تحریک آزادی کو ایک ایسی توانائی مہیا کردی جو اس سے پہلے کبھی مہیا نہیں ہوئی تھی۔ اس منظرنامے میں اسٹیبلشمنٹ کو اس کا وعدہ یاد دلایا گیا۔ اس کا جواب یہ آیا کہ کشمیر کے لیے پاکستان کو خطرے میں نہیں ڈالا جاسکتا۔ یہ بات ہمیں ایک ایسے سیاسی رہنما نے بتائی جن کے حوالے سے غلط بیانی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
طالبان اسٹیبلشمنٹ ہی کی تخلیق تھے۔ ہم نے ان کی حکومت کو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے تسلیم کرایا تو کہا کہ انہیں افغانی نہ سمجھا جائے بلکہ یہ ’’ہمارے بچے‘‘ ہیں۔ ہمارے یہ بچے پانچ سال تک ہمیں عزیز رہے اور ان کے ملک کو ہم پاکستان کی ’’تزویراتی گہرائی‘‘ قرار دیتے رہے، مگر نائن الیون ہوا تو جنرل پرویزمشرف نے ایک ٹیلی فون کال پر پورا پاکستان امریکہ کے حوالے کردیا۔ اس کے ساتھ ہی ہمارے بچے پہلے ’’ہمارا بوجھ‘‘ بنے، پھر ہم نے اپنے بچوں کو پکڑ پکڑ کر امریکہ کے حوالے کیا اور جنرل پرویزمشرف کے اعتراف کے مطابق کروڑوں ڈالر کما لیے۔ یہاں تک کہ ہم نے افغانستان کے سفیر ملاّ ضعیف کو پکڑ کر امریکہ کے حوالے کردیا، حالانکہ ہر ملک کے سفیر کو دوسرے ملک میں مکمل تحفظ کی ضمانت مہیا ہوتی ہے، مگر ہماری اسٹیبلشمنٹ نے تمام اخلاقی اصولوں اور بین الاقوامی ضابطوں کی دھجیاں اُڑا دیں۔
اتفاق سے اس مسئلے کا 2018ء کے انتخابات کے نتائج سے گہرا تعلق ہے۔ مصطفی کمال اور اُن کی جماعت پی ایس پی کے رہنما ایم کیو ایم کے سابق دہشت گرد اور بھتہ خور ہیں مگر انھیں اسٹیبلشمنٹ نے اپنی واشنگ مشین سے دھوکر نکالا اور کراچی میں لاکھڑا کیا۔ ان لوگوں کو گزشتہ ڈیڑھ دو سال میں ٹیلی ویژن اسکرین پر اس طرح مسلط کیا گیا کہ وہ زیرو سے ہیرو نظر آنے لگے۔ مصطفی کمال کا دعویٰ تھا کہ وہ 2018ء کے انتخابات میں سیاسی انقلاب برپا کرنے والے ہیں۔ سندھ کا آئندہ وزیراعلیٰ یا تو پی ایس پی سے ہوگا، یا پی ایس پی کا حمایت یافتہ ہوگا۔ مگر جو کچھ ہوا ہے وہ ہمارے سامنے ہے۔ پی ایس پی کو مجموعی طور پر ایک لاکھ ووٹ مل سکے۔ بلاشبہ پی ایس پی اسی کی مستحق تھی اور اصولی اعتبار سے پی ایس پی کا ذکر البدر اور الشمس جیسی مقدس تنظیموں اور اہلِ کشمیر اور طالبان کے ساتھ نہیں ہونا چاہیے، مگر ایک حقیقت کے اظہار کے لیے ایسا کرنا ناگزیر ہے۔ بہرحال اب صورتِ حال یہ ہے کہ مصطفی کمال میاں نواز شریف کے ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کی طرح ’’مجھے کیوں ہروایا‘‘ کہتے پھر رہے ہیں۔ یہی نہیں انھوں نے اس کے سوا بھی بہت کچھ کہا ہے۔ آیئے اس کی چند جھلکیاں انہی کے الفاظ میں ملاحظہ کرتے ہیں۔ مصطفی کمال نے جیو نیوز کے پروگرام جرگہ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا:
’’ہمارا مینڈیٹ چھینا گیا، ہم نتائج تسلیم نہیں کرتے۔ جس کے بارے میں تین دن بعد نام لے کر بات کروں گا۔ انتخابات سے پندرہ دن قبل ہمارے ساتھ کیا واقعہ ہوا، یہ بھی بتائوں گا۔ کسی کو کراچی میں پختونوں کی پارٹی الگ چاہیے۔ بلوچی، شیعہ، سنی سب کی پارٹی الگ چاہیے تاکہ ان کی کراچی میں موجودگی کا جواز رہے۔ کراچی میں لوگوں کو تقسیم چاہیے تاکہ ضرورت رہے آپریشن کی۔‘‘
مصطفی کمال سے پوچھا گیا کہ آپ کو پاکستان آنے پر پچھتاوا تو نہیں؟ اس سوال کے جواب میں مصطفی کمال نے کہا ’’میں تھوڑا سا مختلف ہوں، پیار سے کوئی جان بھی مانگے تو دے دوں گا، مگر ’’بے وقوف بناکر‘‘ کوئی کچھ کرے اس معاملے میں‘ مَیں مختلف ہوں۔ میں یہ نہیں کہوں گا کہ پچھتاوا ہورہا ہے، مگر اچھی Feelings نہیں ہیں۔‘‘ ان کے بقول ان کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ کسی Individual کا چھوٹا پن ہے۔ انھوں نے کہا کہ مہاجروں کی تباہی اور ایم کیو ایم لازم و ملزوم ہیں۔ انھوں نے کہا کہ مہاجروںکو مارنے کے لیے انہیں ایم کیو ایم کی زنجیر میں باندھنا ضروری ہے، اس کے بغیر آپ مہاجروں کو نہیں مار سکتے۔ مجھے ایم کیو ایم کیی زنجیر سے باندھنے کی کوشش ہورہی ہے اور میں ایم کیو ایم کی زنجیر توڑنا چاہتا ہوں۔‘‘ (روزنامہ جنگ کراچی۔ 29 جولائی 2018ء۔ صفحہ 38)
’’استعمال کرو اور پھینکو‘‘ کی شکایت صرف مصطفی کمال نے نہیں کی۔ تحریک لبیک یارسول اللہ کا قصہ بھی یہی ہے۔ کراچی کے انتخابی نتائج میں مسائل سامنے آئے تو تحریک لبیک نے کئی مقامات پر دھرنا دینا شروع کردیا۔ ان کا خیال تھا کہ ہم اسلام آباد میں جو کچھ کرچکے ہیں کراچی میں بھی وہی کچھ کرسکتے ہیں، مگر انھیں ایک کال کے ذریعے بتادیا گیا کہ وہ جو کچھ کررہے ہیں ناقابلِ قبول ہے۔ چنانچہ دھرنے اچانک تحلیل ہوگئے۔ اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ کراچی میں پی ٹی آئی کا مینڈیٹ جعلی ہے۔ عمران خان اور ان کی جماعت کراچی میں ایم کیو ایم کا ’’متبادل‘‘ بن کر ابھری ہے اور اس نے شہر کو ایم کیو ایم کے فاشزم کی کھائی سے نکالا ہے، لیکن اس کے باوجود شہر میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار کی پیچیدگی خود کو ظاہر کررہی ہے اور ’’استعمال کرو اور پھینکو‘‘ کا تجربہ بہرحال کراچی میں دہرایا گیا ہے۔ لیکن اس مسئلے کا ایک اور پہلو بھی ہے۔
میاں نوازشریف گزشتہ دو برسوں میں اچانک ’’نظریاتی‘‘ بھی ہوگئے تھے اور ’’انقلابی‘‘ بھی۔ ان کی ’’انقلابیت‘‘ اور ’’نظریاتی پن‘‘ کا ایک مظہر ان کی وہ مہم تھی جس کا عنوان ’’مجھے کیوں نکالا؟‘‘ تھا۔ ان کی نظریاتی اور انقلابی شخصیت کا ایک اظہار ان کی دختر مریم نواز کا یہ اعلان تھا کہ ’’روک سکو تو روک لو‘‘۔ میاں صاحب کی ’’نظریاتی انگڑائی‘‘ اور ’’انقلابی جماہی‘‘ ان کے نعرے ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ میں بھی ظاہر ہوئی۔ میاں صاحب کے ’’صحافتی عاشقوں‘‘ نے اُن کی لندن سے واپسی کو بھی ’’انقلاب انگیز واپسی‘‘ اور ’’نظریاتی آمد‘‘ کا رنگ دیا۔ بدقسمتی سے خود میاں نوازشریف، اُن کے برادرِ خورد شہبازشریف، نواز لیگ کے رہنمائوں اور میاں نوازشریف کے ساتھیوں نے صرف پندرہ دن میں ان تمام چیزوں کی جو بھد اڑائی ہے تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ اتفاق سے بھد اڑانے کے عمل کی ابتدا خود میاں نوازشریف نے کی۔
میاں صاحب، ان کی دختر مریم نواز اور کیپٹن(ر) صفدر کو ایون فیلڈ کیس میں سزا ہوئی تو میاں صاحب نے سزا سننے کے بعد یہ فرمایا ’’اہلیہ کو ہوش آنے پر آئوں گا۔‘‘ (روزنامہ دنیا کراچی۔ 7 جولائی 2018ء۔ صفحہ اوّل)
میاں صاحب کا یہ فقرہ بتارہا ہے کہ اُن کا اور اُن کی بیٹی کا فوری طور پر پاکستان آنے کا کوئی ارادہ نہیں، اس لیے کہ اُس وقت تک انہیں اسٹیبلشمنٹ کا یہ پیغام مریم نواز کی بیٹی کے سسر میاں منیر کے ذریعے مل چکا تھا کہ اگر میاں صاحب لندن میں ٹھیر جائیں تو اُن کے ساتھ ’’نرمی‘‘ کی جاسکتی ہے۔ میاں صاحب اس مرحلے پر سمجھوتے کے لیے آمادہ دکھائی دیتے تھے، مگر اگلے ہی روز کسی نے اُن کو پیغام دیا کہ اگر وہ فوری طور پر لاہور آجائیں تو ’’انقلاب‘‘ کا آنا طے ہے۔ چنانچہ میاں صاحب نے 8 جولائی 2018ء کو یعنی اگلے ہی دن واپسی کا اعلان کردیا۔ اس روز میاں صاحب کے ترجمان اخبار روزنامہ جنگ کے صفحۂ اوّل پر شائع ہونے والی چھ کالمی سرخی یہ تھی
’’نواز شریف اور مریم نے جمعہ کو واپسی کا اعلان کردیا۔‘‘
اس خبر کی ذیلی سرخیاں تھیں:
(1) انتخابی امیدواروں کو لاہور ائرپورٹ پہنچنے کی ہدایت، حمزہ استقبال کے نگراں مقرر۔
(2) جو مرضی کرلو، نوازشریف کو دلوں سے نہیں نکالا جاسکتا۔
(3) عوامی عدالت لگے گی اور عوام فیصلہ سنائیں گے، حمزہ (روزنامہ جنگ کراچی، 8 جولائی 2018ء)
میاں صاحب لاہور پہنچے تو انھوں نے فرمایا ’’آئندہ نسلوں کے لیے قربانی دے رہا ہوں۔‘‘ (روزنامہ ایکسپریس کراچی، 14 جولائی2018ء)
لیکن جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ میاں شہبازشریف جلوس لے کر لاہور کی سڑکوں پر گھومتے رہے مگر میاں صاحب کی پرواز میں دو گھنٹے کی تاخیر کے باوجود ہوائی اڈے نہ پہنچ سکے۔ نواز لیگ کے دوسرے رہنمائوں میں سے کوئی بھی ہوائی اڈے نہ پہنچ سکا۔ البتہ مشاہد اللہ ہوائی اڈے پہنچنے میں کامیاب رہے۔ شہبازشریف نے اس موقع پر فرمایا کہ میاں صاحب کے استقبال کے لیے لوگوں کا ’’سمندر‘‘ سڑکوں پر موجود تھا اور وہ بھیڑ کی وجہ سے ہوائی اڈے نہ پہنچ سکے۔ مگر اگلے ہی دن نواز لیگ کے سابق وزیر خارجہ خواجہ آصف نے جیو نیوز کے پروگرام ’’شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ‘‘ میں صاف کہا کہ میاں صاحب کی آمد سے ایک دن قبل نواز لیگ کے اجلاس میں فیصلہ ہوا تھا کہ نواز لیگ کا کوئی رہنما اور کوئی جلوس ہوائی اڈے نہیں جائے گا۔ اس بات سے میاں نوازشریف، ان کے برادرِ خورد، نواز لیگ کے رہنمائوں اور خود نواز لیگ کی ساری انقلابیت اور نظریاتی پن ظاہر ہوچکا تھا، مگر میاں نوازشریف نے پاکستان کی صحافت میں ایک ایسا ذہن پیدا کیا ہے جس کو دیکھ کر بیک وقت خوف بھی آتا ہے، رحم بھی آتا ہے اور شرم بھی محسوس ہوتی ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ میاں صاحب کے ایک صحافتی وکیل رئوف طاہر نے روزنامہ ’’دنیا‘‘ میں شائع ہونے والے کالم میں میاں صاحب کی واپسی کو ’’باوقار‘‘ قرار دیا اور لکھا:
’’اور اب کھمبا نوچنے کا عمل جاری ہے۔ شہبازشریف نے ائرپورٹ پہنچنے کی کوشش کیوں نہ کی، سعد رفیق کے لوہے کے چنے کیا ہوئے، لاہور نوازشریف کے لیے باہر کیوں نہ نکلا؟‘‘ (روزنامہ دنیا۔ 17 جولائی 2018ء)
بے چارے اور قابلِ رحم رئوف طاہر ایسی باتیں کرنے والے واحد شخص نہ تھے، محمد سعید اظہر نے روزنامہ جنگ میں لکھا:
’’اب تک موصول ہونے والے تمام معتبر انتخابی جائزوں کے مطابق (ن) کو تاحال تمام جماعتوں پر برتری حاصل ہے… (میاں نوازشریف نے) 1999ء میں استعفیٰ دینے سے انکار کردیا تھا، وہ اس تاریخ کو دہرانے واپس آگئے ہیں اور انھوں نے خود کو جرأت مند ’’قائد‘‘ کی حیثیت سے منوا لیا ہے۔‘‘ (روزنامہ جنگ۔ 21 جولائی 2018ء)
عطا الحق قاسمی بھی اس ضمن میں کسی سے پیچھے نہ تھے۔ انھوں نے اپنے کالم میں لکھا:
’’شہبازشریف نے اپنی ساری توانائیاں انتخابی مہم پر صرف کردی ہیں۔ انھوں نے بہت بڑے پُرجوش جلسے کرکے ثابت کردیا کہ وہ عوام میں کتنے مقبول ہیں… حمزہ شہباز بھی پیچھے نہیں رہے، اور یوں جو لوگ دو بھائیوں میں اختلاف کا پروپیگنڈا کرتے آرہے تھے انھیں اس کا جواب خودبخود مل گیا۔‘‘ (روزنامہ جنگ۔ 23 جولائی 2018ء)
سہیل وڑائچ صاحب نے بھی روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والے اپنے کالم میں فرمایا کہ ’’میاں نوازشریف کی واپسی کے بعد دونوں بھائیوں کا بیانیہ ایک ہوگیا ہے۔‘‘ خورشید ندیم نے روزنامہ ’’دنیا‘‘ میں تحریر فرمایا ’’یہ بات ایک بار پھر ثابت ہوگئی کہ ملک میں اس وقت ایک ہی بیانیہ ہے اور یہ نوازشریف کا بیانیہ ہے، یہ مزاحمت کا بیانیہ ہے۔‘‘ (روزنامہ دنیا‘ 7 جولائی 2018ء)
محمد بلال غوری بھی میاں صاحب کے صحافتی مجاہد ہیں، انھوں نے روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والے اپنے کالم میں لکھا: ’’جمعہ کے روز عوام کا جمِ غفیر اور مسلم لیگ کی حکمت عملی طے کرے گی کہ نوازشریف کا شو ختم ہوچکا، یا پارٹی ابھی شروع ہوئی ہے… میاں نوازشریف کی واپسی پر سیاسی جوار بھاٹا ضرور آئے گا۔ نوازشریف اور مریم بھرپور عوامی استقبال کے بعد اڈیالہ جیل منتقل ہوگئے تو نون لیگ کا راستہ روکنا مشکل ہوجائے گا۔ پاکستانی عوام کے خمیر میں خونیں انقلاب یا بغاوت کی روش چاہے نہ ہو مگر ووٹ کی طاقت سے جواب دینے کی خو بہرحال ہے۔‘‘ (روزنامہ جنگ، 12 جولائی 2018ء)
اعزاز سید میاں نوازشریف کے ایک بڑے صحافتی کل پرزے ہیں۔ انھوں نے روزنامہ جنگ میں بڑی شدت کے ساتھ لکھا:
’’جب کسی سیاست دان کو پھانسی، جلا وطنی یا جیل کی سزا دے کر اُس کی توہین کرنے کی کوشش کی جائے تو جتنی سزا ہو عوام اُس کو اتنی ہی زیادہ عزت دیتے ہیں۔ جب آپ کسی کو دبانے کے لیے دفن کرتے ہیں تو وہ بیج بن کر ابھر آتا ہے۔ انگریزی میں کسی نے شہرۂ آفاق فقرہ لکھا ہے “The buried us. They don’t know we are seeds?”
(ترجمہ) ’’انھوں نے ہمیں دفن کردیا، انھیں پتا نہیں تھا کہ ہم بیج ہیں۔‘‘ (روزنامہ جنگ۔ 14 جولائی 2018ء)
اتنے سارے کالموں کے اقتباسات پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ میاں صاحب کے کیمپ کی ذہنی و نفسیاتی کیفیت کا ٹھیک ٹھیک تعین ہوجائے، اس سے میاں صاحب کے صحافتی ’’مہارتھیوں‘‘ کی اہلیت اور صلاحیت کا بھی بخوبی اندازہ ہورہا ہے۔ میاں نوازشریف کی ملک واپسی اور گرفتاری کے بعد جو کچھ ہوا وہ ریکارڈ پر ہے۔ میاں صاحب نے جیل جانے کے چند ہی گھنٹوں بعد شکایات کے انبار لگا دیے۔ انھوں نے کہا کہ میرا کمرہ ائرکنڈیشنڈ نہیں ہے، کمرے میں مچھر ہیں، بستر ٹھیک نہیں، باتھ روم صاف نہیں، کھانا مناسب نہیں۔ ایسی شکایات کسی نظریاتی اور انقلابی رہنما کے شایانِ شان نہیں۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ میاں صاحب ’’سیاسی قیدی‘‘ نہیں، انہیں بدعنوانی کے مقدمے میں سزا ہوئی ہے، چنانچہ ان کی جیل کو فائیو اسٹار نہیں بنایا جاسکتا۔ بہرحال قصہ کوتاہ میاں صاحب 14 جولائی کو جیل پہنچے اور صرف پندرہ روز میں وہ اسپتال منتقل ہوگئے ہیں۔ لیکن یہ تو ہمارا تبصرہ ہے۔ آیئے دیکھتے ہیں کہ انتخابی نتائج کی آمد کے بعد میاں صاحب کے ’’صحافتی عاشق‘‘ کیا فرما رہے ہیں۔
عطا الحق قاسمی نے اپنے علامتی کالم میں لکھا ہے کہ انسان کو پُرتعیش زندگی کی عادت ہوجائے تو وہ عوام کے ساتھ زیادہ وقت نہیں گزار سکتا۔ انھوں نے ہوائی اڈے کے وی آئی پی لائونج اور لائونج کی اصطلاحوں کے ذریعے خواص اور عوام کا فرق واضح کیا ہے۔ قاسمی صاحب نے اپنے کالم میں دو شعروں کا بھی سہارا لیا ہے۔ لکھتے ہیں:
تم کہتے ہو سب کچھ ہو گا
میں کہتا ہوں کب کچھ ہو گا
بس اسی آس پہ عمر گزاری
اب کچھ ہو گا، اب کچھ ہو گا
عطاالحق قاسمی کا کالم اس فقرے پر ختم ہوتا ہے ’’عوام کا ساتھ اتنا ہی دیا جاتا ہے جتنا میں نے دیا۔‘‘ (روزنامہ جنگ۔ 29 جولائی 2018ء)
ظاہر ہے اس کالم میں قاسمی صاحب نے میاں نوازشریف یا میاں شہبازشریف کا نام استعمال نہیں کیا، مگر میاں صاحب کے صحافتی مجاہد محمد بلال غوری نام استعمال کرنے پر ’’مجبور‘‘ ہوگئے۔ انھوں نے لکھا:
’’مجھے اعتراف کرنے دیں کہ انتخابات سے متعلق میرے بیشتر تجزیے، تخمینے اور اندازے غلط ثابت ہوئے، اور کیوں نہ ہوتے جب باغباں تھے برق و شرر سے ملے ہوئے۔ (مگر) یہ سوال بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ نوازشریف نے ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا جو بیانیہ دیا اس کی شکست کا ذمے دار کون ہے؟ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے پر کاٹنے میں یقینا وہ عناصر بھی شامل ہیں جن کا نام لینے سے گریز کیا جاتا ہے، اشاروں کنایوں میں بات کرنی پڑتی ہے۔ مگر تکلف برطرف، نوازشریف کے بیانیے کو سب سے زیادہ ضعف خود مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہبازشریف نے پہنچایا جو میاں نوازشریف کے مزاحمتی بیانیے کے برعکس ’’مفاہمتی سیاست کرتے رہے…… جب (انتخابات) میں منظم دھاندلی کے آثار پیدا ہوئے تو خبر ملی کہ شہبازشریف کچھ دیر میں پریس کانفرنس کرنے والے ہیں۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ اب شہبازشریف جبرِ ناروا کے خلاف ڈٹ جائے گا۔ مگر یہ پریس کانفرنس بھی ہیومیو پیتھک ثابت ہوئی۔‘‘ (روزنامہ جنگ۔ 30 جولائی 2018ء)
میاں صاحب کے صحافتی پہلوان اعزاز سید اس سلسلے میں محمد بلال غوری سے بھی آگے چلے گئے۔ انھوں نے انتخابات کے بعد روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والے کالم میں لکھا:
’’شہبازشریف قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں تو جیت گئے مگر وہ اس قابل نہیں کہ عمران خان کے خلاف تحریک چلا سکیں، کیونکہ ان کے خلاف نیب میں کیسز بھی موجود ہیں اور وہ جیل جانے سے ڈرتے بھی بہت ہیں۔ شہبازشریف عمران کے خلاف تو کجا اپنے بھائی نوازشریف کے حق میں ریلی نہیں نکال سکتے، اپنے شہر لاہور کے گھر سے نکلیں تو ائرپورٹ نہیں جاسکتے، ان سے کوئی امید رکھنا عبث ہے۔ انھوں نے اپنے عمل سے ثابت کیا ہے کہ وہ سب کچھ ہوسکتے ہیں مگر کسی پارٹی کے سربراہ نہیں۔ ڈرپوک شخص کبھی لیڈر نہیں بن سکتا۔‘‘ (روزنامہ جنگ۔ 29 جولائی 2018ء)
نوازشریف کی صحافتی فوج کے مجاہدوں کے کالم پڑھے جائیں تو شریفوں اور نواز لیگ سے متعلق ہر خوش فہمی ختم ہوجاتی ہے اور معلوم ہوجاتا ہے کہ نوازشریف کے استقبال کے لیے شہبازشریف کا ہوائی اڈے نہ پہنچنا حریفوں کا پروپیگنڈا نہیں تھا بلکہ شہبازشریف اور نواز لیگ کے دیگر رہنما ایک منصوبے کے تحت ہوائی اڈے سے دور رہے۔ مذکورہ کالم پڑھ کر یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ نوازشریف اور شہبازشریف کا بیانیہ کبھی ایک نہیں ہوا۔ یہاں سوال یہ ہے کہ میاں شہبازشریف اگر ڈرپوک ہیں تو ’’بہادر‘‘ میاں نوازشریف انھیں معزول کرکے نوازلیگ کے کسی ’’دلاور‘‘ رہنما کو پارٹی کی صدارت کیوں نہیں سونپ دیتے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ دراصل نواز لیگ میں ایسا کوئی رہنما موجود ہی نہیں۔ خود میاں نوازشریف کی بہادری کا یہ عالم ہے کہ وہ سعودی عرب کے ذریعے جنرل پرویز سے معاہدہ کرکے ملک سے فرار ہوچکے ہیں۔ وہ عدلیہ کی بحالی کی تحریک میں شامل ہوئے تو اس لیے کہ جنرل پرویز اسٹیبلشمنٹ پر بوجھ بن چکے تھے اور جنرل کیانی جنرل پرویز کو ہٹانے کے لیے جسٹس افتخار چودھری اور وکلا کی تحریک کی پشت پناہی کررہے تھے۔ اب تازہ ترین اطلاعات یہ ہیں کہ میاں شہبازشریف رات کے اندھیروں میں جاکر اسٹیبلشمنٹ کے اعلیٰ اہلکاروں سے مل رہے ہیں اور اُن کے پائوں پکڑ رہے ہیں۔ دوسری طرف بعض قوتیں میاں نوازشریف کو ایک بار پھر ملک سے باہر بھیجنے کے لیے متحرک ہوچکی ہیں۔ کیا ان کا تحرک کامیاب ہوگا؟ اس کا فیصلہ تو وقت ہی کرے گا، مگر تاریخ نے میاں نوازشریف کے ’’مجھے کیوں نکالا؟‘‘ کا جواب دے ڈالا ہے، مگر اس جواب کو نکات وار بیان کرنے کی ضرورت ہے۔
(1) تاریخ کہہ رہی ہے کہ میاں صاحب آپ کو اس لیے نکالا گیا ہے کہ آپ بدعنوان ہیں، اور آپ اپنی اور اپنے اہلِ خانہ کی بدعنوانی کے حوالے سے عائد کیے گئے الزام کا جواب دینے میں بری طرح ناکام ہوگئے۔ یہاں تک کہ آپ اور آپ کے بچے خود اپنی بدعنوانی کے گواہ بن کر کھڑے ہوگئے۔
(2) تاریخ کہہ رہی ہے کہ میاں صاحب کو اس لیے نکالا کہ میاں صاحب کا مذہب اور ملک دشمن ہونا ثابت ہوچکا ہے۔
(3) تاریخ کہہ رہی ہے کہ میاں صاحب کو اس لیے نکالا گیا کہ میاں صاحب حق پر ہونے کا پروپیگنڈا تو کرتے ہیں مگر ان کے حق پر کھڑے ہونے کی بات ثابت تو کیا، ظاہر تک نہیں ہو پاتی۔
(4) تاریخ کہہ رہی ہے کہ میاں صاحب کو اس لیے نکالا کہ میاں صاحب، ان کے بھائی، ان کے خاندان اور ان کی جماعت کی قوتِ مزاحمت صفر سے بھی کم ہے۔ میاں صاحب اور ان کا خاندان کہتا ہے کہ میاں صاحب کو اقتدار سے غلط نکالا گیا۔ میاں صاحب کا دعویٰ ہے کہ انھیں جھوٹے مقدمے میں سزا دی گئی۔ میاں صاحب کا اصرار ہے کہ فوج اور عدلیہ ان کے خلاف سازش کررہی ہیں۔ میاں صاحب چیخ رہے ہیں کہ ان سے الیکشن چھین لیا گیا ہے۔ اعداد و شمار بتا رہے ہیں کہ میاں صاحب کی جماعت کو 2018ء کے انتخابات میں ایک کروڑ 28 لاکھ ووٹ ملے ہیں۔ اتنی بڑی جماعت ہونے کے باوجود ایک لاکھ لوگ بھی میاں صاحب کے استقبال کے لیے نہ آئے۔ اتنی بڑی پارٹی ہونے کے باوجود سو، دو سو لوگ بھی میاں صاحب اور ان کی دخترِ نیک اختر کے لیے اپنا خون بہانے پر آمادہ نہ ہوئے۔ اتنی بڑی جماعت دھاندلی کا الزام لگانے کے باوجود پانچ لاکھ کا ایک بڑا احتجاجی مظاہرہ منظم نہ کرسکی۔ ایک کروڑ 28 لاکھ ووٹ لینے والی جماعت انتخابات میں بدترین دھاندلی کا الزام لگانے کے باوجود یہ تک نہ کرسکی کہ وہ منتخب ایوانوں میں حلف اٹھانے نہ جائے اور نئے انتخابات کے لیے ملک گیر جدوجہد شروع کردے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو نوازشریف، ان کے خاندان اور نواز لیگ کا خارجی وجود ایک ڈائناسور کی طرح ہے، مگر اس ڈائناسور میں قوتِ (مزاحمت) ایک چوہے جیسی ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ میاں نوازشریف، ان کے خاندان اور ان کی جماعت کی کمزوری ہی اسٹیبلشمنٹ کی طاقت ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ میاں صاحب خود اپنی حالتِ زار کے ذمے دار ہیں۔ اس تناظر میں تاریخ کہہ رہی ہے کہ میاں صاحب کو اس لیے نکالا گیا کہ وہ نکالے جانے ہی کے لائق ہیں۔
(5) تاریخ یہ بھی کہہ رہی ہے کہ میاں صاحب کو اس لیے بھی، بلکہ اس لیے ہی نکالا گیا کہ وہ مذہب دشمن ہیں۔ خدا کی سنت یہ نہیں کہ وہ کسی کو سزا دینے کے لیے خود زمین پر آجائے۔ جب کوئی اُس کے دین اور اُس کے نبیؐ کی حرمت پر حملہ کرتا ہے تو خدا زمینی قوتوں ہی کو ایسے شخص یا گروہ کے پیچھے لگا دیتا ہے۔ بظاہر ان قوتوں کے تعاقب کے ’’ظاہری اسباب‘‘ کچھ اور ہوتے ہیں مگر اصل اسباب یہی ہوتے ہیں۔ ہم ملک کے معروف صحافی انصار عباسی کو معقول شخص سمجھتے تھے، مگر انھوں نے اپنے ایک تبصرے میں میاں نوازشریف اور ان کی جماعت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ انتخابات کے نتائج سے مایوس ہوکر عمران خان کے خلاف وہ کچھ نہ کریں جو عمران ان کے خلاف کرتے رہے ہیں، یعنی دھرنا اور پُرتشدد احتجاج وغیرہ۔ انصار عباسی کے اس تبصرے پر گھنٹوں قہقہے مارکر ہنسا جا سکتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ میاں صاحب یا اُن کی جماعت اگر عمران کے خلاف کچھ کر نہیں رہی تو اس کی وجہ ’’اخلاقی‘‘ نہیں، بلکہ یہ ہے کہ میاں صاحب اور اُن کی جماعت عمران اور اُن کی پارٹی کے خلاف کچھ کر ہی نہیں سکتی۔ میاں صاحب اور اُن کی جماعت کا بس چلتا تو دونوں مل کر عمران اور اُن کی جماعت کو کچا چبا جاتے، اُس وقت بھی جب وہ اسلام آباد میں دھرنا دے رہے تھے۔ مگر میاں صاحب کو معلوم تھا کہ عمران کی پشت پر ’’کوئی‘‘ ہے۔ یہ ’’کوئی‘‘ اِس وقت بھی عمران کی پشت پر موجود ہے۔ ٹیپو سلطانؒ نے کہا تھا ’’شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سال کی زندگی سے بہتر ہے‘‘۔ میاں صاحب اور اُن کی جماعت کا موٹو یہ ہے کہ گیڈر کی سو سالہ زندگی شیر کی ایک دن کی زندگی سے بہتر ہے۔ اس لیے کہ سو سال بہرحال ایک دن سے زیادہ ہوتے ہیں۔ 1492ء میں مسلم اسپین سے مسلمانوں کا اقتدار ختم ہوا تو مسلم اسپین کا آخری حکمران ابو عبداللہ محمد فرار ہوتے ہوئے رونے لگا۔ اس کی والدہ نے یہ دیکھا تو کہا ’’تم جس سلطنت کا دفاع مردوں کی طرح نہ کرسکے اس پر عورتوں کی طرح آنسو کیوں بہاتے ہو؟‘‘ ابو عبداللہ بھی کسی سے یہی کہہ رہا تھا ’’مجھے کیوں نکالا؟‘‘