عمران خان اور ان کی جماعت نے 2018ء کے انتخابات میں بڑی کامیابی حاصل کرکے دکھا دی ہے۔ عمران خان مرکز میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں آگئے ہیں۔ پنجاب میں پی ٹی آئی اکثریتی جماعت بن کر اُبھر سکتی ہے۔ چنانچہ یہ ممکن نہیں کہ عمران خان وزیراعظم ہوں اور پنجاب میں نواز لیگ کی حکومت ہو۔ پی ٹی آئی نے کے پی کے میں اقتدار Retain کرکے دکھایا ہے جو اس اعتبار سے اہم بات ہے کہ خیبر پختون خوا کے لوگوں نے گزشتہ تین انتخابات میں اقتدار مختلف جماعتوں کو سونپا تھا۔ پی ٹی آئی نے کراچی میں قومی اسمبلی کی 12 نشستیں حاصل کی ہیں اور صوبائی اسمبلی میں اس نے اتنی نشستیں حاصل کرلی ہیں کہ اب سندھ اسمبلی میں حزب اختلاف کی جماعت ایم کیو ایم نہیں، پی ٹی آئی ہوگی۔ یہ تفصیلات ’’حیرت انگیز‘‘ ہیں اور حزبِ اختلاف کی کم و بیش تمام اہم جماعتوں نے 2018ء کے انتخابی نتائج کو مسترد کردیا ہے۔ تو کیا واقعتا عمران خان اور ان کی جماعت کی سیاسی کامیابیاں حیرت انگیز ہیں؟
سرسید کا ایک فقرہ مشہورِ زمانہ ہے۔ سرسید نے ایک بار مسلمانوں کی ’’ترقی‘‘ کا فارمولا بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ہمارے دائیں ہاتھ میں قرآن ہوگا، بائیں ہاتھ میں سائنس، اور سر پر لا الٰہ کا تاج۔ خوش قسمتی یا بدقسمتی سے خود سرسید نے اس فارمولے پر عمل کیا، نہ ہی ان کے مشورے پر مسلمان ایسا کرسکے۔ مگر عمران خان کی سیاسی کامیابی کی پشت پر بہرحال ایک چار نکاتی فارمولا ہے۔ عمران خان کے دائیں ہاتھ میں Electables ہیں، بائیں ہاتھ میں سرمایہ، اور سر پر اسٹیبلشمنٹ کی ٹوپی۔ ان کے گلے میں پڑی ہوئی مالا کو غور سے دیکھنا چاہیے، اس مالا کے ہر موتی پر لکھا ہوا ہے ’’تبدیلی کا تاثر‘‘۔ ان نکات کو سمجھ لیا جائے تو عمران خان کی ’’سیاسی کامیابی‘‘ پوری طرح قابلِ فہم ہوجاتی ہے۔
پاکستان کی قومی زندگی کا ایک المناک پہلو یہ ہے کہ جس طرح ہمارے جرنیلوں اور اُن کی پالیسیوں پر میڈ اِن امریکہ لکھا ہوا نظر آتا ہے، اسی طرح ہمارے اہم سیاست دانوں کی بڑی تعداد پر میڈ اِن اسٹیبلشمنٹ لکھا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ بھٹو صاحب بڑے رہنما تھے، اُن کی شخصیت اور اُن کی ابتدائی سیاست کی پشت پر اسٹیبلشمنٹ موجود تھی۔ یہاں تک کہ وہ ایک زمانے میں جنرل ایوب کو ’’ڈیڈی‘‘ کہا کرتے تھے۔ میاں نوازشریف اور اُن کا پورا خاندان اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار ہے۔ الطاف حسین اور اُن کی سیاست بھی جرنیلوں کی ’’ایجاد‘‘ تھی۔ عمران خان کی قوت یہ تھی کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی مہر کے بغیر بھی ایک مشہور اور عوامی شخصیت تھے۔ وہ چاہتے تو سیاست میں بھی اپنی دنیا آپ پیدا کرسکتے تھے۔ جو رہنما اسٹیبلشمنٹ کی کسی خاص مدد کے بغیر 70 لاکھ ووٹ حاصل کرسکتا تھا، وہ اسٹیبلشمنٹ کی مدد کے بغیر ڈیڑھ دو کروڑ ووٹ بھی حاصل کرسکتا تھا۔ مگر وہ پاکستانی سیاست دان اور پاکستانی سیاسی جماعت ہی کیا، جو اسٹیبلشمنٹ کی اوڑھنی اوڑھ کر ’’دلہن وہی جو پیا من بھائے‘‘ کا منظر تخلیق نہ کرے۔ چناں چہ عمران خان نے بھی یہی کیا ہے۔ عمران خان اکثر علامہ اقبال اور ان کے خیالات کا ذکر کرتے رہتے ہیں۔ عمران خان ہی نہیں پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں اور سیاسی رہنمائوں، بلکہ پوری قوم اور امت کے لیے اقبال کا مشورہ ہے ؎
اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے
سرِّ آدم ہے ضمیر کن فکاں ہے زندگی
عمران خان ’’تبدیلی‘‘ اور ’’نئے پاکستان‘‘ کے نعرے کے ساتھ سیاست میں آئے تھے۔ انہوں نے کرپشن اور احتساب کے سلسلے میں قاضی حسین احمد اور جماعت اسلامی کے نعروں اور جدوجہد کو اُچک لیا، یا اُن کو کسی نے مشورہ ہی یہ دیا کہ پاکستان میں سیاسی کامیابی کی منزل اب ان ہی راستوں سے گزر کر میسر آئے گی۔ بلاشبہ ان میدانوں میں عمران خان نے بڑی جدوجہد کی ہے۔ لیکن 2018ء کے انتخابات سے ذرا قبل انہیں بتایا گیا یا انہیں محسوس ہوا کہ اگر وہ نظریاتی یا اصولی سیاست کرتے رہے تو ماضی کی طرح اقتدار کی دیوی ان پر مہربان نہیں ہوگی۔ چنانچہ وہ چند دنوں ہی میں اس شعر کی عملی تفسیر بن گئے ؎
اپنی آنکھوں کو ہی بدل ڈالا
جب میں دنیا نہ کر سکا تبدیل
اس کا ثبوت ڈان کراچی میں شائع ہونے والا ان کا انٹرویو ہے۔ ڈان کراچی کے صفحہ اول پر شائع ہونے والے عمران خان کے انٹرویو کی سرخی یہ تھی:
“You Can’t win without electables and money”
(ڈان، 6 جولائی 2018ء)
اس انٹرویو میں عمران خان نے جو دوسری اہم باتیں کہیں وہ یہ تھیں:
’’آپ فتح کے لیے انتخاب لڑتے ہیں، آپ ’’اچھا لڑکا‘‘ کہلانے کے لیے انتخاب نہیں لڑتے۔ میں یورپ میں نہیں پاکستان میں الیکشن لڑ رہا ہوں۔ میں پاکستان میں یورپی سیاست دان درآمد نہیں کرسکتا‘‘۔
(ڈان کراچی۔ 6 جولائی 2018ء)
یہ باتیں کہہ کر عمران نے اپنی 20 سال کی جدوجہد پر خطِ تنسیخ پھیر دیا۔ وہ سیاست میں بدعنوانی کے خلاف ہیں، اور یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ پاکستان کے 99 فیصد سیاسی Electables کرپٹ ہوتے ہیں۔ اسی طرح پاکستان میں جن کے پاس ’’بڑا سرمایہ‘‘ ہے اُن کی اکثریت بدعنوانی کے بغیر بڑا سرمایہ جمع نہیں کرسکتی تھی۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو Electables اور سرمائے کی سیاست اپنی اصل میں ’’کرپشن کی سیاست‘‘ ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو مالی کرپشن سے پاک عمران خان صاف ستھری سیاست سے کرپشن کی سیاست کی طرف آئے ہیں، صرف سیاسی کامیابی کے لیے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے آپ چوری اور ڈاکے کے سرمائے سے شاندار مسجد بنوائیں اور کہیں: شاندار مسجد چوری اور ڈاکے کے سرمائے کے بغیر تعمیر ہی نہیں ہوسکتی۔ انسان کی جدوجہد میں مقصد ہی اہم نہیں ہوتا بلکہ مقصد کے حصول کے ’’ذرائع‘‘ بھی اہم ہوتے ہیں۔ مگر عمران خان کو اس سے کیا لینا دینا! اخلاقیات اُن کا کیا، بڑے بڑوں کا مسئلہ نہیں۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ملک کی سیاست کو کرپشن سے پاک دیکھنا چاہتی ہے مگر وہ مدت سے کرپٹ سیاست دان پیدا بھی کررہی ہے اور سیاست دانوں کو کرپٹ بنا بھی رہی ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو نوازشریف، الطاف حسین، عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کا تعلق یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور نوازشریف ہی نہیں، اسٹیبلشمنٹ اور الطاف حسین، اور اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان بھی ایک دوسرے کا آئینہ ہیں۔ یعنی اسٹیبلشمنٹ نوازشریف، اور نوازشریف اسٹیبلشمنٹ کو ظاہر یا Reflect کرتے ہیں۔ یہی قصہ اسٹیبلشمنٹ اور الطاف حسین، اور اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کا بھی ہے۔
یہ ایک سامنے کی بات ہے کہ Electables مال کمانے اور طاقت حاصل کرنے کے لیے سیاست میں آتے ہیں۔ عمران خان کے Electables کوئی آسمانی مخلوق نہیں۔ چنانچہ سوال یہ ہے کہ جب Electables مال بنانے اور زیادہ طاقت حاصل کرنے کی کوشش کریں گے تو کیا ہوگا؟ عمران اُن کے آگے ہتھیار ڈالیں گے تو وہ کرپشن کے کلچر کو فروغ دیں گے۔ عمران اُن کی راہ روکیں گے تو ان کے اقتدار کو خطرہ لاحق ہوگا اور ملک سیاسی عدم استحکام سے دوچار ہوگا۔
عمران خان کی اب تک کی سیاست کے بارے میں وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے معاشرے میں تغیر تو کوئی پیدا نہیں کیا مگر ’’تبدیلی کے تاثر‘‘ کو بہرحال عام کیا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ’’حقیقت‘‘ اور ’’تاثر‘‘ میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ حزبِ اختلاف میں رہتے ہوئے تاثر کی سیاست بھی کافی ہوجاتی ہے، مگر اقتدار میں آکر تاثر کو کچھ نہ کچھ حقیقت بنانا پڑتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ عمران نے عوام کی توقعات کو بہت بڑھا دیا ہے مگر اُن کے پاس توقعات کو پورا کرنے کے لیے نہ انسانی وسائل ہیں، نہ مالی وسائل۔ ملک کے معاشی حالات خراب ہیں اور ان کے مزید خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔ ہماری برآمدات میں گزشتہ چند ماہ کے دوران کچھ اضافہ ہوا ہے مگر ہم بہرحال اپنا برآمدی ہدف حاصل نہیں کرسکے ہیں۔ ملک پر قرضوں کا بوجھ بڑھ گیا ہے اور قرضوں کی واپسی مشکل سے مشکل ہوتی جارہی ہے۔ عمران خان آج اقتدار میں ہیں تو اس لیے کہ وہ احتساب کی بات کرتے ہیں، اور ان کی سیاسی کامیابی میں شریفوں کے احتساب کا اہم کردار ہے۔ عمران نے اپنی ’’Victory Speech‘‘ میں کہا ہے کہ وہ احتساب خود سے شروع کریں گے اور اپنے سیاسی حریفوں کو انتقام کا نشانہ نہیں بنائیں گے۔ دیکھنا یہ ہے کہ عمران اتنے سارے چیلنجوں سے کیسے نمٹیں گے۔ وہ احتساب کی راہ ہموار کریں گے تو بہرحال اسے انتقام قرار دیا جائے گا، اور وہ احتساب سے گریز کریں گے تو وہ 20 سالہ بیانیے سے انحراف کریں گے۔ ان دونوں صورتوں کے اپنے امکانات اور مضمرات ہیں۔ ملک کی اکثر سیاسی جماعتوں نے 2018ء کے انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دیا ہے مگر عمران نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ کسی بھی حلقے کو کھلوا کر تحقیقات کرانے کے لیے تیار ہوں گے۔ دیکھنا ہے کہ وہ اپنے اس وعدے پر عمل کرتے ہیں یا نہیں؟
عمران کبھی معاشرے کو بدلنے اور اس کی تشکیلِ نو کا عزم رکھتے تھے، مگر اس کام کے لیے جو روحانی، اخلاقی اور علمی اہلیت درکار ہے وہ عمران اور اُن کی ٹیم کو چھو کر نہیں گزری۔ اب عمران سے صرف ’’بہتر سیاست‘‘ کی توقع کی جارہی ہے۔ دیکھا ہے کہ وہ اس توقع پر پورے اترتے ہیں یا نہیں۔ اس سلسلے میں ان کی اہلیت آٹھ دس ماہ میں ظاہر ہوجائے گی۔ تبدیلی کی بات سبھی کرتے ہیں مگر لفظ تبدیلی کے مفہوم کو سمجھنے والے نایاب ہیں۔ تبدیلی کا اصول یہ ہے کہ اگر آپ ماحول کو نہیں بدلیں گے تو ماحول آپ کو بدل دے گا۔ مگر اس بات پر ایک اور تناظر میں پھر کبھی گفتگو ہوگی۔