ارد و کا محاورہ ہے ’’بد اچھا، بدنام برا‘‘۔ پاکستان میں اس کی دو بہت ہی بڑی مثالیں ہیں۔ آصف علی زرداری سلطنتِ بدعنوانی کے بادشاہ ہیں مگر وہ اس حوالے سے بدنام بھی بہت ہیں۔ شریف خاندان بدعنوانی میں آصف علی زرداری کا چچا ہے لیکن بدنام نہیں ہے۔ مگر اللہ کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔ چنانچہ شریف خاندان کی بدعنوانیاں اور لوٹ مار بالآخر طشت ازبام ہوکر رہیں۔ اس صورتِ حال نے شریف خاندان کو آصف علی زرداری کے برابر لا کھڑا کیا ہے۔ یعنی اب شریف خاندان کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ ’’وہ بد ہے تو بدنام بھی ہے‘‘۔
شریف خاندان کی بدنامی کا آغاز پاناما اسکینڈل کے حوالے سے ہوا۔ اس اسکینڈل کی خاص بات یہ تھی کہ یہ اسکینڈل پاکستان کی کسی جماعت، کسی میڈیا گروپ، یا اسٹیبلشمنٹ کی ایجاد نہیںتھا، بلکہ یہ اسکینڈل ایک بلائے ناگہانی کی طرح شریف خاندان پر نازل ہوا۔ اتفاق سے شریف خاندان کو اندازہ ہی نہ ہوسکا کہ یہ اسکینڈل انہیں کہاں لے جانے والا ہے۔ چنانچہ شریف خاندان کے اراکین خود اپنے خلاف سب سے بڑے گواہ بن کر کھڑے ہوگئے۔ لندن میں شریف خاندان کے ایون فیلڈ میں موجود فلیٹوں کی مالیت ڈیڑھ ارب روپے سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔ یہ قصہ سامنے آیا تو میاں نوازشریف کے فرزند حسن نواز نے بی بی سی ورلڈ کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم ان فلیٹس میں کرائے پر مقیم ہیں۔ میاں صاحب کے دوسرے فرزند حسین نواز نے فرمایا: یہ فلیٹس ہمارے ہیں۔ میاں صاحب کی دخترِ نیک اختر مریم نواز نے ثنا بُچہ کے پروگرام میں اعلان کیا کہ میری بیرونِ ملک کیا ملک کے اندر بھی کوئی جائداد نہیں ہے۔ مگر بالآخر معلوم ہوا کہ وہ ایون فیلڈ کی جائداد کی Beneficial Owner ہیں۔ میاں نوازشریف پر اس حوالے سے دبائو بڑھا تو انہوں نے پارلیمنٹ کو بتایا کہ ایون فیلڈ میں موجود فلیٹس کن ذرائع سے خریدے گئے۔ مگر وہ ڈیڑھ سال سے زیادہ عرصے میں اس حوالے سے Money Trail مہیا کرنے میں ناکام رہے۔ میاں صاحب کے بارے میں ہم کئی بار لکھ چکے ہیں کہ وہ اپنی ’’ذہانت‘‘ کی وجہ سے اپنے پائوں پر کلہاڑی نہیں مارتے، بلکہ کلہاڑی پر پائوں مارتے ہیں۔ مگر معلوم ہوا کہ یہ ’’خوبی‘‘ صرف انہی کی ذات تک محدود نہیں، اُن کے بچے بھی اسی ’’خوبی‘‘ کے حامل ہیں۔ ایسا نہ ہوتا تو شریف خاندان اپنی تمام تر بدی کے باوجود آصف زرداری کی طرح بدنام نہ ہوتا۔ ظاہر ہے کہ اس تناظر میں نیب عدالت کا کام آسان ہوگیا اور اس نے ایون فیلڈ کیس میں میاں صاحب کو دس سال، مریم نواز کو 7 سال اور اُن کے شوہر کیپٹن(ر) صفدر کو ایک سال کی سزا سنا دی۔ میاں صاحب کے دونوں بیٹوں کے ریڈ وارنٹ جاری کردیے گئے ہیں اور ایون فیلڈ میں موجود اربوں روپے کے فلیٹس کو ضبط کرنے کا حکم دے دیا گیا ہے۔
اردو کا محاورہ ہے ’’رسّی جل گئی مگر بَل نہیں گئے‘‘۔ شریف خاندان کا اس محاورے سے یہ تعلق ہے کہ اس کی بدعنوانیاں سامنے آگئی ہیں مگر شریف خاندان کا ’’زعمِ ایمان داری‘‘ اپنی جگہ موجود ہے۔ میاں صاحب نااہل قرار پائے تھے تو انہوں نے نعرہ لگایا تھا ’’مجھے کیوں نکالا؟‘‘ اب انہیں اربوں روپے کی بدعنوانی میں سزا ہوئی ہے تو انہوں نے فرمایا کہ استغاثہ کرپشن ثابت نہیں کرسکا، یہ بات نیب عدالت نے خود اپنے فیصلے میں لکھی ہے۔ یہ ایمان دار آدمی کی بہت ہی بری اداکاری ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بدعنوانی صرف رشوت لینے، دینے اور کک بیکس وصول کرنے کا نام نہیں، انسان کے پاس اُس کی آمدنی سے زیادہ وسائل ہوں اور انسان اُن کے بارے میں یہ نہ بتا پارہا ہو کہ یہ سرمایہ کہاں سے آیا تو یہ بھی کرپشن ہی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ کرپشن شریف خاندان کے اراکین کے متضاد بیانات سے ثابت ہوئی ہے۔ انسان مالِ حرام نہ کھا رہا ہو تو ایک ہی خاندان کے افراد چار مختلف مقامات پر چار مختلف بیانات نہیں داغتے۔ وہ چاروں جگہوں پر ایک ہی بات کہتے ہیں۔ جھوٹ وہیں ظاہر ہوتا ہے جہاں بدعنوانی ہو، جہاں حرام کھایا گیا ہو، جہاں ایمان فروخت کیا گیا ہو، جہاں ضمیر بیچا گیا ہو، جہاں اصولوں پر سمجھوتا کیا گیا ہو، جہاں حقائق پر پردہ ڈالا گیا ہو۔ اتفاق سے شریف خاندان ان تمام ’’کارستانیوں‘‘ کا سرچشمہ بن کر ابھرا ہے۔ اصولی اعتبار سے شریف خاندان اور اُس کے سیاسی و صحافتی وکیلوں کو کہیں جاکر شرم سے ڈوب مرنا چاہیے، مگر اس کے لیے خواجہ آصف کے الفاظ میں تھوڑی سی شرم چاہیے، تھوڑی سی حیا چاہیے۔ مگر بدقسمتی سے پاکستان کے حکمران طبقے بالخصوص شریف خاندان میں شرم و حیا نام کی کوئی چیز موجود نہیں۔ اس کے برعکس اُس کی خودپسندی کا یہ عالم ہے کہ مریم نواز اپنی ایک تقریر میں میاں نوازشریف کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مماثل قرار دے چکی ہیں، خود کو حضرت فاطمہؓ سے تشبیہ دے چکی ہیں، اور اپنے حریفوں کو مکہ کے کفار اور مشرکین کے جیسا قرار دے چکی ہیں۔ مریم نواز کی یہ تقریر یوٹیوب پر موجود ہے۔ یہ تقریر ملاحظہ کرنے کے لیے اپنے موبائل پر یہ فقرہ ٹائپ کیجیے
Maryam Nawaz comparing her father with Mohammad (SAW) and her self with Fatima (RA)
شریف خاندان کا خیال ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اس کے تعاقب میں ہے، اور یہ بات درست ہے، مگر شریف خاندان کو کوئی بتائے کہ سب سے بڑی اسٹیبلشمنٹ آسمان پر ہے اور شریف خاندان کے ’’افکار و اعمال‘‘ کو دیکھ کر وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ شریف خاندان پر جو ذلت و مسکنت مسلط ہورہی ہے اور مزید ہونے والی ہے، اُس کا تعلق آسمانی اسٹیبلشمنٹ سے ہے۔ یہ خدا کی سنت نہیں کہ وہ لاٹھی لے کر آسمان سے زمین پر اترے۔ وہ جب کسی سے ناراض ہوتا ہے تو زمینی قوتوں کو مختلف عنوانات سے بدبختوں کے پیچھے لگا دیتا ہے۔ شریف خاندان بدعنوان تو ہمیشہ سے ہے، وہ تین دہائیوں سے جرنیلوں، سیاست دانوں، صحافیوں اور دانش وروں کے ضمیر خرید رہا ہے، مگر اس پر رحم کیا گیا۔ تاہم جب سے میاں نوازشریف نے خدا کے دین اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کھلی تحقیر شروع کی ہے اور ناپاک ترین خیالات نے ان کے دل و دماغ کو اپنی گرفت میں لیا ہے، شریف خاندان اللہ تعالیٰ کی پکڑ میں آنا شروع ہوا ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ پاکستان اللہ کے دین کے نام پر وجود میں آیا؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ میاں نوازشریف پاکستان کے داراشکوہ بن کر ابھرے اور انہوں نے اسلام اور ہندو ازم، اور مسلمانوں اور ہندوئوں کو ہم آہنگ کرنے والے بیانات جاری کیے؟ کیا انہوں نے پاکستان اور ہندوستان کی سرحد کو ’’ایک لکیر‘‘ قرار نہیں دیا؟ حالانکہ یہ لکیر نہیں دو مذاہب، دو تہذیبوں، دو تاریخوں اور دو قوموں کے جداگانہ تشخص کی علامت ہے۔ کیا میاں صاحب نے اللہ اور ہندوئوں کے بھگوان کے ایک ہونے کی بات نہیںکی؟ کیا انہوں نے ختمِ نبوتؐ کے تصور پر حملے کی سازش نہیں کی؟ کیا اُن کی بیٹی نے میاں صاحب کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اور خود کو حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے تشبیہ نہیں دی؟ کیا میاں نوازشریف نے ہولی کھیلنے کا بیان نہیں دیا؟ کیا آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل درانی نے اپنی کتاب میں یہ دعویٰ نہیں کیا کہ شہبازشریف بھارتی پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ راجا امریندر سنگھ کے ساتھ مل کر ’’گریٹر پنجاب‘‘ کے لیے کام کررہے تھے؟ کیا یہ اللہ کے بخشے ہوئے ملک کے خلاف سازش نہیں؟ یہ تمام باتیں خدا کو خوش کرنے والی ہیں یا اس کو ناراض کرنے والی ہیں؟ خدا قادرِ مطلق ہے، وہ کسی کی رسّی دراز کرتا ہے اور کسی کی نہیں کرتا، اور جب وہ رسّی کھینچتا ہے تو شریف خاندان کی تو اوقات ہی کیا ہے، وہ قوموں اور تہذیبوں تک کو مٹا دیتا ہے۔ شریف خاندان اور اس کے پرستار ڈریں کہ کہیں انہیں صفحۂ ہستی سے ہی نہ مٹا دیا جائے، یا انہیں اس حال کو پہنچا دیا جائے کہ پوری قوم ان پر تھوکنے لگے۔
بلاشبہ اسٹیبلشمنٹ کو میاں صاحب سے مسئلہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میاں صاحب عالمی اسٹیبلشمنٹ کا مہرہ ہیں، اور عالمی اسٹیبلشمنٹ میاں صاحب کے ذریعے مقامی اسٹیبلشمنٹ کی قوت کو توڑنا چاہتی ہے۔ اتفاق سے میاں صاحب کا تعلق پنجاب سے ہے اور وہ پنجاب میں مقبول بھی ہیں۔ چنانچہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے لیے وجودی خطرہ یا Existential threat ہیں۔ اگر اس صورتِ حال کی صرف داخلی جہت ہوتی تو پھر اور بات تھی، مگر اس صورتِ حال کا علاقائی اور عالمی تناظر ہے، چنانچہ معاملات کا فہم رکھنے والا کوئی شخص اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ میاں صاحب کی جنگ میں اُن کے ساتھ نہیں ہے۔ اس مسئلے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ میاں نوازشریف اور اُن کے خاندان نے جو بدعنوانیاں کی ہیں وہ بہرحال اسٹیبشلمنٹ کی ’’ہدایت‘‘ پر نہیں کی گئیں۔ یہ شریف خاندان کا اپنا کارنامہ ہے۔ اسٹیبلشمنٹ صرف میاں صاحب کی بدعنوانیوں پر ’’کام‘‘ کررہی ہے۔ شریف خاندان نے لوٹ مار نہ کی ہوتی تو اسٹیبلشمنٹ اس حوالے سے چاہ کر بھی اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکتی تھی۔ چنانچہ میاں صاحب اپنے گناہوں کا بوجھ اسٹیبلشمنٹ پر نہیں ڈال سکتے۔ میاں صاحب کو شکایت ہے کہ ’’خلائی مخلوق‘‘ سیاست کو کنٹرول کررہی ہے، مگر خلائی مخلوق نے کب سیاست کو کنٹرول نہیں کیا؟ خلائی مخلوق سیاست کو کنٹرول نہ کرتی تو نہ میاں صاحب کی ’’سیاسی پیدائش‘‘ ممکن ہوتی، نہ وہ ’’رہنما‘‘ بنتے، نہ پنجاب کی وزارتِ عُلیا ان کے تصرف میں آتی، نہ بالآخر وہ وزیراعظم بنتے۔ اب اگر خلائی مخلوق عمران خان کو طاقت ور بنا رہی ہے تو میاں صاحب عمران پر اعتراض کررہے ہیں، مگر ایسا کرکے میاں صاحب خود ہی کو گالی دے رہے ہیں، اس لیے کہ آج جو کچھ عمران خان کررہے ہیں 30 سال تک میاں صاحب بھی وہی کچھ کرتے رہے ہیں۔ عمران خان میاں صاحب کی طرح 30 سال تک اسٹیبلشمنٹ کے جوتے چاٹ چکیں تو میاں صاحب یہ کہتے ہوئے اچھے لگیں کہ عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے آدمی ہیں، اس لیے کہ عمران خان میاں صاحب کی ’’مدتِ ملازمت‘‘ کو پھلانگ چکے ہوں گے۔ اس مدت سے قبل میاں صاحب کے پاس عمران خان پر اعتراض کا کوئی ’’اخلاقی جواز‘‘ نہیں۔ میاں صاحب کی تاریخ یہ ہے کہ وہ جنرل کیانی کی مدد کے بغیر 2013ء کے انتخابات میں ’’بھاری مینڈیٹ‘‘ حاصل نہیں کرسکے تھے۔ میاں صاحب وکلا تحریک کا حصہ تھے اور وکلا تحریک کی پشت پر بھی اسٹیبلشمنٹ بالخصوص جنرل کیانی اینڈ کمپنی تھی۔ اس کا سبب یہ تھا کہ جنرل پرویز ’’نامعلوم وجوہ‘‘ کے باعث اسٹیبلشمنٹ پر بوجھ بن چکے تھے اور اسٹیبلشمنٹ اُن سے اسی طرح جان چھڑا رہی تھی جس طرح اس نے کبھی جنرل ایوب اور جنرل ضیا الحق سے جان چھڑائی تھی۔ جسٹس افتخار محمد چودھری کی پشت پر بھی اسٹیبلشمنٹ کے عناصر نہ ہوتے تو وہ جنرل پرویز کے اشاروں پر رقاصہ کی طرح ناچتے اور ان کے شکر گزار بھی ہوتے۔ یہ حقیقت ہم نے اُسی وقت جان لی تھی اور الحمدللہ ہم نے دوستوں کے ’’بے حد اصرار‘‘ کے باوجود نام نہاد وکلا تحریک کی حمایت میں ایک لفظ بھی لکھ کر نہ دیا۔ خیر یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ بھٹو کو پھانسی دے تو بہترین، بے نظیر بھٹو کو اقتدار سے نکالے تو شاندار… مگر میاں نوازشریف کے خلاف صف آرا ہو تو ’’ظالم‘‘، وہ میاں صاحب کی راہ روکے تو ’’جمہوریت دشمن‘‘، میاں صاحب پر معترض ہو تو ’’خلائی مخلوق‘‘۔ عدالتیں میاں صاحب کے حق میں فیصلہ دیں تو عدالتیں انصاف کا مرکز، میاں صاحب کے خلاف ’’میرٹ‘‘ پر فیصلہ کریں تو ’’جانب دار‘‘ اور کسی کی ’’آلۂ کار‘‘۔ کوئی شریف خاندان کو بتائے کہ یہ شریفوں کی نہیں ’’بدمعاشوں‘‘ کی نفسیات ہے۔ بلاشبہ بدمعاش معاشرے کے لیے بڑے خطرناک ہوتے ہیں، لیکن ’’شریف بدمعاش‘‘ معاشرے کے لیے تباہ کن ہوتے ہیں، اس لیے کہ شریفوں کی بدمعاشی کو سمجھنے کے لیے علم، فہم اور اخلاقی اہلیت درکار ہوتی ہے۔ بھیڑیے بھیڑوں کی کھال اوڑھ کر آجائیں تو اچھے اچھے دھوکا کھا جاتے ہیں۔
میاں نوازشریف کی مشکل یہ ہے کہ وہ مینڈکوں کی فوج کے ساتھ ہاتھ میں غلیل لے کر ہاتھیوں کا شکار کھیلنے نکلتے ہیں۔ ان کا خواب ہے کہ وہ شہید کہلائیں مگر اس کے لیے انہیں مرنا نہ پڑے بلکہ انگلی بھی نہ کٹوانی پڑے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ میاں صاحب کمزور ہیں۔ بھٹو صاحب بہت طاقتور اور مقبول تھے مگر وہ فوج کا ڈسپلن نہیں توڑ سکتے تھے۔ ہماری فوج کا ڈسپلن ایسا ہے کہ ملک ٹوٹ جاتا ہے مگر فوج کا ڈسپلن نہیں ٹوٹتا۔ مگر میاں صاحب کی ’’اہلیت‘‘ یہ ہے کہ جنرل پرویز کے ساتھ محاذ آرائی میں وہ ایک عدد جنرل ضیا الدین بٹ پیدا کرنے میں کامیاب رہے۔ بلاشبہ جنرل ضیا الدین بٹ میاں صاحب کے کچھ کام نہ آئے، مگر ان کی ’’بغاوت‘‘ حیرت انگیز تھی۔ میاں صاحب ماضی میں سپریم کورٹ کے ججوں کو بھی ’’توڑ‘‘ چکے ہیں۔ میڈیا ٹائی کون، کالم نگار اور عام صحافی تو گویا میاں صاحب کا واش روم دھوتے ہیں۔ چنانچہ جب تک پورا شریف خاندان عبرت کا نشان نہ بن جائے اس کے حوالے سے سبھی کو محتاط رہنا چاہیے۔ اِس بار تو امریکہ، یورپ اور بھارت بھی میاں صاحب کی پشت پر کھڑے ہیں۔ میاں صاحب رجب طیب اردوان کو حسرت سے دیکھتے ہیں۔ اردوان کے خلاف بغاوت ہوئی تو اردوان کے اشارے پر لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے۔ میاں صاحب اس منظر کو پاکستان میں بھی رونما ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں، مگر جیسا کہ عرض کیا گیا مینڈکوں کی فوج کے ساتھ اور غلیل کے ذریعے ہاتھیوں کا شکار نہیں کھیلا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ جنرل پرویز نے اقتدار پر قبضہ کیا تو پورے پاکستان میں سناٹے کا راج تھا۔ پندرہ دن بعد مشاہد اللہ نے کراچی کے ریگل چوک پر پندرہ لوگوں کے ساتھ ’’مظاہرہ‘‘ کیا۔ اس کے سوا کہیں بھی کچھ نہ ہوسکا۔ میاں صاحب کو ایون فیلڈ کیس میں سزا ہوئی تو تاریخ نے خود کو دہرایا۔ فرق یہ تھا کہ اِس بار پانچ سات شہروں میں نواز لیگ کے لوگوں نے احتجاج کیا، مگر کہیں بھی احتجاج کرنے والوںکی تعداد پندرہ بیس سے زیادہ نہ تھی۔ اصل میں رہنما تین طرح کے ہوتے ہیں: مشہور رہنما، مقبول رہنما اور محبوب رہنما۔ مشہور رہنمائوں کو ووٹ مل جاتے ہیں اور نوٹ بھی۔ مقبول رہنمائوں کو ووٹوں اور نوٹوں کے ساتھ ساتھ ’’قدم بڑھائو نوازشریف ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘ جیسے نعرے بھی میسر آ جاتے ہیں، مگر ان رہنمائوں کے لیے نہ کوئی ڈنڈے کھاتا ہے، نہ خوشی سے جیل جاتا ہے اور نہ کوئی ان کے لیے جان دیتا ہے۔ البتہ رہنما محبوب ہو تو لوگ اسے ووٹ بھی دیتے ہیں، نوٹ بھی دیتے ہیں، اس کے لیے گھر سے بھی نکلتے ہیں، لاٹھیاں بھی کھاتے ہیں، جیل بھی جاتے ہیں اور اس کے لیے جان بھی دے دیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ محبوب رہنمائوں کا کوئی نہ کوئی نظریہ ہوتا ہے، ان کی کوئی نہ کوئی اخلاقی ساکھ ہوتی ہے۔ بھٹو صاحب کہا کرتے تھے کہ مجھے کچھ ہوا تو پہاڑ روئیں گے اور سندھ میں خون کی ندیاں بہہ جائیں گی۔ مگر بھٹو صاحب کو پھانسی ہوگئی اور کچھ نہ ہوا۔ الطاف حسین کے خلاف آپریشن ہوا تو ہر پانچ منٹ بعد فون کرکے پوچھ رہے تھے کہ شہر میں کیا ہورہا ہے؟ انہیں بتایا گیا کہ کہیں کچھ نہیں ہورہا۔ نائن زیرو پر پانچ، چھے ہزار لوگ موجود تھے مگر وہاں رینجرز آئی تو وہ بھی گھر چلے گئے۔ میاں نوازشریف کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ مشہور بہت ہیں، مقبول بھی کچھ نہ کچھ ہیں، مگر محبوبیت انہیں چھو کر بھی نہیں گزری۔ چنانچہ انھوں نے جنرل پرویز کے مارشل لا کے وقت پلٹ کر دیکھا تو اُن کے پیچھے کوئی نہ تھا۔ اُن کی بازگشت تک نہیں۔ اِس وقت بھی یہی صورتِ حال ہے، چنانچہ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں۔ ایون فیلڈ کیس میں سزا کے وقت وہ اور ان کی دخترِ نیک اختر لندن میں تھے اور میاں صاحب نے پہلے بیان میں صاف کہا تھا کہ وہ اہلیہ کے ہوش میں آنے کے بعد ہی وطن واپس آئیں گے، مگر اب مریم نواز نے اعلان کیا ہے کہ باپ بیٹی 13 جولائی کو لندن سے پاکستان پہنچیں گے۔ اس سے قبل میاں صاحب نے پریس کانفرنس میں جہاں یہ کہا تھا کہ وہ اہلیہ کے ہوش میں آنے کے بعد واپس آئیں گے، وہیں انھوں نے یہ بھی فرمایا تھا کہ میں واپس آئوں گا، عوام نکلیں اور مجھے اکیلا نہ چھوڑیں۔ ان خیالات کا مفہوم عیاں تھا، میاں صاحب کی سزا کوئی ہنگامہ برپا کرنے میں ناکام رہی تھی اور میاں صاحب اپنے خاندان کے ’’اکیلے پن‘‘ کو شدت سے محسوس کررہے تھے اور سوچ رہے تھے کہ گھر واپسی مناسب بھی ہے یا نہیں؟ یا یہ کہ گھر واپسی کے لیے کوئی تاریخ دینی بھی چاہیے یا نہیں؟ مگر اگلے ہی دن ان کی بیٹی نے واپسی کی تاریخ کا اعلان کردیا۔ اس اعلان کے دو معنی ہیں، ایک یہ کہ میاں صاحب کو بتایاگیا کہ آپ نہیں آئیں گے تو صرف آپ کی ہی نہیں پورے خاندان بلکہ نواز لیگ کی بھی ’’سیاسی موت‘‘ واقع ہوجائے گی اور آئندہ الیکشن میں نواز لیگ صفر ہوکر رہ جائے گی۔ میاں صاحب نے گھر واپسی کے سلسلے میں اپنے واضح ’’تذبذب‘‘ پر ’’قابو‘‘ پایا ہے تو اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ ابھی ان کا کھیل ختم نہیں ہوا ہے، اور میاں صاحب جن طاقتوں کی گود میں بیٹھے ہوئے ہیں انہوں نے کسی ’’امکان‘‘ کی تلاش کے حوالے سے میاں صاحب کو فوراً ملک واپس جانے کا مشورہ یا حکم دیا ہے۔ اصل صورتِ حال کیا ہے اس کا اندازہ میاں صاحب کی آمد کے ’’اسٹائل‘‘ اور اس کے بعد چند دنوں کے ’’معاملات‘‘ سے بخوبی ہوجائے گا۔ دیکھنا یہ بھی ہے کہ میاں صاحب کے ’’استقبال‘‘ کے لیے لوگ جمع ہوتے ہیں یا نہیں، اور ہوتے ہیں تو کتنے؟ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اس سلسلے میں کیا رویہ اختیار کرتی ہے۔ الطاف حسین کی سیاست ختم ہوچکی ہے مگر اس کے باوجود برطانیہ نے ابھی تک الطاف حسین کو ترک نہیں کیا ہے۔ بظاہر میاں صاحب کی سیاست خاتمے کی طرف گامزن ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ عالمی اسٹیبلشمنٹ اور خود مقامی اسٹیبلشمنٹ میں موجود اُن کے ’’خفیہ حامیوں‘‘ نے میاں صاحب کو ’’ترک‘‘ کیا ہے یا نہیں؟ دیکھنے کی ایک بات یہ بھی ہے کہ میاں صاحب کی واپسی 25 جولائی کے انتخابات کو یقینی بناتی ہے یا ان کے امکانات کو معدوم کرتی ہے؟ یہاں ہمیں اقبال کے دو بے مثال شعر یاد آگئے: